ایک صاحب نے انباکس میں پوچھا کہ اردو کا ایک محاورہ ہے ” پاؤں میں کلہاڑی مارنا” اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا لگتا ہے آپ بھی لاک ڈاؤن میں پھنسی ہوئی بیگم کو کہیں سے نکال کر گھر لے آئے ہیں۔ وہ ورطہ حیرت میں پڑ گئے اور کہنے لگے کہ یہ بات آپ کو کس نے بتائی؟ میں نے کہا آپ پریشان مت ہوں، مجھ سے کسی نے کچھ نہیں کہا ہے بس اسے اتفاق ہی سمجھ لیں کہ یہ محاورہ آپ کے ساتھ ساتھ میرے اوپر بھی بیک وقت فٹ بیٹھ رہا ہے۔
اب یہی دیکھیے نا کہ کتنی مشقت کے بعد بیگم کو سسرال سے چھڑا کے لایا تھا لیکن آج جب کچن میں جاکر پوچھا کہ بیگم کیا پکارہی ہیں؟ ابھی وہ میری طرف متوجہ ہی ہوئی تھیں کہ اچانک چائے ابل گئی، اس کا سیدھا ٹھیکرا بیگم نے میرے سر پھوڑ دیا اور کہنے لگیں کہ آپ یہاں نہیں آتے تو چائے نہیں ابلتی۔ میں نے ان کی طرف دیکھا اور بولا بیگم اتنی جلدی تو مودی جی بھی نہرو پہ الزام نہیں لگاتے آخر میں کوئی گیس چولہا تھوڑی نہ ہوں جو چائے کو ابال دوں، آپ بلا وجہ مجھے مورد الزام ٹھہرا رہی ہیں، میں تو مدد کے جذبے سے سرشار ہوکر کچن میں آیا تھا کہ آپ کا ہاتھ بٹا سکوں مگر آپ نے تو الٹا ہی الزام دھر دیا۔ بیگم نے گھورتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بولیں کہ چائے تو سب ابل گئی اب میں اپنے بچوں کو کیا دوں؟ میں نے کہا صرف اپنے بچے کہہ کر آپ نہ صرف میری توہین کر رہی ہیں بلکہ میرے ساتھ زیادتی بھی کر رہی ہیں کم از کم بچے بول دیتیں تو مجھے بھی تھوڑی تسلی ہوجاتی لیکن آپ یہاں بھی اکیلے کریڈٹ لے رہی ہیں چائے کے لیے تو آپ نے دھڑاک سے بول دیا کہ تم نہیں آتے تو چائے نہیں ابلتی مگر بیگم یہاں ایک بات بتائیے اگر میں آپ کی زندگی میں نہیں آتا تو یہ بچے کیسے آتے؟ یہاں تھوڑی بہت کریڈٹ تو میں لے کر رہوں گا آپ اس ضمن میں میری محنت کو یکسر نظر انداز نہیں کرسکتیں اور اگر آپ نے ایسا کیا تو میں اس کے لیے آپ سے اس وقت تک جہاد کروں گا جب تک میرا واجب حق نہیں مل جاتا اور اگر آپ نے حق تسلیم نہیں کیا تو پھر آپ کو وہ لنک بتانا ہوگا جہاں سے آپ نے ان بچوں کو ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ بیگم نے جو جواب دیا اس سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ گھر میں موجود احمد علوی کی کتاب بیگم نے پڑھ لی ہے وہ بولیں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا ہونا ضروری ہے اور آپ کا تو پورا سرور ہی ڈاؤن ہے۔ میں بولا بیگم یہ مت بھولیے کہ یہ بچے اس وقت کے ہیں جب میرا بھی انٹرنیٹ فور جی کی طرح کام کر رہا تھا۔ میری بات سن کر بیگم نے جوں ہی ٹوٹا ہوا کرچھل اٹھایا میں نے فورا سے پیشتر چھلانگ لگا دی لیکن بیگم کا تھرو بالکل سٹیک نشانے پہ آ لگا۔ دوبارہ جیسے ہی کرچھل اٹھانے بیگم آگے بڑھیں تب تک میں یوسین بولٹ کی اسپیڈ سے بلڈنگ کے نیچے پہنچ چکا تھا۔
بلڈنگ کے نیچے اترکر سوچا باہر نکل کر کچھ دور تفریح کرلوں تب تک بیگم کا غصہ بھی شانت ہوجائے گا مگر بلڈنگ کے گیٹ پہ ہی دو پولیس والے نظر آگئے جو تنبیہ الغافلين کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ پولیس نے کچھ لوگوں کو وہاں مرغا بھی بنا رکھا تھا اور کچھ سے کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کروایا جارہا تھا۔ اب میرے سامنے آگے کنواں اور پیچھے کھائی والا معاملہ تھا آخر کار میں نے یہ فیصلہ کیا کہ چوراہے پہ مرغا بننے سے بہتر ہے کہ گھر میں ہی بن لیا جائے اس سے کم از کم ایک فائدہ اور ہوگا کہ بیگم سے اپنے تعلقات دوبارہ بحال ہوجائیں گے اور پھر حسب توقع وہی ہوا بھی۔
میرے ایک صاحبزادے ہیں جن کی عمر یہی کوئی پندرہ سال ہوگی اتفاق سے وہ حافظ بھی ہیں وہ ابھی سے میرے کاندھے پہ پاؤں رکھ چکے ہیں۔ ان کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر بعد گھر میں جو دوبارہ طوفان اٹھا اسے شانت کرنے میں میرے پسینے چھوٹ گئے۔
ہوا یہ کہ بیگم نے اپنا موبائل فون گھر میں کہیں رکھ دیا تھا جو مل نہیں رہا تھا تلاش بسیار کے باوجود بھی جب ہاتھ نہیں لگا تو بیگم نے مجھ سے کہا میرے موبائل پہ فون لگاؤ اگر موبائل گھر میں ہی ہوگا تو گھنٹی بجے گی۔ میں نے بیگم کا نمبر Resident کے نام سے محفوظ کر رکھا تھا مگر جب ڈھونڈنے لگا تو نہیں ملا اس لیے بیگم سے کہا نمبر یاد ہے تو بتاؤ ڈائل کرتا ہوں۔ وہ بولیں تم کو صرف میرا ہی نمبر نہیں یاد رہتا پڑوسن کا برابر یاد ہوگا۔ میں نے کہا بیگم تمھارا نمبر محفوظ تھا مگر سمجھ میں نہیں آرہا ہے کس نے ڈیلیٹ کیا؟ بہر کیف بیگم نے نمبر بتایا اور میں نے ڈائل کرکے موبائل ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ان کا موبائل تو مل گیا لیکن ایک نئی اور انجان آفت اچانک سامنے آ کھڑی ہوئی۔ بیگم کا جو نمبر میں نے ڈائل کرکے دیا تھا وہ کرونا وائرس کے نام سے میرے موبائل میں محفوظ ملا۔ موبائل اسکرین پر دیکھتے ہی بیگم کا پارہ ساتویں آسمان پہ تھا بولیں میں تمھیں کرونا وائرس لگتی ہوں؟ حالانکہ اس کا علم میرے فرشتوں کو بھی نہیں تھا۔ یہ حادثہ کب ہوا اور کس نے کیا اس کی بھی جانکاری مجھے نہیں تھی ایسے میں صفائی پیش کرنا بھی میرے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ میں نے بیگم کا غصہ کم کرنے کے لیے فورا ہی انکوائری کمیشن بٹھا دی اور شام ہوتے ہوتے اس کے مثبت نتائج ملنے بھی شروع ہوگئے۔
ابتدائی جانچ پڑتال اور تفتیش کے بعد اس سازش میں حافظ ریحان کا نام سامنے آیا۔ بعد نماز مغرب ان کو ریمانڈ میں لے کر پوچھ تاچھ شروع ہوئی تو انھوں نے اپنا یہ جرم قبول کرلیا کہ ریسیڈنٹ کو ایڈیٹ کرکے انھوں نے ہی اس کی جگہ کورونا وائرس لکھا ہے اور اس کی جو وجہ بتائی وہ اور بھی دلچسپ ہے۔ فرمانے لگے جس روز ہم امی کے ساتھ ممبرا سے کرلا جارہے تھے اسی دن ممبرا اسٹیشن پر سیڑھی چڑھنے کے بعد اچانک امی کو کھانسی آنے لگی، بغل میں چل رہا ایک شخص کھانسی کی آواز سن کر اس رفتار سے بھاگا کہ وہ گرتے گرتے بچا۔ حافظ جی کے اس قول کی تصدیق دوسرے بچوں نے بھی کردی اور پھر بیگم بھی ہنس کر کہنے لگیں کہ ہاں یہ بات درست ہے۔ میں نے سمجھا وہ ٹرین پکڑنے کے لیے دوڑ رہا ہے لیکن پلیٹ فارم پہ تو کوئی ٹرین تھی ہی نہیں۔
حافظ جی نے مسکراتے ہوئے ایک اور واقعہ بتایا کہ کرلا میں امی کے ساتھ دوبارہ ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔ اس بار وہ ڈاکٹر کے یہاں سے پیدل لوٹ رہی تھیں کہ اچانک ان کو پھر کھانسی آگئی اور اس بار بھی وہاں موجود لوگوں نے تیزی سے راہ فرار اختیار کرلیا۔ اس کی بھی تصدیق بیگم نے کردی۔
حافظ جی نے مزید کہا کہ کل جب گھر میں آپ کا موبائل لے کر قاری سدیس کو سن رہا تھا تبھی اچانک پھر امی کے کھانسنے کی آواز کچن سے سنائی دی اور میں نے مستی مستی میں امی کا نمبر کورونا وائرس کے نام سے محفوظ کردیا۔ میں نے دل میں سوچا کہ بیٹا تمھیں نہیں معلوم تم نے مستی میں کتنی بڑی غلطی کردی ہے۔ اللہ تو مجھے کورونا وائرس سے بچا بھی سکتا ہے لیکن تم نے اس سے پہلے میری موت کا بندوبست کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
حافظ جی کی ذہانت پہ ایک باپ ہونے کی وجہ سے مجھے کافی فخر محسوس ہورہا تھا لیکن بروقت اس کا اظہار بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔ اچھا ہوا کہ حافظ جی نے جرم کا اقرار پورے کنبہ کے سامنے کیا جس میں ان کی والدہ بھی شامل تھیں۔ میں چونکہ اس وقت ایک جج کی حیثیت سے اپنا رول ادا کر رہا تھا اس لیے حافظ جی کے جرم پہ بیگم کی تسلی کے لیے ان کو سزا دینا ضروری تھا۔ بلا تاخیر میں نے انھیں نو مرتبہ کان پکڑ کر اٹھنے بیٹھنے کی سزا دی۔
اب اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ نو بار ہی کیوں؟ تو اس کا جواب بھی سن لیں اتنی ہی سزا کا مکلف بیگم نے مجھے بھی کیا تھا جس پر عمل در آمد کے بعد گھر میں ایک خوش گوار ماحول کی واپسی ہوچکی تھی۔
حافظ جی نے ایک فرمانبردار بیٹے کی طرح سنائی گئی سزا پر فورا عمل کیا اس کے بعد میں نے انھیں اپنے قریب بٹھا کر نصیحت کی کہ بیٹا کورونا وائرس ایک مہلک مرض ہے، یہ اللہ کا عذاب بھی ہوسکتا ہے۔ پوری دنیا میں لوگ اس سے پریشان ہیں، ہزاروں کی تعداد میں موتیں ہورہی ہیں اس سے بچنے کے لیے لوگوں نے گھروں میں خود کو قید کرلیا ہے۔ میں جو تم کو نیچے نہیں جانے دیتا ہوں اس کی وجہ بھی یہی کورونا وائرس ہے اس لیے بیٹا اسے مذاق مت بناؤ بلکہ ایک مسلم ہونے کے ناطے اللہ سے دعا کرو کہ وہ سارے لوگوں کو اس وبائی مرض سے محفوظ رکھے۔ نماز کی پابندی کرو قرآن کی تلاوت کو لازم پکڑو اور ہاں سنو تم کو امامت کی اضافی ذمے داری بھی اب گھر میں آج سے نبھانی پڑے گی جسے برخوردار نے منظور کرلیا اور اس کے ساتھ ہی مجلس برخواست کردی گئی۔
زبردست اور شاندار ماشاءاللہ
پڑھتے پڑھتے کب ختم ہوگیا پتہ ہی نہیں چلا۔
زبردست
اس اچھا کام کیا ہوگا کہ اس ٹنشن اور تناؤ کے وقت میں آپ سب کو ہنسارہے ہیں،ایک ماہر مزاح نگار کی طرح ایک سے بڑھ ایک شگفتہ اور باغ وبہار مزاحیہ تحریرپیش کررہے ہیں،پڑھ کر واقعی طبعیت ہری بھری ہوجاتی ہے۔جزاکم اللہ خیرا
ماشاءاللہ
اللہ سلامت رکھے، اور ایسے ہی ہمیں آپ سے محظوظ ہونے کے مواقع ملتے رہیں۔
ماشاء اللہ بہت عمدہ مضمون
ما شاء الله بهت هي زبردست انداز مسكرانا بهي ضروري هي