کئی لوگوں کو فخر سے کہتے سنا ہے کہ “وہ کون سا کام ہے جو عورت نہیں کر سکتی ہے؟” اس کا مبنی برحقیقت جواب یہ ہے کہ دنیا کا ہر کام مرد و عورت دونوں انجام دے سکتے ہیں۔ جب جانوروں کو تربیت دے کر بہت سے کام سکھائے جاسکتے ہیں تو مرد و عورت کو تو اور آسانی سے تربیت دے کر ہر کام سکھایا جا سکتا۔ لیکن جہاں کام کرنے والے کئی لوگ موجود ہوں وہاں ایک سمجھدار انسان یہ دیکھے گا کہ کسے کون سا کام سونپنا زیادہ مناسب ہوگا؟ تاکہ ایک ادارہ بہترین نتائج برآمد کر سکے۔ مثلا ایک آدمی مضبوط جسم کا ہے تو اسے فوجی ذمہ داریاں دی جائیں گی۔ کسی کا حافظہ مضبوط ہو تو اسے حساب کتاب سنبھالنے کی ذمہ داری دی جائے گی۔ کوئی بات کہنے کا ڈھنگ جانتا ہے تو اسے ادارہ کا ترجمان بنا دیا جائے گا۔ کسی کی آواز اچھی ہے تو اسے مؤذن بنا دیا جائے گا۔ کسی میں تجزیہ کی اچھی صلاحیت ہے تو اسے مکھیا اور جج بنا دیا جائے گا۔ کسی کے اندر نرمی اور بات سمجھانے کا ہنر ہے تو اسے ٹیچر بنا دیا جائے گا۔ اس طرح ایک ادارہ یا سماج بہتر نتائج برآمد کرتا ہے۔ فوجی سے حساب کتاب کا کام اور منیم کو فوجی کی ذمہ داری دینے کی بات کرنا نادانی اور تعمیری اجتماعی شعور کے خلاف ہے۔
دراصل خاندان بھی ایک ادارہ ہے جو ایک مرد اور ایک عورت کی شادی سے وجود میں آتا ہے۔ اس ادارے کا مقصد ایک باصلاحیت نسل پیدا کرنا ہے جو نسل انسانی کو بحسن و خوبی آگے بڑھائے۔ یہ ایک انتہائی حساس ادارہ ہے۔ اس میں حسنِ انتظام کا خیال نہ کیا جائے تو آنے والی نسل ناکارہ اور تاریخ انسانی پر ایک دھبہ ثابت ہو سکتی ہے۔ لہذا بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس ادارہ کے دو میدان عمل ہوتے ہیں ایک گھر کی چہار دیواری کے اندر اور دوسرا چہار دیواری کے باہر۔ اور دونوں ہی میدان مکمل توجہ کے طلبگار ہیں۔ اندر کے میدان کو عقل سے زیادہ جذبات کی ضرورت ہوتی ہے اور باہری میدان کو جذبات سے زیادہ عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اندرونی میدان عمل میں گداز جسم اور نرم مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ باہری میدان میں مضبوط اعصاب اور مزاج میں جماؤ اور مضبوطی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اس ادارہ کے ذمہ داران یعنی میاں اور بیوی کو طے کرنا ہے کہ کسے اندر کی ذمہ داری نبھانی چاہیے کسے باہر کی؟ اچھے نتیجے کے لیے یہ نہیں سوچا جائے گا کہ کچھ دن تم گھر کے اندر کا لطف لو کچھ دن میں اندر کا لطف لوں۔ پھر کچھ دن میں باہر کا لطف اٹھاؤں کچھ دن تم۔ بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ کون سی ذمہ داری کون بہتر انجام دے سکے گا۔
اب ہم اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ خاندانی ادارہ کے پروڈکٹ یعنی اولاد کی اچھی تربیت بے انتہا ضروری ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بچہ نو ماہ تک ماں کی پیٹ میں ہوتا ہے۔ پیٹ کے اندر ہی بچہ ماں سے مانوس ہو جاتا ہے۔ پیدا ہوتے ہی بچے کو دودھ کی ضرورت ہوتی ہے جو فطری طور پر ماں ہی فراہم کر سکتی ہے۔ بچہ نازک بدن اور نازک مزاج ہوتا ہے۔ اس کی دیکھ بھال کے لیے کسی ایسے کی ضرورت ہے جو فطری طور پر نرم بدن اور نرم مزاج ہو۔ یہ کام بھی باپ کے مقابلے ماں ہی بہتر انجام دے سکتی ہے۔ اسی طرح بچہ کو کسی ایسی ذات کی ضرورت ہوتی ہے جو عقل سے زیادہ جذبات سے کام لیتی ہو۔ جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو کھل کر انجوائے کرتی ہو۔ اس معاملے میں بھی ایک ماں ایک باپ سے بہتر ثابت ہوگی۔ جو عورت مردوں کی طرح سر پر گھروں کی ذمہ داریاں اٹھا لیتی ہے اس کے اندر بھی جذبات پر عقلیت غالب آ جاتی ہے۔ اس پر ہم خوش ہو جاتے ہیں کہ دیکھو عورت مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ انسانیت کے لیے بڑے خسارہ کی بات ہے۔ کیونکہ ہم نے جذبات کی پوری کان کو عقلیت کی مٹی سے پاٹ دیا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ بچے کی مربی یعنی ماں کو گھر سے باہر کی جھنجھٹ سے مکمل طور پر آزاد ہونا چاہیے۔ کیونکہ باہری جھنجھٹ انسانی جذبات کو متاثر کرتی ہے۔ اگر ماں کے اوپر بھی باہری ذمہ داریاں ڈال دی جائیں تو اس کے بھی جذبات متاثر ہوں گے۔ اور اس کا منفی اثر سیدھا ہمارے پروڈکٹ یعنی بچوں پر پڑے گا۔
اب باہری میدان عمل کو دیکھتے ہیں۔ ہماری خواہش اور نعرے کچھ بھی ہوں لیکن گھر سے باہر کی دنیا پر پہلے دن سے ہی مردوں کی اجارہ داری رہی ہے۔ اس لیے آج جب ایک عورت مردوں کے درمیان کام کرنے جاتی ہے تو اسے وہاں باقی رہنے کے لیے اپنی نسوانیت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اب ریڈیکل فیمینزم کی ماری لڑکیوں کو لفظ نسوانیت سے بھی چڑ ہے۔ ان کے مطابق مرد عورت کے درمیان بس جنسی اعضاء کا فرق ہے۔ مردوں عورتوں کے الگ الگ مزاج یہ پدر شاہی سماج کی دین ہے۔ لڑکیوں میں موجود نزاکت، نرمی، جذباتیت وغیرہ کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔ لہذا کارپوریٹ میں کام کرنے والی لڑکیاں اس نسوانیت کو بتكلف دبانے کی کوشش کرتی ہیں۔ مردوں جیسے کپڑے پہنتی ہیں اور انہی جیسے ایٹیٹیوڈ اختیار کرتی ہیں۔ لیکن مردوں کے ساتھ بہت زیادہ گھل مل جانے کے بعد بھی نسوانیت متاثر تو ہو جاتی ہے لیکن اندر سے نکلتی نہیں ہے۔ بلکہ ایسی لڑکیاں مردانگی اور نسوانیت کا عجیب و غریب مکسچر بن جاتی ہیں۔ اس کے باوجود آفسرز کے باس لڑکیوں کو کام دلانے، کام پر باقی رکھنے یا پروموشن کے لیے اسی مکسچر کے بیچ سے عورت کی نسوانیت کو کھینچ نکالتے ہیں۔ یہی ہے وہ نسوانیت جس کا کچھ عورتیں انکار کرتی ہیں اور اسے چھپانا چاہتی ہیں لیکن مرد اسے تاڑ لیتا ہے۔ نسوانیت کا انکار کرنے والی بولڈ سے بولڈ لڑکی بھی آفس میں اپوائنٹ ہوجائے تو سارا مرد اسٹاف تروتازہ ہو جاتا ہے۔ یہی ہے وہ نسوانیت جسے نام نہاد آزاد عورت چھپانا چاہتی ہے لیکن مرد اسے جھانک لیتا ہے۔ مطلب عورتوں کے اندر فطری طور پر نسوانیت نام کا ایک حسن ہے جسے گھر سے باہر کام پر نکلنے والی عورتیں گنوا بیٹھتی ہیں۔ لیکن بات یہیں تک محدود نہیں ہے۔ مردوں کی اجارہ داری والے کارپوریٹ سیکٹر میں عورتوں کا معاشی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ عموماً انھیں تنخواہیں مردوں سے کم دی جاتی ہیں۔ مہینے میں ماہواری کے ایام انتہائی بے چینی کے ہوتے ہیں ایسے میں باہر کی ذمہ داری بھی عورتوں کے سر ڈال دینا، ان کے ساتھ انتہائی درجہ کا غیر انسانی سلوک ہے۔ اس کے بعد حمل کے ایام میں سروس کرنا اور آفسوں کا ذہنی بوجھ لینا یہ کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہے۔ یا پھر عورت کو مہینوں گھر بیٹھا کر تنخواہ دی جائے تو اس میں بھی سراپا نقصان ہے۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ باہر کی ذمہ داریاں عورتوں کی فطرت کے ہی خلاف ہے۔ جبکہ مرد اس کے لیے فطری طور پر بالکل فٹ ہے۔ اسے نہ تو ہر مہینے ماہواری آتی ہے، نہ ہی اسے نو مہینے تک بچہ پیٹ میں رکھنا ہے، نہ اسے بچہ جننا ہے، نہ اسے بچہ کو دودھ پلانا ہے، نہ تو اس کے سخت بدن کا بچہ محتاج ہے، نہ تو اسے آفس میں اوروں کے مقابلے میں تنخواہ کم دی جاتی ہے، نہ تو اسے اپنی مردانگی کو چھپانا پڑتا ہے، نہ تو پروموشن کے لیے کسی کو لفٹ کرانی پڑتی ہے۔ (چاپلوسی ایک الگ چیز ہے) مرد سخت کام بھی آسانی سے انجام دے سکتا ہے۔ مرد کا جذباتی طور پر استحصال کرنا آسان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری باتیں ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ گھر سے باہر کا جو میدان عمل ہے اس کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے مرد زیادہ موزوں ہے۔ یعنی پتہ چلا کہ گھر کے اندر کی ذمہ داری کے لیے عورت اور باہر کی ذمہ داری کے لیے مرد زیادہ مناسب ہے۔ لہذا اچھی نسل تیار کرنے کے لیے اس انسانی فطرت کا خیال کرنا ضروری ہے۔ لیکن جس سماج میں مادی فوائد حاصل کرنے کے لیے مرد و عورت کی اس فطری ذمہ داری کو نظر انداز کر دیا گیا اس سماج کا خاندانی ادارہ کس طرح برباد ہو کر رہ گیا ایک ایک الگ موضوع ہے۔ اس پر بات پھر کبھی۔
لہذا جس قوم اور سماج میں خاندانی ادارے کی اہمیت برقرار ہے انھیں یہ سوال نہیں کرنا چاہیے کہ عورت گھر کے باہر کام کر سکتی ہے یا نہیں؟ یا مرد باہر کا کام چھوڑ کر گھر کا کام کر سکتے ہیں یا نہیں؟ کیوں کہ یہ سوال بالکل بے معنی ہے۔ ظاہر سی بات ہے دنیا میں ایسا کوئی کام نہیں ہے جو ایک عورت نہ انجام دے سکے، نہ ہی کوئی کام ایسا ہے جسے مرد نہ کر سکے۔ اس لیے سوال یہ ہونا چاہیے کہ کون سا کام عورت کے لیے مناسب ہے؟ اور کون سا کام مرد کے لیے؟
ما شاء الله!!!
ایک خوبصورت اور عمدہ تحریر جس کی حساسیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا!!!
اللہ جزائے خیر دے اور لوگوں کو فطرت کی سمجھ عطا فرمائے۔
آمین!!!