شاہین باغ

عبدالکریم شاد شعروسخن

ظلم پر اک وار ہے شاہین باغ

امن کا اظہار ہے شاہین باغ


خوف سے بیزار ہے شاہین باغ

عزم سے سرشار ہے شاہین باغ


جس کو سن کر کانپ اٹھے تخت و تاج

ایسی اک للکار ہے شاہین باغ


حق کی خاطر جان دینے کے لیے

بر سر پیکار ہے شاہین باغ


آزمائش ہو کسی بھی طرز کی

ہر طرح تیار ہے شاہین باغ


دیکھ گلچیں! چبھ نہ جائے ہاتھ میں

گلستاں کا خار ہے شاہین باغ


ملک بھر میں جو بپا ہے انقلاب

مرکزی کردار ہے شاہین باغ


بچ نہیں سکتے زمیں کے جابرین

آسمانی مار ہے شاہین باغ


کم نگاہو! اپنی صورت دیکھ لو

ئنہ بردار ہے شاہین باغ


سرخیاں منفی ہیں لیکن آج کل

رونقِ اخبار ہے شاہین باغ


صنف نازک بھی مجاہد بن گئی

خولہ کی تلوار ہے شاہین باغ


مدرسہ ہوتی ہے ماں اولاد کا

قوم کا معمار ہے شاہین باغ


پہلے پیچھے چل رہی تھیں عورتیں

آج تو سردار ہے شاہین باغ


ہم تو سمجھے تھے کہ ملت سو گئی

شکر ہے، بیدار ہے شاہین باغ


چلنے دے گا کب غلط قانون کو

راہ کی دیوار ہے شاہین باغ


اتحاد و ضبط و استقلال کا

شاد جی! معیار ہے شاہین باغ

آپ کے تبصرے

3000