فلم شرابی کا ایک مشہور ڈائیلاگ ہے “مونچھیں ہوں تو نتھو لال جی جیسی ہوں ورنہ نہ ہوں”۔ اس فلم میں امتیابھ بچن کا کردار ایک شرابی کا ہے۔ امیت جی پوری فلم میں زیادہ تر ٹُن ہی رہتے ہیں مگر شراب کے نشے میں دھت رہنے کے باوجود بھی انسانیت اور غریب نوازی کے جذبے کو جس انداز میں فلمایا گیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔
فی الحال میرا موضوع فلم نہیں ہے لیکن جب بھی لکھوں گا تو علماء کرام سے ایک مطالبہ ضرور کروں گا کہ “باغبان”، “دوستی”، ” تھری ایڈیٹس”، “تارے زمین پر” یا اس جیسی دیگر فلمیں دیکھنے کی اجازت طلباء مدارس کو دے دینی چاہیے۔
میں ایسے کچھ علمائے کرام ومفتیان عظام کو جانتا ہوں جو عمر کے آخری پڑاؤ پر ہیں۔ وہ متقی اور پرہیز گار بھی ہیں مگر ان کو فلم “مغل اعظم” دیکھنے کا شرف حاصل ہے۔ اب چونکہ وہ مدھو بالا کی اداؤں سے لطف اندوز ہوچکے ہیں تو عالیہ بھٹ کو دیکھنے کا حق آج کے طلباء کو بھی ملنا چاہیے لیکن یہ بحث پھر کبھی۔
لاک ڈاؤن کے چلتے مونچھیں کب نتھو لال جیسی ہوگئیں پتہ ہی نہیں چلا۔ یہ راز اس وقت کھلا جب دوپہر کے کھانے میں لقمے کے ساتھ منہ میں کچھ بال بھی آگیا۔ میں نے کہا بیگم! میں یہ مانتا ہوں کہ آپ کے سر پہ خزاں کا موسم آچکا ہے اور ایک ایک کرکے سارے بال گرنے لگے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ ہماری خوراک کا حصہ بنیں۔ بیگم نے میری طرف کنکھیوں سے دیکھا اور بولیں: کباٹ کے آئینے میں جاکر پہلے اپنا تھوپڑا دیکھ لو پھر مجھ پر الزام تراشی کرو۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب میں نے خود کو آئینے کے سامنے پیش کیا تو اپنا عکس دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں خود کو ہی نہیں پہچان سکا اور ایک لمحے کے لیے ایسا لگا کہ نقلی شوہر بن کر میں اس گھر میں گھس آیا ہوں۔ بیگم نے جب یہ یقین دہانی کرائی کہ میں ہی ان کا اصلی اور سگا شوہر ہوں تب جاکر مجھے اطمینان ہوا۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے حجام کی ساری دکانیں بند چل رہی ہیں اس لیے مونچھ تراشنے کا کوئی نہ کوئی بندوبست مجھے ہی کرنا تھا۔ میں ترکیب سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک یاد آیا یہی کوئی تین سال پہلے بھنگار کی دکان سے بال کاٹنے والی الیکٹرک مشین اٹھا کر لایا تھا جس کے استعمال کی ضرورت آج تک نہیں پڑی تھی مگر آج موقع تھا کہ جانچ لیا جائے وہ مشین قابل استعمال ہے کہ نہیں؟ میں نے فورا بیگم سے پوچھا آپ کو یاد ہے تین سال پہلے بال کاٹنے کی ایک مشین لایا تھا وہ کہاں ہے؟ بیگم نے کہا پچھلے پچیس سال سے سینتالیس سالہ پرانا انجن ابھی تک سنبھال کر رکھا ہے (غالبا ان کا اشارہ میری طرف تھا) تو مشین کو تو ابھی تین سال ہی ہوئے اور پھر ایک جھٹکے میں بیگم نے مشین لاکر سامنے رکھ دیا۔
میں نے مشین ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھا تو اس میں بھیڑ (Sheep) کے کچھ بال نظر آئے۔ مشین کا سائز بھی بڑا تھا اور وزن بھی، اس لیے مجھے لگا شاید لداخ کی پہاڑی پر بھیڑوں کے بال کاٹنے میں اس کا استعمال ہوتا رہا ہوگا۔ میرے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا اس لیے میں نے اسی مشین کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
چارج پہ لگانے کے بعد میں نے مشین کو چالو کیا ہی تھا کہ بلڈنگ کے بچوں کا ایک فلک شگاف شور سنائی دیا۔ میری چھوٹی بچی کی بھی آواز سنائی دی جو بچوں کے ساتھ چیخ رہی تھی کہ دھواں والا آیا دھواں والا آیا۔ میں نے زور سے بچوں کو ڈانٹا تو وہ سب خاموش ہوگئے۔
در اصل اس میں بچوں کی غلطی نہیں تھی۔ مشین کی آواز میونسپلٹی کے دھواں چھڑکاؤ کرنے والے آلے کی آواز سے ملتی جلتی تھی اسی لیے بچے یہ سمجھے کہ ٹی ایم سی کا عملہ دھواں کا چھڑکاؤ کر رہا ہے۔
اس ڈر سے کہ مشین کی آواز باہر نہ جائے میں نے کھڑکی دروازہ سب بند کردیا اور پھر مشین کو چالو کرکے سوچنے لگا کہاں سے شروع کروں؟ خود سے مونچھ بنانے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ کافی دیر تک میں شش وپنج میں رہا اور پھر ہمت جٹا کر مونچھ کے دائیں جانب مشین چلا دیا یکایک ایک جھٹکا لگا اور مشین کا ہینڈل میرے ہاتھ میں آگیا جب کہ اوپری حصہ بیا چڑیا (چنگل چہرہ) کے گھونسلہ کی طرح مونچھ کے ساتھ الٹا لٹک گیا۔ میری تو چیخ نکل گئی آواز سن کر بیگم بھی دوڑی چلی آئیں اور اچانک میرے پاس پہنچ کر وہ بھی رک گئیں اور کہنے لگیں کھڑکی دروازہ بند ہے پھر یہ کیسے گھر میں گھس آیا؟ ان کو لگا میری مونچھ پر چمگاڈر کا کوئی بچہ لٹک رہا ہے لیکن جب میں نے ان سے کہا بیگم یہ وہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہی ہیں تب وہ آگے بڑھیں اور مشین کے ساتھ الجھے ہوئے مونچھوں کو سلجھانے کی کوشش کرنے لگیں مگر ناکام رہیں۔ مجھ کو کھڑے رہنے کا اشارہ کرکے وہ باہر نکل گئیں اور تھوڑی دیر میں ایک قینچی کے ساتھ دوبارہ حاضر ہوئیں۔
قینچی دیکھتے ہی میرے ہاتھ پیر سرد ہوگئے۔ اس کا سائز بھی اسی ابن کلیم والی قینچی سے ملتا جلتا تھا جسے دو ہفتہ پہلے میرے مضمون کے ساتھ چسپاں کیا تھا۔ میں نے بیگم سے کہا آپ غلط قینچی اٹھا لائی ہیں جس پر بیگم نے مسکرا کر کہا ڈرو مت مجھے پتہ ہے کیا کاٹنا ہے اور پھر پلکتے جھپکتے ہی انھوں نے مشین کو مونچھ سے آزاد کرادیا۔
میں نے آئینے میں جب دوبارہ خود کو دیکھا تو لگا کسی آرکیٹکٹ نے میری مونچھ پر دو منزلہ عمارت کے پلان کا نقشہ کھینچ دیا ہے گراؤنڈ فلور سے لے کر فرسٹ فلور اور پھر دوسرا منزلہ تک صاف نظر آرہا تھا۔
فی الحال میری حالت قابل ترس ہے اور میں اب سماج اور معاشرے میں مونچھ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ اسی لیے گھر سے باہر بھی نہیں نکلتا۔ سوچتا ہوں اگر اس حال میں بلڈنگ والوں نے دیکھ لیا تو یہی کہیں گے کہ لاک ڈاؤن میں بھی اس کی چھچھوری عادتیں نہیں گئیں اور اگر باہر والوں نے دیکھ لیا تو وہ یہ سوچیں گے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے باہر موقع نہیں ملا تو بلڈنگ میں ہی کسی کو چھیڑ کر اپنی حجامت بنوالی۔
میرا دوست پروفیسر اس معاملے میں بہت خوش قسمت ہے۔ پچھلے مہینے جب کچھ لوگوں نے اسٹیشن پر سر منڈوا کرکے گھر بھیجا تو راستے میں مسجد کے امام صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ پروفیسر کو اس حالت میں دیکھ کر امام صاحب آگے بڑھے اور معانقہ کرتے ہوئے یہ مصرع بھی گنگنایا:
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
امام صاحب کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ شاید میرا دوست عمرہ کرکے آیا ہے۔ دوست بھی میرا کم عقل مند نہیں ہے وہ فورا امام صاحب کی نیت بھانپ گیا اور ان سے کہنے لگا کہ ملتزم سے چمٹ کر میں نے آپ کے لیے خصوصی دعا کی ہے، حالانکہ اسٹیشن پہ کسی اور سے چمٹنے کے جرم میں اسے یہ سزا ملی تھی۔
گھر میں بیٹھے بیٹھے زیادہ دن ہوگئے ہیں۔ اب تو بیگم بھی دھمکیاں دینے لگی ہیں اور ساتھ ساتھ پھبکیاں بھی کس رہی ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے جب میں نے گھر کے صفائی ابھیان میں شرکت سے انکار کیا تو بیگم نے بچی سے کہا میرا فون دے۔ سو نمبر پہ ڈائل کرکے بول دیتی ہوں کہ پچھلے تین دن سے گھر میں بیٹھ کر صرف کھانس ہی رہے ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا مجبورا مجھے کچن کی صفائی کرنی پڑی۔
اور تو اور وہ آئے دن آتے جاتے بولتی بھی رہتی ہیں کہ پتہ نہیں یہ وبا کب دور ہوگی؟ اب وہ کرونا کو کہہ رہی ہیں یا مجھے پتہ نہیں لیکن جب بھی وہ یہ جملہ کہتی ہیں میری طرف ضرور دیکھتی ہیں۔ میں بھی پوچھنے کی ہمت نہیں جٹا پارہا ہوں اس لیے اپنے پروفیسر دوست کی نصیحت پر عمل کر رہا ہوں کہ کرونا سے لڑنا ہے ڈرنا نہیں اور بیگم سے ڈرنا ہے لڑنا نہیں۔
اب میں آئینے میں اپنا چہرہ بار بار دیکھتا ہوں اور ہر بار یہی سوچتا ہوں کہ مجھے جو کام نہیں معلوم تھا اسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مشین کا استعمال کرکے میں نے اپنی مونچھوں پہ خود ہی کلہاڑی مار لی تھی لیکن اس غلطی سے مجھے ایک نصحیت ضرور ملی کہ جس کا جو کام ہے وہی کرے ورنہ صرف نقصان ہی ہاتھ آئے گا۔ مثال کے طور پہ ایک عالم دین کو ہی شرعی مسئلے میں زبان کھولنی چاہیے کوئی بردر یا بے ساختہ دانشور اگر شرعی امور میں گیان پیلنے لگا تو اپنے ساتھ ساتھ قوم کو بھی رسوا کرے گا۔ اسی طرح کورونا کے سلسلے میں ڈاکٹروں کو ہی یہ حق ہے کہ وہ اس بیماری کی باریکیوں اور اس کے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کریں اب اگر کوئی بابا رام دیو میدان میں کود کر کرونا کا علاج بتائے گا تو پھر وہ لوگوں کو پیشاب ہی پلائے گا بالکل اسی طرح جیسے کوئی چائے بنانے والا آپ کو نصیحت کرے گا تو وہ تھالی اور تالی ہی بجوائے گا بھلے وہ کسی ملک کا وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو۔
بہت خوب۔۔رشک کی حد تک عمدہ ہے۔۔۔مزہ آگیا
ماشاءاللہ بہت عمدہ قابل رشک تحریر
بہترین.
کیا روانی ہے قلم میں، کہیں بوریت محسوس ہی نہیں ہوئی..
یہ مزاحیہ تحریر بڑی پہلو دار ہے،گدگدی بھی لگارہی ہے،کھنچائی بھی کررہی ہے،دینی نصیحت اور پروچن بھی لائی ہے،سماجی کمزوریوں کی طرف اشارے بھی کررہی ہے،موجودہ سیاست کو آئینہ بھی دکھارہی ہے،یہ ہوتی ہے بامقصد اور تعمیری مزاحیہ تحریر،اللہم زدفز