ممبرا میں ایک علاقہ ہے جو ایم ایم ویلی کے نام سے جانا جاتا ہے وہیں پر مولانا ابوالکلام آزاد اسٹیڈیم ہے جو کچھ سال پہلے تیار ہوا ہے۔ واکنگ اور سیر وتفریح کے لیے وہاں ممبرا کے شریف لوگ بھی جاتے ہیں۔ کثیر تعداد میں خواتین بھی یہاں آتی ہیں اور ان میں بھی کافی شریف ہوتی ہیں لیکن کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے اسٹیڈیم میں اچھی خاصی بھیڑ ہوتی ہے۔
زن گزیدہ یا یوں کہہ لیں بیلن گزیدہ افراد بھی حسین نظاروں کا لطف لینے وہاں پابندی سے پہنچتے ہیں۔ ان میں بیشتر وہ لوگ ہیں جو فجر کی نماز با جماعت ادا کرتے ہیں اور پھر توبہ واستغفار کے بعد سیدھے اسٹیڈیم کا رخ کرتے ہیں۔
اسٹیڈیم سے باہر روڈ پر بھی یہاں ہمیشہ گہماگہمی رہتی ہے شہر کے مڈل کلاس سے لے کر اپر کلاس تک کے ٹپوری اور بدمعاش آپ کو یہاں نظر آئیں گے، بائیک رائیڈر سے لے کر کار رائیڈر تک کا لطف آپ یہاں لے سکتے ہیں۔ خواتین یہاں اسکوٹی سے لے کر بلٹ تک کی ڈرائیونگ سیکھ سکتی ہیں۔
تھوڑی ہی دور پر ممبرا کا نیا قبرستان ہے رات کے وقت آپ اگر اس راستے سے متل گراؤنڈ کی طرف گزریں تو سڑک کے کنارے بہت سارے لیلی مجنوں اور ہیر رانجھا کی جوڑیاں آپ کو نظر آجائیں گی۔
بغل میں گریس اسکوائر اور سکون ہائیٹ ٹاور بھی ہے وہاں کے شریف اور عزت دار مکین کیسے رہتے ہیں یہ وہی بتا سکتے ہیں۔ ان راستوں سے گزرتے ہوئے شرمندگی اور ندامت کے کتنے کڑوے گھونٹ وہ پیتے ہوں گے یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔ یہاں کے حالات پر تفصیل سے روشنی ڈالنی ہو تو کئی صفحات سیاہ ہوجائیں گے اس لیے میں اس سے احتراز کرتے ہوئے ایک مظلوم شوہر کے لائیو داستان کی طرف آتا ہوں جس کو بیان کرنے کے لیے میں نے قلم اٹھایا ہے۔
شام کا وقت ہے رات کے تقریبا نو بج رہے ہوں گے ایک عورت فون پر بآواز بلند بات کرتے ہوئے اسٹیڈیم کی طرف بڑھتی ہے۔ وہ فون پر برابر پوچھتی ہے کہ تو کدھر ہے؟ اس درمیان کچھ معقول گالیاں بھی بکتی ہے اور اس شخص کی تلاش میں آگے بڑھتی ہے۔
ہمارے فاران اسپورٹس ایسوسی ایشن کے کچھ ممبران فی الحال کام کاج بند ہونے کی بنا پر اکثر و بیشتر ایسی سبز و شاداب جگہوں پر موجود رہ کر اپنی آنکھوں کی روشنی بڑھاتے رہتے ہیں۔ یہ ممبران کی خوش نصیبی کہہ لیں کہ اس وقت بھی وہاں موجود تھے اور خاتون کی آواز سن کر ان کے پیچھے چل پڑے۔ ہمارے ممبران چونکہ زمانے سے رفاہی اور فلاحی کام کرتے رہے ہیں اس لیے ان میں خیر سگالی کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے اور اگر معاملہ کسی خاتون سے متعلق ہو تو یہ جذبہ مزید ابال مارنے لگتا ہے۔
خاتون بلا توقف گالیوں کا ورد کرتے ہوئے آگے آگے بڑھ رہی ہے اور ممبران اس کے نقش قدم کو چومتے ہوئے چل رہے ہیں۔ اچانک وہ شخص سامنے نظر آتا ہے جس کی تلاش خاتون کو تھی یہ اس کا شوہر تھا اس کے ساتھ بھی ایک نقاب پوش خاتون تھی جو غالبا اس کی دوسری بیوی تھی۔ دونوں خواتین کے درمیان لفظی جھڑپ شروع ہوئی اور معاملہ اس قدر طول پکڑا کہ دو شیرنیاں آمنے سامنے آگئیں اور پھر شروع ہوا ڈبلیو ڈبلیو ایف کا ایسا شاندار مقابلہ جسے دیکھ کر ناظرین عش عش کر اٹھے، زبان سے شروع ہوا یہ مقابلہ لات اور گھونسوں تک جا پہنچا۔ ہمارے دو معزز ممبران اسی موقع کی تاڑ میں تھے وہ بلا تاخیر میدان عمل میں کود پڑتے ہیں ایک ممبر نے پہلی عورت کو دبوچا اور دوسرے نے دوسری کو جکڑا یہ دونوں ان کو پکڑ کر تھوڑی دور لے جاتے ہیں اور پھر اپنی گرفت ڈھیلی کردیتے ہیں جس کا فائدہ اٹھا کر وہ دونوں پھر گتھم گتھا ہوتی ہیں۔ ہمارے دونوں ممبر پھر آگے بڑھتے ہیں اور دونوں کو آغوش میں لے لیتے ہیں اور اچانک پھر چھوڑ دیتے ہیں اور وہ دونوں پھر لڑنے لگتی ہیں۔ در اصل ہمارے ممبران کو لڑائی سے زیادہ چھڑانے میں لطف آرہا تھا وہ ایسی ایسی جگہوں پر ہاتھ صاف کر رہے تھے جو صرف لڑائی ہی میں ممکن ہے۔ پبلک میں موجود ایک شخص نے ہمت دکھائی اور اس نے سوچا کہ آگے بڑھ کر وہ بھی اس کار خیر میں شریک ہوجائے لیکن وہاں موجود ہمارے دوسرے نوجوان ممبران کو یہ بات نہایت ناگوار گزری اور انھوں نے اس کا گریبان پکڑ کر کھینچ لیا اور کہنے لگے کہ ایک کلو میٹر سے چل کر پیچھے پیچھے ہم کس لیے یہاں آئے ہیں؟ چل پتلی گلی سے نکل لے۔ یہاں ایک بات کا اضافہ اور کردوں کہ شوہر دونوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا اور بارہا ایسا ہوا کہ دونوں کے مکے وہی برداشت کرتا رہا اس معرکے کے درمیان ایک عورت نے دوسرے کے پرس کو قریب کی ایک نالی میں پھینک دیا جو کافی گہری تھی۔ ہمارے بعض ممبران پرس نکالنے کے مہم پر فورا جٹ گئے لیکن یہ دشوار کام تھا اس لیے شہر کے ایک دکان سے فوری طور پر دو لمبا بامبو بذریعہ ٹیمپو منگوایا گیا جس کے رقم کی ادائیگی ایسوسی ایشن کی طرف سے کی گئی۔ روڈ پر ٹریفک کی وجہ سے ٹیمپو کے آنے میں تھوڑی تاخیر کیا ہوئی خدمت خواتین سے سرشار ہمارے ایک ممبر گٹر میں کوندنے کو تیار ہوگئے جن پر بڑی مشکل کے بعد قابو پایا گیا۔
کافی جدو جہد کے بعد پرس نکالا گیا اس کی باریک بینی سے چھان بین کی گئی، اس کے ہر ہر حصے کی اسکریننگ کی گئی لیکن کہیں سے بھی اس خاتون کا موبائیل نمبر نہیں ملا جس کی ممبران کو تلاش تھی اور پھر بادل نخواستہ پرس کو مالکن کے حوالے کردیا گیا۔
شوہر بالکل بت کی طرح خاموش کھڑا رہا، اس کے سر کے گومڑ ظلم کی داستان بیان کر رہے تھے ایسے عالم میں بھی اس کا ایک ہاتھ پہلی بیوی نے پکڑا ہوا تھا اور دوسری نے دوسرا ہاتھ اور وہ دونوں پوری طاقت سے اپنی اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا آدھا آدھا شرٹ دونوں کے حصے میں آیا درد کی شدت اس قدر کہ بارہا اس کی چیخیں نکل گئیں لیکن اخیر میں کامیابی اسی عورت کے ہاتھ لگی جس کے ساتھ وہ آرہا تھا وہ عورت اس کو اپنے ساتھ لے کر چلی گئی جب کہ دوسری عورت وہیں تنہا کھڑی رہی۔ اس کے جانے کے بعد اس خاتون نے کچھ اور راز سے پردہ اٹھایا وہ فرمانے لگیں کہ اس کی پہلی بیوی گھر پہ ہے دوسری میں ہوں اور یہ جو گئی وہ تیسری ہے۔ ہمارے وہ ممبران جو کسی وجہ سے جھگڑا چھڑانے میں پیچھے رہ گئے تھے انھوں نے یہاں مورچہ سنبھالا اور اس خاتون کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے بارہا پیٹھ کو تھپتھپا کر دلاسہ دیا۔
رات چونکہ کافی ہوگئی تھی اور ایسے میں کسی عورت کو اکیلے چھوڑنا بہر حال مناسب نہیں تھا اس لیے ایک ممبر نے انھیں اپنی گاڑی سے ان کے گھر تک چھوڑنے کی پیشکش کردی جسے خاتون نے شکریے کے ساتھ قبول بھی کیا۔ آج تیسرا دن ہے وہ دونوں ابھی اپنے اپنے گھر نہیں پہنچے ہیں، ممبران نے ان دونوں کی تلاش بھی شروع کردی ہے۔
ادھر دوسری طرف فون نمبر نہ ملنے سے ایسوسی ایشن کے ایک ممبر کو گہرا صدمہ پہنچا تھا۔ لیکن الحمد لله اب دھیرے دھیرے ان کی حالت مستحکم ہورہی ہے۔
ممبران جب یہ واقعہ مجھے بتا رہے تھے تو اپنی حرماں نصیبی پر کافی افسوس ہوا لیکن اس درمیان میں سوچتا رہا کہ کس طرح سرفراز فیضی جیسے لوگ دوسری اور تیسری شادیوں پر لوگوں کو اکسا کر سر عام پٹواتے ہیں اور خود ایک کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آخر کب تک فاران والے ان جھمیلوں میں پڑکر اپنی انرجی ضائع کرتے رہیں گے، اس لیے جو لوگ اس کے محرک ہیں یہ ان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ دوسری اور تیسری شادیوں کے خطرات سے بھی آگاہ کریں اور اگر ہوسکے تو ایسی ٹیم تشکیل دیں جو اس قسم کے ناگہانی حالات کے موقع پر شوہروں کو تحفظ دے سکے۔
شکر منائیں کہ یہ خواتین کا جھگڑا تھا اس لیے ہمارے ممبران فورا حرکت میں آگئے اور بیچ بچاؤ کیا ورنہ آدمیوں کے لفڑے میں وہ بالکل ٹانگ نہیں اڑاتے ہیں۔ میرے اس دعوے کی تصدیق آپ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ یہاں شوہر کو بچانے میں ان کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آئی اور مظلوم دونوں طرف سے پٹتا رہا۔
اس لیے سرفراز فیضی اور ان کی تحریک کے حامی دوسرے احباب سے درخواست ہے کہ آپ لوگ اس مسئلے کا کوئی معقول حل نکالیں اور فاران کے ممبران کو اس عمل سے نجات دلائیں۔ ان ممبران پر ویسے ہی کافی ذمے داریاں ہیں، صبح کے وقت واکنگ پر آنے والی کئی خواتین کے چائے بسکٹ کے بل کی ادائیگی بھی ان کے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ ایسے میں ہمارے ایک ممبر کا خاتون کے ساتھ غائب ہوجانا ایسوسی ایشن کا نا قابل تلافی نقصان ہے۔ تمام قارئین فاران کے اس ممبر کی تلاش میں ہماری مدد کریں!
ایم ایم ویلی کے حدود اربعہ سے خاتون کے حدور اربعہ کو وہی بیان کر سکتا ہے جو موقعہء واردات پر خود موجود ہو، آپ اپنی موجودگی تو گول کر گئے لیکن مرشد جیسے ذہین قارئین یہ سوچ سوچ کر مرے جا رہے ہیں ہم کیوں نہ ہوے وہاں
آپ نے اچھا موقع گنوا دیئے
آخر تک بس ہنستا ہی رہا،دن بھر کا ذہنی تناؤ اور کسلمندی جیسے اڑن چھو ہوگئ،آپ جیسا مزاح نگار واقعے میں نہ صرف جا بجا مزاح کے پیوند لگا سکتا ہے بلکہ اشاروں میں بہتیروں کی کھنچائی بھی کرتا ہے،اب ممبران کون لوگ ہیں وہ تو ممبران سمجھتے ہی ہونگے،دیکھئے ممبران واقعے کی مزید تفصیلات بھی لکھتے ہیں کہ نہیں۔