اپنی بیویوں پہ رحم کھاؤ!

بیلن بلرامپوری ادبیات

کوئی چھ مہینے پہلے کی بات ہے جب میں یمن کونسلیٹ میں سروس کرتا تھا ایک دن میں اپنے یمنی ڈپلومیٹ کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھ کر وی ٹی اسٹیشن آرہا تھا راستے میں ایک سگنل پہ گاڑی کھڑی تھی، اسی درمیان ایک خوشنما منظر دکھا۔ بغل کی جھوپڑپٹی کے پاس ایک عورت کسی مرد کی کوٹائی کر رہی تھی مجھ سے یمنی نے پوچھا عبدالنور یہ کیوں مار رہی ہے اور یہ شخص کون ہے؟ میں نے یمنی سے کہا کہ آپ جہاں ہیں وہیں میں بھی ہوں اس لیے سبب تو نہیں بتا سکتا ہاں اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ جس وفاداری سے وہ پِٹ رہا ہے یقینا وہ اس کا شوہر ہوگا، پھر سگنل کھل گیا اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد یمنی جو گاڑی ڈرائیو بھی کر رہا تھا سامنے کے آئینے سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا “يا عبدالنور! انت تخاف من زوجتك؟”
میں نہایت سنجیدگی کے ساتھ اپنی جگہ بیٹھا رہا اور پھر اس سے کہا کہ اس روئے زمین پر مجھے آپ کسی ایک شخص کا نام بتادیں جو اپنی بیوی سے نہیں ڈرتا ہے، میرے اس جواب سے اس میں بیٹھے ہوئے دو یمنی بہت دیر تک ہنستے رہے اور پھر اس میں سے ایک نے کہا کہ میں سمجھ رہا تھا کہ یمن میں ہی ایسا ہے۔ میں نے اس سے کہا یہ آپ کی غلط فہمی ہے اسے ذہن سے نکال دیجیے یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، دنیا کے ہر خطے میں چاہے عرب ہو یا عجم، ایشیا سے لے کر یورپ تک اور آسٹریلیا سے لے کر افریقہ تک کے شوہر اپنی بیویوں سے خوف کھاتے ہیں۔ ہاں ایک بات آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہر شوہر اس بات کو چھپاکر رکھتا ہے اندر ہی گھٹ گھٹ کے جیتا ہے لیکن وہ خوفِ بیگم کو کسی سے شیئر نہیں کرتا اور یہ بات بتانے کو وہ اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اسی کا بے جا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیگمات مزید آتنک مچاتی رہتی ہیں۔
میں نے اس کو ایک واقعہ سنایا کہ ایسے ہی ایک تاجر تھا جو سمجھ رہا تھا کہ وہ تنہا ایسا آدمی ہے جو اپنی بیوی سے ڈرتا ہے وہ یہ بات کسی کو بتانا نہیں چاہ رہا تھا اور اندر ہی اندر اس بات کو لے کر پریشان تھا بالآخر اس کو ایک ترکیب سوجھی اور اس نے لوگوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ پتہ لگ جائے کہ اس معاملے میں وہ اکیلا ایسا شخص ہے یا کوئی دوسرا بھی ہے۔
ایک دن صبح وہ بازار گیا اور وہاں سے سو عدد ناریل خریدا اور ساتھ میں دو گھوڑا بھی لیا، وہ جاکر ایک شاہراہ پر بیٹھ گیا اور ایک بورڈ چسپاں کردیا کہ جو شخص اپنی بیوی سے ڈرتا ہے اس کے لیے ناریل فری ہے اور جو نہیں ڈرتا ہے وہ گھوڑا اپنے ساتھ لے کر جاسکتا ہے۔
اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ اس کا ناریل تیزی سے ختم ہورہا ہے جو بھی آتا ایک ناریل اٹھاتا اور چلتا بنتا، گھوڑے کی طرف کسی نے نہیں دیکھا ایک گھنٹے کے اندر اس کے 98 ناریل نکل گئے لیکن گھوڑے دونوں بندھے رہے۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص ادھر سے گزرا بورڈ پر نظر ڈالی اور پھر مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے بولا کہ یہ کیسے مرد ہیں جو اپنی عورتوں سے ڈرتے ہیں۔ مجھے دیکھو میں کبھی بھی اپنی عورت سے نہیں ڈرا، میں تو اسے جوتی کی نوک پہ رکھتا ہوں۔ اس تاجر نے اس کو شاباشی دی اور کہا کہ ایک گھوڑے پہ آپ کا حق بنتا ہے آپ اسے لے جاسکتے ہیں۔ وہ بہادر شوہر گھوڑے پر سوار ہوا اور اسے لے کر اپنے گھر چلا گیا۔ اب اس تاجر کے پاس دو ناریل اور ایک گھوڑا بچا رہ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک پروفیسر آئے اور وہ بھی ناریل لے کر چلے گئے۔ اب بچا ایک ناریل اور ایک گھوڑا وہ شخص بیٹھا رہا کہ یہ دونوں بھی ختم ہوجائے تو وہ اپنے گھر چلا جائے۔ اسی انتظار میں تھا کہ دور سے اسے ایک گھوڑ سوار آتا ہوا دکھائی دیا وہ جب بالکل قریب آیا تو اس نے گھوڑے اور اس شخص کو پہچان لیا یہ وہی بہادر شوہر تھا جو اپنی بیگم کو جوتی کی نوک پر رکھتا تھا۔ آدمی نے پوچھا کہ کیا ہوا کیوں لوٹ آئے؟ تو اس شخص نے کہا کہ میں گھر گیا بیوی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ گھوڑا کہاں سے لائے؟ تو میں نے اسے سارا واقعہ بتا دیا۔ جس پر بیوی نے کہا کہ تم خود بھی کالے بھجنگ ہو اور گھوڑا بھی اسی رنگ کا پسند کیے۔ وہاں دوسرے رنگ کا گھوڑا نہیں تھا؟ تو میں نے اس کو بتایا کہ ایک دوسرا سفید گھوڑا بھی تھا لیکن مجھے کالا والا پسند آیا اس لیے میں اسی کو لے آیا۔ بیوی یہ بات سن کر غصے میں آگئی اور اس نے کہا کہ میری زندگی تباہ ہورہی ہے مجھے اس کا غم نہیں ہے غم اس بات کا ہے کہ تجھ کو عقل کب آئے گی؟ کب تک ہر بات تجھ کو مٹھو کی طرح رٹاؤں، تب تمھارے بھیجے میں بات گھسے گی۔ ایک کام کرو واپس جاؤ اس گھوڑے کو بدل کر سفید والا لے آؤ اسی لیے اسے میں ایکسچینج کرنے آیا ہوں۔
اس تاجر نے پوری بات سننے کے بعد کہا کہ ایک کام کرو، ڈینگ مارنا چھوڑو گھوڑا جہاں سے کھولے تھے وہیں باندھ دو اور وہاں جو ایک ناریل بچا ہے اسے لے کر چلتے بنو، وہ شخص ناریل لے کر چلا گیا ادھر تاجر دن بھر وہاں بیٹھا رہا لیکن گھوڑا لے جانے والا کوئی بہادر شوہر نہیں آیا مجبورا وہ ان دونوں گھوڑوں کو لے کر اپنے گھر چلا گیا۔
لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد بہت سے شوہروں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پہ شئیر ہورہی تصویروں اور ویڈیوز کو دیکھ کر آپ مظلوم شوہروں کے غم کا اندازہ بآسانی لگا سکتے ہیں۔ ایک صاحب نے لکھا ہے کہ یار برتن مانجنے اور جھاڑو پوچھا تک تو ٹھیک تھا لیکن اب تو دس دس بار بچوں کے ڈائیپر بھی بدلنے پڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے صاحب نے ویڈیو شئیر کیا ہے جس میں بیوی نے شوہر کو کھاٹ سے باندھ رکھا ہے اور پوچھتی ہے کہ برتن دھلو گے کہ نہیں؟ بچوں کے کپڑے استری کروگے کہ نہیں؟ رسیوں میں جکڑا وہ شوہر سب کام کے لیے ہامی بھرتا ہے پھر بھی ویڈیو ختم ہونے تک وہ رسیوں میں بندھا ہی رہتا ہے۔
ہمارے ایک پروفیسر دوست ہیں وہ صرف دکھنے میں شریف لگتے ہیں ان دنوں ان پر آفت آئی ہوئی ہے۔ ایک ہفتہ پہلے وہ مارکیٹ گئے اور وہاں سے سبزیاں خرید کر لائے اس میں سے کچھ سبزی خراب نکل گئی۔ بیگم نے پوچھا کہاں سے لائے ہو؟ پروفیسر نے کہا جہاں سے روز لاتا ہوں وہیں سے آج بھی لایا ہوں۔ بیگم نے پھر کہا کہ جب تمھیں معلوم ہے کہ وہ سامان خراب دیتا ہے تو تم وہاں جاتے ہی کیوں ہو؟ ہمارا دوست پروفیسر بہت حاضر جواب ہے فورا بول اٹھا کہ میں سسرال بھی تو بار بار جاتا ہوں۔ اب بتائیے اتنی معمولی سی بات پر بیگم کو کس نے یہ حق دیا تھا کہ وہ سر کو ہی منڈا کردے اور اگر بات سر تک ہوتی تب بھی چلتا داڑھی مونچھ تک صاف کردیا۔ ہم تک جو تصویر پروفیسر کی پہنچی ہے وہ بہت المناک ہے، کم از کم پندرہ دن تک دوستوں کو چہرہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں پھر بھی بیگم انھیں سامان لانے کے لیے مجبور کرتی ہیں اور جیسے ہی پروفیسر آئیں بائیں کرتے ہیں بیگم وہی استرہ دوبارہ دکھا دیتی ہیں جسے دیکھتے ہی پروفیسر دروازہ کھول کر باہر نکل جاتے ہیں۔ یہاں ایک اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دو روز پہلے وہ کوئی سامان لینے نیچے اترے لیکن وہ سامان ملا نہیں اس لیے تھوڑی دور جانا پڑا۔ راستے میں کہیں پولیس سے ملاقات ہوگئی سامان تو نہیں ملا لیکن واپسی میں برف کی سلی لے کر واپس آئے، پرسوں شام سے اسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اب الحمد لله افاقہ ہورہا ہے۔
میں اس وقت اپنے گھر میں تنہا ہوں اس لیے کسی بھی قسم کی آفت و بلا سے محفوظ ہوں، گھر خالی ہونے کی وجہ سے قرب و جوار میں موجود گروپ کے ممبران یہاں تشریف لاتے رہتے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے وہ لوگ آئے یہیں پر کھانا بنانے کا انتظام بھی ہوا۔ میرے ایک ساتھی نے کہا کہ بیلن بلرامپوری صاحب چاول چلاتے ہوئے یہ چمچہ ٹیڑھا ہوگیا ہے میں نے کہا دوست اسے چمچہ کہہ کر ذلیل مت کرو، وہ کرچٌھل ہے اس نے کہا ہم لوگ اس کو چمچہ ہی بولتے ہیں۔ میں نے کہا تم کیا دنیا کا کوئی بھی شخص اسے چمچہ کہے تو میں اعتبار نہیں کروں گا اور وہ اس لیے کہ جب بھی بیگم نے اسے اپنے ہاتھ میں لیا ہے مجھ سے یہی کہا ہے دیکھ رہے ہو نا یہ کرچُھل؟
میں نے ساتھی سے دوبارہ کہا کہ بھائی اسے تو اسی حالت میں وہیں رکھ دے بیگم جب آئیں گی تو ان کو معلوم ہے وہ کیسے سیدھا ہوگا۔
کل مجھے ایک افسوسناک خبر ملی اس لیے میں ان جیسے لوگوں سے اب مخاطب ہورہا ہوں تو سن لو!
اے میری قوم کے کچھ جاہل شوہرو! یہ کہاں کی مردانگی ہے کہ تم اپنی عورتوں کو مارو پیٹو، ان پر ظلم کرو، ان کو ستاؤ تم سبق سیکھو ان پڑھے لکھے لوگوں سے، جنھوں نے ناریل کا انتخاب کیا اس میں پروفیسر بھی تھے، ٹیچر بھی تھے، مولوی بھی تھے، پولیس والے بھی تھے، افسانہ نگار بھی، کالم نویس بھی تھے، مدیر بھی تھے، نائب مدیر بھی تھے، پان چور بھی تھے، معجون فروش بھی تھے۔ گھوڑے کے چکر میں مت پڑو، ناریل والوں کے ساتھ رہو، زندگی ہمیشہ سکھ سے کٹے گی۔ اور افزائش نسل بھی ہوتی رہے گی۔ کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاؤ، ان کے دکھ درد کو سمجھو، مارنا پیٹنا دانشمندی نہیں ہے۔ خود مار کھالو لیکن بیویوں کو مت مارو۔ یہ ذلت کی آخری سطح ہے اور تم بھی اے کاشف و خبیب کی بھابھیو! شوہروں پر رحم کھاؤ اور اتنے ہی کام پر مکلف کرو جسے وہ بخوبی انجام دے سکیں۔
باہم مل جل کر رہو اور دسمبر میں عقیقے کے موقع پر بیلن بلرامپوری کو یاد کرنا مت بھولو!

8
آپ کے تبصرے

3000
7 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
7 Comment authors
newest oldest most voted
خبیب حسن

😂😂😁😁🙈🙈عقیقہ میں میں بھی ساتھ چلونگا😉😉

FAISAL NADEEM

شاندار….

ریاض الدین شاہد

اے کاشف و خبیب کی بھابھیوں رحم کھاؤ
بہت عمدہ خیالات۔

JAMAL AHMAD

آپ نے اپنے یمنی دوست کے سوالیہ الفاظ کو حذف کیوں کرديا
لماذا أنت تخاف من زوجتك؟

رشید سمیع سلفی

رگڑا تو آپ نے سب کو ہے لیکن کچھ لوگوں کو ذرا طبعیت سے رگڑا ہے۔
یہ تحریر لطائف کا مجموعہ ہے،گدگدی کرتے الفاظ وجملے، کھلکھلاہٹو‌‌ں کا شور اٹھانے والی،بڑی چابکدستی سے نشانے لگائے ہیں،بڑا لطف آیا۔۔۔۔

ارشادالحق روشاد المحکم

شاندار اور لاجواب تحریر

نذیر اظہر کٹیہاری

بہت عمدہ تحریر

ارشادالحق روشاد المحکم

.