حافظ محمد يعقوب صاحب (Father of Halal Meat UK) كا انتقال پر ملال!

شیرخان جمیل احمد عمری تاریخ و سیرت

مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے بانی رکن اور پہلے ناظم اعلی حافظ محمد یعقوب صاحب 17 آگست 2024 کو 91 سال عمر پاکر بقضائے الٰہی انتقال کر گئے۔ انا لله وانا اليہ راجعون۔ اللهم اغفر لہ وارحمہ وادخلہ الجنة الفردوس الأعلى۔ آمين
حافظ یعقوب صاحب 17 دسمبر 1933 کو جالندھر پنجاب انڈیا میں پیدا ہوئے۔ ملک کی تقسیم کے بعد آپ کا خاندان فیصل آباد پاکستان منتقل ہوگیا۔ حافظ صاحب حصول تعلیم کی غرض سے لاہور منتقل ہوگئے۔ پھر اعلی تعلیم کے لیے برطانیہ کا رخ کیا۔ حافظ صاحب طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ تشریف لائے تھے لیکن حلال گوشت کی عدم دستیابی نے آپ کو حلال گوشت متعارف کرانے کی طرف مائل کردیا۔ چنانچہ 1954 میں آپ نے حلال گوشت کے کاروبار کی شروعات کی۔ برطانیہ میں حلال گوشت متعارف کرانے والے آپ پہلے شخص بن گئے۔ اس تجارت میں اتنے آگے بڑھے کہ برطانیہ میں آپ کوFather of Halal Meat کا لقب دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے کاروبار میں اتنی برکت دی کہ آپ نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپ میں بھی حلال گوشت Export کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سیکڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ بنایا۔ آپ کا اپنا ذبیحہ خانہ (Slaughter House)تھا، جہاں روزانہ ہزاروں جانور ذبح ہوتے تھے۔ کاروبار کی وسعت، صفائی، ستھرائی اور اعلی معیار اور دیگر خوبیوں اور خصوصیات کی وجہ سے آپ کو اور آپ کی فرم کو کئی نیشنل اور انٹرنیشل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ نے کاروبار کے ساتھ ساتھ مسلم کمیونٹی کے مذہبی، فلاحی اور رفاہی امور پر بھی توجہ دی۔
1975 میں جن چند شخصیات نے مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کی بنیاد رکھی تھی ان میں سے حافظ صاحب کا نام گرامی بھی شامل ہے۔ بانی جمعیت حضرت مولانا فضل کریم عاصم صاحب رحمہ اللہ مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے جہاں پہلے امیر بنے تو وہیں حافظ محمد یعقوب صاحب رحمہ اللہ جمعیت کے پہلے جنرل سکریٹری بنائے گئے۔ جب مولانا محمود احمد میرپوری رحمہ اللہ برطانیہ تشریف لائے تو حافظ یعقوب صاحب نے اپنا عہدہ مولانا محمود احمد ميرپوری رحمہ اللہ کو یہ کہہ کر سونپ دیا کہ آپ اس عہدہ کے زیادہ مستحق ہیں۔ برمنگھم کی مختلف مسالک کی مشترکہ مسجد “سنٹرل ماسک” بلگریو روڈ کے آپ Founder Trustee تھے۔ آپ ہی نے آج سے تقریباً پچاس سال قبل برمنگھم کونسل سے مذاکرات کرکے سنٹرل ماسک کے لیے جگہ حاصل کی تھی۔ حافظ صاحب بڑے اصولی، نفاست پسند اور وقت کے پابند انسان تھے۔ آپ کے اندر نزاکت بھی تھی اور ظرافت بھی۔ آپ کا لباس وپوشاک بڑا یونیک ہوا کرتا تھا۔ کم گو تھے لیکن جب بھی گفتگو کرتے بڑی پختہ گفتگو فرماتے۔ لب ولہجہ بڑا شائستہ اور ظریفانہ ہوتا۔ شروع دنوں میں جمعیت کے معزز مہمانوں کے آپ ہی میزبان ہوا کرتے تھے۔ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ الله ، ائمہ حرمین اور دیگر علمائے کرام، مختلف ممالک کے سفراء اور معززین آپ کے مہمان بن کر خوش ہوتے تھے۔
حافظ صاحب اور ان کے گھرانے سے میرے بڑے دیرینہ اور گھریلو تعلقات تھے۔ آپ مجھے بڑا عزیز رکھتے تھے۔ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ بزرگ ہونے کے باوجود مجھ سے مشورہ کرتے تھے۔ مجھے آپ کے کاروباری فرم National Halal Centre میں Religious Adviser کی حیثیت سے چند سال کام کرنے اور آپ کو قریب سے دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ آپ کو مجھ پر بڑا اعتماد تھا۔ ان کے چھوٹے بیٹے شاہد یعقوب کی شادی پاکستان میں طے پائی تھی، ساری فیملی کو پاکستان جانا تھا اس وقت انھیں اپنے وسیع وعریض گھر کی حفاظت اور دیکھ ریکھ کا مسئلہ درپیش تھا۔ گھر اور اس کی چابیاں آخر کس کے سپرد کرکے جایا جائے، حافظ صاحب مرحوم اور ان کے صاحبزدگان کی نگاہیں اس حقیر پر آکر رک گئی تھیں۔ ان سبھوں نے گھر کی چابیاں میرے حوالہ کرنے کا فیصلہ کیا اور گھر میرے حوالے کرکے ہفتہ دو ہفتہ کے لیے پاکستان چلے گئے۔ حافظ صاحب اور ان کے صاحبزدگان زاہد یعقوب اور شاہد یعقوب کے اس فیصلہ اور اعتماد پر میں حیران رہ گیا۔ حافظ صاحب مجھ سے ہمیشہ مسئلے مسائل پوچھتے تھے، پچھلے چند ماہ سے طبیعت ناساز رہنے کی وجہ سے ہر ماہ کا نماز ٹائم ٹیبل چارٹ واٹسپ کرنے کو کہتے، میں ہر ماہ آپ کو نماز کا ٹائم ٹیبل واٹسپ کرتا۔ بیماری، بڑھاپا، کمزوری اور نقاہت میں عبادات کے احکام معلوم کرتے۔ بیماری میں جمع بین الصلوٰة کا مسئلہ پوچھتے۔ مسجد میں حاضر نہ ہونے کا افسوس ظاہر کرتے۔ پچھلے ماہ میں نے جب انھیں بتایا کہ میری چھوٹی بیٹی لبنی کی شادی مدینہ منورہ میں طے پائی ہے اور میں سفر پر جارہا ہوں تو بے حد خوش ہوئے، خوب دعائیں دیں اور ساتھ میں افسوس کا بھی اظہار کیا کہ میری صحت خراب ہے، میں کمزور ہوں اور اس قابل نہیں ہوں کہ سفر کرسکوں ورنہ میں ضرور شادی میں شریک ہوتا۔ آپ نے اپنے چھوٹے بیٹے شاہد یعقوب اور ان کی اہلیہ کو شادی میں شرکت کا حکم دیا لیکن ارادہ کے باوجود والدین کی عدم صحت کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔ پچھلے ہفتہ ہسپتال میں اپنے چھوٹے بیٹے شاہد یعقوب سے کہا کہ مجھے مولانا جمیل سے بات کرنی ہے فون میں نمبر نکال کر دو۔ شاہد بھائی نے فون ملاکر دیا لیکن افسوس مجھے اس کا علم نہ ہوسکا پھر میں نے واپس فون ملایا لیکن بات نہ ہوسکی جس کا مجھے افسوس ہے۔
حافظ صاحب عارضہ قلب میں مبتلا تھے، دل میں ایک سے زائد مرتبہ اسٹنٹ ڈالے گئے تھے۔ بڑھاپا طاری تھا لیکن ہوش وحواس بحال تھے آخری عمر میں بھی آپ کا حافظہ ٹھیک تھا۔
حافظ صاحب نے قرآن مجید سے اپنے تعلق کو آخری سانسوں تک جوڑے رکھا۔ دنیاوی مشغولیات پھر بڑھاپے کی وجہ سے انھیں قرآن مجید کے بھلا دیے جانے کا خوف دامن گیر رہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے باضابطہ طور پر ایک استاد حافظ صاحب کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں، انھیں قرآن سناتے اور خود استاد حافظ صاحب کا قرآن سنتے تھے۔ ہسپتال میں گذارے عمر عزیز کے آخری تین ہفتوں میں بھی قرآن پڑھتے رہنے کا مبارک سلسلہ جاری رکھا۔ وفات کے دن آپ بہت کمزور ہوگئے تھے، مشکل سے آنکھ کھول پارہے تھے۔ وفات سے ڈیڑھ دو گھنٹہ قبل آپ کے استاد حافظ صاحب آپ کی عیادت کے لیے ہسپتال تشریف لائے، دیکھتے ہی پوچھا کہ آج میں کونسی سوره سناؤں؟ استاد حافظ صاحب نے جواب دیا کہ آج آپ کوئی بھی سورہ سنادیں، چنانچہ آہستہ آہستہ وہ قرآن پڑھتے رہے۔
قدرت کے فیصلے دیکھیے؛ حافظ صاحب اپنی اہلیہ محترمہ کی صحت کو لے کر پریشان رہا کرتے تھے۔ آج سے تقریباً چار سال قبل COVID کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کا مزید علاج کرنے سے معذرت کرلی تھی اور گھر لے جانے کے لیے کہہ دیا تھا۔ اہل خانہ بوجھل دل سے انھیں گھر لائے لیکن اللہ نے ان کے حق میں شفا لکھی ہوئی تھی چنانچہ وہ شفایاب ہوگئیں۔ حافظ صاحب ان کے مقابلہ میں قدرے صحت مند تھے لیکن ان کا وقت مقررہ آچکا تھا اور وہ رخصت ہوگئے۔ حافظ صاحب کی اہلیہ محترمہ کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتی تھی کہ حافظ صاحب مجھ سے پہلے چلے جائیں گے لیکن چلے گئے۔ میں نے کہا یہ اللہ کے فیصلے ہیں۔ ہر ایک کی موت اس کے مقررہ وقت پر ہی آتی ہے۔ حوصلہ رکھیں اور صبر کریں ان شاءالله پھر جنت میں سب اکٹھا ہوں گے۔
تین ہفتہ قبل پیر پھسل جانے کی وجہ سے حافظ صاحب گر گئے تھے، تشخیص کے لیے بچے ہسپتال لے گئے تو ڈاکٹروں نے آپ کو داخل ہسپتال کرلیا۔ پچھلے بدھ کو طبیعت بالکل بحال ہوگئی تھی، جمعرات کو ڈسچارج کیا جانا تھا لیکن اچانک بدن میں انفکشن ہوگیا اور صحت تیزی سے گرتی چلی گئی۔ اسی انفکشن کی وجہ سے گردے ، پھیپھڑے اور دیگر اعضاء بھی متأثر ہوگئے اور یہی انفکشن آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہوا اور موت کے لیے بہانہ بن گیا۔ 17 اگست 2024 ہفتہ کے روز دوپہر کے چار بجے QE ہسپتال برمنگھم میں آپ کے جملہ اہل خانہ کی موجودگی میں حافظ صاحب نے آخری سانس لی اور آخرت کی طرف روانہ ہوگئے۔ انا لله وانا اليہ راجعون
پسمندگان میں اہلیہ، دو بیٹے زاہد یعقوب، شاہد یعقوب، دو بیٹیاں زاہدہ چوہدری، شاہدہ خان اور تیرہ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔
اللہ تعالیٰ حافظ صاحب پر رحم فرمائے، ان کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کی حسنات کو قبول کرے، ان کا حساب وکتاب آسان فرمائے، انھیں جنت الفردوس میں داخل فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین
بروز منگل 20 اگست کو سنٹرل ماسک میں مولانا محمد حفیظ اللہ خان مدنی صاحب حفظہ الله نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور اسی دن گنگز ہیتھ برمنگھم قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ قبرستان میں موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیخ شعیب احمد میرپوری حفظہ الله امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ نے حافظ صاحب کے محاسن کا ذکر کرتے ہوئے ان کی مغفرت کے لیے کی دعائیں کی۔

آپ کے تبصرے

3000