اداس بیلن

بیلن بلرامپوری ادبیات

آج صبح کچن میں جب چائے بنانے گیا تو اچانک میری نظر کونے میں دبکے ہوئے بیلن پر پڑی۔ اس کی خاموشی اور بے بسی دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں، یہ وہی بیلن ہے جو شادی کے بعد سے ہی ہمیشہ متحرک رہا اور اپنی ذمے داریوں کو بخوبی نبھاتا رہا۔
بیگم کو اس سے بہت پیار ہے اسی لیے میں نے بارہا دیکھا ہے کہ روٹی بناتے ہوئے بیگم اسے بہت ہلکے ہاتھوں سے سہلاتی ہیں لیکن اسی بیلن کو جب بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں تو پورا زور بھی لگاتی ہیں۔ اب اس کو سہلانے والی تو ہے نہیں اس لیے میں نے سوچا کہ میں ہی یہ کوشش کرکے دیکھتا ہوں۔
میں نے تھوڑا سا آٹا گوندھا اور پیڑھا لے کر بیلن کی غمگساری کرنے بیٹھ گیا لیکن وہ کسی طرح بھی قابو میں آنے کے لیے تیار نہیں۔ کبھی اس کا دایاں حصہ زمین سے ٹکرا جاتا اور کبھی بایاں اور بارہا ایسا بھی ہوا کہ وہ میرے ہاتھ سے چھٹک کر بھاگ نکلا میں دوبارہ اٹھا کر لاتا لیکن پھر کود جاتا۔ مجھے لگا کہ وہ مجھ سے زیادہ ناراض ہے تو میں نے نہلا دھلا کر اسی جگہ پر رکھ دیا۔ حالانکہ وہ بلا وجہ مجھ پر ناراض ہے ان کی مالکن خود سے میکے گئی تھیں۔ وہ تو اپنے بیمار والد کی زیارت کرنے گئیں تھیں اگر میں انھیں جانے سے منع کردیتا تو بیگم ناراض ہو جاتیں اور شاید بیلن بھی یہی چاہتا تھا۔ وہ تو سدا موقع کی تاڑ میں ہی رہتا ہے اس کی ضد یہی رہتی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت بیگم کے ہاتھ میں رہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اسے مجھ سے اتنی چڑھ کیوں ہے؟ حالانکہ متعدد بار اسی نے میرے سر میں گومڑ بھی بنایا، دو بار اسی کی وجہ سے کہنی پہ ہفتے تک پٹی باندھنی پڑی۔ ایک بار مجھے ہفتہ بھر کی چھٹی کرنی پڑی اس لیے کہ پٹی سر میں بندھی تھی۔ کئی بار آفس میں لنگڑانے کی وجہ موچ بتانی پڑی، اس کے باوجود بھی اس کی ہمدردی بیگم کے ساتھ ہی ہے جب کہ اسے گھر میں لانے والا میں ہوں اور ایسا بھی نہیں کہ یوگی کے اسٹیٹ سے لایا ہوں اگر ایسا ہوتا تو میں سمجھ سکتا تھا کہ شاید میری داڑھی دیکھ کر وہ مجھ سے خار کھاتا ہے۔

بیگم کو گئے آج پندرہ دن سے زیادہ ہوچکے ہیں اب مجھے ان کی یاد ستانے لگی ہے۔ شادی کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ بچوں سے اتنے دن دور رہنا پڑا لیکن اس مودی باکڑ بلے کو کون سمجھائے؟ دکھ درد تو وہ سمجھتا ہے جس کے پاس خود کے بچے ہوں یا کم از کم ایک عدد بیوی ہی ہو اور یہ پھینکو رام دونوں سے محروم ہے۔

آج دوپہر میں بچوں کو فون کیا بات چیت ہوئی حالات وکوائف سے آگاہی ہوئی لیکن بیگم نے گفتگو نہیں کی ان کا مطالبہ تھا کہ میں ویڈیو کالنگ کروں تبھی وہ بات کرسکتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ بیوی کی بات مان لینے میں ہی دانشمندی ہے نہیں تو وہ ضد پہ آجائے گی اور جب تک اپنی بات منوا نہیں لے گی تب تک ضد پہ اڑی رہے گی۔ آپ جتنی سختی چاہیں کرلیں لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوسکتی مجبورا شوہر کو ہتھیار ڈالنا ہی پڑتا ہے اس لیے تجربہ کار شوہر پہلی ہی فرصت میں بیوی کے کسی بھی مطالبے کو من و عن تسلیم کرلیتا ہے۔ اب یہ شوہر کی دماغی صلاحیت پر منحصر ہے کہ اس مطالبے کو لے کر آگے وہ کس طرح ہینڈل کرتا ہے۔
میں ویڈیو کالنگ کے خطرے کو جانتا تھا اس لیے ٹال مٹول کرتا رہا (یہاں احباب یہ نہ سمجھیں کہ گھر میں میرے علاوہ بھی کوئی ہے) لیکن آج جب بیگم نے بات چیت سے ہی انکار کردیا تب مجھے مجبورا ویڈیو کالنگ کرنی پڑی۔
میں نے ویڈیو کال لگایا بیگم نے ریسیو کیا مگر مجھے دیکھنے کے بعد بھی کوئی گرمجوشی نہیں دکھی اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ عموما سبھی شوہروں کو ایسے حالات سے بارہا گزرنا پڑتا ہے۔ میں نے پوچھا طبیعت تو ٹھیک ہے بیگم؟ بولیں ہاں پھر انھوں نے پوچھا آپ کیسے ہیں میں نے کہا مزے ہی مزے ہیں، پھر پوچھا کھانا کھائے؟ یہیں مجھ سے تھوڑی سی چوک ہوگئی میں نے کہا کھا رہا ہوں بولیں کیا کھا رہے ہو دکھاؤ؟ میں نے کیمرے کا رخ موڑ کر لائیو تصویر دکھادی جسے دیکھتے ہی ان کی آواز تھم گئی اور آنکھیں نمناک ہوگئیں آگے اور مزید کچھ کہے بغیر فون بڑی بیٹی کو تھما دیا۔
بچی نے فون لیا اور بولی کہ ابو آپ نے امی کو کیا کہہ دیا کہ وہ رونے لگی میں نے کہا بٹیا میں نے تو کچھ نہیں بولا ہے بچی بولی کہ بغیر کچھ کہے کیوں روئے گی؟
در اصل میں اس وقت پاؤ اور آملیٹ کھارہا تھا اور بیگم کو یہ معلوم ہے کہ میں کبھی پاؤ نہیں کھاتا۔ پاؤ دیکھ کر ہی اس کو میری تکلیف کا احساس ہوگیا جس کی وجہ سے اس کی آنکھ میں آنسو آگئے۔
میں اپنی بیگم کو روتا نہیں دیکھ سکتا کیونکہ وہی تو ایک ہے جو میرے دکھ درد اور غم والم کے وقت بھی میرے ساتھ کھڑی رہتی ہے۔ ایسے کئی موقعوں پر اس نے مجھے حوصلہ دیا جب میں ٹوٹنے کے کگار پہ تھا۔ ایسا موقع بھی آیا کہ میری خاطر اس کی جان جاتے جاتے بچی، بھلا ایسی وفا شعار بیوی اگر روئے تو میں کیسے برداشت کرسکتا تھا۔
میں نے بچی سے کہا تم دوبارہ امی کو فون دو میں کچن میں جاتا ہوں اور دکھاتا ہوں میں نے کیا بنایا ہے؟ میں کچن میں گیا بیگم بھی فون پہ آچکی تھیں کچھ دکھانے سے پہلے بیلن کی طرف کیمرہ کرکے پوچھا اس کی یاد نہیں آتی ہے؟ بیگم روتے روتے ہنس پڑیں اور دیر تک ہنستی رہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کچن میں بیلن کی موجودگی گرچہ میرے حق میں نہ ہو لیکن اگر اسے دیکھ کر میری بیوی ہنس پڑے تو میں ایسے کئی بیلن اور لاسکتا ہوں۔
بیلن کو چھوڑیے اب تو بیلن بلرامپوری بھی اداس ہوچکا ہے اور آج میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ گرچہ دس بیس ڈنڈے پڑیں اور برف کی سلی بھی ساتھ لے کر جانا پڑے لیکن بچوں کو لائے بغیر چین سے بیٹھنے والا نہیں ہوں اور اس ضمن میں اپنی کوششیں میں نے آج سے تیز کردی ہیں۔

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
ریاض الدین شاہد

بہت خوب برف کی سلی، اور ہلدی کا لیپ ساتھ لے کر چلیں

Abdul shakoor

Join the discussion

KM Jauhar

Impressive Article