گونجتا کانوں میں ہے کچھ روبرو کچھ بھی نہیں

شمس الرب خان شعروسخن

گونجتا کانوں میں ہے کچھ روبرو کچھ بھی نہیں

ہاؤ ہو چاروں طرف ہے گفتگو کچھ بھی نہیں


کوزہ گر نے چاک کی مٹی کو پھر تنبیہ کی

میں ہی ہوں جو کچھ بھی ہوں نادان تو کچھ بھی نہیں


یوں تو ہیں دست و گریباں دل میں ساری خواہشیں

موت زندہ جب تلک ہے آرزو کچھ بھی نہیں


سانسِ جانِ جاناں بھی جب موت کا پیغام ہو

دود بھر لو حلق تک اب مشک بو کچھ بھی نہیں


خون کی بوندوں پہ تھا چارہ گروں کا انحصار

خشک تھیں میری نسیں نکلا لہو کچھ بھی نہیں


اے سرابِ عکس پر اِترانے والے بے خبر

سب فریبِ چشم ہے یاں ہو بہو کچھ بھی نہیں


برف کے میدانوں میں ہے ثبت پیروں کی دَھسَن

وزن ہے بارِ انا کا عِلمِ ہو کچھ بھی نہیں


چڑھتے سورج کو سلامی ڈوبتے کو کچھ نہیں

شمسؔ کی بس حیثیت ہے آبرو کچھ بھی نہیں

آپ کے تبصرے

3000