سرزمینِ جھارکھنڈ کے ایک عظیم داعی تلمیذِ شیخ الکل مولانا عبد الرحیم بیربھومی

اشفاق سجاد سلفی تاریخ و سیرت

بہت دنوں پہلے جب بڑے بڑے ضلعے ہوا کرتے تھے، تو جھارکھنڈ کا ایک ضلع ’سنتھال پرگنہ‘ تھا، چوں کہ اس ضلع میں آدی واسیوں کی اچھی خاصی آبادی ہمیشہ رہی ہے، اس لیے اس کا یہ نام پڑا ہوگا، ورنہ ’سنتھال پرگنہ‘ کسی گاؤں، جگہ اور قصبہ یاشہر کا نام نہیں رہا ہے، بعد میں سنتھال پرگنہ سے جو اضلاع بنے، وہ ہیں دمکا، پاکوڑ، صاحب گنج، گڈا، دیوگھر اور جامتاڑا۔ سنتھال پرگنہ سے متصل ضلع ہزاری باغ تھا، جو مشرقی چھوٹا ناگپور کمشنری کے تحت تھا، اور اس سے بھی کئی اضلاع بنے، جن میں مشرقی ضلع ’گریڈیہہ‘ ہے۔

ان خطوں میں شیخ الکل فی الکل علامہ سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے کئی تلامذہ دعوت وارشاد، تعلیم وتدریس اور جمعیت وجماعت کے استحکام کے لیے آئے، بعض خاص مناسبات سے آتے تھے اور کام کر کے واپس چلے جاتے تھے، اور بعض نے باضابطہ یہاں سکونت اختیار کرلی، اور یہیں کے ہو کر رہ گئے، وقتی طور پر دعوت وتبلیغ اور اصلاحی کام کے لیے تشریف لانے والوں میں بانی مدرسہ احمدیہ آرہ علامہ ابو محمد ابراہیم آروی، شیرِ پنجاب، فاتحِ قادیان علامہ ثناء اللہ امرتسری، رئیسِ متکلمین علامہ عبد العزیز رحیم آبادی، صاحبِ بیان وقلم علامہ ابو القاسم سیف بنارسی، مورخِ اہل حدیث علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، واعظِ باکمال حضرت مولانا عبدالنور دربھنگوی، مدرسِ بے مثال محمد صالح بندھولوی، اور واعظِ دوراں، خالدِ بنگال حضرت مولانا عبد الرحیم بیربھومی وغیرہم رحمہم اللہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں، اور جن تلامذہ شیخ الکل نے یہاں باضابطہ سکونت اختیار کرلی، اور اپنی ساری طاقت یہاں کی مٹی کی آب یاری اور آب پاشی میں جھونک دی، وہ ہیں ماہرِ حکمت اور ماحیِ شرک وبدعت حضرت مولانا حکیم عبد العزیز روانوی، اعظمی اور صاحبِ تصنیف وتالیف داعی حضرت مولانا علی حسن گیلانی رحمہما اللہ، ان دونوں حضرات نے مدھوپور (ضلع دیوگھر) میں اقامت اختیار کی تھی۔

مذکورہ شخصیات میں دعوت وتبلیغ اور اصلاح وارشاد کی غرض سے جھارکھنڈ کی اس سرزمین میں جو سب سے زیادہ آئے، اور جن کے کارنامے سب سے زیادہ ہیں، وہ ہیں حضرت مولانا عبد الرحیم بیربھومی رحمہ اللہ۔

مولانا عبد الرحیم بیربھومی، معروف محقق ومصنف اور معارفِ ابن تیمیہ کے عظیم خوشہ چیں شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ کے نانا، شیخ الحدیث مولانا شمس الحق سلفی بہاری، صاحبِ محمدیات حضرت مولانا محمد میمن جوناگڑھی اور مولانا شمس الضحیٰ مرشدآبادی رحمہم اللہ کے خسر تھے۔ جب میں نے آپ کی حیات وخدمات اور جھارکھنڈ میں ان کے کارنامے کی تفصیلات معلوم کرنے کی جستجو اور تلاش شروع کی، تو ایک دن خیال آیا کہ آپ شیخ عزیر شمس کے نانا تھے، انھوں نے ضرور کچھ لکھا ہوگا، تو ان سے رابطہ کیا جائے، قبل اس کے کہ میں آپ سے بلا واسطہ رابطہ کرتا میں نے ائمہ حرم مکی کے مترجم اور اپنے خاص شاگرد مولانا ثناء اللہ صادق تیمی (زادہ اللہ علما وعزا) سے رابطہ کیا اور اُن سے کہا کہ آپ شیخ سے بہت قریب رہتے ہیں، ایک کام کر دیجیے، مولانا عبد الرحیم بیربھومی کے متعلق شیخ عزیر شمس کے پاس جو بھی معلومات ہوں، حاصل کر کے مجھے بھیج دیجیے، تو انھوں نے بلا تاخیر شیخ سے رابطہ کیا، شیخ نے انھیں ’مقالات پروفیسر عبد القیوم‘ نامی کتاب سے ایک مختصر تحریر کا فوٹو عنایت کیا اور شاگردِ عزیز نے مجھےبھیج دیا، اور بعد میں میں نے شیخ سے بلا واسطہ اُن کے واٹس ایپ پر رابطہ کیا، تو انھوں نے بتایا کہ میں نے اپنی امی (مولانا عبد الرحیم بیربھومی کی صاحب زادی) سے نانا کے بارے میں کچھ معلومات نوٹ کی تھیں، وہ اوراق گھر پر ہندوستان میں ہیں، اگر وطن واپسی ہوئی تو میں آپ کو بھیج دوں گا، مگر ایسا ہونے سے پہلے شیخ کا انتقال ہوگیا۔

پروفیسر عبدالقیوم نے مولانا عبدالرحیم بیربھومی کی حیات اور خدمات کا مختصر مگر جامع تعارف کرایا ہے، عنوان ہے: مولانا عبد الرحیم محمدی، اور وہ لکھتے ہیں:

’’ آپ بنگال (مغربی بنگال، واقع در ہند) کے مشہور بیربھوم کے ایک ’’آمبھوہا‘‘ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن میں اپنے گاؤں میں ہی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ پھر مزید تعلیم کا شوق انھیں کشاں کشاں دہلی لے گیا۔ پھاٹک حبش خان کی مسجد میں مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث کے پاس پڑھتے رہے۔ پھر وہاں سے مشرقی پنجاب کی مشہور ترین درس گاہ ’’مرکز الاسلام‘‘ لکھوکے (ضلع فیروز پور) میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ حصولِ تعلیم سے فارغ ہو کر اپنے وطن واپس لوٹے اور تدریسی خدمات میں اپنے آپ کو مکمل طور پر وقف کر دیا۔ جماعتِ اہل حدیث کی تعداد چوں کہ بنگال میں سب سے زیادہ ہے، اس لیے وہاں چھوٹی چھوٹی درس گاہوں کی بڑی بہتات وفراوانی ہے۔ مولانا موصوف پہلے تو مختلف درس گاہوں میں پڑھاتے رہے، پھر بذات خود ایک نئی درس گاہ کی داغ بیل ڈالی۔ مختلف مقامات سے مدرس منگوائے اور تا زندگی اسی مدرسہ کے مہتمم رہے۔ بنگلہ زبان میں آپ کی تصنیفات بہت ہیں۔ جو آپ کے جیتے جی چھپ چکی تھیں، اور بڑی مقبولیت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ اُن کی کتابیں نظم ونثر دونوں میں ہیں، جن میں وہ اپنی جماعت کو خوابِ غفلت سے جھنجھوڑ کر بیدار کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ موصوف کو اردو زبان سے اتنا لگاؤ تھا کہ باوجود بنگال میں رہنے کے اور بنگالی ہونے کے عموماً اردو بولا کرتے تھے۔ فتاویٰ، فرائض اور دینی مسائل وغیرہ کے لیے ہمیشہ ان کے پاس لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ قرب وجوار بلکہ دور دور تک کے لوگوں کو اُن سے بڑی عقیدت تھی۔ جماعتِ اہل حدیث انھیں بمنزلہ پیر ومرشد کے سمجھتی تھی۔ موصوف کے مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری، مولانا ابوالقاسم بنارسی، مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی، مولانا داؤد صاحب غزنوی وغیرہ سے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ جماعتِ اہل حدیث کے تمام ماہناموں اور ہفت روزوں کے وہ بیک وقت خریدار تھے۔ مولانا محمد صاحب میمن جوناگڑھی سے ان کے تعلقات تو اس قدر گہرے تھے کہ آخر میں جا کر دونوں کے مابین رشتہ مصاہرت قائم ہوگیا۔ جب ’الاعتصام‘ کے پرچے میں مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری کی شہادت کی جانکاہ خبر آئی، تو آپ کے رنج وغم کا یہ عالم تھا کہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگ پڑے تھے۔ جماعتِ مجاہدین کے ساتھ اُن کا گہرا تعلق تھا۔ موصوف نے بڑی لمبی عمر پائی۔ طویل علالت کے بعد ۱۹۶۰ء میں جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔ اس وقت ان کی عمر سو سال کے لگ بھگ تھی۔ آپ بڑے مالدار تھے۔ بیک وقت چار بیویاں تھیں۔ اس لیے کثیر اولاد چھوڑ گئے۔‘‘ [مقالات پروفیسر عبد القیوم، مرتب: ڈاکٹر محمود الحسن ومیجر زبیر قیوم، ناشر: المکتبۃ السلفیۃ، لاہور، جلد دوم، ص: ۲۶۶۔۲۶۵]

مولانا عبد الرحیم بیربھومی نے سنتھال پرگنہ (جھارکھنڈ) کو اپنی دعوت واصلاح کی جولان گاہ بنائی تھی۔ مولانا تنزیل احمد صدیقی، حسینی نے اپنی وقیع کتاب ’دبستانِ نذیریہ‘ (جلد دوم) میں ’جھارکھنڈ‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ’’حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے بعض تلامذہ نے بھی یہاں دینی خدمات انجام دیں۔ مولانا ابراہیم آروی اور مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی اپنی دعوتی سرگرمیوں کے لیے یہاں کا رخ کیا کرتے تھے۔ مولانا عبد الرحیم بیربھومی اور مولانا عبد العزیز روانوی، اعظمی نے عرصہ تک جھارکھنڈ کے مختلف اضلاع میں بے مثال دعوتی وتبلیغی خدمات انجام دیں۔ میاں صاحب کے ایک تلمیذ رشید مولانا علی حسن مدھوپوری، جو گیلانی (ضلع نالندہ، بہار) سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے جھارکھنڈ کے علاقے مدھوپور کو اپنی مستقل سکونت کے لیے منتخب کیا، اور یہاں دینی، علمی اور تبلیغی خدمات انجام دیں۔ اس وقت جھارکھنڈ میں جو متعدد مدارس ومراکز قائم ہیں، وہ انھیں عالی مرتبت علماء کی بے لوث دینی خدمات کا نتیجہ ہیں۔‘‘ [دبستان نذیریہ:۱؍ ۷۰۵]

استاذِ گرامی، صاحبِ قلم عالم دین، مولانا محمد خالد فیضی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ ’’میں سوچتا تھا کہ جیو، ضمیر اور سبحانی (علاقے کے تین دعاۃ) کے بعد اور منشی نورالدین نندو مہاشے کٹھڈابری کے درمیان کی کڑی کون ہے؟، جیو، ضمیر اور سبحانی کا زمانہ ۱۸۵۰ء کے آس پاس ہے، اور منشی نور الدین کا زمانہ ۱۹۰۰ء کے کچھ سالوں بعد، حالاں کہ میں پہلے یہی کہا کرتا تھا کہ جیو کے بعد منشی نور الدین آئے، مگر مجھے اس سے اطمینان نہیں ہوتا تھا، لگتا تھا کہ ضرور بیچ میں کوئی آدمی ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ بیچ کا آدمی حضرت مولانا عبد الرحیم بیربھومی رحمہ اللہ ہیں، جو بہت مالدار تھے، اور جنھوں نے پوکھریا میں اپنے خرچ پر ایک مدرسہ کھولا اور چلاتے رہے، کہا جائے تو پوکھریا سب سے پہلا سلفی گاؤں ہے، جہاں پر مدرسہ کھولا، مسجد بنوائی، مکتب قائم کیا، اس پورے علاقے میں ان کا دورہ ہوا، جہاں جہاں گئے، وہاں وہاں مسجد قائم کی، اور کایا پلٹ کیا، ۱۳۔۱۹۱۲ء میں چمپاپور میں مسجد قائم کی، اس کے بعد ٹوپاٹانڑ میں، اس کے بعد مدھوپور میں ان کا دورہ ہوتا رہا، اور تبلیغ فرماتے رہے، لوگوں کو سلفیت سے روشناس کراتے رہے، لوگ ان سے جڑتے گئے، ان کے بعد نندو مہاشے نے جو کچھ کیا ان کی روش پر کیا، ان کی شان سے کیا، اور جس طرح وہ چاہتے تھے، اسی طرح کیا۔ خلاصہ یہ کہ نندو مہاشے جیو کے بعد نہیں، بلکہ مولانا عبدالرحیم بیربھومی کے بعد آئے، اور ان کا شاگرد بن کر آئے، اُن کے دوسرے شاگردوں میں مولوی محمد عباس (مفتی محمد جرجیس سلفی کے بھائی)، مولانا عبداللطیف (خسر مفتی محمد جرجیس سلفی)، جناب عبد العزیز صاحب (والد محترم مولانا عبدالعلیم مدنی)، نذیر صاحب (والد محترم مولانا عبدالخالق جامعی)، شفیع اللہ صاحب(کٹھڈابر)، حاجی عبدالغفار صاحب (پرنا نگر)، حاجی محمد عالم صاحب (بروٹانڑ)، حاجی امیرالدین صاحب (چمپاپور)، مولانا حکیم عبدالغفار مدھوپوری وغیرہم لائق ذکر ہیں۔ یہ سب مولانا بیربھومی کے رابطے میں رہتے تھے، اور ان سے تبادلہ خیالات کے بعد علاقے میں دینی وعلمی کارنامے انجام دیتے اور پروگرام چلاتے تھے۔ ان کے شاگردوں نے علاقے میں جو بھی کام کیا، وہ عظیم ہے۔‘‘

استاذ محترم مولانا مفتی محمد جرجیس سلفی رحمہ اللہ نے ایک کاپی میں اپنی سرگرمیوں کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’والدین کے شدید اصرار پر گاؤں ہی کے قدیم ترین مدرسہ جامع العلوم پوکھریا میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کی تاسیس جناب الحاج مولانا عبدالرحیم آنبوہائی بیربھومی (بنگال) نے ۱۹۱۰ء میں فرمائی تھی، موصوف نے جب دیکھا کہ علاقے میں کافی جہالت ہے، اور مسلمانوں میں دینی جذبہ مفقود ہے، تو انھوں نے تجدید واصلاح کا کام علاقے میں گشت لگا لگا کر کیا، اس گاؤں میں ذاتی خرچ سے ایک پھونس کی مسجد، ایک کچا کنواں اور ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی، اب تک وہ مدرسہ اور کنواں قائم ہے‘‘۔ اور ابھی جو دو منزلہ عظیم الشان مسجد ہے، اسی قدیم مسجد کی جگہ پر تیسری تعمیر ہے، پہلی تعمیر پھونس کی مولانا عبد الرحیم بیربھومی نے کی، دوسری ڈھلائی والی حضرت مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کے جزوی تعاون سے، اور تیسری حالیہ تعمیر فضیلۃ الشیخ عبدالباری فتح اللہ مدنی حفظہ اللہ کے تعاون سے ہوئی، جس کی دوسری منزل کی تعمیر گاؤں والوں نے خود کی۔

مفتی محمد جرجیس سلفی نے ۱۴۲۰ھ مطابق ۲۰۰۰ء کے ماہ رمضان المبارک کی مناسبت سے ’’ضلالت وگمراہی کے گھپ اندھیرے کا ایک روشن چراغ: مدرسہ جامع العلوم، پوکھریا‘‘ کے عنوان سے مدرسہ کا ایک دو ورقی تعارف نامہ شائع کیا تھا، اس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’مدرسہ جامع العلوم، پوکھریا للبنین والبنات‘‘ کا قیام جماعت اہل حدیث کی بزرگ ترین شخصیت جناب الحاج مولانا عبدالرحیم آنبوہائی، بیربھومی (بنگال) خسر خطیب الہند مولانا محمد جوناگڑھی رحمہ اللہ نے ۱۹۱۰ء میں فرمایا تھا، اس وقت دیہی علاقے میں کوئی دینی وتعلیمی ادارہ نہیں تھا۔ مولانا موصوف نے اس ادارے کو عرصہ دراز تک اپنے جیب خرچ سے چلایا، اور بذات خود کیقباد غازی مرشدآبادی کو استاذ کی حیثیت سے مقرر فرمایا، مولانا موصوف کے انتقال کے بعد گاؤں والوں نے نامساعد حالات میں بھی ادارے میں تعلیمی سلسلہ باقی رکھا، اور اب تک ہے‘‘۔ اس میں مولانا شمس الضحیٰ آنبوہائی کو بھی کچھ دنوں تک تدریس کے لیے بھیجا۔

اس پیراگراف سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا عبدالرحیم بیربھومی کے اندر اس علاقے میں تعلیم وتربیت کے فروغ کی تڑپ کس قدر پائی جاتی تھی، ایک آدمی اپنے گھر اور وطن سے ڈھائی تین سو کیلو میٹر دور مدرسہ قائم کرتا ہے، اور اپنی جیب خاص سے اسے چلاتا ہے، اور آج کل لوگ مسجد میں امام اور مکتب میں معلم رکھتے ہیں، تو ماہانہ سو، ڈیڑھ سو فیس ادا کرنے میں کتنا ٹال مٹول کرتے ہیں، یہ مخفی نہیں ہے!

اتنا ہی نہیں مولانا عبدالرحیم بیربھومی نے اس علاقے سے لڑکوں کو لے جا کر اپنے قائم کردہ مدرسہ (آنبوہا) میں داخلہ کرا کر تعلیم وتربیت سے آراستہ کرکے علاقے کے داعی بنا کر واپس بھیجنے کی بھی بے تحاشا کوشش کی۔ مولانا نعمت اللہ عمری (بابوڈیہہ، جامتاڑا، جھارکھنڈ) مدرسہ جامع العلوم، پوکھریا کے ایک دعوتی پروگرام کی اہمیت وافادیت پر واٹس ایپ گروپ میں اپنے شیئر کردہ ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’موضع پوکھریا میں تاسیسِ درس گاہ کی تاریخ باعتبارِ طولِ زمانہ بہت ہی پرانی اور علاقے کے دیگر مدارس کے مقابلے میں قدیم ترین ہے۔ شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ اور فیض یافتگان میں سے ایک مولانا عبدالرحیم بیربھومی رحمہ اللہ بھی ہیں، جنھوں نے آنبوہا، بنگال میں ایک بڑے مدرسہ کی طرح ڈالی تھی، اور جو علمائے بنگال کی سوانحی تاریخ میں ’مناظر اسلام‘ اور ’خالد بنگال‘ کے بلند لقب سے یاد کیے جاتے ہیں، جیسا کہ ماضی کے تاریخی مجلات اور خصوصاً اخبار اہل حدیث، امرتسر کے صفحات میں جا بجا ان کے دعوتی اور دفاعی تگ وتاز کے تذکرے موجود ہیں، علامہ موصوف مقام آنبوہا، بنگال میں قائم کردہ اپنے مدرسہ کی سفارت میں بھی اور اس سے زیادہ ہمارے علاقے میں دعوت وتبلیغ اور اصلاح وارشاد کے مد نظر وقفہ وقفہ سے تشریف لاتے رہتے تھے، جس میں وہ تبلیغی واصلاحی فریضہ بھی انجام دیتے تھے، اور لوگوں کو تعلیم کے لیے ابھار کر علاقے سے بچوں کو بھی اپنے ادارے میں تعلیم دینے کے لیے لے جاتے تھے، جن بچوں میں موضع بابوڈیہہ سے ناچیز کے والد محترم جناب عبدالمالک رحمہ اللہ بھی آنبوہا کے مدرسہ میں داخلہ لے کر زیر تعلیم تھے، اور تقریباً دو ڈھائی سال تک وہاں تعلیم حاصل کی تھی، اور وہاں والد صاحب کے قیام کے دوران بیربھومی صاحب کا انتقال ہوگیا، والد محترم ڈھائی سال کی تعلیم کے بعد گوناگوں گھریلو مسائل وحالات سے مجبور ہو کر ترک تعلیم پر قانع ہوگئے۔ بہر حال مولانا بیربھومی صاحب کا دوران سفر وسفارت زیادہ تر قیام وپڑاؤ موضع پوکھریا ہی میں ہوا کرتا تھا، اسی طرح چمپاپور، بٹ بریا اور بابوڈیہہ میں بھی آں موصوف کی تشریف آوری اور قیام رہتا تھا۔ موضع پوکھریا میں وہاں کی زرخیزی، دل چسپی، علم پروری اور علماء نوازی کو دیکھتے ہوئے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔‘‘

استاذ محترم مولانا مفتی محمد جرجیس سلفی نے اپنا تعلیمی سفر بیربھومی رحمہ اللہ کے مدرسہ سے ہی شروع کیا تھا، لکھتے ہیں کہ ’’۱۹۵۹ء میں فدائے کتاب وسنت جناب الحاج مولانا عبدالرحیم بیربھومی (بنگال) کی خدمت میں ان کا ذاتی وقدیم مدرسہ اسلامیہ، آنبوہا پہنچا، اور ان سے پہلی فارسی وآمد نامہ وغیرہ کے بعض اسباق پڑھے، اُن کی خدمت میں صرف دو ماہ رہنے کا شرف حاصل ہوا۔‘‘

مولانا عبدالرحیم بیربھومی کی شخصیت جھارکھنڈ کے اُس زمانے کے علماء کے مابین مسلم تھی، اور ان سے رہنمائی لینے کے ساتھ ساتھ بڑی اور اہم مجلسوں کی صدارت یا حکَم کی ذمہ داری ان کے سپرد کی جاتی تھی۔ مناظرہ مرشدآباد تو بہت مشہور ہے، مگر ایک مناظرہ اس علاقے میں بھی ہوا تھا، جس کو صرف علاقائی سطح پر شہرت ملی، لیکن تھا بہت اہم، بوڑھے مولانا (مولانا وحافظ ابو الفلاح عابد حسین بن خواجہ احمد گنگوہی، مقیم ٹوپاٹانڑ، متوفیٰ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۶۰ء، بانی مدرسہ دار الفلاح، عابد نگر ٹرمنڈا، وٹوپاٹانڑ، جو ایک متشدد حنفی تھے، اور ٹوپاٹانڑ ومضافات میں مسلکِ حنفی کی ترویج واشاعت میں کوشاں تھے) اور بیربھومی کے شاگرد منشی نورالدین نندو مہاشے کے درمیان آمین بالجہر پر ٹوپاٹانڑ کی مسجد میں بعد نماز مغرب بحث چھڑ گئی، بوڑھے مولانا گنگوہ سے آئے تھے، صلاحیت اچھی تھی، مگر دوسری طرف منشی نورالدین بھی مولانا عبدالرحیم بیربھومی کے تربیت دادہ شاگرد تھے، دونوں میں بحث لمبی ہوگئی، اور مناظرہ تک کی نوبت آ گئی، مناظرہ کے لیے حاجی محمد عالم صاحب (بروٹانڑ) کا دولت کدہ طے پایا، تا کہ آمین بالجہر کی حدیثیں دکھلانے کے لیے مدھوپور کے علماء (تلمیذ شیخ الکل مولانا عبدالعزیز روانوی، اعظمی وغیرہ) کتابیں لے کر بروٹانڑ پہنچیں، اور یہ لوگ ٹوپاٹانڑ سے جائیں، دونوں طرف سے بیچ بروٹانڑ پڑتا تھا، ادھر منشی نورالدین نے اپنے استاذ گرامی مولانا عبدالرحیم بیربھومی کو بروٹانڑ مدعو کرلیا۔ سارے علماء حاجی محمد عالم صاحب کے دولت کدے (بروٹانڑ) پر جمع ہوئے، اور تاریخی مناظرہ ہوا، مناظرہ کے ایک فریق بوڑھے مولانا گنگوہی صاحب تھے، اور دوسرے فریق میں منشی نور الدین اور مدھوپور کے علماء، اور مجلسِ مناظرہ کے صدرِ باوقار تلمیذ شیخ الکل مولانا عبدالرحیم بیربھومی منتخب ہوئے۔ مناظرہ زبردست ہوا اور بوڑھے مولانا گنگوہی رحمہ اللہ مناظرہ ہار گئے، اور مناظرہ کی شرط میں یہ طے پایا تھا کہ جو ہار جائے گا، وہ دوسرے فریق کے مسلک کو قبول کرلے گا، چنانچہ بوڑھے مولانا اہل حدیث ہو گئے۔ [واقعہ کی تفصیل میری کتاب: دامن کوہ میں کاروانِ رفتگاں، جلد اول، اور میری دوسری کتاب: ’جھارکھنڈ میں میاں سیدنذیر حسین محدث دہلوی کے تلامذہ: خدمات واثرات‘ میں دیکھی جا سکتی ہے]

دعوت وارشاد، تعلیم وتربیت اور جمعیت وجماعت اہل حدیث کے یہ عظیم معمار ۱۱؍ستمبر ۱۹۶۰ء، بروز اتوار، بوقت فجر اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ مولانا شمس الضحیٰ نے اُن کی وفات کی خبر لکھ کر پندرہ روزہ ترجمان، دہلی میں اشاعت کے لیے بھیجی، اُس وقت ترجمان کے مدیر مسئول مولانا عبدالوہاب آروی رحمہ اللہ تھے، انھوں نے وہ خبر شائع کی، وفات کی خبر کے الفاظ ہیں:

’’ضلع بیربھوم، موضع آنبوہا (بنگال) کے مولانا عبدالرحیم صاحب ۱۱؍ ستمبر ۱۹۶۰ء، بروز اتوار، بوقت فجر حوادث گاہِ عالم سے منہ موڑ کر عالمِ جاودانی کو سدھارے، انا للہ وانا الیہ راجعون!

مرحوم نیک سیرت، نیک طینت اور خدا ترس وپابندِ شریعت تھے۔ مرحوم مولانا محمد صاحب جوناگڑھی کے خسر تھے۔

ہماری دلی دعا ہے کہ پروردگارِ عالم مرحوم کے تمام مسامحات وتقصیرات سے در گزر کرتے ہوئے اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے۔

قارئین کرام سے استدعا ہے کہ مرحوم کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کریں، اور اُن کے حق میں دعائے مغفرت فرمائیں!

(غمزدہ:شمس الضحیٰ، آنبوہا، ڈاک خانہ راجگاؤں، ضلع بیربھوم، بنگال)

[پندرہ روزہ ترجمان، دہلی، یکم اکتوبر ۱۹۶۰ء، ص: ۱۵]

ترجمان کے اسی شمارہ میں صفحہ (۱۳) پر نماز جنازہ غائبانہ کی ادائیگی کی خبر ادارہ کی طرف سے شائع ہوئی ہے، عنوان ہے: نماز جنازہ غائبانہ، اورمضمون کچھ یوں ہے:

’’حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب بنگالی اور حاجی محمد فاروق صاحب بنارسی کے انتقال کی خبریں علی الترتیب ۱۵، اور ۲۳؍ ستمبر (۱۹۶۰ء) کو معلوم ہوئیں، بڑا رنج وملال ہوا، اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!

۱۶؍ ستمبر اور ۲۳؍ ستمبر کو بعد نماز جمعہ نماز جنازہ غائبانہ ادا کرائی گئی، نماز مولانا عبدالحفیظ صاحب خطیب مسجد اہل حدیث، حاجی علی جان صاحب (رحمہ اللہ) نے پڑھائی۔

[موذن مسجد علی جان، کونچہ خان چند، دہلی]

اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم اور دیگر تمام بزرگوں کی جہود ومساعی، خدمات اور کارناموں کو شرفِ قبولیت بخشے اور انھیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے، آمین!!

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
عدنان المعھد السلفی، ریچھا

ماشاءاللہ مضمون بہت ہی وقیع ہے،، اور ایسی شخصیت کے متعلق ہے کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں ایک گمنام مصلح،، ان پر بہت کم لکھا گیا ہے،، شیخ اشفاق سجاد سلفی، نائب رئیس جامعہ امام ابن باز الاسلامیہ، وناظم ضلعی جمعیت اہل حدیث، گریڈیہ نے مولانا عبدالرحیم بیربھومی جو شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد ہیں کی حیات وخدمات کے متعلق معلومات حاصل کر کے بڑی خوبی سے ترتیب دے کر ہم لوگوں کو متعارف کرایا، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے!! شیخ اشفاق نے جھارکھنڈ کی جماعت اہل حدیث کے متعلق بہت لکھا ہے،، توقع… Read more »

حافظ نظام الدین شہاب تیمی

ماشاءاللہ۔ بارک اللہ فیک
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائے ۔
آپ نے سرزمین جھارکھنڈ میں علمائے کرام کی قربانیاں ان کی خدمات اور دعوت و تبلیغ پرنہایت ہی جامع تحریر لکھیں ہیں ۔ ان شاءاللہ مضمون سے متعلق مختصر تبصرہ پیش کیاجاۓ گا