ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ: آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی

وسیم المحمدی تاریخ و سیرت

پہلی بار مجلہ طوبی میں دیکھا تھا نام۔ طوبی کے لک اور کنٹینٹ میں البلاغ جیسا اٹریکشن کیوں تھا یہ آج سمجھ میں آیا۔ جامعہ ابن تیمیہ تو نہیں دیکھا کبھی مگر طوبی اور دیگر رسالوں میں اس کا نام اور جگہ جگہ نشان بہت دیکھے تیمی فضلاء کی شکل میں۔ تیسیر الرحمٰن آخری تعارف تھا۔ پھر ابھی ان کے انتقال کی خبر کے ساتھ کچھ اور تعارف سامنے آئے۔ مضامین میں لارجر دین لائف کارناموں کی فہرست دیکھ کر جانکاری میں اضافہ ہوا۔
مگر زیر نظر مضمون پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کا دیدار اور ان سے ملاقات نہ کرپانے کا افسوس۔ اس خاکہ نما مضمون میں ڈاکٹر صاحب کی شکل نظر نہیں آتی، نہ ان کا حلیہ اور قد دکھائی دیتا ہے مگر جامعہ ابن تیمیہ جیسے لازوال کارنامے کے ساتھ ان کا علمی قد اتنا بڑا ہے کہ تصویر دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ ویسے بھی یہ سب تو معروف اور معلوم ہے مگر ڈاکٹر وسیم المحمدی وفقہ اللہ نے اپنے اس مضمون میں ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ سے اپنی دو ملاقاتوں کے حوالے سے ان کے تواضع، اخلاق اور علم دوستی کی جو تفسیر اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں پیش کی ہے وہ پڑھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ایسی نادر روزگار شخصیت کا تعارف انھوں نے پہلے کیوں نہیں کرایا۔
اس مفصل مضمون میں تذکرہ تو صرف ایک دیدار اور ایک ملاقات کا ہے مگر پلیسنگ ایسی ہے کہ ان کی پہلودار شخصیت اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ تمہید سے لے کر خاتمے تک ہر جگہ جلوہ گر ہے۔
جامعہ ابن تیمیہ جیسے اتنے بڑے ادارے کی ذمہ داری کے ساتھ ان کی علمی سرگرمیوں کا جو ایک سلسلہ نظر آتا ہے وہ انھیں اپنے تمام ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے، مضمون میں اس پہلو پر خاص روشنی ڈالی گئی ہے۔
اور سب سے زبردست اس مضمون کا خاتمہ ہے جو عنوان کی مناسبت کو انتہائی قابل رشک بنادیتا ہے۔
اور بیانیہ ایسا ہے کہ بس پڑھتے چلے جائیے!
(ایڈیٹر)

موت ایک بھیانک اور کڑوی حقیقت ہے۔ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ جو بھی اس دنیائے فانی میں آیا ہے اسے یہاں سے جانا ہے۔ جس نے بھی اس سرائے میں قیام کیا ہے اسے یہاں سے رخت سفر باندھنا ہے۔ یہ وہ جام ہے جسے ہرشخص کو اپنے ہونٹوں سے لگانا ہے، یہ وہ زہر کا پیالہ ہے جسے ہر جاندار کو اپنے حلق سے اتارنا ہے۔
نہ انسان کی طاقت قوت اسے موت سے بچا سکتی ہے، نہ اس کی دولت وسلطنت اس کو موت کے منہ سے نکال سکتی ہے، نہ اس کا جبر وقہر موت کو ڈرا سکتا ہے، اور نہ ہی اس کی کبر ورعونت موت پر کوئی اثر ڈال سکتی ہے۔
نہ تو ملک وقوم کی ضرورت موت کو سمجھا بجھا سکتی ہے، نہ چاہنے والوں کی کثرت اس کے قدم روک سکتی ہے، نہ لوگوں کی ضرورت اس کے دل کو نرم کرسکتی ہے، اور نہ ہی الوداع کہنے والے محبین وعاشقین کے آنسو اسے پگھلا سکتے ہیں۔
نہ کسی انسان کے نیک اعمال اس کی زندگی میں ایک دن کا اضافہ کرسکتے ہیں۔ نہ اس کے کمالات اس کی مدت حیات میں توسیع کرسکتے ہیں، نہ ہی اس کے عظیم کارناموں کے سامنے موت سر تسلیم خم کرسکتی ہے۔

ولَوْ أَنَّ مَجْداً أَخْلَدَ الدَّھر َوَاحِداً
مِنَ النّاسِ أبقَى مَجْدُُہُ الدَّھْرَ مُطْعِماً

(اگر کسی کی شرافت وبزرگی اور اس کے نیک اعمال و کارنامے اسے ہمیشہ ہمیش زندہ رکھتے تو مُطعِم جیسے عظیم آدمی کی بزرگی اور اس کے نیک اعمال اسے دائمی زندگی سے سرفراز کردیتے)۔
ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ قوم وملت کا قیمتی اثاثہ تھے، قوم کی ضروریات آپ سے مختلف جہات میں وابستہ تھیں، لوگوں کو بلاشبہ ابھی بھی آپ کی بہت ضرورت تھی، مگر آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا، اور5/مارچ 2020م بروز جمعرات آپ سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے، اور اپنے رحیم وکریم رب سے جا ملے۔


آپ سے پہلی بار اس وقت ملاقات ہوئی جب آپ مارچ 1999م میں جامعہ محمدیہ منصورہ کے سالانہ اجلاس اور اسی مناسبت سے منعقد تعلیمی کانفرنس کو رونق بخشنے تشریف لائے۔
درحقیقت وہ ملاقات نہیں دیکھنے کا وقت تھا۔ شیخ سے اس وقت بہت مختصر اور رسمی گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ البتہ ان کے دست مبارک سے ڈھیر سارے انعامات وصول کرنے اور ان کے گرانقدر تشجیعی کلمات سننے کی سعادت بخوبی نصیب ہوئی۔ وہ بڑے آدمی تھے، دل کھول کر تشجیع کرتے اور ایسے موقعوں پر خصوصی طور سے کشادہ دلی کا مکمل ثبوت دیتے تھے۔

“إنما یعرِفُ الفضلَ من الناسِ ذوُوہ”

در اصل ڈاکٹر لقمان سلفی مولانا مختار رحمہما اللہ کے قدردانوں میں سے تھے، دونوں کے آپس میں اچھے اور گہرے تعلقات تھے۔ مذکورہ کانفرنس میں مولانا مختار رحمہ اللہ نے شیخ کو خصوصی طور سے دعوت دی تھی، وہ آئے اور مجلس کی رونق بن کر گئے۔

اس کانفرنس کی کئی باتیں یاد گار رہ گئیں، ایک تو شیخ سے شرف ملاقات اور ان کے گرانقدر کلمات، دوسری مولانا عین الباری کلکتاوی کی حیران کن تقریر، تیسری مولانا مختار رحمہ اللہ کے دو شاندار خطاب، جن میں سے ایک طالبات کے تئیں ان کے والدین کو خصوصی نصیحت اور دوسری یکساں سول کوڈ پر ان کی تاریخی تقریر۔
یہ جامعہ کی تعلیمی زندگی کا ہمارا آخری سال تھا اس لیے بھی یادگار بن گیا، بلا شبہ ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ کی علمی اور نستعلیق شخصیت نے اس کانفرنس کو اپنی موجودگی سے چار چاند لگا دیا تھا۔

انسان اپنے اعمال سے پہچانا جاتا ہے۔ “وقیمۃ کل امرئ ما یحسنہ” کے مطابق ایک انسان کی اصل قدرو قیمت اس کے اچھے اور نیک اعمال طے کرتے ہیں۔ تاہم اس کی اصل شناخت اس کے ان کارناموں سے بنتی ہے جو وہ عام ڈگر سے ہٹ کر انجام دیتا ہے۔ اور اس کی شخصیت کا سیمبل وہ نادر اعمال ہوتے ہیں جن کا راستہ وہ احوال وظروف کے پہاڑ کا سینہ چیر کر بناتا ہے۔
ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ بلا شبہ ایک بڑے انسان تھے، ان کے اندر بڑے انسانوں کی کئی خوبیاں جمع ہوگئی تھیں: ان کا عزم وحوصلہ، کام کرنے کا انداز، ان کے کارنامے، ان کا صبر وتحمل، حالات سے نبردآزما ہونے کا انداز، توفیق الہی کی سعادت اور ان کا ایگو، یہ سب ان کی قد آور اور تاریخی شخصیت کے اہم عناصر تھے۔
دنیا میں کام کرنے والے بہت ہیں، بر صغیر میں ایسے افراد بھی ہوں گے جنھوں نے ان سے بھی زیادہ کام کیا ہوگا، مگر ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ نے تیرہ شبی میں جو راستے بنائے ہیں وہ بہت کم لوگوں کے نصیبے میں آتے ہیں۔
آپ نے 1989م میں جامعہ ابن تیمیہ جیسا عظیم الشان ادارہ قائم کیا، آپ کا یہ جامعہ آج پورے ہندوستان کا ایک موقر اسلامی تعلیمی ادارہ ہے، وہاں کے فارغ التحصیل طلباء ملک وبیرون ملک اپنى ایک پہچان رکھتے ہیں۔ اور قلمی میدان میں تو جو شناخت انھوں نے بنائی ہے وہ درس و بحث اور سیکھنے سکھانے کا ایک الگ ہی موضوع ہے۔
جہاں جامعہ ابن تیمیہ کا قیام ہوا وہ بہار کا ایسا علاقہ اور چمپارن میں ایسی جگہ تھی جہاں پہنچنے کے لیے براہ راست آمدو رفت تک کا انتظام نہیں تھا۔ لوگ تانگہ اور سائیکل سے اچھا خاصا سفر کرکے وہاں تک پہنچتے تھے، بلکہ کثیر اوقات پیدل چل کر ادارہ تک پہنچ پاتے تھے۔ ایسی جگہ ادارہ کھولنا، کامیابی کی امید رکھنااور پھر کامیاب کرکے دکھانا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ پتہ نہیں یہ ان کی فراست تھی، الہام تھا، یا پھر ضرورت کی ترجیح تھی جس پر آپ نے اللہ کا نام لے کر لبیک کہا، اور اللہ تعالى نے یہ برکت دی کہ آج وہ علاقہ ہی نہیں پورا ملک اس کی برکتوں سے فیض یاب ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ نے جن ظروف میں جس جگہ جس معیار کا ادارہ نہ صرف بنایا ہے، بلکہ اسے پورى کامیابی کے ساتھ چلایا اور چلا کر نقطہ عروج تک پہنچایا ہے وہ بہت بڑا، قابل رشک اور لائق تحسین وشکر کارنامہ ہے، جس کے لیے الفاظ کی تعبیر ناکافی ہے۔ انھیں ٹھیک سے وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے وہ علاقہ، اس ادارے کی ابتدائی صورت حال، اور ان ظروف کو دیکھا اور جانا ہے جن سے گزر کر وہ ادارہ کندن بنا ہے، تب آج وہاں کے طلبا ادارے ہی کی طرح اپنى ایک پہچان بنائے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ نے گَدُورِی (ہتھیلی کا باطنی حصہ) پر بال اگانے کا کام کیا ہے، جو سب کے بس کی بات نہیں ہے، ہاں بلا شبہ اس میں اللہ تعالى کے فضل وکرم، پھر ڈاکٹر صاحب کی نا قابل تسخیر شخصیت کے ساتھ ساتھ، ان مخلص رفقائے کار کا بھی بہت دخل رہا ہے جنھوں نے اس ادارے کی ترقی میں اپنا لہو بہایا ہے، اور اس کی بنیادوں کو اپنے خون اور پسینے سے سیراب اور مضبوط کیا ہے۔ ممکن ہے یہ دنیا میں مجہول ہو جائیں، انھیں حکمت الہی کے تحت ان کے اعمال کے بقدر پذیرائی نہ مل سکے، ان کے بعض اہم حقوق ریشہ دوانیوں کی نذر ہو جائیں:

(وما الحیاۃ الدنیا إلا متاع الغرور)،

مگر ان شاء اللہ آخرت میں ان کے یہ اعمال روشنی بن کر ان کی رہنمائی کریں گے، ان کی مغفرت کا سامان اور ان کے جنت میں دخول کا سبب بنیں گے، اور طلباء کا یہ جم غفیر ان کے لیے بھی صدقہ جاریہ بنے گا:

(والآخرۃ خیر وأبقى)۔

ضروری نہیں کہ ہر نیک عمل کا بدلہ انسان کو دنیا ہی میں مل جائے، حکمت الہی بہت سارے اعمال کو آخرت کے لیے اٹھا رکھتی ہے، اور بسا اوقات دنیا ہی میں ایسے موقع پر نوازتی ہے جب انسان اس کا زیادہ مستحق اور کافی حاجت مند ہوتا ہے:

(واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون)۔

علم خلوت کا تقاضا کرتا ہے۔ کتابیں تنہائی چاہتی ہیں۔مشغولیات اس کی دشمن اور مصروفیات اس کی سوکن ہوتی ہیں، یہ مصروفیات اگر ادارتی زندگی کی شکل میں ہوں تو یہ دشمنی نقطہ عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ بڑے بڑے اہل علم واصحاب ذوق نے ادراتی ذمہ داریوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے، اور اچھے اچھے اہل فکر وفن کی متوقع علمی کد وکاوش اور ممکنہ فکرى کارناموں پر ادارتی ذمہ داریوں نے گہن لگا دیے۔
ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ نہ صرف ایک ذمہ دار تھے بلکہ وہ ایک بڑے ادارے کے بانی اور مؤسس تھے، مگر ان کی زندگی کا ایک نادر اور عجیب پہلو ان کا ادارتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ علم سے شغف اور لکھنے پڑھنے سے ایسی عملی دلچسپی ہے جو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔
آپ نے جس قدر اردو اور عربی میں مختلف علوم وفنون پر بکثرت کتابیں لکھی ہیں وہ بذات خود حیرت میں ڈالنے والی ہیں، پھر ساتھ ہی ساتھ ایک بڑے ادارے کی نہ صرف ذمہ داری نبھانا بلکہ اسے کامیابی کی اعلى منزل تک پہنچانا یہ آپ کا ایسا کارنامہ اور ایسی پہچان ہے جو متعدد بڑے بڑے عبقری صفت مشاہیر میں جمع نہیں ہو پائی۔ بلا شبہ یہ اللہ تعالى کی توفیق اور پھر اس کے بعد آپ کی پختہ شخصیت کی علم دوستی کا نتیجہ تھا۔ وہ علم دوستی جو آپ کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی تھی، اور آپ کے دل ودماغ میں ہمیشہ بسیرا کیے رہتی تھی۔
در اصل ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ ایک علم دوست اور ٹھوس علمی ومنہجی شخص تھے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ادارے کا قیام بھی در اصل اسی علم دوستی کا نتیجہ تھا، ورنہ نہ تو ان کے پاس روزگار کی کمی تھی، نہ ہی اعمال کی قلت۔ نہ ہی عزت وتوقیر کی کوئی کمی تھی، نہ ہی بڑے لوگوں کی صحبت کی تشنگی۔ اور نہ ہی بڑی بڑی محفلوں میں شرکت کی کوئی کسک۔
اللہ تعالى نے انھیں خوب خوب نوازا تھا۔ وہ ابن باز رحمہ اللہ جیسی عظیم اور تاریخ ساز شخصیت کی طویل صحبت سے سرفراز تھے۔ بس ان کی علم دوستی اور علاقے کی تعلیمی ضروریات نے انھیں اس کام پر ابھارا تھا۔نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنى ادارتی ذمہ داریاں تو اچھی طرح پوری کرتے ہی رہے،ساتھ ہی ساتھ اس اصل پر بھی قائم اور باقی رہے جو ان کی پہچان تھی، اور نتیجتا وہ کر گئے جو ایک نادر اور حیرت میں ڈالنے والا کارنامہ ہے۔ گویا آپ کی اصل پہچان علم دوستی ہی ہے۔ باقی دیگر اعمال اسی کے مظاہر ہیں۔
ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ علامہ تھے کہ نہیں تھے؟ ان کی قد آور علمی شخصیت کو کون سا لقب سوٹ کرتا ہے؟ کون سا لاحقہ ان کے لیے زیادہ مناسب ہے؟ یہ مجھ جیسا طالب علم طے نہیں کر سکتا؟ مگر دو باتوں میں کوئی شک نہیں ہے:
ایک تو آپ اس طرح کی عجمی فضولیات اور دیگر بے جا غلو سے بے نیاز ہیں! بالکل بے نیاز!! ان کے القاب ان کی کتابوں کے روشن صفحات میں نقش ہیں، ان کی پہچان ان کے ادارے کی درودیوار پر انمٹ نقوش کی شکل میں اجاگر ہیں۔ ان کی قد آوری اور اعلى کردارى کی گواہی دنیا سے آخرت تک ان شاء اللہ یہ کتابیں، یہ درودیوار اور یہ سیکڑوں کی تعداد میں فارغ التحصیل طلباء دیتے رہیں گے۔ وہ اس طرح کی چیزوں کے نہ پہلے محتاج تھے نہ اب ہیں۔
دوسری یہ کہ آپ ایک بڑے انسان تھے، کافی بڑے۔ اعلى کردار اور اونچی شخصیت کے مالک تھے، اتنى اونچی کہ پستہ قد اور کوتاہ قامت انسان اس اونچائی کو دیکھنا چاہے تو اس کی مخملی ٹوپی -جس میں اس کی ساری شان وشوکت سمٹ کر جمع ہوگئی ہے- زمین کو بوسہ دینے میں شرف سمجھنے لگے۔
نعمت ملنا اصل نہیں ہوتا، اصل اس نعمت کو ہضم کرنا ہوتا ہے۔ کامیابی اصل نہیں ہوتی، اس کامیابی کے نشہ سے خود کو بچا لے جانا اہم ہوتا ہے۔ عموما دیکھا یہ جاتا ہے کہ ادھر انسان کو کامیابی ملی ادھر اس کا سر غرور سے اونچا اور گردن کبر سے تن جاتی ہے۔ خاص طور سے اگر کامیابی ایسی ہو جو اسے اپنے اقران سے ممتاز کردے، پھر کیا پوچھنا! زمین پاؤں پر نہیں پڑتے، عقل آسمان کے سفر پر رہتی ہے۔ زبان کا کیا کہنا! زبان تو زبان قلم جیسی سنجیدہ مخلوق بھی لڑکھڑاتی رہتى ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے سیاہی کی جگہ کچھ اور پی رکھی ہے، اور بدمست ہے، ہر ہر سطر سے تعلى کی بو ایسے اٹھتی ہے کہ قارى کا جی متلانے لگے، اور ہر ہر مضمون سے فوقیت کی نفسیات ایسے مترشح ہوتی ہے کہ قارى کی طبیعت گِنگِنا اٹھے!
یہ ایسی بیمارى ہے کہ اچھے بھلے اس کا شکار ہوکر بونے ہوجاتے ہیں۔ تاہم یہ بیمارى کوتاہ ظرفوں اور پست قامتوں کے ہی نصیب میں آتی ہے، حقیقی معنوں میں اہل علم وصاحب فضل کو اللہ تعالى اس سے محفوظ رکھتا ہے، وہ جس قدر بلند اور باوزن ہوتے جاتے ہیں اسی قدر پھل دار درخت کی طرح جھکتے اور متواضع ہوتے چلے جاتے ہیں۔
خلیج میں تو کسی کو اچھى نوکرى مل جائے تو عموما وہ جامے سے باہر ہونے لگتا ہے، یہاں کا سفر کر لے، یا کسی مادی یا معنوی نعمت سے سرفراز ہوجائے تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے، خود کو اچانک بيش قيمت، بیش بہا، بسا اوقات مقدس تک سمجھنے لگتا ہے۔بڑی بڑی مجالس میں، لمبے لمبے جبے، اور اگر زیادہ “حوصلہ مند” اور “باہمت” ہے تو جبہ ودستار کے ساتھ ” عصا ومشلح ” سے لیس ہوکر عوام الناس پر دھاک جمانے اور بھولے بھالے عوام کو فتح کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ یہ عجیب انسانی کمزوری ہے، گویا مصیبتیں ہی نہیں، نعمتیں بھی انسان کو اس کی اصل شکل میں دنیا کے سامنے بے لباس کر دیتی ہیں۔
ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ کو اللہ تعالى نے خوب نوازا تھا، عزت ودولت کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ حقیقی معنوں میں اونچے اور باکردار لوگوں کی صحبت اور عزت وتوقیر بھی انھیں بخوبی حاصل تھی۔ اور سب سے بڑی چیز ان کے پاس روشن اعمال کا ایک سلسلہ تھا جو انھیں سرخرو کیے ہوئے تھا۔ مگر وہ اس طرح کی چھوٹى اور حقیر چیزوں سے بہت دور اور بہت بے نیاز تھے۔
بعض سعودی عرب کا کوئی موقر اجازت نامہ برائے سکونت پاجائیں تو ایسے بدلتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! آگے پیچھے ایسے ایسے القاب لگاتے، اور ایسا ایسا سابقہ لاحقہ جوڑنے لگتے ہیں کہ (المُتَشَبِّعُ بِما لَمْ یُعطَ) کی تصویر بن جاتے ہیں۔ بعض تو سعودی عرب میں داخل کیا ہوئے شیخ بن گئے، اور مواعظ وخطب کے ساتھ فتاوے بھی جھاڑنے لگے۔ انسان کے اندر یہ اور اس طرح کی چیزیں عموما شدیداحساس کمترى -یا پھر بیجا اور مبالغہ آمیز احساس برتری – کا نتیجہ ہوتی ہیں جس کے حصار کو وہ توڑ کر برتر بننے کے لیے پیہم کوشاں رہتا ہے، اور اسی مہم جوئی میں مضحکہ خیز اور قابل رحم حرکیتیں کرتا رہتا ہے۔
غیر متوقع وغیر مستحق ترقی جب کسی نا اہل کو ملتی ہے، تو وہ اپنے نام اورالقاب کے ساتھ کیسے کھیلتا ہے ایک ماہر نفسیات نباض اہل قلم نے اس کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے: “اس کا نام جلال تھا، لوگ اسے جلالو کہتے تھے، جب اس نے صوبائی الیکشن جیتا تو اپنا نام جلال الدین رکھ لیا، جب حکومت میں وزات ملی تو سید جلال الدین ہو گیا، اور جب قسمت کی مہربانی سے وزارت اعلى کی کرسی پر براجمان ہوا تو سید جلال الدین اکبر بن گیا”۔
ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ کو اللہ تعالى نے اپنے فضل وکرم سے بلاد حرمین کی نیشنلٹی بھی عطا کر رکھی تھی۔ مگر سادگی ان کی ایک اہم پہچان تھی۔ آپ کی طبیعت صفائی ستھرائی کی عادی اور مزاج سادگی کا خوگر تھا، کرو فر اور ظاہری زیب و زینت والی بھاری بھرکم زندگی آپ کو بالکل پسند نہ تھی، کھانا پینا، پہننا اور اوڑھنا بچھونا سب میں سادگی نمایاں تھی۔ آپ سادگی سے رہے ، اور سادگی سے سفر آخرت کو روانہ ہوگئے۔
تواضع ایسا تھا کہ طلباء سے ملتے تو اس قدر خندہ پیشانی اور پرتپاک انداز میں ملتے جیسے ان کے اقارب اور دوست ہوں، یا ان سے ان کی کوئی اہم ضرورت وابستہ ہو۔ جن لوگوں کو آپ سے ملنے،آپ کے گھر جانے اورآپ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے وہ یہ چیزیں بخوبی جانتے ہیں۔
اتنی عزت وتوقیر اور بلند مرتبتی کے باوجود آپ کا یہ مثبت رویہ بھی آپ کی اعلى شخصیت کے ان عناصر میں سے تھا جو نادر ہیں، وگرنہ ہم نے کمیشن خوروں، یتیموں اور بیواؤوں کا مال کھانے والوں اور صدقہ وخیرات سے معیار زندگی بلند کرنے والوں کو بھی دیکھا ہے۔ گھر پر تو وہ کسی کو وقت دے ہی نہیں سکتے، کیوں کہ “قوم کے ہم وغم” اور “ملت کے بوجھ” سے جب بالکل نڈھال ہو کر وہ شام کو گھر پہنچتے ہیں تو پھر ان کے پاس نہ ہی وقت ہوتا ہے نہ ہی قوت۔ ان کی آفسوں کے باہر شریفوں، بلند کردار اور اعلى مرتبت لوگوں کو لائنیں لگانی پڑتی ہے۔ آفس کے باہر بیٹھےدو ٹکے کے نوکر کے سامنے گڑگڑانا پڑتا ہے۔ ایسے “عالی جاہ وعالى مرتبت” اگر آپ کا فون اٹھالیں تو یہ بات باعث شرف سمجھی جاتی ہے ۔ تعجب خیز اور افسوسناک انسانی رویوں میں سے یہ بھی ایک ایساہی افسوسناک رویہ ہے جو انسان کی اصل حقیقت کو آشکارا کرتا اور اسے اوپر سے نیچے تک کھول کر رکھ دیتا ہے۔
ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ کے پاس -حاشا وکلا – ایسا سب کچھ کرنے کے اسباب متوفر تھے، مگر ان کا اخلاق وکردار، ان کی سادگی اور ان کا تواضع کبھی ان کو اس کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔
انسان کی اصل پہچان اس کے اخلاق سے ہوتی ہے۔ حسن اخلاق ایک انسان کی اصالت کی گواہی دیتا ہے۔ اس کے شریف النفس ہونے پر مہر لگاتا ہے۔ اس کو پستی سے اٹھا کر بلندی پر براجمان کرتا ہے۔ وہ لوگ بہت عظیم ہوتے ہیں جن کے حسن اخلاق سے خلق خدا مستفید ہوتی ہے، اور وہ افراد عظمت کے اعلى مقام پر فائز ہوتے ہیں جن کے مبارک ہاتھوں اللہ کے ان بندوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں جن سے اللہ تعالى اس قدر محبت کرتا ہے جس قدر ایک ماں اپنے شیر خوار بچے سے نہیں کر سکتی۔ ایسے خوش نصیب اور سعادت مند افراد آخرت میں بھی اونچے مقام پر فائز ہوں گے۔
البتہ “بڑے لوگوں” کے چونچلوں میں سے ایک چونچلا ان کی افتراضی اور وہمی مشغولیات ہوتى ہیں۔ ادھر کسی نے کوئی کام کہا ادھر جھٹ سے اپنی وہمی مصروفیات کا بہانہ کردیا۔ ادھر کسی نے وقت مانگا ادھر اپنے افتراضی جدول اعمال کی فہرست بتانا شروع کردی۔ اور کبھی وقت دے بھی دیا تو پوری مجلس تو اپنے “اعمال” سے “معطر” کرتے رہیں گے یا بار بار اپنى گھڑى کی طرف دیکھتے رہیں گے کہ مہمان خود بے زار ہو کر اٹھ کر چلا جائے۔
بڑے آدمی کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ وہ چھوٹے بڑے سب کے لیے وقت رکھتا ہے، ان کى خدمت کو اپنى اہم مشغولیات کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔ بلکہ معتبر افراد کا تجربہ یہ کہتاہے کہ مشغول آدمی ہی کے پاس وقت ہوتا ہے، اور فارغ آدمی “فالتو” مصروفیات کا شکار رہتا ہے۔ یہ در اصل برکت کا کھیل اور اس کا کرشمہ ہے کہ قدرت الہی کس کے وقت میں کتنا وسعت دیتی ہے۔ جو صرف اپنے لیے جیتے ہیں وہ برکت اور سعادت دونوں کھوتے رہتے ہیں، اگرچہ اپنے من میں خوش اور اپنے آپ میں مست رہتے ہیں، اور جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں وہ مشاکل ومصائب اور محن وآزمائش میں بھی سعید رہتے ہیں۔
ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ سے ہمارى دوسری اور آخری ملاقات تقریبا چارسال پہلے ان کے گھر ریاض میں ہوئی تھی۔ ہوا یوں کہ میں جامعہ محمدیہ کے صدر ارشد مختار حفظہ اللہ کے ساتھ کسی مہم پر تھا۔ ایک دن شام میں اچانک انھوں نے کہا کہ شیخ لقمان صاحب ابو کے گہرے دوست تھے، اب ابو نہیں ہیں تو ان کے ساتھ حسن سلوک اور بر واحسان کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم ان کے گہرے دوست اور مخلص ساتھی شیخ لقمان صاحب سے شرف ملاقات حاصل کرلیں۔

مولانا مختار رحمہ اللہ شیخ کے بڑے گہرے دوست تھے، دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے معرکہ زندگی کے آخرى پڑاو میں جب مولانا مختار رحمہ اللہ سفر بہت کم کیا کرتے تھے، اس وقت اگر جامعہ محمدیہ کے بارے میں انھیں کوئی خبر دیتا تو وہ ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ اور ان کے ادارے کے بارے میں ضرور پوچھتے، اور جب اس کی تعمیر وترقی کا ذکر کرتا تو بہت خوش اور مطمئن ہوتے۔
انسانی زندگی میں وقت کی بہت اہمیت ہوتى ہے۔ وقت انسان کی زندگی کا اصل حصہ اور اس کی حیات مستعار کا رکن رکین اور اہم ترین جزء ہے۔ بلکہ یہ اس کی زندگی ہی تو ہے جو مختلف اوقات میں، مختلف طریقوں سے بٹی ہوئی ہے۔ وقت کی پابندی ایک اچھے اور کامیاب انسان کی اہم علامت ہے۔ بڑے اور کامیاب لوگوں میں ایک قدر مشترک وقت کی پابندی بھی ہوتی ہے۔
اسی سے جڑی ایک اہم چیز کسی سے ملاقات کے لیے اسے پیشگی اطلاع دینا، اور پہلے سے ہی وقت لینا ہے،جسے عربی میں “مَوْعِد” اور انگریزی میں “اپائنٹمنٹ” (APPOINTMENT) کہتے ہیں۔
یہ ہے تو بہت اچھی اور تنظیمی چیز، مگر افسوس کہ اسے بعض کوتاہ قامتوں نے خود کو بڑا ثابت کرنے کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے۔ اگر آپ ان سے موعد لیے بغیر ملنے چلے گئے تو فراغت کے باوجود وقت دینا کسر ِشان سمجھیں گے۔ میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ خالی بیٹھے گپ لڑا رہے ہیں، کوئی حاجت مند آگیا، سکریٹری سے کہلوا دیا مشغول ہیں۔ آئندہ وقت لیکر آئیں۔
کسی “چھوٹے” ضرورت مند کا فون آگیا، خالی بیٹھے عام گفتگو میں مشغول ہیں، فون اٹھا کر کہیں گے میٹنگ میں ہوں، بعد میں فون کرنا۔ فون اٹھا لینا بھی بڑی بات ہے، ورنہ یہ بوجھ بھی عموما سکریٹری اتار دیتا ہے۔ ایسے بہت سے لوگ سکریٹری بھی محض جھوٹی شان اور ظاہری رکھ رکھاؤ یا بسا اوقات ملاقاتیوں پر جھوٹا رعب قائم کرنے کے لیے رکھتے ہیں، ورنہ انھیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہت سارے قوم کے “ہمدردوں” کا یہی حال ہوتا ہے، مگر چونکہ یہ سب قوم کی ہمدردی میں ہوتا ہے، اس لیے اس تام جھام کا مادی بوجھ بھی اس مفلوک الحال قوم کے لیے وصولے گئے پیسوں سے اتر جا تا ہے۔ اور اس طرح آم کے آم گٹھلیوں کے دام والی مثل صادق آجاتی ہے۔ ویسے بھی “جہاندیدہ” حضرات آم سے پہلے گٹھلی پر نگاہ جماتے اور اسی کا حساب کرتے ہیں۔
ایسوں کی مثال اس شخص کی سی ہوتى ہے جس کی خوراک تو گوشت کی ایک چھوٹی سی بوٹی، آلو کا ایک قتلہ اور ایک دو سلائس ہو، لیکن کھانے کی میز پر سوپ، سلاد، چکن قورمہ، بکرے کا گوشت، شامی کباب، طرح طرح کی سبزیاں، چاول تڑکا لگا ہوا، چپاتی گرم گرم، تندوری روٹیاں پھولی اور سینکی ہوئی، شیر مال، طرح طرح کے پھل فروٹ اور میوے، محتلف قسم کےمشروبات، اور نہ جانے کیسے کیسے انواع واقسام کے لذیذ کھانے لگائے جائیں، تاکہ ساتھ بیٹھ کر کھانے والا متاثر ہو۔ بھلے ہی روز دوچار دس آدمیوں کا کھانا پھینکنا پڑے۔
در اصل یہ ایک نفسیاتی کمزوری اور کمتری کا احساس ہوتا ہے جس کو کم ظرف انسان اس طرح کی مضحکہ خیز حرکتوں سے دور کرنے اور برتر بننے کی ناکام کوشش کرتے رہتا ہے۔ مگر یہ احساس اس قدر جڑ پکڑ چکا ہوتا ہے کہ احساس کمتری تو دور نہیں ہوتی البتہ اس کی یہ حرکتیں مسلسل جارى رہتی ہیں۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ آتے تھے، جو جہاں پاتا مل لیتا تھا، لوگ راہ چلتے آپ کو روک لیتے تھے، آپ ٹھہرتے، خوشی خوشی ان کی باتیں سنتے اور ان کی ضروریات پوری کرکے انھیں پوری عزت سے رخصت کرتے۔
ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ کسی نے نادانی میں راہ چلتے پیچھے سے آپ کی چادر اس قد زور سے کھینچی کہ گردن مبارک پر نشان پڑگیا، کھینچ کر کہا کہ اے محمد (صلى اللہ علیہ وسلم)! مجھے اللہ کے اس مال میں سے دو جو تمھارے پاس ہے۔ سید الأولین والآخرین صلى اللہ علیہ وسلم پلٹے، اس کی طرف دیکھا، ہنس دیے، اور اس کی ضرورت پوری کرنے کا حکم دیا۔
امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے با رعب شخص کو بھرے بازار میں ایک عورت راستہ روک کر اپنا حال زار بیان کرنے لگی، آپ کے قدم وہیں جم گئے، پوری بات سنى،وہیں سے گھر کی طرف پلٹے، گھر کے آنگن میں ایک اونٹ بندھا ہوا تھا، اس پر بھرپور خورد ونوش اور نان ونفقہ کا دیگر سامان لاد کر اونٹ سمیت اس کے حوالے کردیا، اور کہا: اسے لے جاؤ، یہ ختم نہیں ہوگا کہ اللہ تعالى پھر تمھیں اسی طرح عطا کرے گا۔ کتنا اہم نکتہ ہے کہ اس فضل واحسان کو اپنی طرف منسوب کرنے کے بجائے سیدھے اللہ تعالى کی طرف منسوب کیا۔ وہ حضرات جو ایک ایک پیکٹ صدقہ کا کھجور -وہ بھی دوسرے کا دیا ہوا- دے کر دس دس تصویریں کھنچواتے اور اسے ادھر ادھر نشر کرتے ہیں وہ غور کریں کہ کہاں کھڑے ہیں؟
وعد وعید اور موعد مواعید والوں کے لیے اس طرح کے نبوی واقعات اور سیرت صحابہ رضی اللہ عنہم میں بہت عبرت وموعظت ہے، مگر دل خون کے آنسو اس وقت روتا ہے جب موعد مواعید والے یہ “بڑے لوگ” ان تعلیم گاہوں اور علمی، تربیتی اور دعوتی مراکزکے کلیدی مناصب پر نظر آتے ہیں جہاں ہمارے بچوں کو سیرۃ النبی صلى اللہ علیہ و سلم اور حیات صحابہ رضی اللہ عنہم کے درخشاں پہلو پڑھائے جاتے ہیں، اور اس وقت تکلیف دو چند ہو جاتی ہے جب ایسی چھوٹی چھوٹی حرکتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو منبر ومحراب اور بڑے بڑے اسٹیجوں پر اپنے جائز وناجائز مواقف کی تائید میں کتاب وسنت کا حوالہ دیتے بلکہ اس کا استعمال کرتے ہیں۔
الغرض میں نے ایک عام نمبر سے شیخ محترم رحمہ اللہ کو فون کیا، دل میں یہ وسوسہ تھا کہ پتہ نہیں شیخ فون اٹھائیں کہ نہ اٹھائیں۔ عام نمبرات تو “بڑے لوگ” اٹھاتے بھی نہیں! شیخ نے نہ صرف فون ریسیو کیا، بلکہ اطمینان سے بات کی، مدعا سن کر بہت خوش ہوئے، اور ہماری طلب کے بموجب ہمیں بلا تردد وقت بھی دے دیا۔ ہم اسی وقت تیار ہو کر نکل پڑے، عشاء کی نماز ان کے گھر کے پاس ادا کی، اور ان کے بھیجے ہوئے شخص کی رہنمائی میں ان کے گھر پہنچ گئے۔ ہمارا یہ پروگرام بالکل اچانک تھا، لیکن شیخ رحمہ اللہ کے ملنے کا انداز، ان کی ضیافت، ان کی طویل صحبت، سب سے ایسے لگ رہا تھا کہ ہم نے باقاعدہ وقت لے کر شیخ رحمہ اللہ کی زیارت کی ہے، اور ہم ان کے کوئی بہت قریبی رشتہ دار ہیں۔
بلا شبہ شیخ کے ساتھ وہ مجلس بڑی ہی یادگار رہی، اور کئی اعتبار سے آپ کے بڑکپن پر وہ یادگار مجلس مہر لگا گئی۔ ایک بڑا انسان کیسے وقت دیتا ہے؟کیسے ملتا ہے؟ آنے والے مہمان سے کیا بات کرتا ہے؟ کس طرح پورى طرح گھل مل کر اس سے غربت واجنبیت کو دور کرتا ہے؟ اور کس طرح اس مجلس کو یادگار بناتا ہے؟ یہ سب شیخ نے ہمیں ایک ہی مجلس میں سکھا دیا۔
ہماری یہ طویل مجلس تقریبا تین گھنٹوں پر مشتمل رہی۔ جو عِشاء کے معاً بعد شروع ہوئی اور عَشاء پر جاکر ختم ہوئی۔ شیخ اس وقت بیمار چل رہے تھے، مگر ہمارے ساتھ ایسے بیٹھے رہے جیسےانھیں کسی قسم کی کوئی شکایت ہی نہ ہو۔ میں اس وقت پی ایچ ڈی کے بالکل آخری مراحل میں تھا، بات آگئی تو آپ نے بہت مختصر مگر چند نہایت اہم نصیحتیں کیں، یہ نصیحتیں بھی اس قدر عموم کا اسلوب لیے ہوئے تھیں کہ مخاطب سمجھے کہ انسانی زندگی کے عام تجارب کا ذکر ہورہا ہے، براہ راست کوئی با ت کہنا بھی چاہتے تو اس طرح کہتے کہ مخاطب کی کرامت نفس کو کسی قسم کا ٹھیس نہ پہنچے، نہ وہ خود کو کم تر محسوس کرے، شیخ کا جو مقام ومرتبہ تھا وہ براہ راست صیغہ امر ونہی میں نصیحت کرسکتے تھے، جیسا کہ بہت سارے “بڑے لوگ” کرتے ہیں۔ مگر ایسا ایک جملے سے بھی نہیں لگا کہ وہ اپنے کسی جونیئر سے مخاطب ہیں۔
ایک بات واضح طور سے محسوس ہوئی کہ شیخ ہندوستان میں تعلیمی ودعوتی کاز کو لے کر بہت فکر مند تھے، مسلمانوں کے احوال وظروف سے تڑپ رہے تھے، شاید یہ ان کا مستقل ہم وغم تھا جو ان کے دل و دماغ پر چھایا رہتا تھا۔
چند اہم نصیحتوں کے علاوہ باقی پوری مجلس وہ اپنے قدیم اور مخلص دوست مولانا مختار رحمہ اللہ کا ذکر خیر کرتے اور انھیں شدت سے یاد کرتے رہے۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ انھوں نے اس پوری مجلس میں اپنی، اپنے ادارے کی، یا اپنی ذات اور ادارے سے متعلق کسی قابل ذکر چیز کی بات کی ہو۔ گویا آپ کی پوری گفتگو کا محور مولانا مختار رحمہ اللہ کی ذات تھی۔
در اصل مولانا مختار رحمہ اللہ جب بھی ریاض کا سفر کرتے تھے تو عموما ان کا قیام شیخ ہی کے گھر ہوتا تھا۔ مسافر کا دل کھلا ہوتا ہے، ایسے میں دونوں میں خوب باتیں ہوتی تھیں، میدان عمل اور مجالِ ہم وغم بھی ایک ہی تھا، مجلسیں خوب چلتی تھیں۔ ہماری اس مجلس میں شیخ انہی مجالس کی حسین یادوں میں کھو کر اپنے لوٹ کر نہ آنے والے مخلص ومشفق دوست کو یاد کرنے لگے، اور اس کی گم شدہ یادوں سے یادِ ماضی کا عذاب جھیلنے لگے۔
مولانا رحمہ اللہ اس جگہ رہتے تھے، اس کمرے میں سوتے تھے، یہاں قیام اللیل کرتے تھے، پچھلے پہر ان کے آہ بکا کی آوازیں میں یہاں سے سنتا تھا۔ ادارے اور امت کے تئیں ان کا ہم وغم ایسا تھا، مولانا بہت بڑے آدمی تھے، مولانا کا ذوق ایسا تھا، کھانے میں یہ پسند کرتے تھے، باتیں اس طرح کرتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ بیچ بیچ میں دعائیں دیتے رہتے، اور گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا۔
ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ نے حافظہ بھی بڑے غضب کا پایا تھا، اور ادبی ذوق بھی بہت رفیع تھا، مولانا کى یادوں کو اس قدر مرتب اور منظم انداز میں پیش کرنے لگے کہ تین گھنٹے کیسے گزرے ہمیں احساس تک نہیں ہوا، ایسے لگا کسی نہایت اعلى اور دلچسپ ادبی وعلمی مجلس میں ہمہ تن گوش ہیں، مجلس کے خاتمے کا احساس اس وقت ہوا جب شیخ نے پورے انفعال کے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں یہ شعر پڑھ کر مجلس ختم کی:
آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقش ما سوا کو مٹاتی چلی گئی
ایسا لگتا ہے کہ وہ شعر جو انھوں نے اُس وقت پڑھا تھا آج اپنى پورى معنویت کے ساتھ پھر لوٹ آیا ہے، اور سامنے آکر شیخ محترم کی یادوں سمیت کھڑا ہوگیا ہے۔ وہ محفل جسے کل انھوں نے اپنے صدیق مکرم کی یادوں سے سجائی تھی آج تصور میں پھر سج گئی ہے۔ وہی شعور ہے، وہی احساس ہے، بس جانے والی شخصیت مولانا مختار رحمہ اللہ کی نہیں ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی یہی شعر گنگنا گنگنا کر ان کی یادوں کے مضراب سے دل ودماغ کے تاروں پر ضرب لگا رہا ہے۔اور وہ آپ کی معطر یادوں کی نغمہ سرائی سے بے خود، جبکہ آنکھیں بوجھل ہیں۔
اللہ تعالى شیخ کو غریق رحمت کرے، ان کی لغزشوں کو در گزر کرے، ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے، ان کے ادارے کی حفاظت کرے، اس کو دن دونی رات چوگنی ترقی دے، ان کے اعمال اور کارناموں کو ان کے، اور ان کے جامعہ سے منتسب ہر شخص کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، آمین!

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
نسیم سعید

بہت خوب، نصیحت آموز سیرت نگاری