(زیر نظر تحریر دراصل سیمینار ڈسکشن کے لیے تیار کیا گیا ایک پروجیکٹ تھا جسے ٹائپ کر کے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں)
انسان کی تخلیق اللہ کے وجود کی بڑی نشانیوں میں سے ہے۔ ہر انسان کی بناوٹ ناک نقشہ اور جذبات سب ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ واقعی کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اور پھر جب انسان دنیا میں آجاتا ہے تو اس کے ساتھ پیش آنے والے واقعات و حادثات اسے اور بھی عجوبۂ روزگار بنا دیتے ہیں۔ بادشاہ ہو یا فقیر ہر ایک کی زندگی دلچسپ اتار چڑھاؤ اور مفید تجربات سے بھرپور ہوتی ہے۔ ہر ایک کی ایک الگ ہی کہانی ہے۔ اور ہر ایک کے لیے دوسرے کی کہانی میں دلچسپی کا سامان ہے۔ آج میں بھی اپنی اب تک کی داستانِ زندگی انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کروں گا۔
میری پیدائش:
میں ممبئی کے ایک چھوٹے سے محلے چراغ نگر میں 29 نومبر 1993 کو پیدا ہوا۔ مجھے چراغ نگر کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں ہے۔ کیونکہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو خود کو چراغ نگر کے بجائے کرلا میں ہلاؤ پل کی مولانا چال میں پایا۔ میری یادداشت میں سب سے پرانی تصویر ایک آٹو کی ہے جسے میں نے ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے کھڑکی سے دیکھا تھا۔ مجھے آٹو بہت بھایا تھا۔ شاید اس وجہ سے کہ وہ ٹیکسی سے زیادہ کھلا ہوا تھا۔ یہ تصویر ذہن میں کسی دھندلے سے خواب کی طرح آج تک موجود ہے۔ اس سے پہلے کی کوئی تصویر میری یاداشت میں موجود نہیں ہے۔
میرا سناسنایا بچپن:
ہر ایک کے بچپن کا ایک حصہ وہ ہوتا ہے جسے وہ خود نہیں جانتا بلکہ اس کے ماں باپ اور دیگر لوگ اسے بعد میں بتاتے ہیں۔ میں پیدائش کے وقت کافی صحت مند تھا بیٹھنے کی عمر کو پہنچا تو توازن نہ قائم رکھ پانے کی وجہ سے پیچھے منہ گر جایا کرتا تھا۔ اکثر پیٹ کے بل پڑا رہتا تھا۔ ایک بار ٹرین میں ایک دل جلے ہجڑے نے میرے ابا سے پیسے نہ پا کر مجھے خوب بد دعائیں دی تھی۔ میں صبح ہوتے ہی چاے، پاؤ اور دوا(ہورلیکس) رو رو کر گا گا کر مانگتا تھا۔ رونے گانے کی کیا ضرورت تھی؟ روتا شاید اس لیے تھا کہ بے صبرا تھا۔ ریل ہی کی بات ہے ایک مرتبہ اپنی پھوپھی کے گھرانے کے ساتھ ہم سب گاؤں کا سفر کر رہے تھے۔ ایک پھوپھی زاد مجھے بہلا رہا تھا، ایک ترانے میں تضمین کرتے ہوئے اسے یوں گا رہا تھا “آزاد ہیں، آزاد تھا آزاد رکھیں گے۔ ہم اپنے لَلّو کو آزاد رکھیں گے” وہ تو ایسا کر کے اپنے زعم میں مجھے بہلا رہا تھا۔ لیکن اس معصوم کو کیا خبر تھی کہ وہ میرا عرف ایجاد کر رہا ہے۔ تب سے میں سعید الرحمن عرف لَلّو ہوگیا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اڑوس پڑوس کے لوگوں کو للو کہتے ہوئے پایا۔
میرا بچپن:
جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے ارد گرد ایک بہت ہی پیارے دوست کو پایا۔ نام تھا ہاجرہ۔ یہ میری بڑی بہن تھی۔ مجھ سے دو سال بڑی تھی۔ پھر بھی میں اسے نام سے ہی پکارتا تھا۔ بھلا دوست کو بھی کوئی آپا باجی کہہ کر پکارتا ہے؟ ہم دونوں اکثر ساتھ رہا کرتے تھے۔ ساتھ کھیلتے گھومتے اور باتیں کرتے تھے۔ پھوپھی کے گھر جانا ہماری بڑی خواہش رہا کرتی تھی۔ دونوں پھوپھیاں ایک بہت بڑے گھر میں رہا کرتی تھیں۔ وہاں ہماری ہی عمروں کے بہت سارے پھوپھی زاد اور زادیاں موجود تھیں۔ میں ناک میں بولتا تھا لوگ کہتے تھے ممیاتا ہے۔ چڑھاتے بھی تھے۔ مجھے برا لگتا تھا۔ لیکن بہت زیادہ دھیان نہیں دیتا تھا۔ میں سوتے میں کپڑے میں ہی پیشاب کر دیتا تھا۔ قسم لے لو، ایسا میں جان بوجھ کر نہیں کرتا۔ کب ہو جاتا تھا، پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ اسکول سے کبھی کبھی بھاگ آتا تھا۔ ایک بار کا واقعہ یاد ہے۔ کچن میں آ کر کھڑا تھا۔ اماں نے پوچھا اسکول گئے تھے تو یہاں کیا کر رہے ہو؟ میں نے جواب دیا “ڈر لگتا ہے”۔ یہ کے جی کلاس کی بات ہے۔ مجھے اسکول جاتے وقت رونا یاد نہیں۔ زندگی کی مصروفیات شروع ہو چکی تھیں۔ صبح سویرے اٹھنا پڑتا تھا۔ اٹھتے ہی دودھ بٹر لانے دوکان جاتا تھا۔ نیند آنکھوں میں بھری ہوتی تھی۔ کبھی کبھی دکان میں کچھ بھیڑ دیکھتا تو باہر چبوترے پر یہ سوچ کر بیٹھ جاتا کہ جب تک بھیڑ کم نہ ہوجائے یہیں بیٹھ کر نیند سے تھوڑی سی اور دل لگی کرلوں۔ لیکن بھیڑ کا کیا وہ تو آتی جاتی رہتی ہے۔ میری آنکھ ابا کی گرج دار آواز سے کھلتی تھی۔ پھر وہ سامان کے ساتھ مجھے بھی گھر لے جاتے۔ جلدی جلدی ناشتہ کر کے یونیفارم پہن کر اسکول جاتا۔ اسکول سے ساڑھے بارہ بجے واپس آتا۔ کپڑے وغیرہ بدل کر ادھر ادھر گھومتا پھرتا یہاں تک کہ ظہر کی اذان ہو جاتی۔ کبھی نماز پڑھ لیتا کبھی نہیں پڑتا۔ نماز کی پابندی اس وقت سے شروع کی جب دلی سے ہمارے ماموں ہمارے ہاں آئے۔ انھوں نے ہمیں نماز کی پابندی سکھائی۔ ماموں سے یاد آیا۔ چھوٹے ماموں کا آنا بھی ہمارے لیے باعث مسرت ہوتا تھا۔ وہ ہمیں سوتے وقت انبیاء کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ ہمیں بڑا مزہ آتا تھا۔ بہت سارے انبیاء کے قصے ہمیں تبھی سے یاد ہیں۔ انھوں نے ہمیں روز مرہ کی دعائیں یاد کرائی اور کچھ دنوں بعد امتحان لیا اور سب کو انعام دیا۔ بہر حال ظہر بعد دوپہر کا کھانا کھا کر عربی پڑھنے چلا جاتا۔ عربی ہم مکتب کو کہا کرتے تھے۔ وہاں سے چار بجے لوٹتا ادھر ادھر مٹرگشتی کرتا۔ پھر پانچ بجے ٹیوشن چلا جاتا۔ وہاں سے مغرب کے وقت لوٹتا۔ اس کے بعد عام طور سے کھیل تماشا کر کے وقت گزار دیتا۔ رات کا کھانا کھا کے سوجاتا۔ عام طور سے یہی میرا روٹین تھا۔ صبح کے وقت کو انجوائے کرنے کا بڑا شوق تھا۔ اتوار کو بہت سویرے اٹھ کر چپکے سے نکل جاتا تھا۔ کبھی کبھی بنا چپل کے ہی چلا جاتا تھا۔ صبح صبح ریت ملائم پیروں میں چھپتی تھی۔ خیر صبح سویرے نکل کر میدان میں چکر لگاتا تھا۔ میدان میں پڑی ناکارہ ٹنکی پر چڑھ کے دور چل رہی ٹرینوں کو دیکھا کرتا تھا۔ اور انہی میں کھو جاتا تھا. ٹرینوں کو دیکھنا اس وجہ سے بھی اچھا لگتا تھا کہ وہ گاؤں لے جاتی تھیں۔ دور چل رہی ٹرینوں کی آواز میں بڑی جاذبیت ہوتی تھی۔ لیکن یہ تفریح زیادہ دیر تک نہیں چلتی تھی کیونکہ اتوار کو صبح سات بجے اسکول تو نہیں جانا ہوتا تھا لیکن آٹھ بجے عربی جانا پڑتا تھا۔ مجھے اسکول اور تعلیم میں قطعی دلچسپی نہیں تھی۔ جانوروں اور پرندوں کی آوازیں نکالتا تھا۔ محلے کے بڑے لڑکے مجھے اپنی محفلوں میں بلاتے، آوازیں نکلواتے اور ایک روپیہ دے کر بھیج دیتے تھے۔ ایک روپے میں سولہ نلِّیاں آتی تھیں۔ ساری انگلیوں میں ایک ایک پہننے کے بعد بھی چھے نلیاں بچ جاتی تھیں۔ ایک بار میں اور ہاجرہ نے پان کھانے کا پلان کیا۔ پان پٹی پر گئے۔ اس نے اپنے لیے میٹھا پان بنوایا اور میرے لیے عبید اللہ کی دادی والا۔ دوکاندار بھی بڑا تماش بیں نکلا۔ تماشہ دیکھنے کے لیے لیے کہا: پان یہیں بیٹھ کر کھاؤ۔ میں نے پان منہ میں بھر لیا۔ اس کے بعد میری آنکھ اس وقت کھلی جب سورج شفق کی لالی میں غوطہ لگانے کی تیاری کر رہا تھا۔ مجھے پودے لگانے کا بڑا شوق تھا۔ لیکن لگانے کی جگہ نہیں تھی۔ ایک بار کچرا کنڈی سے بہت سارے امولے اکھاڑ کر ایک پلاسٹک کے ڈبے میں رکھ لیا۔ مٹی اور پانی بھر کے گھر کے ہال میں چھپا کر رکھ دیا۔ ہاجرہ کی نظر پڑی اس نے زور سے کہا “اماں ہمیں اب آم خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی” میں من ہی من میں اپنے کارنامے پر بڑا خوش ہوا۔ بعد میں پتہ چلا وہ موئی میرا مذاق اڑا رہی تھی۔ اسکول جاتے وقت روزانہ دو روپے ملتے تھے۔ اماں نے ایک بار پانچ روپے دیتے ہوئے کہا “آج دونوں ڈھائی ڈھائی روپے لے لینا” میں وہیں جگہ پر اَڑ گیا۔ زمین پر پیر مارکر ہنگامہ کرنے لگا “نہیں نہیں مجھے دو روپے چاہیے”۔ ہاجرہ نے سمجھایا ڈھائی روپے دو روپے سے زیادہ ہوتے ہیں۔ تب جا کر خوشی ہوئی۔
سامان لانے جاتا تو پیسے اکثر گرا آتا تھا نوٹ تو نوٹ سکے بھی جیب سے اڑ جاتے تھے بہت ڈانٹ ڈپٹ بٹورنا تھا۔ گھر میں دن بھر بڑے بڑے اسپیکروں والا ٹیپ چلتا رہتا تھا۔ علماء کی تقریریں اور مختلف نظمیں چلتی رہتی تھیں۔ عام طور پر تقریریں ہی چلتی تھیں۔ چلتے پھرتے دین کی معلومات جمع ہوتی رہتی تھیں۔ پرانے ڈرم میں پڑی بوسیدہ کتابوں میں چھپی تصویروں کے بارے میں جاننے کی جستجو نے بہت جلدی پڑھنا لکھنا سکھا دیا تھا۔ ان تصویروں میں ایک تصویر تھی جس میں ایک ظالم شخص ایک لاغر انسان کو ایک مشین کے اوپر نیچے دو کانٹے دار پاٹوں کے بیچ رکھ کر اوپر بنے کار کے اسٹیئرنگ نما ہینڈل کو گھما کر اس مسکین کا خون نچوڑ رہا ہے۔ بڑی پراسرار تصویر تھی۔ نیچے لکھی عبارت کو جاننے کی بے انتہا جستجو ہوتی تھی۔ اب سوچتا ہوں کسی بڑے سے کیوں نہیں پوچھ لیا۔ لیکن نہ پوچھا اچھا ہوا۔ اسی جستجو میں کب اردو فراٹے سے پڑھنے لگا پتہ ہی نہیں چلا۔ اردو ٹائمز اخبار گھر میں آتا تھا۔ مطالعہ کی تشنگی بجھانے کے لیے اخبار ہی ایک وسیلہ تھا جو پابندی سے مل جایا کرتا تھا۔ سب سے پہلے پہلا صفحہ پڑتا، پھر عالمی صفحہ کو دیکھتا۔ پھر اداریہ دیکھتا جہاں ایک کونے میں ناول کمپیوٹان شائع ہوتا تھا۔ اس کے بعد سرسری ساری خبریں دیکھتا۔ بدھ کے روز بچوں کا خاص صفحہ “سب رنگ” آتا تھا۔ میری ہاجرہ سے لڑائی ہو جاتی تھی۔ پہلے کون پڑھے گا؟ “سب رنگ” کہانیوں سے بھرا رہتا تھا۔ کبھی کبھی بیچارا ہم دونوں کی چھینا جھپٹی میں پھٹ جاتا تھا۔ “سب رنگ” کے علاوہ ایک اور خاص صفحہ تھا جس کا مجھے شدت سے انتظار رہتا تھا۔ وہ تھا “کرائم جرائم” اس میں مختلف جرائم اور ان کی پوری کہانی الگ الگ مضامین کی شکل میں چھپتی تھی۔ بڑا مزہ آتا تھا پڑھ کر۔ لیکن یہ صفحہ پڑھنا میرے لیے معیوب مانا جاتا۔ اماں کی نگاہوں سے بچ کر ایک ایک سطر چاٹ جاتا تھا۔ کچھ اور بڑا ہوا تو گھر میں اسلامی تاریخی ناول آنے لگے۔ میری ذمہ داریاں اور بڑھ گئیں۔ ناول ہمارے لیے شجرہ ممنوعہ تھے۔ لیکن اس سے تو اللہ کے مشورے پر ہمارے جد امجد نہ رکے ہم کیا رک پاتے۔ کبھی دن میں لوگوں سے نظریں بچا کر پڑھ لیتا کبھی جب رات کو سب سو جاتے تو میں کچن کی ہلکی روشنی میں اپنی پیاس بجھاتا۔ یوں ہی شب و روز کی آنکھ مچولی میں دسیوں ناول سر ہو گئے۔ ارد گرد کا ماحول ایسا تھا کہ کتابوں کے نام پر اسکولی کتابوں سے الگ کچھ ہاتھ نہ لگتا تھا۔ روڈ پر ایک اخبار فروش گجراتی خاتون اردو کہانیوں کی پتلی پتلی کتابیں بھی بیچتی تھی۔ بے انتہا چَٹُو ہونے کے باوجود اپنے پیسوں کی کتابیں بھی خرید لیتا تھا۔ “گل صنوبر” اور “گل بکاؤلی” جیسی کتابیں میری پہنچ سے بہت اوپر تھیں۔ جب بھی اسٹال پر جاتا حسرت سے الٹ پلٹ کر رکھ دیتا تھا۔ رشتہ داروں کے ہاں اگر کوئی کتاب نظر آ جاتی تو پوری کوشش ہوتی کہ رات گھر جانے سے پہلے کسی طرح مکمل ہوجائے۔ ہاجرہ جب مدرسہ جانے لگی تو اس کے نصاب کی کتابیں ہاتھ لگیں۔ “چوہا کنوئیں میں گر جائے تو اتنا ڈول پانی نکالیں، بلی گر جائے تو اُتنا ڈول”۔ کچھ بھی ہو بس پڑھنے ملنا چاہیے۔ ان سب باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں اسکول کی پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔ نہیں ہرگز نہیں! میں ابا کی نظر میں ایک نکما طالب علم تھا جو ہمیشہ پاسنگ نمبرات سے کچھ ہی زیادہ حاصل کر پاتا تھا۔ اسکولی نصاب میں بھی بس اردو زبان کی “بال بھارتی” اور تاریخ کی کتابیں ہی پسند تھیں۔ کیونکہ ان میں کہانیاں ہوتی تھیں۔ ابا کے ڈر سے پڑھنے بیٹھتا تو بس یہی کتابیں بستہ سے نکلتی تھیں۔ سکول میں رزلٹ متوسط ہوتا تھا۔ پاس ہی ہو جانے کو خوش قسمتی سمجھتا تھا۔ کلاس وغیرہ ٹاپ کی کبھی خواہش ہی نہیں ہوئی اور نہ اس کی اوقات ہی تھی۔ بارہ برس کا ہوا تو مجھے جوڈو کراٹے کے لیے ابو سعد سر کے پاس بھیجا گیا۔ بہت پیار سے بچوں کو ٹریننگ دیتے تھے۔ بہترین سمورائ (تلوار باز) تھے۔ ابا کو بھی انھوں نے ہی کراٹے سکھایا تھا۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابا نے پچیس چھبیس سال کی عمر میں کراٹے شروع کیا تھا۔ وہ بہترین کھیلتے تھے۔ ان کی کراٹے کلاس کی تصویر کسی اخبار میں چھپی تھی جس کی کٹنگ آج بھی رکھی ہوئی ہے۔ مجھے مارشل آرٹ ایک اچھی عمر میں سیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے بھی کم وقت میں بہت کچھ سیکھ لیا۔ لیکن میں مقابلے کرنے سے ڈرتا تھا۔ ماسٹر نے نہ تو ہمت دلائی نہ کسی مقابلے میں لے کر ہی گئے۔ ایک بار ایک مقابلے میں صرف تماشائی کی حیثیت سے لے گئے تھے۔ مقابلہ دیکھ کر بھی کسی مقابلے میں شرکت کی چاہت نہیں ہوئی۔ بلکہ ہمت ہی نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ بے جا احساس کمتری تھا۔ جو شاید ابوسعد سر کے سبھی شاگردوں میں تھا۔ لیکن دلی جانے کے بعد میں نے فائٹنگ کے تین مقابلوں میں شرکت کی تھی اور تینوں میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ اس کا سارا سہرا ماسٹر شکیل صاحب کو جاتا ہے۔ جو ایک اچھے ٹرینر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے موٹیویشنل اسپیکر بھی تھے۔
میرا اسکول:
جب چار سال کا تھا تو قریب کے ایک اسکول ایم ای ایس، اردو ہائی اسکول میں داخل کردیا گیا۔ ہاجرہ پہلے سے اس میں پڑتی تھی۔ ہم دونوں ساتھ اسکول جانے لگے۔ اسکول میں نئے دوست بنے۔ نئی جھنجھٹوں سے بھی سامنا ہوا۔ آزادیاں محدود ہوگئیں۔ کے جی میں کلاس کا کوئی سیکشن نہ تھا۔ پہلی جماعت میں گئے تو ہماری کلاس دو حصوں میں بانٹ دی گئی۔ کلاس میں دو کزن بھائی تھے۔ الگ کر دیے گئے تو دونوں خوب روئے۔ مجھے کوئی پروا نہیں تھی۔ کسی بھی سیکشن میں ڈال دیا جاؤں۔ میری پھوپھی زاد بہنیں خاص دوست تھیں۔ ہم الگ کر دیے گئے پھر بھی ریسیس میں مل لیتے تھے۔ اور مل کر بچوں کی جوس والی بوتلیں اڑایا کرتے تھے۔ بچوں کا دل گھر میں لگا رہتا تھا۔ جب وقت دیکھنا سیکھ لیا تو جب بھی کوئی بچہ پانی پینے باہر جاتا آفس سے ٹائم دیکھ کر ضرور آتا۔ کلاس میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے دیڑھ گنی ہوتی تھی۔ کلاس میں کوئی لڑکا شرارت کرتا تھا تو اسے لڑکی کے بغل میں بٹھا دیا جاتا تھا۔ یہ بڑی ذلت آمیز سزا ہوا کرتی تھی۔ میں خاندانی شریف تھا۔ اور شاید ڈرپوک بھی۔ بڑی شرارتیں کرنا میرے بس کا روگ نہ تھا۔ لیکن ایک بار پتہ نہیں کس جرم کی پاداش میں یہ ذلت اٹھانی پڑی تھی۔ اسکول یونیفارم میں چاکلیٹی ہاف پینٹ، کریم شرٹ، ہاف پینٹ کے کلر ہی کی ٹائی، کالا جوتا اور سفید موزا تھا۔ لکھنے کے لیے پین کے بجائے پینسل کا استعمال لازمی تھا۔ بچوں کے لیے سیکنڈری میں جاکر ہاف پینٹ کے بجائے فل پینٹ پہننا اور پینسل کے بجائے پین سے لکھنا ایک سنہری خواب تھا۔ ہر لکھا پڑھ جانے کی لت نے مجھے کم از کم اردو پڑھنے اور لکھنے میں پوری کلاس میں ممتاز کر رکھا تھا۔ ڈرائنگ بھی اچھی کر لیتا تھا۔ کوئی بھی منظر دیکھ کر اتارنا میرا دلچسپ مشغلہ تھا۔ ڈرائنگ بُک کچھ ہی دنوں میں رنگ برنگی تصویروں سے بھر جاتی تھی۔ ڈرائنگ کی بات سے یاد آیا۔ ہمیں ڈرائینگ میں کلر کرنے کے لیے موم کلر کا استعمال کرنے کو کہا جاتا تھا۔ جو سستا اور ابتدائی مشقوں کے لیے مناسب ہوتا تھا۔ لیکن کچھ بچے اسکیج کلر لاتے تھے۔ جو تھوڑا مہنگا ہوتا تھا۔ مجھے بھی سکیچ کلر استعمال کرنے کی بہت خواہش ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ اماں سے خوب ضد کر کے فرمائش پوری کرا لی۔ رنگ برنگے کلر لے کر خوشی خوشی اسکول گیا۔ دوپہر کو گھر پہنچا تو کلر کا پیکٹ بیگ میں تھا ہی نہیں۔ ابا کو خبر ہوئی۔ انتہائی ضد کے بعد پائی گئی چیزوں کے کھونے کے بعد جو ہوتا ہے میرے ساتھ بھی ہوا۔ اور ایک یادگار پٹائی کا میری زندگی میں اضافہ ہوگیا۔ اسی طرح ایک بار ہاجرہ کے لیے بالکل نیا کمپاس باکس آیا۔ جس میں دو خانے تھے۔ اس میں نئی پینسل، ربر، شاپنر کے علاوہ ایک خوبصورت سی پین بھی تھی۔ میری رال ٹپک گئی۔ میں نے بھی مانگا تو کہا گیا “تمھارے پاس تو ہے اس کا پرانا ہوکر ٹوٹ گیا تھا اس لیے دلایا گیا ہے”۔ مطلب اس کے پاس نہیں ہے اس وجہ سے اسے دلا دیا گیا۔ میں نے سوچا ہونے سے نہ ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ اسکول پہنچ کر اپنا کمپاس بکس، جس میں میری ضروریات کے علاوہ ٹیچر کو تحفہ دینے کے لیے ایک قدرے قیمتی قلم بھی تھا
لیکن نئے کمپاس باکس کی چاہت میں، سارے سازوسامان کے ساتھ اسکول کے پیچھے والی کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ اور ایک لمحے میں ‘ہے’ ‘نہیں ہے’ میں بدل گیا۔ لیکن قسمت کے ماروں کے منصوبے کہاں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہاجرہ نے اسکول کے پیچھے پڑا میرا کمپاس باکس دیکھ لیا تھا۔ گھر پہنچ کر عدالت لگی۔ میرا جرم ثابت ہوا، سزا کے طور پر داستان حیات میں ایک اور زبردست پٹائی کا اضافہ ہوگیا۔ لیکن نیا کمپاس باکس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے علاوہ بھی دسیوں قصے کہانیاں ہیں۔ اسکول میں کاغذ کے راکٹ اڑانا، کوریڈور کے پول کو پکڑ کر چکر لگانا، کسی کو پیٹنا، کسی سے پٹ جانا، کمزور بچوں پر دھونس جمانا، اور زورآوروں کو سلامی دینا۔ ہوم-ورک نہ کرنا اور مار سے بچنے کی تدبیریں کرنا۔ اسمبلی میں پوری شرافت کا مظاہرہ کرنا اور کلاس میں پہنچتے ہی شرارت کا پیکر بن جانا۔ ان سب کے علاوہ اسکول نام کس چیز کا ہے؟ بڑے بھولے ہیں وہ لوگ جو سمجھتے ہیں اسکول پڑھنے لکھنے کی جگہ ہے۔ میاں! پڑھائی لکھائی تو زندگی بھر ساتھ لگی رہتی ہے۔ اسکول تو زندہ دلی سیکھنے کی جگہ ہے۔
سیکنڈری اسکول:
چوتھی جماعت تک ہم نیکر دھاری پرائمری اسٹوڈنٹ تھے۔ اس کے بعد سیکنڈری میں آگئے۔ سیکنڈری سکول ہم بچوں کا خواب ہوا کرتا تھا۔ جہاں ہاف پینٹ فل پینٹ میں بدل جاتی تھی۔ پینسل کی جگہ ہاتھ میں پین آ جاتے تھے۔ اسکول شفٹ صبح کے بجائے شام کی ہو جاتی تھی۔ خواتین ٹیچرز کے ساتھ سر بھی پڑھانے لگتے تھے۔ کل ملا جلا کر بڑے ہونے کا احساس ہونے لگتا تھا۔ خیر میرا بھی خواب پورا ہوا۔ پہلے دن اسکول پہنچا تو ایک سینئر نے جملہ کسا “اوہو! اب تو لڑکیاں پٹائے گا”۔ میں شرما کر آگے بڑھ گیا۔ تب پتہ چلا کہ سیکنڈری میں آ کر ایک کام یہ بھی ہوتا ہے۔ مجھے اب تک لڑکیوں میں کوئی خاص دلچسپی تو نہیں ہوئی تھی۔ لیکن کچھ ٹیچرز میں پرائمری سے ہی جاذبیت محسوس کرتا تھا.ض۔ ان میں سے ایک ٹیچر کی پرانی تصویر حال ہی میں دیکھی تو سوچ میں پڑ گیا کہ اس میں ایسا کیا تھا؟ لیکن شاید اس تصویر میں اس کی وہ ناز و ادا غائب تھی جس کے بنا اس کا دلچسپ وجود ادھورا ہے۔ خیر پرائمری میں تو میں ایک انتہائی شریف بچہ تھا۔ ٹیچرز کو بچوں کی یہی ادا سب سے زیادہ بھاتی ہے۔ لیکن وہ اس کا اظہار تب کرتے ہیں جب بچے اس شرافت کو خیرباد کہہ کر بدمعاشوں کے ٹولے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ سیکنڈری میں پہنچا تو یہ محسوس ہوا کہ یہاں تو بچوں کے قانون ہی جدا ہیں۔ یہاں شرافت باعث شرم ہے۔ ہوم ورک مکمل کرنا لڑکیوں کا کام ہے۔ اور ہوم ورک نہ کرکے بھری کلاس میں پٹنا، یہ مردوں والا کام تھا۔ ٹیچرز کا نام بگاڑنا فیشن تھا۔ یہاں ٹیچرز نہیں ہوتے ہیں۔ یہاں تو کوئی بڈھا، کوئی گووندا، کوئی بٹلی، کوئی چِپکو، کوئی چوزی، کوئی چھمیا، کوئی لمبو، کوئی گوری تو کوئی کالی ہے۔ جو لڑکا اس روش عام سے گریز کرتا وہ ‘لیڈی’ کا لقب پاتا تھا۔ ایسے ایک دو لڑکے ہر کلاس میں پائے جاتے تھے۔ میں نے اس ماحول کو بہت جلدی بھانپ لیا۔ روشِ عام سے ہٹ کر چلنا میرے بس کا روگ نہ تھا۔ خود کو بدلنے کے لیے پر تولنے لگا۔ لیکن انسان کا خمیر ایک مضبوط کھونٹا ہے جس سے انسان ہمیشہ بندھا رہتا ہے۔ جو بچے پرانے شریر ہوتے ہیں انھیں شرارت کے آداب پتہ ہوتے ہیں۔ شرارتیں کر کے بچ جانے کا ہنر آتا ہے۔ لیکن میں تھا جات کا شریف، شرارتیں کرتا اور سرفہرست رہتا۔ پرانے ٹیچرز حیران ہوتے کہ اچانک اسے کیا ہوگیا۔ دکھاوے کے لیے کام کرنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ وہ کہیں کے نہیں رہتے ہیں۔ خوب شرارتیں کی۔ خوب سزائیں پائی۔ لیکن شرارتوں کے لیے ماحول ایسا سازگار تھا کہ کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔ ان سب کے باوجود اردو، تاریخ اور ڈرائینگ میں دلچسپی بہ دستور بنی رہی۔ اردو اور تاریخ کی کتابیں بار بار پڑھتا تھا۔ واقعات کو تصور کرتا تھا۔ اگلی پچھلی کلاسوں کی کتابیں بھی دوستوں سے مانگ کر پڑھتا تھا۔ “پیام تعلیم” اور “گل بوٹے” جیسی میگزین جاری کرانا گھر والے کوئی ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن کئی دوستوں نے جاری تو کرا رکھی تھی لیکن انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا۔ ان کے رسالے میرے پڑھنے کے کام آتے تھے۔ اردو ریڈنگ کے لیے پوری کلاس کی انگلی میری طرف اٹھتی تھی۔ کم از کم ایک بات تو تھی جس میں اس نکمے کا لوہا مانا جاتا تھا۔ ایک دو سال بعد میں نے محسوس کیا کہ اسکول میں میری دلچسپی اچانک بڑھ گئی ہے۔ اتوار کو بھی اسکول چلے جانے کا من کرتا تھا۔ چھٹیوں سے اب الجھن ہونے لگی تھی۔ اپنی حد تک بن سنور کے اسکول جانے لگا تھا۔ اچھا نظر آنا میرا ہدف بن چکا تھا۔ وجہ وہی تھی جو اگلی کلاسوں میں سائنس کی کتاب میں پڑھنے کو ملی کہ خاص عمر طے کرنے کے بعد بچوں میں زبردست تبدیلیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ ہارمونز بدلتے ہیں۔ صنف مخالف میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ یہ انقلابی تبدیلی صرف میں ہی نہیں پوری کلاس محسوس کر رہی تھی۔ گویا پوری کلاس میں نئے ہارمونز کا طوفان سا آگیا تھا۔ ہماری دلچسپیاں بدل گئیں۔ گفتگو کے موضوعات بدل گئے۔ چیزوں کو دیکھنے کے زاویے تبدیل ہو گئے۔ ہارمونز کے طوفان میں ہم بہنے لگے۔ میرے ہی جیسے بے مصرف دوستوں کی سنگت نے بربادیوں کا سارا انتظام کر رکھا تھا۔ وہ تو بھلا ہو گھر میں اماں ابا کی سختیوں کا، جہاں اور دوست چار قدم بڑھاتے تھے، میں ایک ہی قدم بہ مشکل بڑھا پاتا تھا۔ جب لوگ تھوڑا تھوڑا گٹکھا اور سگریٹ تھام رہے تھے میں میٹھی سپاری میں کام چلاتا تھا۔ اور میری قسمت میں بھلا لکھا ہوا تھا کہ ابا نے مجھے بہت ہی مناسب وقت میں ممبئی سے اٹھا کر دلی کے سنابل مدرسہ میں بھیج دیا تھا۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
اچھے برے دوست:
اچھے برے دوست بہت سارے تھے لیکن ایک اچھے اور ایک برے دوست کا تذکرہ کروں گا۔ دونوں دوستوں میں ایک مشترک بات یہ ہوتی ہے کہ والدین دونوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ کیونکہ دونوں گھر میں ٹکنے نہیں دیتے ہیں۔
اچھا دوست:
اچھا دوست تھا “فیاض” جسے سب پیار سے “فُجّو” بلاتے تھے۔ عمر میں مجھ سے دو تین سال بڑا تھا۔ یہ میرا اور وحید ( چھوٹا بھائی) دونوں کا میوچول فرینڈ تھا۔ ہم کافی وقت ایک ساتھ گزارتے تھے۔ دنیا جہاں کے موضوعات پر باتیں ہوتیں۔ وہ ہمیں افغانستان جنگ کے حالات بتاتا تھا۔ ہم افغانستان کو مختصر “غانستان” کہتے تھے۔ صدام حسین کی گرفتاری ہمارے لیے ایک انتہائی غم انگیز موضوع ہوا کرتا تھا۔ ہماری امیدوں کا مرکز وہ افواہیں ہوا کرتی تھیں جو کثرت سے گردش کر رہی تھیں کہ صدام حسین کے کئی سارے ہم شکل بھائی تھے انہی میں سے ایک گرفتار ہوگیا ہے۔ اصل صدام ابھی روپوش ہے۔ وہ ایک دن ضرور امریکہ کو سبق سکھائے گا۔ ہماری پسندیدہ ترین جگہ یا تو ہمارے میدان کے کونے میں بنی چھوٹی سی دیوار ہوتی تھی یا کھجور کمپنی کی کچرا کنڈی میں پڑا پرانا آٹو جس میں ہم بیٹھ کر دنیا جہان کے خواب بنا کرتے تھے۔ وہ مسائل کے آسان نسخے بھی لاتا تھا۔ جِن قابو میں کرنے کی خواہش کس بچے میں نہیں ہوتی ہے؟ جس سے وہ اپنے اسکول ہوم ورک پورے کرا سکے۔ اس کے پاس اس کا بھی حل تھا۔ اس کے مشورے سے ایک شیشے کی بوتل میں چھوٹا سا کپڑا ڈال کر اسے جلایا گیا اور ڈھکن فورا بند کر دیا گیا۔ اس آگ کے دھوئیں سے ہی بوتل میں جِن پیدا ہونا تھا۔ لیکن ہماری بدقسمتی تھی کہ ڈھکن بند کرتے ہی آگ بجھ جاتی تھی۔ اگر وہ آگ نہ بجھتی تو ہم ایک عدد جن کے مالک ہوتے۔ اسی طرح ایک مرتبہ اس نے ہم پر انکشاف کیا کہ سورج کی گرمی سے سمندروں سے بھاپ اڑتی ہے۔ وہی بھاپ اوپر جا کر کالے بادلوں میں بدل جاتی ہے۔ پھر وہی بادل برستے ہیں۔ ہم نے سوچا کیوں نہ سفید بھاپ کی جگہ کالے دھوئیں ہی اڑا کر بارش کرلی جائے۔ ایک پرانی سوت کی بوری جلا کر کالے دھوئیں اڑائے گئے۔ لیکن شاید دھوئیں کی کمی کی وجہ سے بارش نہیں ہوئی۔ ہم دونوں میں ایک بات مشترک تھی۔ دونوں کا ریاضی سے بڑا تعلق تھا۔ اس کا تعلق محبت کا تھا میرا نفرت کا۔ اسے ریاضی میں بے انتہا دلچسپی تھی اور مجھے ریاضی سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ وہ الجبرا کے مشکل سے مشکل سوال چٹکیوں میں حل کر دیتا تھا۔ اور میں اسی میں پریشان رہتا تھا کہ حساب کتاب میں نمبروں کے بجائے الفابیٹس کا کیا کام؟ ریاضی میں وہ پورے نمبرات لاتا تھا۔ لیکن باقی مضامین میں مشکل سے ہی پاس ہو پاتا تھا۔ کئی بار تو فیل بھی ہو جایا کرتا تھا۔ اِس وجہ سے وہ ایک نالائق بچہ مانا جاتا تھا۔ میں سارے مضامین میں پاس ہوجاتا تھا۔ ریاضی میں بھی جیسے تیسے نکل ہی جاتا تھا۔ لہذا ایک متوسط بچہ مانا جاتا تھا۔ ایک نالائق بچے کے ساتھ ایک متوسط بچے کا رہنا کون والدین برداشت کریں گے۔ بڑی سختی سے منع کرنے کے باوجود ہماری یاری میں فرق نہیں آیا۔ سوچتا ہوں اگر ریاضی میں اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہوتی تو وہ آج ریاضی کا بہترین ٹیوٹر ہوسکتا تھا۔ لیکن لعنت ہے اس سوچ پر جس نے اسے نالائق کہہ کہہ کر اس کا ٹیلنٹ ضائع کر دیا۔
برا دوست:
برا دوست صرف اس معنیٰ میں کہ وہ زندگی کے ان پہلوؤں سے پردہ اٹھاتا ہے جس کی سکت اچھے دوستوں میں نہیں ہوتی۔ برے دوست بھی زندگی میں وہی اہمیت رکھتے ہیں جو ایک اچھا دوست رکھتا ہے۔ برے دوست بھی اچھے دوست ہی کی طرح دلچسپ ہوتے ہیں۔ میرا برا دوست بھی اچھے دوست ہی کی طرح نایاب تھا۔ وہ میرا انتہائی قریبی جاننے والا تھا۔ نام نہیں بتاؤں گا۔ اس نے مجھے زندگی کے سرچشمہ کے بارے میں بتایا۔ اس کام کی ضرورت اور اہمیت بتائی جسے میں اب تک گھناؤنا اور گندہ سمجھتا آیا تھا۔ اس نے ہاتھوں کے ایک انوکھے استعمال کے بارے میں بتایا جس سے میں اب تک انجان تھا۔ حالانکہ اس وقت مجھے یہ استعمال بہت ہی بے تکا لگا تھا۔ ایک بار اس نے مجھے کہا ‘چل بال صاف کرتے ہیں’۔ میں حیران تھا کہ بال صاف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ خیر پوچھنے سے بہتر چل کے دیکھ لیتے ہیں۔ وہ مجھے ایک پبلک ٹوائلٹ میں لے گیا۔ تب مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ بال اگنے کی ایک جگہ اور بھی ہے۔ اور اسے صاف کرنا پڑتا ہے۔ مجھے بھی بلیڈ دیا لیکن ضرورت ہو تب نہ استعمال کرتا۔ بلیڈ لیا اور وہی عمل دہرایا اور ہم دونوں۔ پھر ہم دونوں باہر آ گئے۔ اس نے گھومتے پھرتے اس بارے میں ایک معلومات سے بھرپور لیکچر دیا۔ طریقہ اور احتیاط سب کچھ بالکل واضح کر دیا۔ وہی تھا جس نے مجھے معشوقاوں کی قسموں سے اس وقت آگاہ کیا تھا جب میں عشق کے عین سے بھی واقف نہیں تھا۔ اس نے بتایا ایک معشوقہ وہ ہوتی ہے جو صرف دل لگی کے کام آتی ہے۔ دوسری وہ ہوتی ہے جو شادی کے لیے ہوتی ہے۔ تیسری وہ ہوتی ہے جو نوجوانوں کی نئی نئی امنگوں کی پہلی طلب ہوتی ہے۔ زندگی کے اور بھی بہت سے راز ہوتے ہیں جو ایسے دوستوں کی صحبت میں ہی آشکار ہوتے ہیں۔ ان دوستوں میں ایک پریشانی یہ ہوتی ہے کہ یہ نیم حکیموں کی ساری غلط فہمیوں کو نسل در نسل بڑی پابندی سے منتقل کرتے ہیں۔ انہی کی صحبت کا اثر ہے کہ برصغیر میں ہر نوجوان خود کو پہلے وہلے میں گُپت روگی ہی سمجھتا ہے۔ ملک میں خفیہ امراض کے ماہرین کے طوفان میں ان دوستوں کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ لیکن مجال ہے جو انھوں نے کبھی اس پروپیگنڈے کا کمیشن لیا ہو۔ ہر انسان کی زندگی میں ایک نہ ایک دوست ایسا ضرور ہوتا ہے۔ بڑے محروم ہیں وہ لوگ جن کی داستان حیات کا یہ صفحہ اب تک خالی پڑا ہے۔
مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ:
اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ میرے ہی جیسے بے مصرف دوستوں کی صحبت نے میرا کیا حال کر رکھا تھا۔ برائی کرتا تھا لیکن اس کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ غلطیاں کرنا اور اس پر سزا پانا ایک فخر کی بات تھی۔ ایسے میں احساسِ ندامت کی جگہ کہاں باقی بچتی ہے؟ لیکن ایک مرتبہ مجھے بڑے زمانے بعد اپنی کسی غلطی پر انتہائی شرمندگی کا احساس ہوا تھا۔ دراصل اسکول میں شجر کاری مہم چل رہی تھی۔ بچوں کو اپنے اپنے پودے لگانے تھے۔ ہم دوستوں نے طے کیا کہ ہم پودے خریدیں گے نہیں، بلکہ نرسری سے وٹا لائیں گے۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ ایک نہیں، کئی کئی پودے وٹائے۔ اور اسکول کی کیاریوں میں کھپا دیا۔ میں نے کہا “پودے وٹائے”۔ وٹانے اور چرانے کا مطلب ایک ہی ہے۔ لیکن وٹانے میں وہ خفت نہیں ہے جو چرانے میں ہے۔ وٹانے کے لفظ کا استعمال کرنا ہی بتاتا ہے کہ چرانے میں جو گھناؤنا پن ہے اسے محسوس کرنے بھر کا احساس اب بھی مجھ میں باقی تھا۔ اور یہی ہوا۔ اماں ابا کو بات پتہ چلی۔ ابا نے دریافت کیا “بیٹا! سنا ہے تم نے پودے چرائے ہیں”۔ چرانے کی نسبت خود کی طرف دیکھ کر دل دھک سے ہو کر رہ گیا۔ احساس ندامت نے چاروں طرف سے جکڑ لیا۔ ابا نے کہا “پودے واپس کر آؤ”۔ یہ کام تھوک کے چاٹنے سے بھی مشکل ہوتا ہے۔ لیکن احساس ندامت سے چھٹکارا پانے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار تھا۔ لہذا دو تین پودے جو میں نے چرائے تھے کسی طرح نرسری میں پھینک آیا۔ اس وقت میں زندگی کے تیرہویں سال میں داخل ہو رہا تھا۔ اس واقعہ سے مجھ میں کچھ سنجیدگی آ گئی تھی۔ میں نے سوچا جب تک ان دوستوں کی صحبت سے دور نہیں چلا جاتا میرا سنبھلنا نا ممکن ہے۔ ابا کا پہلے سے ہی منصوبہ تھا کہ مجھے آٹھویں تک پڑھ کر دلی جانا ہے۔ اتفاق سے یہ واقعہ آٹھویں جماعت کا تھا۔ میں خوش تھا کہ ان دوستوں کی صحبت سے نجات ملے گی۔ دلی میں ایک نئے سرے سے زندگی کی شروعات ہوگی۔ من ہی من میں دلی میں پڑھائی کے بارے میں منصوبے بنانے لگا تھا۔
جاری….
آپ کے تبصرے