برونر کا نظریۂ تعلیم

سعیدالرحمن سنابلی تعلیم و تربیت

جیروم سیمور برونر Jerome Seymour Bruner (1915 تا 2016) جن کے نظریات نے موجودہ نظام تعلیم پر خاصا اثر ڈالا، نیویارک، امریکہ کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے جو کہ پولش مہاجر تھا۔ پیدائش کے وقت برونر نابینا تھے۔ دوسال بعد آپریشن سے ان کی بینائی بحال ہوئی۔ برونر ان عظیم ماہرین نفسیات میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنے نظریات سے ساری دنیا کو متاثر کیا۔ انھوں نے سو سال کی عمر پائی۔ وقوفی نفسیات ( cognitive psychology) پر بڑا کام کیا ہے۔ ذہنی یا وقوفی آموزش کا نظریہ ( cognitive learning theory) پیش کیا۔ ان کا ماننا ہے کہ بچوں کو کسی بھی عمر میں کوئی بھی مضمون پڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے اسپایرل نصاب ( spiral curriculum) متعارف کرایا جس پر ہم آگے گفتگو کریں گے۔ آج دنیا بھر میں رائج تعلیمی نظام عام طور پر برونر ہی کے نظریات پر مبنی ہے۔ کسی نظام کی بنیادوں کو سمجھ کر ہم اس نظام کی تنفیذ اور بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ لہذا آج ہم اختصار کے ساتھ برونر کے آموزشی نظریات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اسے جان کر ہم بچوں کی آموزشی عمل کو مزید آسان اور مفید بنا سکتے ہیں۔

آموزش کسے کہتے ہیں اس بات کو لے کر ماہرین کے دو نظریات ہیں۔ ایک نظریہ ہے کہ آموزش انسان کے برتاؤ میں تبدیلی کا نام ہے۔ یہ آموزش کا برتاوی نظریہ کہا جاتا ہے۔ تھارن ڈائک اور اسکینر وغیرہ اس نظریہ کے بڑے نمائندے ہیں۔ جبکہ دوسرا نظریہ ہے کہ آموزش اصل میں وقوفی/ ذہنی تبدیلی کا نام ہے۔ اسے آموزش کا وقوفی / ذہنی نظریہ کہا جاتا ہے۔ پیاجے اور برونر اس نظریے کے سرخیل ہیں۔ لہذا برونر نے ذہنی آموزش کو تین مراحل میں تقسیم کیا ہے:

1- مظاہراتی مرحلہ( Enactive stage): یہ مرحلہ عام طور پر بچے کی پیدائش سے لگ بھگ ایک سال کی عمر تک رہتا ہے۔ اس عمر میں بچہ خود عمل اور مظاہرہ کر کے کوئی بات سیکھتا ہے۔ آپ اسے بول کر، اشارہ کر کے یا کوئی تصویر اور ویڈیو دکھا کر نہیں سکھا سکتے۔ مثلاً بچہ جھنجھنا بجانا خود عمل کر کے سیکھتا ہے۔ پہلے وہ جھجنجھنے کو ہاتھ میں لیتا ہے جس کی حرکت سے آواز ہوتی ہے۔ پھر کرتا ہے، پھر کرتا ہے یہاں تک کہ اس کی سمجھ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اسے ایسے حرکت دینے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ اسی چیز کو اگر ہم بول کر سکھانا چاہتے تو بچے کو نہیں سکھا سکتے تھے۔ اسی طرح بچے کا پلنگ کے کونے کا سہارا لے کر کھڑا ہونا۔ ہم چاہیں کہ اسے بول کر سمجھا دیں کہ ایسے کونا پکڑ کر کھڑے ہو جاؤ، نہیں کر سکتے۔ لیکن بچہ خود ایسا کرتا ہے گرتا ہے، کرتا ہے گرتا ہے اور آخر کر اس کے محدود ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ پلنگ کے کونے کا سہارا لے کر کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔ یہ عمر کا وہ مرحلہ ہوتا ہے جب ذہنی نشوونما کی بنیاد پڑ رہی ہوتی ہے۔ ہاں کچھ کام ہیں جو انسان کے بالغ ہوجانے کے بعد بھی کر کے ہی سیکھنے پڑتے ہیں۔ جیسے ڈرائیونگ، مارشل آرٹس وغیرہ۔ یہ سارے ہنر صرف سن یا دیکھ کر سیکھنا مشکل ہے۔

2- تصویری مرحلہ( Iconic Stage): یہ مرحلہ ایک سال سے لگ بھگ چھ سال تک رہتا ہے۔ اس مرحلے میں بچہ کی اتنی نشوونما ہوچکی ہوتی ہے کہ اسے کوئی چیز خود کر کے یا تصویر اور ویڈیو دکھاکر سکھا سکتے ہیں۔ وہ نظر آنے والی چیزوں کو سمجھنے اور ذہن میں محفوظ کرنے لگتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اس مرحلے میں بچوں کی کتابوں میں عبارتیں کم اور تصویریں زیادہ ہوتی ہیں۔ مثلاً “الف سے انار” میں انار کیا ہوتا ہے بول کر سمجھانے کے بجائے اس کی تصویر بنا دی جائے۔ وہ سمجھ جائے گا اور ذہن میں محفوظ کر لے گا۔ پھر کتاب کے باہر جہاں بھی انار دیکھے گا فوراً سمجھ جائے گا یہی انار ہے۔ اسی طرح ریاضی کی مشقوں میں اعداد کے بجائے چیزیں رکھ کر گنوائی، اور ان کی جمع نفی وغیرہ کرائی جاتی ہے۔ اچھی عادتوں اور بری عادتوں کو تصویری چارٹ کے ذریعے سکھایا جاتا ہے۔
چیزوں کو تصویروں کے ذریعے سکھانے کا عمل اس مرحلے کے آگے بھی جاری رہتا ہے۔ کیونکہ تصویریں کسی تصور کو سمجھنے اور سمجھانے میں مدد کافی مدد کرتی ہیں۔

3- علامتی مرحلہ( Symbolic Stage ): یہ مرحلہ چھ سال سے آگے کا ہوتا ہے۔ اب بچہ اس عمر میں پہنچ جاتا ہے کہ اسے کوئی بھی بات بول کر سمجھائی جا سکتی ہے؟ کیسے چلانا ہے؟ کیسے کپڑے پہننے ہیں؟ کون سا کھیل کیسے کھیلنا ہے؟ وغیرہ وغیرہ سب کچھ زبانی سمجھایا جا سکتا ہے۔ اس مرحلے میں بچے کے ذہن کی نشوونما اتنی ہو چکی ہوتی ہے کہ وہ باتیں سن کر ذہن میں تصور قائم کر سکتا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے یہ کام اس کے لیے مشکل تھا۔ پھر جوں جوں نشوونما ہوتی جاتی ہے اس کا ذہن پختہ ہوتا جاتا ہے اور مشکل سے مشکل تصورات کو وہ گفتگو کے ذریعہ آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔ اس مرحلہ میں زبان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ زبان پر جتنی زیادہ قدرت ہوگی بچہ اپنے تصورات کو سمجھا سکے گا اور مزید تصورات جان سکے گا۔ اسکولوں میں زبان کو باقاعدہ پڑھائے جانے کا یہی مقصد ہوتا ہے۔ جس بچے کو زبان میں مہارت نہ ہو وہ اس مرحلے میں پہنچ کر بھی چیزوں کو گفتگو کے ذریعہ نہیں سمجھ سکے گا۔ مثلاً ہمیں ہی اگر اردو زبان اچھے سے نہ آتی ہو تو ہم اردو میں کسی تصور پر گفتگو کو کتنا سمجھ پائیں گے؟ ظاہر سی بات ہے بہت ساری باتیں ہم سمجھ ہی نہیں پائیں گے لہذا درست اور جامع تصور قائم کرنے میں ناکام ہو جائیں گے۔

آمادگی کا نظریہ ( Theory of Readiness):
آموزش کے وقوفی نظریہ میں یہ ایک نیا قانون ہے جسے برونر نے متعارف کرایا۔ جیسا کہ ہم نے تمہید میں ذکر کیا تھا برونر کا ماننا ہے کہ بچے کو کسی بھی عمر میں کوئی بھی مضمون یا تصور پڑھایا اور سمجھایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے بچہ کا بس آمادہ ہونا شرط ہے۔ ہاں بچہ کی عمر اور تجربات کے لحاظ سے اسلوب سہل اور مشکل ضرور ہوگا۔ یعنی مواد کو پیش کرنے کا اسلوب بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے پیاجے کے اِس نظریہ کی تردید کی ہے کہ مختلف باتوں کو سیکھنے اور سمجھنے کے لیے مختلف عمریں درکار ہیں۔ اس حوالے سے میرا ذاتی تجربہ بھی یہی رہا ہے۔ میرا ایک کزِن جو مشکل سے دس گیارہ سال کا ہے جس میں بلا کا تجسس ہے وہ بے انتہا سوال کرتا ہے۔ اسی تجسس کی بنیاد پر اس کا ذہن ایسی ایسی معلومات سے بھرا پڑا ہے جو اس سے بڑی عمر کے بہت سے لوگوں کے پاس نہیں ہیں۔ اور نہ وہ جاننا ہی چاہتے ہیں۔ یعنی بڑے ہونے کے باوجود وہ ان باتوں کو جاننے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔
بات آ ہی گئی تو تجسس کے حوالے سے بھی کچھ باتیں کر لیتے ہیں۔ برونر کا کہنا ہے کہ انسان کے اندر تجسس اور اشتیاق فطری طور پر پایا جاتا ہے۔ بلکہ انسان تین چیزیں لے کر پیدا ہوتا ہے: تجسس، اہلیت کے حصول کی خواہش اور تیسری چیز مقلوبیت یعنی جیسے کو تیسا دینے کی فطرت جسے انگریزی میں Reciprocity کہتے ہیں۔ یہی وہ باطنی تحریک ہے جو آموزش( Learning) کے لیے ضروری ہے۔ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی اس باطنی تحریک تقویت پہنچاتے رہیں۔ اس آمادگی کو برقرار رکھنے اور ثمر آور بنانے کے لیے برونر نے تین اصول بتائے ہیں۔

1- مستعدی( Activation ): بچوں کو ہمیشہ مستعد اور ایکٹیو رکھنے کے لیے ان سے ایسے کام کرائے جائیں جو نہ تو بہت آسان ہوں نہ ہی بہت مشکل۔ کیونکہ کام بہت آسان ہوگا تو بچے جدوجہد نہیں کریں گے اور کام بہت مشکل ہوا تو بیزار ہو جائیں گے۔ اصل کام آموزش کے عمل کو دھیرے دھیرے آگے بڑھانا ہے۔ واضح رہے کامیابی ملنے سے مزید آگے بڑھنے کی تحریک ملتی ہے۔

2- قائم رکھنا( Maintenance ): اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک کے بعد دوسرا ٹاسک دیتے رہیں جس سے کھوج میں لگے رہیں۔ اور بچوں کی جستجو کم نہ ہو۔

3- سمت کی فراہمی(Direction): جستجو اور تلاش کو بامعنی بنانے کے لیے سمت کا درست ہونا ضروری ہے۔ اور سمت کے درست ہونے کے لیے مقصد کا واضح ہونا انتہائی ضروری ہے۔

اسپائرل نصاب(Spiral Curriculum):
یعنی ایسا نصاب جس میں ہر اگلے مرحلے کا مواد پچھلے مواد سے وابستہ ہو۔ جیسا کہ ہم نے آمادگی کے قانون میں پڑھا برونر کا ماننا ہے کہ ہر طرح کی معلومات ہر عمر کے بچہ کو دی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے بچہ کی آمادگی شرط ہے۔ ہاں ابتدا میں موٹی موٹی باتیں بتائی جائیں گی۔ پھر جوں جوں ذہن کی نشوونما ہوتی جائے گی ویسے ویسے باریک مسائل کی طرف بڑھا جائے گا۔ لہذا انھوں نے اسپائرل نصاب متعارف کرایا۔ اور آج عام طور پر یہی نصاب ہر طرف رائج ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہی باتیں جو ہم نے ایک جماعت میں پڑھی ہوئی ہوتی ہیں وہی باتیں اگلی جماعت میں مزید تفصیل کے ساتھ پھر سے پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مثلاً ایک مرحلے میں بتایا گیا کہ بارش بادلوں سے ہوتی ہے۔ اگلے میں یہ بتایا جائے گا کہ بادل کیسے بنتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

آپ ڈائیگرام میں دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح تمام مرحلوں میں بچہ کو ایک ہی بات پڑھائی جا رہی ہے۔ لیکن بحث بچے کی ذہنی صلاحیت کے حساب سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

دریافتی آموزش (Discovery Learning):
برونر نے بتایا کہ آموز کار (Learner) اپنی پرانی معلومات کی بنیاد پر نئی معلومات کی تشکیل خود کرتا ہے۔ وہ کوڈنگ سسٹم کے ذریعہ معلومات کی تنظیم اور درجہ بندی کرتا ہے۔ وہ کڑیوں سے نئی کڑیاں جوڑتا جاتا ہے اور سیکھتا جاتا ہے۔ مثلاً اسے بتایا گیا کہ پانی کو گرم کیا جائے تو وہ بھاپ بن جاتا ہے۔ اگلی بار اس کا سوال ہوگا کہ پانی گرم ہونے پر بھاپ کیوں بن جاتا ہے؟ اب وہ اسے دریافت کرنے کی کوشش کرے گا۔ جواب ملتے ہی وہ اسے پرانی معلومات سے جوڑ دے گا اور اگلے سوال کے جواب کی تلاش میں لگ جائے گا۔ یوں کڑیاں جڑتی چلی جائیں گی۔ ایسے میں استاذ کی ذمہ داری ہے کہ وہ رٹا کر یاد کرانے کے بجائے معلومات کی طرف رہنمائی کرے۔ بچوں کے سامنے کوئی مسئلہ رکھے اور بچوں سے اس کے حل پر تبادلہ خیال کرے۔ اچھا استاذ وہ ہے جو درس کو اس انداز میں ترتیب دے کہ وہ بچوں کی معلومات کی کڑیوں کو جوڑنے میں مدد کرے۔ وہ بچوں کو ضروری معلومات فراہم تو کرے لیکن انھیں ترتیب دینے کا کام بچوں پر ہی چھوڑ دے اور خود جگہ جگہ رہنمائی کرے۔ اسپائرل نصاب معلومات کی کڑیوں کو جوڑنے میں کافی مددگار ہوتا ہے۔

سماجی ماحول( Social Environment):
واے گوٹسکی اور برونر دونوں نے آموزش میں بچہ کے معاشرتی ماحول پر بہت زور دیا ہے۔ ایک ایسا ماحول جہاں بچہ کو جگہ جگہ رہنمائی کرنے والے مل سکیں۔ وہ اپنا سوال کسی کے سامنے رکھ سکے اور جواب پا سکے۔ ایسے ماحول میں بچہ کی آموزش کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ اسے برونر نے Scaffolding کا نام دیا ہے۔ یعنی بانس بَلّی۔ جس طرح بانس بلی باندھ کر اونچی جگہوں تک مزدور آسانی سے پہنچ جاتے ہیں اسی طرح اس ماحول میں بچہ بھی معلومات تک آسانی سے پہنچ پاتا ہے۔ اسے Adult Participation بھی کہتے ہیں۔ یعنی بچے کی آموزش میں بڑے بھی شرکت کریں۔ اس کے کئی فائدے ہوتے ہیں۔ مثلاً بچوں کی آموزش کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ بچوں کا ٹاسک مکمل کرنا تھوڑا آسان ہو جاتا ہے۔ بچوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ غلطیوں کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے۔ بچوں اور بڑوں کے بیچ خوشگوار تعلق قائم رہتا ہے۔ اپنے بڑوں پر اعتماد بڑھتا ہے۔ بچوں کی درست رہنمائی ہوتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا درست استعمال ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ تھا برونر کی سو سالہ زندگی کے تجربات کے نچوڑ کا مختصر خاکہ۔ ان کے نظریات نے وقوفی نظریات میں انقلابی تبدیلیاں برپا کی۔ ساری دنیا کے تعلیم سے جڑے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اور تعلیمی نظام کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ آج جو بھی ادارے ان کے نظریات کی رہنمائی میں تعلیمی و تدریسی پروگرام تشکیل دے رہے ہیں کافی اچھے نتائج برآمد کر رہے ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000