ہندوستان کی ایک بدترین تاریخ رہی ہے کہ جب بھی کہیں فسادات ہوئے ہیں اس میں علاقے کی پولیس مبینہ طور پر شرپسندوں کے ساتھ کھڑی نظرآتی ہے بلکہ یہ کہیں کہ دوقدم آگے بڑھ کر آگ زنی، پتھر بازی اور گولی باری میں پیش پیش ہوتی ہےتوکوئی مضائقہ نہیں۔ جس کی تازہ مثال دہلی اور یوپی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہورہے مظاہروں میں دیکھنے کوملی۔۲۴؍فروری کو قومی انسانی حقوق کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ اور تجاویز کو دیکھنے کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووندا ماتھر اورجسٹس سمیت گوپال پرمشتمل دورکنی بینچ نےریاست کے چیف سیکریٹری اور ڈی جی پی کوحکم دیا ہے کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کررہے لوگوں پر بے جا طاقت کا استعمال کرنے اوراملاک کونقصان پہنچانے والے پولیس اہلکاروں کی سی سی ٹی وی کی بنیادپر شناخت کرکےان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔
سوموار دوپہر سے شمال مشرقی دہلی کے موج پور، چاندباغ، جعفرآباد، بھجن پورہ، کردم پوری اور وجے پارک میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے پیچھے بھی پولیس کی نااہلی اور وقت پر حالات قابو میں نہ کرنے کی شکایتیں سامنے آئی ہیں۔ وائرل ہورہی ویڈیوز میں مبینہ طورپر دیکھا جاسکتاہے کہ پولیس شرپسندوں کی پشت پناہی کررہی ہے یہاں تک کہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا پولیس کے اعلی افسران کی موجودگی میں کھلے عام دھمکی دیتا ہےکہ ’’ٹرمپ کے جانے تک ہم خاموش ہیں اس کے بعد ہم آپ کی (پولیس) کی بھی نہیں سنیں گے ہمیں روڈ پر آنا پڑے گا‘‘۔ افسوسناک پہلو تویہ ہے کہ د ہلی پولیس خاموش تماشائی بنی کھڑی ر ہی ہےاوراسی کے بعد ہی فسادات پھوٹ پڑے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ ۳۰؍ جنوری کو ہوا تھا جب جامعہ ملیہ گیٹ پر رام بھگت گوپال نے سرعام پولیس کی موجودگی میں گولی چلائی تھی تب بھی پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی اورگولی لگنے سےجامعہ کا ایک طالب علم زخمی ہواتھا
ایک ویڈیو میں چندپولیس اہلکار خاک وخون میں غلطاں مسلم نوجوانوں سے وندے ماترم اور قومی گیت گانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، آلٹ نیوز کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ۲۴؍فروری کو دہلی کے جعفرآباد علاقے کے آس پاس ہوئے تشدد کے وقت کاہے۔ پولیس کا یہ گھناؤنا اورجانبدارانہ چہرہ ہر فساد ات کے بعد سامنے آتا ہے کہ اقلیتوں پر مظالم کی المناک داستان انہیں کی پشت پناہی میں لکھے جاتے ہیں۔ جامعہ ملیہ میں ہوئی پولیس بربریت کی ویڈیوز میڈیا میں آنے کے بعد خوب تھوتھو ہوئی جس سے پولیس اپنی دفاع میں کھڑی نظر آئی لیکن بے شرم دہلی پولیس نے اپنے پیشہ کا لحاظ نہیں رکھااور ایک بار پھرپولیس کا وہی خوفناک چہرہ سامنے ہے۔ مزید ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس دنگائیوں کو اینٹ اور پتھر چن کر بوری میں بھروا رہی ہے تاکہ ایک خاص کمیونٹی پر وار کرسکیں۔ جبکہ ایک دوسری ویڈیو میں پولیس شرپسندوں کوحملہ کااشارہ کرکے خود بھی ساتھ میں بھاگتی ہے۔ آخر پولیس ایک خاص مذہب کے لوگوں کو شک کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہے اور کیوں دنگائیوں کی طرح زبردستی قومیت تھوپنے کی کوشش کرتی ہے۔ کیا محض مسلمان ہونا جرم ہے! جبکہ پولیس کی آنکھوں کے سامنے فسادی آگ زنی کر رہےتھے۔ فرقہ وارانہ خطوط پرتقسیم کرنے کایہ زہر پولیس میں کہاں سےآیا؟ کیادہلی پولیس کے اندر انسانیت اورضمیر نام کی بھی کوئی چیز باقی نہیں ہے؟
گزشتہ سال۱۵؍دسمبرکے بعد دہلی سے آنے والی ویڈیوز میں پولیسیا ظلم وبربریت بارہا سامنے آچکی ہے۔ مزے کی بات تویہ ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے والے بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی ابھی تک گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور ناہی مرکزمیں حکمراں جماعت نے اس کی گوش مالی کی ہے۔ ویسے دہلی اسمبلی الیکشن میں جو زہر بویا گیا تھا اس کی فصل تویہ لوگ کاٹ نہیں سکے تاہم اس خفت کو مٹانے کی کوشش کریں گے جس سے فرقہ وارانہ ماحول مزیدخراب ہونے کے امکان ہیں، ایسے میں عام شہریوں کو فہم وفراست سے ماحول کو سازگار بنانے کی ضرورت ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہورہے مظاہروں سے ان فرقہ پرستوں کو اتنی دقت ہے کہ پرامن احتجاج کرنے والوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور اکثریتی طبقہ کو ان کے خلاف اکسارہے ہیں تاکہ لوگ مظاہروں کو بند کردیں۔ کیاکسی جمہوری ملک کو زیب دیتا ہے کہ اختلاف رائے کواس طرح کچلا جائے کہ مخالف اپنی آواز نہ بلند کر سکے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس دیپک گپتا نےپیر کو سپریم کورٹ کے بار اسوسی ایشن کے ذریعہ منعقدہ ’’ڈیموکریسی اینڈ ڈیسنٹ‘‘ پروگرام میں زوردے کرکہا کہ اختلاف رائے جمہوریت کی روح اور ضروری عنصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اگر ہم نے مخالف آوازوں کو دبایا یا اختلاف رائے کی حوصلہ شکنی کی تو جمہوریت پر اس کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔ حکومتیں ہمیشہ صحیح نہیں ہوسکتیں، ہم سب غلطیاں کرتے ہیں۔ حکومت کو کسی بھی احتجاج کو دبانے کا کوئی حق نہیں ، سوائے اس کے کہ وہ احتجاج پرتشدد ہوجائے۔ اگر کوئی پارٹی ۵۱؍ فیصد ووٹ حاصل کرلیتی ہے تو اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ آئندہ ۵؍ برسوں تک ۴۹؍ فیصد لوگ کچھ بول نہیں سکتے۔‘‘
مسلسل تین سے چار دن تک ہوئے اس فرقہ وارانہ فسادات سے شمال مشرقی دہلی میں سیکڑوں دوکانیں ، کروڑوں کی املاک ،عبادت گاہیں ،مذہبی کتابیں اور گاڑیاں نذرآتش کی گئیں ،لوگ گھروں میں قید رہے۔ ۳۴؍سے زائد عام شہری ، ایک پولیس کانسٹبل اور ایک آئی بی افسر کی موت ہوگئی لیکن فرقہ پرست عناصر آزاد دندناتے پھر رہے ہیں۔ دہلی پولیس وقت رہتے حالات قابو میں کرنا چاہتی تو کرسکتی تھی لیکن اس نے شرپسند عناصر کو چھوٹ دے رکھی تھی اور حالات بد سے بد تر ہوتے چلےگئے۔
پھرسوال یہی اٹھتا ہے کہ جب امن و انصاف قائم کرنے والے یہ ادارے ظلم و تشدد پر اتر آئیں تو مظلوم انصاف کی گہار کہاں لگائیں۔جب پولیس ہی عام شہریوں پر پتھر چلائے، گھروں اور دوکانوں میں آگ لگائے تو فرقہ پرست عناصر پر قابو کیونکر پایا جاسکتا ہے۔ دہلی پولیس کی کارستانیوں سے متعلق مبینہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر مسلسل گردش کررہی ہیں جس میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کس طرح شرپسندوں کاساتھ دے رہی ہے لیکن ان کی کوئی جوابدہی طے نہیں ہوگی۔ کیا مودی کا یہی گجرات ماڈل ہے جسے دہلی میں دوہرایا گیا اور وہاں کی بے بس ولاچار کیجریوال حکومت کچھ نہیں کرپارہی ہے۔ مانا کہ دہلی پولیس مرکز کے زیر انتظام آتی ہے لیکن عوام نے آپ کو بہترحکمرانی کے لیے منتخب کیا ہے توآخر آپ خاموش کیوں ہیں؟ امن وامان بحال کرنے کے لیے آپ نےاب تک کیا کیاہے؟ اگر کیجروال چاہتے تو قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی طرح (گرچہ تین دن کے بعد ہی صحیح) فسادات کی آہٹ ملتے ہی عوام سے امن وامان برقرار رکھنے کے لیے سڑکوں پر نکل سکتے تھے، حالانکہ جب انہیں اپنی اوراپنی حکومت کی شاخ برقرار رکھنی تھی تو کئی بار ایل جی کے گھر پر دھرنا دیا اور آج جب دہلی جل رہی ہے تومحض ٹویٹ سے کام چلارہے ہیں۔
سوال اب بھی برقرار ہے اور دہلی پولیس کی شبیہ مشکوک ہے کہ اس نے وقت پرکاروائی نہیں کی اورناہی فرقہ پرستوں کو قابو میں کیا۔ کرفیو کے نفاذ میں تاخیر کی اور مشتبہ علاقوں میں پولیس کی عدم موجودگی کی شکایتیں اجیت ڈوبھال سے کی گئیں۔بدھ کے روز شاہین باغ کو لے کر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف نے دہلی پولیس کی تساہلی پر غم وغصہ کااظہار کیا اور سخت سست کہا۔ جبکہ بدھ ہی کودہلی ہائی کورٹ میں تشددکی سماعت کے دوران ایک بار پھر پولیس کو فاضل جج صاحبان کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا۔ جسٹس ایس مرلی دھر اور تلونت سنگھ پر مشتمل بنچ نے کہا کہ’’ نفرت انگیز تقاریر کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کے نتائج کو ’’سنجیدگی سے غور کرنا‘‘ چاہئے۔ کوئی بھی قانون کے اصول سے بالاتر نہیں ہے۔ آپ ایف آئی آرکب درج کروائیں گے؟ سارا شہر جل جانے کے بعد؟ ہم امن چاہتے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ ایک بار پھر ۱۹۸۴ء جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ شہر بہت تشدد دیکھ چکا ہے۔ ۱۹۸۴ء اب پھر دہرایا نہیں جاسکتا۔‘‘ کورٹ نے کہا کہ ’’ہم برہم نہیں ہیں بلکہ تکلیف میں مبتلا ہیں، آئینی عدالت کا تکلیف میں مبتلا ہونا بہت سنگین معاملہ ہے، ہر کسی کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے۔‘‘ کپل مشراکی ویڈیودیکھنے کے بعد کورٹ نے کہا آپ (پولیس) بغل میں کھڑے ہوکر کیا کر رہے تھے ؟ آپ نے اب تک کاروائی کیوں نہیں کی؟
خیر شہریوں کے جان ومال اورسب سے اہم بھائی چارے کے نقصان کی تلافی جلد ممکن نہیں تاہم پولیس کو غیر جانبداری کے ساتھ مستعد رہنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل قریب میں کہیں کوئی ایساسانحہ رونمانہ ہوسکے۔ پولیس کو اپنا فرض منصبی آزادانہ طور پر ادا کرنی چاہیے اورخود اپنے پیشہ کا لحاظ رکھنا چاہیے تاکہ پولیس کے تئیں عوام کا اعتماد بحال ہوسکے اوراس کی شاخ مجروح نہ ہو۔ کورٹ کے پھٹکار کے بعد کچھ مستعدی نظرآئی اورحالات سدھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ایسے میں ایک عام شہری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ماحول کو فرقہ وارانہ ہونے سے بچائیں ،امن وامان کی فضا قائم کریں اور شرپسندوں کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ مرکزی وریاستی حکومتیں دہلی میں ماحول سازگار و مستحکم بنائیں۔
آپ کے تبصرے