یادگار سلف: ایک تفصیلی تعارف

عامر انصاری تعارف و تبصرہ

کتاب : یادگار سلف
مؤلف : حافظ شاہد رفیق (فاضل مدینہ یونیورسٹی)
ناشر : دار ابی الطیب للنشر والتوزیع
اشاعت اول : جولائی ٢٠١٩م
مطبع : بیت السلام پرنٹنگ پریس
صفحات : ٥٨٨


علماء کی سوانح قلمبند کرنے کا کام ہر زمانے میں ہوتا رہا، یہ ایک عادہ مستمرہ اور سنت جاریہ ہے۔ کبھی شاگرد نے اپنے استاد اور شیخ کی سوانح سپرد قلم کی مثلا:
ابن حجر نے اپنے اساتذہ کو “المجمع المؤسس للمعجم المفهرس” میں جمع کیا۔ سخاوی نے اپنے استاد حافظ ابن حجر کی سوانح “الجواهر والدرر في ترجمة شيخ الإسلام ابن حجر” کے نام سے لکھی۔ فضل حسين بہاری نے اپنے شیخ میاں صاحب کی سوانح “الحياة بعد المماة” کے نام سے لکھی۔ سید سلیمان ندوی نے اپنے استاد شبلی نعمانی کی سوانح “حیات شبلی” کے نام سے لکھی۔ اسحاق بھٹی نے اپنے استاد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی سوانح “استاد گرامی مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی” کے نام سے لکھی۔
کبھی بیٹے نے اپنے باپ کی سوانح لکھی مثلا:
علم الدين صالح بلقينی نے اپنے والد سراج الدين بلقينی کی سوانح ” ترجمة الإمام المجتهد شيخ الإسلام سراج الدين البلقيني ” کے نام سے لکھی۔نواب صدیق حسن خاں بھوپالی کے لڑکے سيد محمد على حسن خاں نے اپنے والد نواب صاحب کی سوانح ” مآثر صديقى ” کے نام سے لکھی۔ابوالقاسم سيف بنارسی نے اپنے والد سعید بنارسی کی سوانح ” تذكرة السعيد ” کے نام سے لکھی۔مدینہ میں حماد انصاری کے لڑکے عبد الأول انصاری نے اپنے والد کی سوانح ” المجموع في ترجمة العلامة المحدث الشيخ حماد بن محمد الأنصاري ” کے نام سے لکھی۔ سید ابوبکر غزنوی نے اپنے والد داؤد غزنوی کی سوانح ” سيدي وأبي ” کے نام سے ترتیب دی۔ علی میاں ندوی نے اپنے والد عبد الحی حسنی کی سوانح ” حيات عبد الحي ” کے نام سے ترتیب دی۔صہیب حسن نے اپنے والد عبد الغفار حسن رحمانی کی سوانح ” مولانا عبد الغفار حسن رحمانی حیات وخدمات ” کے نام سے ترتیب دی۔ محمد رحمانی نے اپنے والد عبدالحمید رحمانی کی سوانح “والد محترم علامہ عبدالحمید رحمانی : کچھ یادیں، کچھ باتیں” کے نام سے لکھی۔یہاں پر فہد بن ترکی عصيمى کی کتاب ” اتحاف النبيه بمن ألف كتابا في سيرة أبيه” کا تذکرہ ضروری ہے جس میں اسی طرح کی کتابوں کو جمع کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے ۔
کچھ علماء نے اپنے گاؤں، شہر یا ملک کے علماء کے تراجم وتاریخ مرتب کرنے پر توجہ دی مثلا:
بَحْشَل واسطی کی تاريخ واسط۔حاكم نيساپوری (صاحب المستدرك) کی تاريخ نيسابور۔أبونعيم اصبهانی کی تاريخ أصبهان۔ خطيب بغدادی کی تاريخ بغداد۔ابن عساكر دمشقی کی تاريخ دمشق (جو ٨٠ / جلدوں میں ہے)۔ابن عديم حلبی کی بغية الطلب في تاريخ حلب۔ طاش كبری زاده کی الشقائق النعمانية في علماء الدولة العثمانية۔مولانا عبد الرحيم صادق پوری کی الدر المنثور في تراجم أهل صادق پور۔ مولانا حبیب الرحمن اعظمی قاسمى کی تذكره علماء اعظم گڈھ۔قاضي أطہر مباركپوری کی تذكره علماء مباركپور۔اسرائیل سلفی ندوی کی تراجم علماء اہل حدیث میوات ۔شيخ محمد يونس مدنی (استاد جامعہ سلفیہ بنارس) کی تراجم علماء اہل حديث بنارس۔
کچھ علماء نے خود نوشت سوانح حیات وآپ بیتیاں لکھیں مثلا :
نواب صدیق حسن خاں بھوپالی کی ” ابقاء المنن بالقاء المحن ” ۔علی میاں ندوی کی “کاروان زندگی ” ۔اسحاق بھٹی کی ” گذر گئی گذران ” ۔ڈاکٹر لقمان سلفی کی “کاروان حیات ” ۔شیخ عطاء الرحمن مدنی کی ” اور سمندر میں چھلانگ لگادی ” ۔
تفصیل کے لیے بکر ابو زید کی کتاب ” العلماء الذين ترجموا لأنفسهم ” کا مراجعہ مفید ہوگا ۔
کچھ علماء نے اپنے ہم مسلک علماء کی سوانح مرتب کرنے پر توجہ مرکوز کی اس پر میرا ایک تفصیلی مضمون عنقریب آئے گا – إن شاء الله – جس میں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی اور اہل حدیث علماء کی سوانح پر لکھی گئی اہم کتابوں کا تذکرہ ہے ۔ اسی ضمن میں حافظ شاہد رفیق کی زیر تبصرہ کتاب ” یادگار سلف ” ہے۔ یہ کتاب میاں صاحب کے کثیر التلاميذ شاگرد حافظ عبد اللہ غازی پوری کی پہلی مستقل سوانح ہے۔ حافظ غازی پوری کی وفات کو ایک صدی گذر گئی مگر اس جانب کسی نے توجہ مبذول نہیں کی۔ رب کریم جزائے خیر دے حافظ شاہد صاحب کو جنھوں نے حافظ غازی پوری کے فتاوی اور مقالات جمع کرنے کے بعد اس باقی ماندہ کام کی جانب توجہ دی۔ اس عظیم سوانحی خاکہ پر اہل حدیثانِ برصغیر کی جانب سے آپ خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں۔ دعا ہے رب کریم ان سے ایسے ہی کام لیتا رہے ، ان کا عزم وحوصلہ جواں رہے تاکہ ان کا قلم مزید روشنی بکھیرتا رہے۔ پرانے دستاویزات کو تلاشنا ، ان سے موتیوں کو جمع کرنا آسان کام نہیں تھا سب کچھ رب کی توفیق اور عزم مصمم سے ہوتا ہے ۔

مشمولات کتاب:
کتاب تیرہ ابواب پر مشتمل ہے ۔
پہلا باب : مولد و مسکن مئو ناتھ بھنجن ۔ مجھے اس باب کا عنوان سب سے اچھا لگا ۔ بار بار پڑھا ” مولد و مسکن مئو ناتھ بھنجن ” ۔ بڑا خوبصورت عنوان اور مسجع و مقفٰی۔ پڑھ کر ایسا محسوس ہوا گویا میں مئو کی اس علمی وادبی فضا میں پہنچ گیا ہوں جو علم و ادب کا مرکز اور فکر و فن کا سینٹر ہے ۔ یہ باب ص ٤٧ سے ٦٩ تک محیط ہے ۔ اس میں مئو کی وجہ تسمیہ، مئو میں اسلام کی آمد، دیار پورب میں علمی ترقی، مئو میں خاندان عباسیہ کی خدمات واثرات اور مئو میں دعوت اہل حدیث کا آغاز اور ارتقا جیسے عناوین پر گفتگو کی گئی ہے ۔ اس شہرِ علم وفن کے بارے میں عطاء اللہ شاہ بخاری لکھتے ہیں ” وہاں درجنوں ایسے اہل علم اس معمولی سے قصبے میں رہتے ہیں جو آستینیں سَرکا کر نہایت اعتماد کے ساتھ صحیحین کا درس دے سکتے ہیں” ۔ ص ٤٨۔
مولانا مقیم فیضی کے بقول “مئو آج بھی ہندوستان بھر کے طلبا کا مرکز نگاہ ہے ۔ وہاں کے گلی محلوں میں کرتا پہنے اور کندھے پر انگوچھا رکھے بہت سے شیخ الحدیث، نحوی، ادیب اور شاعر مل جائیں گے جن کے ہاتھ کَرگھے پر ہیں اور ذہن صدرا و شمس بازغہ کی گِرہیں سلجھانے میں لگا ہوا ہے”۔ ص ٤٨
اس باب کے آخر میں سات اہل حدیث اداروں کا بھی تذکرہ ہے ۔
دوسرا باب: ابتدائی حالات اور حصول علم
یہ باب ص ٧١ – ٨٤ پر محیط ہے۔ اس باب میں حافظ غازی پوری کی ولادت، حصول علم، مئو سے غازی پور منتقلی، مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور، مدرسہ اسلامیہ امام بخش جون پور اور مدرسہ میاں صاحب کا تذکرہ ہے جہاں آپ نے کسب فیض کیا ۔
تیسرا باب : اساتذہ کرام
یہ باب ص ٨٥ – ١١١ پر محیط ہے ۔ اس باب میں آپ کے نَو (٩) اساتذہ کرام کا تذکرہ ہے ۔
(۱)مولانا رحمت اللہ لکھنوی فرنگی محلی۔ آپ مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور کے بانی ہیں ۔ حافظ غازی پوری نے آپ سے مدرسہ چشمہ رحمت میں استفادہ کیا ۔
(۲)مفتی نعمت اللہ لکھنوی فرنگی محلی ۔ آپ بانی مدرسہ چشمہ رحمت کے بڑے بھائی ہیں ۔ مفتی نعمت اللہ فرنگی محلی سے بھی حافظ غازی پوری نے مدرسہ چشمہ رحمت میں استفادہ کیا ۔
(۳)مفتی محمد یوسف لکھنوی فرنگی محلی ۔ حافظ غازی پوری نے آپ سے مدرسہ اسلامیہ امام بخش جون پور میں استفادہ کیا۔
(۴)شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی (میاں صاحب) ۔ مدرسہ چشمہ رحمت میں تدریس کے ایام میں جب حافظ غازی پوری نے عمل بالحدیث شروع کردیا تو علم حدیث کے حصول کے لیے میاں صاحب کی خدمت میں دہلی پہنچے ۔ جن سے استفادہ کا سلسلہ تا عمر جاری رہا ۔ میاں صاحب کہتے تھے ” میرے درس میں دو ہی عبد اللہ آئے ہیں ، ایک عبد اللہ غزنوی اور دوسرے عبد اللہ غازی پوری ” ۔ ص ١٣٢
حافظ غازی پوری اپنے استاد میاں صاحب کی سوانح ” الحیاۃ بعد المماة ” اور ” مکاتیب نذیریہ ” کی ترتیب میں بھی معاون رہے ۔ ص ١٠٠
(۵)شیخ حسین بن محسن یمانی (نزیل بھوپال) ۔ آپ بہ یک واسطہ امام شوکانی صاحب نیل الاوطار کے شاگرد تھے ۔ شیخ یمانی کی ہی بدولت ہندوستان میں نادر مخطوطات (قلمی نسخے) آنا شروع ہوئے ۔ شیخ یمانی مدرسہ احمدیہ آرہ بھی تشریف لاتے ، سالانہ امتحان لیتے اور مذاکرہ علمیہ (سالانہ جلسہ) میں شریک ہوتے ۔ آپ کی کتاب ” الفتح الرباني في الرد على القادياني ” رد قادیانیت پر اولین عربی کتاب شمار کی جاتی ہے ۔
(٦)امام عباس بن عبد الرحمن شہاری یمانی ۔ آپ امام شوکانی کے شاگرد ہیں ۔ حافظ غازی پوری نے سفر حج میں آپ سے استفادہ کیا اور سند اجازہ حاصل کی ۔ اس عالی سند کی بدولت حافظ غازی پوری امام شوکانی کے بہ یک واسطہ شاگرد بن گئے ۔ حافظ صاحب کا سفر حج مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور میں تدریس کے دوران ہوا۔
(۷۔۸۔۹)مولانا عبد القادر غازی پوری ، حکیم صفدر علی جائسی ، مولانا قائم علی مئوی ۔ ان تینوں شخصیات سے حافظ غازی پوری نے ابتدائی دور میں علم حاصل کیا۔ تاہم ان کے تفصیلی حالات کا فاضل مؤلف کو علم نہیں ہو سکا ۔ لہذا جن احباب کو ان تین شخصیات کے بارے میں مزید معلومات ہوں وہ فاضل مؤلف کو باخبر کردیں تاکہ اگلے ایڈیشن میں اضافہ کیا جاسکے ۔ واللہ الموفق
اساتذہ کے تذکرے میں فاضل مؤلف نے یہ ترتیب رکھی ہے کہ پہلے مدرسہ چشمہ رحمت کے اساتذہ کو ذکر کیا ہے ، اس کے بعد مدرسہ اسلامیہ جون پور کے استاذ کو ، اس کے بعد میاں صاحب کو ، البتہ حسین بن محسن یمانی سے کس وقفے میں استفادہ کیا یہ میں نہیں سمجھ پایا ۔ اس کے بعد امام عباس شہاری کا تذکرہ ہے جن سے دوران حج استفادہ کیا ، اخیر میں ان تین اساتذہ کا تذکرہ ہے جن سے آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی مگر ان کے تفصیلی حالات مؤلف کو نہ مل سکے ۔
چوتھا باب : عملی زندگی کا آغاز
یہ باب ص ١١٣ – ٢٠٤ پر محیط ہے ۔ اس میں ان مدارس کا تذکرہ ہے جہاں حافظ غازی پوری نے تدریسی زندگی گذاری ۔ ان میں درج ذیل مدارس ہیں :
(۱)مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور: یہاں پر حافظ غازی پوری نے ٢٢ / سال تدریس کا فریضہ انجام دیا ۔ سب سے زیادہ تدریسی عمر آپ نے یہیں گذاری ۔ یہ زمانہ آپ کے شباب کا تھا جس میں آپ نے بہت جم کر تدریس کی ۔ اساطین علم وفن کی ایک بڑی جماعت اس چشمہ رحمت سے یہیں سیراب ہوئی ۔ عبد السلام مبارکپوری کے بقول ” جیسے جیسے باکمال تلامذہ آپ کے حلقہ درس سے مدرسہ چشمہ رحمت سے نکلے مدرسہ احمدیہ آرہ کو وہ حاصل نہ ہوسکا “۔ ص ١١٤
بانی مدرسہ مولانا رحمت اللہ صاحب فرنگی محلی جب تک زندہ رہے حافظ غازی پوری یہیں رہے ۔ ان کی وفات کے بعد حالات دگرگوں ہوگئے جس کی بنا پر آپ غازی پور سے بہار چلے گئے ۔
(۲)ڈیانواں: مدرسہ چشمہ رحمت کے بعد حافظ غازی پوری نے محدث عظیم آبادی کے قائم کردہ مدرسہ میں بھی چند ماہ تدریس کا فریضہ انجام دیا جہاں کئی اصحاب علم وفضل نے آپ سے استفادہ کیا جن میں محدث عظیم آبادی کے صاحب زادے ادریس ڈیانوی کا نام شامل ہے ۔
(۳)مدرسہ احمدیہ آرہ : ابراہیم آروی کے قائم کردہ مدرسہ احمدیہ آرہ میں حافظ غازی پوری نے اٹھارہ سال تدریس کا فریضہ انجام دیا اور صدر المدرسین کے عہدہ پر فائز رہے ۔ اس اداره کو لوگوں نے اہل حدیث کی مثالی یونیورسٹی شمار کیا ہے ۔ اس اداره میں طلبا کو انگریزی بھی سکھائی جاتی تھی ۔ اسی مدرسہ میں سب سے پہلی مرتبہ دار الاقامہ کا معقول انتظام کیا گیا ۔ اس اداره کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ندوہ کے ایک اجلاس میں شبلی نعمانی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ مدارس اسلامیہ کو ایک سلسلہ میں مربوط کیا جائے ، دو تین مدرسے مثلاً دار العلوم دیوبند، مدرسہ فیض عام کانپور، مدرسہ احمدیہ آرہ بطور دار العلوم کے قرار دیے جائیں اور چھوٹے چھوٹے مدرسے ان کی شاخیں قرار دیے جائیں۔ اسی مدرسہ میں سید سلیمان ندوی کو ان کے والد حصول علم کے لیے بھیجنا چاہتے تھے ۔ اس اداره میں مذاکرہ علمیہ کے نام سے ایک سالانہ جلسہ ہوتا تھا ۔
اس مدرسہ میں کچھ غیر مسلم طلبا بھی زیر تعلیم تھے جن کے لیے ایک الگ مکان میں قیام وطعام کا انتظام کیا گیا تھا ۔ اس ادارہ نے اصلاح نصاب کی جانب بھی توجہ مبذول کی اور اس میں بہتری کے لیے باقاعدہ نصابی کتابیں تیار کیں ۔ یہاں حافظ غازی پوری کی تصنیف کردہ بعض کتابیں بھی نصاب میں شامل تھیں مثلا منطق ، تسہیل الفرائض ، فصول احمدی (صرف کی کتاب) ، النحو ۔
مدرسہ احمدیہ آرہ میں حافظ غازی پوری کا فیضان اٹھارہ سال جاری رہا ۔ ابراہیم آروی کے حجاز منتقلی اور اپنے اکلوتے فرزند ابراہیم کے حادثہ قتل کے بعد حافظ غازی پوری دلبرداشتہ ہوگئے اور آرہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ۔
(۴)مدارس دہلی: آرہ کے بعد حافظ غازی پوری دہلی تشریف لائے۔ یہاں پر پانچ سال آپ نے مختلف مساجد ومدارس میں درس و تدریس کی ذمہ داری ادا کی مثلا حوض والی مسجد ، مدرسہ ریاض العلوم اور مدرسہ علی جان ۔
(۵)قیام لکھنؤ اور مشغلہ تدریس:
لکھنؤ میں آپ کا قیام تین سال رہا ۔ حافظ غازی پوری لکھنؤ میں ا پنے یتیم نواسوں کی دیکھ بھال کے لیے گئے اور خانگی معاملات میں ایسے الجھے کہ وہیں کے ہوگئے ۔ لکھنؤ میں عبد الحی حسنی (صاحب نزھہ) اور سید سلیمان ندوی سے ربط رہا ۔‌
آپ کی زندگی کے آخری ایام یہیں گذرے ۔ یہیں آپ وفات پائے اور یہیں سپرد خاک کیے گئے ۔
پانچواں باب : دینی وملی خدمات
حافظ غازی پوری نے تدریسی مشاغل کے باوجود کئی دینی وملی ذمہ داریاں نبھائیں اور مختلف اہم مناصب پر بھی فائز رہے مثلا :
تحریک آزادی ہند اور جماعت مجاہدین : حافظ غازی پوری اس کے فعال رکن تھے۔

آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس : اہل حدیثان ہند کی اولین تنظیم آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس جب ١٩٠٦م میں عمل میں آئی تو حافظ غازی پوری باتفاق رائے اس کے پہلے صدر منتخب کیے گئے ۔ پانچ سال آپ اس عہدہ پر رہے ۔ قیام دہلی کے زمانے میں ١٩١١ م میں آپ نے جسمانی کمزوری کے باعث عہدہ صدارت سے استعفیٰ دے دیا ۔

ندوہ لکھنؤ سےتعلق: حافظ غازی پوری تحریک ندوہ کے مؤیدین میں سے تھے ۔ اس کے سالانہ جلسوں میں شریک ہوتے تھے ۔ اس کے انتظامی کميٹی کے رکن بھی رہے ۔ان سب کے علاوہ کئی دینی وملی اداروں کی آپ نے سرپرستی بھی فرمائی ۔
پانچواں باب: ص ٢٠٥ – ٢٨١ پر محیط ہے ۔
چھٹا باب : دعوتی وتبلیغی خدمات
حافظ غازی پوری جہاں بھی رہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔ تبلیغی سفر پر پیدل ہی نکل جاتے ایک کپڑے میں سوکھی روٹیاں رکھ لیتے جب بھوک محسوس ہوتی تو پانی میں بھگو کر اسے تناول فرمالیتے اور کسی پر بوجھ نہ بنتے۔ اس سلسلے میں پٹنہ کے بیرسٹر علی امام کا واقعہ قابل مطالعہ ہے (دیکھیں: ص ٢٨٨ و ٣٣٢ )۔ آپ کے اسی اخلاص کی برکت تھی کہ میاں صاحب کے تلامذہ میں شاگردوں کا اتنا بڑا حلقہ حافظ غازی پوری کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں ہوا وہ حقیقت میں استاذ الاساتذہ تھے ۔
جن اہل حدیث علماء نے تبلیغی جماعت سے پہلے ہی تبلیغی تحریک شروع کی تھی حافظ غازی پوری بھی انہی میں سے ایک تھے ۔ بعد ازاں انہی اکابر اہل حدیث کی تبلیغی جماعت کو دیکھ کر مولانا الیاس صاحب وغیرہ نے اپنی تبلیغی جماعت قائم کی جس کا دستاویزی ثبوت مؤلف نے پیش کیا ہے۔ اس باب کے آخر میں حافظ غازی پوری کی ایک تقریر ” مقصد حیات عبادت ہے ” کے عنوان سے اخبار اہل حدیث دہلی کے حوالہ سے شائع کی گئی ہے ۔
چھٹا باب: ص ٢٨٣ – ٣٢٥ پر محیط ہے ۔
ساتواں باب : اخلاق واوصاف
حافظ غازی پوری سادگی، تواضع، زہد وورع، اخلاص وللہیت، اتباع سنت، عدل وانصاف، بلند اخلاقی، صبروقناعت، ذہانت وفطانت جیسے اوصاف حمیدہ سے متصف تھے۔ لوگ آپ کو صحابہ سیرت، فرشتہ صفت اور “سلف صالحین کی یادگار” کہتے تھے۔ شاید اسی مناسبت سے فاضل مؤلف نے کتاب کا نام “یادگار سلف” رکھا ہے۔ تراجم وسیر کے باب میں چند کتابیں ایسی ہیں جن سے بآسانی ان کے مشمولات کا پتہ نہیں چلتا مثلا علی میاں ندوی کے والد عبد الحی حسنی کی “نزهة الخواطر” جو ہندی علماء کے تراجم وسیر پر مشتمل ہے ، فضل حسین بہاری کی “الحیاۃ بعد المماة” جو میاں صاحب کی حیات وخدمات پر اولین کتاب ہے ، حافظ شاہد رفیق کی “یادگار سلف” جو حافظ عبداللہ غازی پوری کی حیات وخدمات پر مشتمل ہے ۔
آپ کو طبی مہارت بھی تھی، مدرسہ احمدیہ آرہ میں تدریس کے دوران آپ بیمار طلبا کا علاج بھی کرتے تھے۔ برص کی بیماری کا آپ مجرب علاج کرتے تھے۔
ساتواں باب: ص ٣٢٧ – ٣٦١ پر محیط ہے ۔
آٹھواں باب : اصول وعقائد
یہ باب ص ٣٦٣ – ٣٨٤ پر محیط ہے ۔ اس میں دس ذیلی عناوین قائم کیے گئے ہیں۔ اہل حدیث کے اصول و عقائد ، اہل سنت اور اہل بدعت کے درمیان فرق اور عقیدہ اسماء وصفات ، ایمان وکفر کے درجات اور مرتکب کبیرہ کا انجام، قرآن مجید کلام الہی ہے، حدیث نبوی کی اہمیت وحجیت ، بدعت کیا ہے؟ تقلید شخصی کی شرعی حیثیت، صحابہ کرام کے متعلق موقف، قیاس کی شرعی حیثیت، اجماع کی شرعی حیثیت۔
ان تمام موضوعات کو فاضل مؤلف نے حافظ غازی پوری کی کتابوں اور ان کی عبارتوں سے ثابت کیا ہے ۔
اردو سیرت نگاری میں عموما لوگ عقائد بیان کرنے پر توجہ نہیں دیتے ، وہ بھی مؤلف اور صاحب ترجمہ کی کتابوں سے ۔ فاضل مؤلف نے یہ بہت اچھا کام کیا ہے۔ فجزاہ اللہ خیرا
فاضل مؤلف نے ” اصول وعقائد ” کے ذکر میں ” مجموعہ رسائل ” اور ” مجموعہ فتاوی ” پر اکتفا کیا ہے جس کے مرتب وجامع وہ خود ہیں ۔ البتہ اجماع کے متعلق حافظ غازی پوری کی دوسری رائے – جس میں ان کو تامل وتردد تھا – ” اہل حدیث امرتسر ” سے ماخوذ ہے ، یہ تحریر ” مجموعہ فتاوی ” یا ” مجموعہ رسائل ” میں جگہ نہیں پاسکی تھی جیسا کہ ص ٣٨٠ کے حاشیہ پر مرقوم ہے ۔
نواں باب : تصنیفی خدمات
یہ باب ص ٣٨٥ – ٤٣٣ پر محیط ہے ۔ اس میں حافظ غازی پوری کی تصنیفات کی پانچ اہم خصوصیات بیان کی گئی ہیں اور بائیس(۲۲) تصنیفات ذکر کی گئی ہیں جو درج ذیل ہیں :
مجموعہ فتاوی ، توحید ، علم غیب کا فتویٰ ، الحجة الساطعة في بيان البحيرة والسائبة ، البحر المواج لشرح مقدمة الصحيح لمسلم بن الحجاج (غیر مطبوع)، الكلام النباه في رد هفوات من منع مساجد الله ، إبراء أهل الحديث والقرآن مما في جامع الشواهد من التهمة والبهتان ، قانون مسجد ، جواب المهتدين لرد المعتدين ، نکاح صغیرہ ، قانون گاؤ کُشی، کتاب الزکاة ، زکات کا فتویٰ ، رکعات التراویح ، مال زانیہ بعد توبہ ، منطق ، تسہیل الفرائض ، فصول احمدی ، سلم الصرف ، النحو ، ترجمہ قرآن مجید (نامکمل) ، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم (نامکمل) ۔
فاضل مؤلف نے حافظ غازی پوری کی کتابوں کو “مجموعہ رسائل” کی ترتیب پر مرتب کیا ہے ۔ واضح رہے کہ فاضل مؤلف نے حافظ غازی پوری کی گیارہ کتابوں کو ” مجموعہ رسائل استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ غازی پوری ” میں جمع کردیا ہے ۔
دسواں باب : تلامذہ
حافظ غازی پوری نے تقریباً نصف صدی کا طویل عرصہ تدریس میں گزارا ، تلامذہ شیخ الکل میں شاگردوں کا اتنا بڑا حلقہ کسی کو نہیں ملا ۔
صاحب ” الحیاۃ بعد المماة ” نے میاں صاحب کے پانچ سو تلامذہ کا تذکرہ کیا ہے۔ تنزیل صدیقی نے ” دبستان نذیریہ ” کی پہلی جلد میں میاں صاحب کے بہاری تلامذہ کا ذکر کیا ہے ، دوسری جلد میں یوپی کے تلامذہ کا ذکر خیر ہے ۔
فاضل مؤلف (حافظ شاہد رفیق) نے حافظ غازی پوری کے۱۲۵ / شاگردوں کا تذکرہ کیا ہے ، شاگردوں کا ذکر حروف تہجی کے اعتبار سے کیا ہے ۔
چند اہم نام یہ ہیں : ابو حبیب دیسنوی (برادر کبیر سید سلیمان ندوی) ، ادریس ڈیانوی عظیم آبادی (صاحب زادہ شمس الحق عظیم آبادی) ، تلطف حسین عظیم آبادی (میاں صاحب کے شاگرد خاص) ، حفیظ اللہ بندوی ، داؤد غزنوی (بانی مدرسہ تقویت الاسلام) ، سعید بنارسی (ابو القاسم سیف بنارسی کے والد) ، ظہیر احسن شوق نیموی ، عبد الرحمن مبارکپوری (صاحب تحفہ) ، عبد الرحمن آزاد مئوی (مترجم طبقات ابن سعد) ، عبد الرحمن بقا غازی پوری ، عبد الرحمن بجواوی (فرائض والے)، عبد السلام مبارکپوری (صاحب سیرت البخاری)، عبد العزیز بن عبد السلام مبارکپوری (صاحب زادہ عبد السلام مبارکپوری) ، عبداللہ شائق مئوی (بانی مدرسہ ” دار الحدیث ” مئو) ، شاہ عین الحق پھلواری (حافظ غازی پوری کے بعد مدرسہ آرہ کے صدر مدرس) ، ابو المکارم مئوی ۔
بیشتر تلامذہ نے مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور اور مدرسہ احمدیہ آرہ میں استفادہ کیا ۔ کچھ تلامذہ پر فاضل مؤلف نے یہ نوٹ لگایا ہے ” مزید حالات کا علم نہیں ہوسکا “۔ ان کے مزید حالات جن احباب کو معلوم ہوں فاضل مؤلف کو باخبر کردیں تاکہ اگلے ایڈیشن میں اضافہ ہوسکے ۔ واللہ الموفق ۔ یہ باب ص ٤٣٥ – ٤٧٨ پر مشتمل ہے ۔
گیارہواں باب : اولاد اور علمی خانوادہ
یہ باب ص ٤٧٩ – ٥٣٢ پر مشتمل ہے ۔ رب کریم نے آپ کو دو بیٹوں اور چھ بیٹیوں سے نوازا تھا ۔ فاضل مؤلف کی عنایتوں سے جو نسخہ مجھ تک پہنچا ہے اس میں اِس باب کے آٹھ صفحات ( ٤٨٢ – ٤٨٣ و ٤٨٦ – ٤٨٧ و ٤٩٠ – ٤٩١ و ٤٩٤ – ٤٩٥) بیاض یعنی سادہ ہیں اس لیے یہ باب مکمل نہیں پڑھ سکا ۔
بارہواں باب : چند رفقاء ومعاصرین
یہ باب ص ٥٣٣ – ٥٥٦ پر مشتمل ہے ۔ معاصرین کو نہ ہی حروف تہجی پر ذکر کیا گیا ہے نہ ہی وفیات کی ترتیب پر بلکہ انھیں حافظ غازی پوری سے زیادہ تعلق اور شہرت کی بنیاد پر ذکر کیا گیا ہے۔ کل دس معاصرین (ابراہیم آروی ، عبد العزیز رحیم آبادی ، شمس الحق عظیم آبادی ، ثناءاللہ امرتسری ، سلامت اللہ جیراج پوری ، عبد اللہ جیراج پوری ، عبد الحی لکھنؤی فرنگی محلی ، فاروق عباس چریا کوٹی ، شبلی نعمانی ، عبد الحی حسنی لکھنؤی) کا تذکرہ ہے۔ ابراہیم آروی کو اول نمبر پر ذکر کیا گیا ہے جن کا درحقیقت کوئی ثانی نہیں تھا ، آخر میں عبد الحی حسنی (علی میاں کے والد) کا تذکرہ ہے کیونکہ لکھنؤ ہی حافظ غازی پوری کی جائے وفات ہے۔ حافظ غازی پوری علی میاں کے والد کی ہفتہ میں ایک دوبار زیارت کرتے ، ان کے پیچھے نماز جمعہ ادا کرتے۔ حافظ غازی پوری کے مرض الموت میں صاحبِ نزهة الخواطر ان کے معالج تھے ۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ۔
تیرہواں باب : وفات اور اہل علم کے تاثرات
یہ باب ص ٥٥٧ – ٥٧٥ پر مشتمل ہے ۔ ابتدا میں قیام لکھنؤ کے اسباب ، وفات اور تدفین پر چھ صفحات لکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد سات اہل علم (ثناءاللہ امرتسری ، عبد السلام مبارکپوری ، سید سلیمان ندوی ، امام خان نوشہروی ، فضل حسین بہاری ، عبد اللہ شائق مئوی ، مختار احمد ندوی) کے تعزیتی کلمات نقل کیے گئے ہیں ، ندوة العلماء لکھنؤ کے تعزیتی جلسہ کا بھی ذکر ہے ، آخر میں ایک عربی اور دو فارسی قصیدہ در تاریخ وفات بھی مذکور ہے ۔
کتابیات :

یہاں پر ان مصادر ومراجع کا تذکرہ ہے جن سے فاضل مؤلف نے استفادہ کیا ہے ۔ کتابوں کو حروف تہجی پر مرتب کیا گیا ہے مگر صرف پہلے حرف کا ہی اعتبار کیا گیا ہے ، دوسرے حرف کا نہیں ، بعد کے حروف میں بھی حروف تہجی کی رعایت ترتیب کو مزید دقیق بنائے گی ۔
شاید اسی لیے ” تراجم علمائے۔۔۔ ” کو ” تحریک آزادی ہند” سے پہلے ،”مجموعہ فتاوی غازی پوری” کو “مجموعہ رسائل شیخ الحدیث۔۔۔” سے پہلے، “مکتوبات۔۔۔۔” کو ” مکاتیب۔۔۔۔” سے پہلے اور ” وفیات ناموران۔۔۔” کو “وفیات معارف ” سے پہلے ذکر کیا گیا ہے ۔
رسائل وجرائد اور رودادوں میں کوئی خاص ترتیب مجھے سمجھ میں نہیں آئی ۔

متفرقات (ايجابيات):
دو ناموں میں اشتباہ کے وقت دونوں میں تفریق بھی کرتے ہیں جیسا کہ قائم علی مئوی اور قائم علی عباسی مئوی کے متعلق تفصیل بیان کی ہے ۔ دیکھیں ص۷۴ کا حاشیہ ۔
حاشیہ میں کبھی کبھی فائدہ جانبیہ بھی ذکر کرتے ہیں ۔ دیکھیں ص۱۲۴ کا حاشیہ جہاں فاضل مؤلف نے بتایا ہے کہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے چھ افراد امام شوکانی کے براہ راست شاگرد تھے ۔
اسی طرح ص۴۴۲ پر حاشیہ میں لکھتے ہیں ” ایک روایت کے مطابق مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی حافظ غازی پوری سے استفادہ کیا اور درس حدیث لیا تھا لیکن کسی معتبر ذریعے سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ” ۔
متفرقات (سلبيات):
(۱) باب نمبر تین ” اساتذہ کرام ” بغیر تمہیدی کلمات کے شروع ہوا ہے ۔
(۲) بکھر بکھر جاتے (مکرر) ص۱۳۱۔
(۳) آپ کے ساتھ خاندان، تلامذہ اور دوسرے متوسلین ص۱۳۵ (متوسلین کا لفظ تھوڑا کھٹک رہا ہے)۔
(۴) ندوة العلماء کی منعقد ہونے والی ایک مجلس میں (ترجمہ کا مراجعہ مفید ہوگا) ص۱۴۰ ۔
(۵) ان خدمات گوناگوں ص۱۷۵۔
(٦) مشیت ایزدی ص۱۸۰۔
(۷) توفیق ایزدی ص۳۳۹۔
(۸) سیکڑوں علماء آپ کے شاگرد جامع اس وقت کام کر رہے ہیں ۔ ص۳۳۰۔
(۹) ص۴۹٦پر پانچویں لائن میں ابو المکارم مئوی کا نام زائد لگ رہا ہے ۔

عربی اسلوب کا غلبہ:
بعض عبارتوں میں عربی اسلوب / عربی تعبیرات کا غلبہ محسوس ہوتا ہے مثلا :
(۱)تحریک وتحریض ص۳۷۔
(۲)تردید وتغلیط ص۴۳۔
(۳)علمی مشاریع ص۴۵۔
(۴)تعمیر وتکوین ص۴۷۔
(۵)سہیم ونظیر ص۱۱۵۔
(٦)انصاف پسند طبائع ص۱۲٦۔
(۷)تقلید وتاویل سے نفور اور تحقیق واتباع سنت سے معمور ہوگیا ص۱۳۱۔
(۸)صفات وسمات ص۱۷۷۔
(۹)بدو شعور ص۲۰۵۔
(۱۰)متعدد کتب ص۲٦۹۔
(۱۱)اخلاق حمیدہ اور اوصاف مجیدہ کی نعمت عظمی ص۳۲۷۔
(۱۲)ذروہ علیا ص۳۲۸/۳۵۱۔
(۱۳)حظ وافر ص۳۲۹/۳۴۹۔
(۱۴)زاہدانہ طبع اور تورع ص۳۳۵۔
(۱۵)تصانیف وتحاریر ص۳۴۹۔
(۱٦)مرجع انام اور ماواے علماء ص۳۵۱۔
(۱۷)اوصاف اور مہارات ص۳۵۹۔
(۱۸)تحریرات اور تصانیف ص۳۸۵۔
(۱۹)تحریرات ص۳۸٦/۳۸۸۔
(۲۰)تحریرات میں فقہی عبارات ص۳۸۷۔
(۲۱)امثلہ ص۳۸۸۔
(۲۲)عبارات واقتباسات ص۳۸۸۔
(۲۳)تصنیفی مزایا ص۳۸۸۔
(۲۴)اتہامات سے مملو کتاب ص۴۰٦۔
(۲۵)حصر وشمار ص۴۳۵۔
(۲٦)سیاسی تحریکات ص۴۵۴۔
(۲۷)ذلت وخجالت ص۵۱۲۔
(۲۸)مناظرات ص۵۴٦۔
املاء / پروف کی غلطیاں:
املا کی غلطیوں میں زیادہ تر کا تعلق یا اور ہمزہ سے ہے ، کچھ الفاظ میں دونوں طرح کے املاء کے صحیح ہونے کا امکان ہے تاہم تبصرہ نگار کی حثیيت سے جو چیز مناسب لگی میں نے جمع کردیا ہے۔
شاہسوار( ص۲۱)شے (ص۳۸)آیندہ( ص۴۰۔۴۴۔۱۱۰۔۱۱۱۔۱۴۷۔۲۰۹۔۲۳٦۔۲۳۷۔۲۷۳۔۳۷۲۔۳۸۴۔
البتہ ص۲۳۲ ” آئندہ ” صحیح ہے)پیدایش( ص۷۱۔۵۲۱۔۵۵۵)مشایخ(ص۱۲۴۔۴۳۹۔البتہ ص۱۲۵ پر ” مشائخ ” صحیح ہے)چھے( ص۱۳۱۔۳۱۲۔۳۱۳)قصاید( ص۱۸۰ حاشیہ۔البتہ ص۵۵۳ پر “قصائد ” صحیح ہے)استعفا (ص۱۸۱)استعفی( ص۱۸۲ حاشیہ و۲۵۵)انڈیمان (ص۲۰۹)طیاری (ص۲۳۹)طیار (ص۳۲۱)گنجایش (ص۲٦۰)مویدین (ص۲۸۰)آزمایش (ص۲۸۸۔۲۹۱)نمایندگی( ص۲۹۴)ایک مردم خیز گاؤں پھرا( ص۲۹۷۔صحیح : پھریہا ہے۔ دیکھیں : یاد رفتگاں ص۱۱۲) ص۴۵۳ پر اسی گاؤں کا نام پھریا لکھا ہے)چاند پارے (ص۲۹۷)چاند پارہ (ص۴۴۹۔صحیح : چاند پار)ڈاڑھی ص۳۳۲۔۵۰۸۔۵٦٦)غپ شپ ص(۳۳۳۔صحیح گپ شپ ہے جیسا کہ ص۲۸۹ پر ہے)کسر نفی (ص۳۳۵۔صحیح ” کسر نفسی ” ہے جیسا کہ ص۲۹۱پر ہے)مہینا (ص۳۳۷)ذرا برابر (ص۳۳۹)ذرہ برابر (ص۳۴۵) سونے پہ سہاگا (ص۳۴۸)ناقض (ص۳۷۴)تشت از بام (ص۴۱۰)شایستگی (ص۴۱۴)دھوکا (ص۴۱۴۔۴۱۵)اڈیشن (ص۲۹ حاشیہ، ۴۱۹۔۴۳۱۔ ۴۷۲حاشیہ)ایڈیشن( ص۴۳۲)فرمایش (ص۴۳۰)سمرہ (ص۴٦۲۔صحیح سمرا ہے ، یہ مشہور اہل حدیث عالم ومناظر عبد المبین منظر کا گاؤں ہے)شاہی مسجد کٹڑہ (ص۴٦۸۔صحیح : کٹرہ ہے ، جیسا کہ کتاب کے ص٦۴ پر موجود ہے)سری من یری (ص۴۹٦۔صحیح : سر من يرى ہے ، جیسا کہ کتاب کے ص۵۰۲ پر ہے) سولھویں (ص۵۰۷)رہایش (ص۵۲۴)گریجوایٹ (ص۵۳۲)خط کتابت (ص۵۳۴) رسالجات (ص۵۴۳)ممولانا (میم کی تکرار۔ص۵۵۲)صنایع وبدایع ( ص۵۵۳)فرصت وانبساط (ص۵٦۷)

مصنف کے نقود :
فاضل مؤلف لکھتے ہیں : ” تراجم کی بعض کتب میں جو اغلاط نظر آئی تھیں ان پر نقد وتبصرہ کرنے سے صَرف نظر کیا ہے کیونکہ عموماً وہ ایک دوسرے کے تتبع اور نقل در نقل ہی کی بنیاد پر لکھی جاتی رہی ہیں ، اس لیے ہم نے ان اختلافی اقوال کے تذکرے اور ان کی تردید وتغلیط کی ضرورت نہیں سمجھى ” ۔ ص۴۳
پھر بھی چند نقد مجھے ملے جو درج ذیل ہیں:
(۱)بعض سوانح نگاروں نے حافظ غازی پوری کو فاروق عباس چریا کوٹی کا شاگرد بتایا ہے۔ فاضل مؤلف نے تحقیق سے بتایا کہ چریا کوٹی صاحب غازی پوری کے استاد نہیں بلکہ ہم درس تھے ۔ دیکھیں ص۲۹ کا حاشیہ، ص۱۱۱ کا حاشیہ اورص۵۵۱
(۲)بعض لوگوں نے بشیر سہسوانی کو حافظ غازی پوری کا استاد بنادیا ۔ فاضل مؤلف نے بتایا کہ سہسوانی اور غازی پوری دونوں معاصر ہیں ۔ دیکھیں ص۳۵۔ لیکن فاضل مؤلف نے سہسوانی صاحب کو معاصرین کے باب میں ذکر نہیں فرمایا ۔
(۳)سید سلیمان ندوی نے مدرسہ احمدیہ آرہ کے متعلق لکھا ” ان (ابراہیم آروی) ہی نے۱۸۹۰م میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک مدرسہ آرہ میں قائم کیا ” ۔ فاضل مؤلف لکھتے ہیں ” اس ادارے کی تاسیس۱۸۸۰ م میں عمل میں آئی اور گیارہ سال بعد۲۲ / مارچ۱۸۹۱ م میں اصلاح نصاب کا آغاز ہوا ” ۔ ص۱٦۳ مع حاشیہ
(۴)حافظ غازی پوری کے قیام دہلی کی بابت فاضل مؤلف لکھتے ہیں ” اس اعتبار سے حافظ غازی پوری مرحوم کے قیامِ دہلی کا کل دورانیہ چار سال نو ماہ بنتا ہے جبکہ اکثر تذکرہ نگاروں نے یہ مدت آٹھ سال لکھی ہے جو درست نہیں ” ۔ ص۱۸۷

تسامحات:
حکیم محمد ادریس سملوی کی سوانح کے مصدر میں صفحہ نمبر کا ذکر نہیں ہے ۔ ص۴۴۴
تلامذہ میں مولانا محمد اسماعیل رسول آبادی جونپوری ص۴۴٦ ، مولانا محمد قاسم علی ، مولانا محمد الدین جونپوری ص۴۷۲اور مولانا محمد مستغیث ص۴۷۴ کا صرف نام لکھا گیا ہے ۔ کوئی تفصیل ذکر نہیں کی گئی ہے ۔
محمد سلیمان ڈیانوی کی سوانح کا مرجع مذکور نہیں ہے ۔ ص۴۵۴
ص۵۳٦ پر سید سلیمان ندوی ، علی میاں ندوی اور شیخ محمد نصیف کی بات کا حوالہ مذکور نہیں ہے ۔
ص۵۴۱ پر حاشیہ میں ہفت روزہ اہل حدیث امرتسر کا سال مذکور نہیں ہے ۔
ص۵٦۴ پر عبد السلام مبارکپوری کا کلام ، ص۵٦۸ پر فضل حسین بہاری کا کلام اور ص۵۷۰ پر مختار احمد ندوی کا کلام بغیر کسی تمہید کے ذکر کیا گیا ہے ۔
ص۵۷۰ پر مختار احمد ندوی کا کلام ہفت روزہ اہل حدیث امرتسر۱۹۲۷م کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے ۔ جبکہ ندوی صاحب کی تاریخ پیدائش۱۹۳۰م اور وفات۲۰۰۷ م ہے ۔ اس لیے یہ علامہ امرتسری کا اہل حدیث نہیں ہے ، بلکہ دہلی کا اہل حدیث ہے ۔ ص۳۳٦ سے اس خیال کی مزید تائید ہوتی ہے ۔
ص۵۷۸ پر تاریخ المنوال کو عبید اللہ رحمانی (صاحب مرعاة) کی جانب منسوب کیا گیا ہے حالانکہ یہ ان کے والد عبد السلام مبارکپوری (صاحب سیرت البخاری) کی تصنیف ہے ۔دیکھیں: ص۳۳۹۔۴۳۲۔۵۲۳۔۵٦٦

سوانحی مصادر میں ممکنہ اضافات:
ص۴۴۳ پر ابو مسعود قمر بنارسی (برادر خورد سیف بنارسی) کی سوانح کے مصادر میں استاذ محترم ابو القاسم فاروقی کی کتاب ” علامہ محمد ابو القاسم سیف بنارسی : حیات اور خدمات ” ص۵۳۳۔۵۳٦ کا اضافہ مناسب ہوگا ۔
ص۴۵۰ پر داؤد غزنوی کی سوانح کے مصادر میں: حضرت مولانا داؤد غزنوی (سیدی وابی) از سید ابو بکر غزنوی ، وسید محمد داؤد غزنوی (خاندانی حالات ، سوانحی خاکہ ، حسین نامہ اعمال کی ایک جھلک) از عبد الرشید اظہر کا اضافہ مناسب ہوگا ۔
ص۴۵۲ پر سعید بنارسی کی سوانح کے مصادر میں: تذکرة السعيد، تراجم علماء اہل حدیث بنارس ص۳۷۰۔۳۸۵ اور علامہ محمد ابو القاسم سیف بنارسی: حیات اور خدمات ، باب چہارم کا اضافہ مناسب ہوگا ۔
ص۴۵۷ پر ظہیر احسن شوق نیموی کی سوانح کے مصادر میں نزهة الخواطر (ایک جلد والا نسخہ) ص۱۲۵۵ کا اضافہ مناسب ہوگا ۔
ص۴٦۰ پر صاحب تحفہ محدث مبارکپوری کی سوانح کے مصادر میں ان کتابوں کا اضافہ مناسب ہوگا : تذکرہ علمائے مبارکپور ص۱۹۴۔۲۰۵، مقدمہ تحفہ الاحوذی ، معجم المؤلفين۲/۱۰۷، نزهة الخواطر ص۱۲۷۲، مولانا عبد الرحمن محدث مبارکپوری : حیات وخدمات (لکھنؤ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا رسالہ) از عین الحق قاسمی ، تذکرہ محدث العصر علامہ عبد الرحمن مبارکپوری از عبد الرشید عراقی۔
ص۴٦۳پر عبد السلام مبارکپوری (صاحب سیرت البخاری) کی سوانح کے مصادر میں ” تذکرہ علمائے مبارکپور ” ص۲۱۵۔۲۲۳ کا اضافہ مناسب ہوگا ۔
ص۴۷۲ پر شبلی جیراج پوری کی سوانح کے مصادر میں نزهة الخواطر ص۱۲۴۲ کا اضافہ مناسب ہوگا ۔
ص۵۳۷ پر ابراہیم آروی کی سوانح کے مصادر میں نزهة الخواطر ص۱۱٦۴،الحياة بعد المماة ص۳۴۲ کا اضافہ مناسب ہوگا ۔
ص۵۴۰ پر عبد العزیز رحیم آبادی کی سوانح کے مصادر میں نزهة الخواطر ص۱۲۷۸، الحياة بعد المماة ص۳۴٦ ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (حسن البیان والے) حیات وخدمات از فضل الرحمن سلفی ، العلامة عبد العزيز الرحيم آبادي وجهوده العلمية والدعوية از ظل الرحمن تيمى کا اضافہ مناسب ہوگا۔
ص۵۴٦ پر علامہ امرتسری کی سوانح کے مصادر میں : نزهة الخواطر ص۱۲۰۵، حیات ثنائی از داؤد راز کا تذکرہ بھی مناسب ہوگا ۔
ص۵۴۸ پر سلامت اللہ جیراج پوری کی سوانح کے مصادر میں نزهة الخواطر ص۱۲۳۴ اضافہ مناسب ہوگا ۔
ص۵۵۰ پر عبد الحی لکھنؤی فرنگی محلی کی سوانح کے مصادر میں علامہ عبد الحی لکھنؤی فرنگی محلی : حیات وخدمات از ولی الدین ندوی ترجمہ محمد رافع اعظمی ندوی کا اضافہ مناسب ہوگا ۔
ص۵۵۴ پر شبلی نعمانی کی سوانح کے مصادر میں ياد رفتگاں ص۱٦۔۳۰، حیات شبلی از سید سلیمان ندوی ، شبلي النعماني علامة الهند از اكرم ندوى ، نزهة الخواطر ص۱۲۴۱ کا اضافہ مناسب ہوگا ۔
ص۵۵٦ پر عبد الحی لکھنؤی (صاحب نزهة الخواطر) کی سوانح کے مصادر میں حیات عبد الحی از علی میاں ندوی کا اضافہ مناسب ہوگا ۔
سفارشات وگذارشات :
ص۴۷۔۴۸ پر فاضل مؤلف نے مئو میں اصحاب علم وفضل کی کثرت سے متعلق تین علماء کے اقتباسات نقل کیے ہیں ، وفیات کی ترتیب پر ان کا ذکر کرنا مناسب ہوگا ۔ یعنی اول عبد السلام مبارکپوری ۔ دوم عطاءاللہ شاہ بخاری ۔ سوم مقیم فیضی کے اقوال ۔
ص۵۴۲ پر شمس الحق عظیم آبادی کی تصنیفات میں غاية المقصود کا تذکرہ بھی مناسب ہوگا ۔
ص۵۴۴ پر فارسی اشعار کا ترجمہ کرنا مناسب ہوگا ۔
ص۵۴۴ پر شبلی نعمانی کی کتابوں میں الانتقاد لتاريخ التمدن الاسلامي کا تذکرہ بھی مناسب ہوگا جو جرجی زیدان کے رد میں اولین عربی تصنیف ہے وہ بھی کسی عجمی کی۔ شبلی کی اس کتاب کو رشید رضا مصری نے اپنے مجلہ المنار میں قسط وار شائع کیا تھا۔ جرجی زیدان کے رد میں لکھی جانے والی کتابوں میں الانتقاد کو بڑے ہی ادب سے ذکر کیا جاتا ہے ۔ الانتقاد اجمل اصلاحی کی تحقیق سے دوبارہ شائع ہوچکی ہے۔
اشاریہ اعلام کا اضافہ کتاب کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرے گا۔
آخر میں استاد فاروقی صاحب کی اس گذارش پر اختتام کرتا ہوں کہ ” اسے ہندوستان سے بھی شائع ہونا چاہیے مگر ایسا ناشر شائع کرے جو زیادہ سے زیادہ سرکولیٹ کرسکے تاکہ عام قارئین تک پہنچ سکے “۔ والله الموفق

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Ishaq Ibrahim

ایسا جامع تبصرہ کم ہی کتابوں کو نصیب ہوتا ہے اور یہ بھی کتاب کی وقعت کا ایک ثبوت ہے

Md Shabbir Asghar

یادگارِ سلف کتاب مجھے لینا ہے ۔ملنے کی کیا صورت ہے