مذہب اسلام میں علم کی اہمیت کی سب سے بڑی اور واضح دلیل یہی ہے کہ اس کی تعلیمات وہدایات کا آغاز ہی “اقرأ” سے ہوا ہے۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے اللہ تعالی کی طرف سے جو چیز انھیں عطا کی گئی وہ علم ہی ہے۔ کائنات ارضی پر خلافت انسانی کی بنیاد علم ہی کو قرا دیا گیا ہے۔ حق وباطل، خیر وشر، نفع ونقصان اور زندگی کے سارے امور ومعاملات کے مثبت ومنفی پہلو کی تمیز وشناخت علم ہی کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ علم تمام اعمال وعبادات کا مقدمہ ہے۔ قوموں کے عروج وزوال کا مدار اسی علم پر ہے۔ علم کے بغیر عروج وترقی کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے۔ زوال شروع ہوتے ہی سب سے پہلے زوال کا تیشہ علم پر پڑتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، اسی ملکِ ہندوستان میں مسلمانوں کے علمی زوال اور اس کے اثرات ونقصانات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔
چونکہ علم ہی کے ذریعے دینی ودنیاوی امور و معاملات باحسن طریق انجام پذیر ہوسکتے ہیں، اس لیے اسلام میں تعلیم تفریقِ مرد و زن سے بے نیاز ہے۔ اس نے علم کے باب میں مرد و عورت دونوں کو یکساں طور پر ابھارا ہے۔ جس طرح مرد پر واجب ہے کہ دین کی بنیادی معلومات حاصل کرے اور دنیاوی امور کو بھی علم ہی کی روشنی میں سر انجام دے، اسی طرح عورت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو، علم وبصیرت کی روشنی میں حقوق الہی اور حقوق بندگان ادا کرے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرے۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ معاشرہ صرف مرد کے وجود سے نہیں بنتا، بلکہ عورت کا وجود اتنا ہی ضروری ہے جتنا مرد کا ہے۔ عورت معاشرے کا نصف حصہ ہے۔ انسانی معاشرہ اس وقت تک صالح اور پاکیزہ نہیں بن سکتا جب تک کہ اس میں رہنے والے مرد و عورت دونوں صالح اور باکردار نہ ہوں اور دونوں اسلام کے عطا کردہ ضابطۂ حیات پر مکمل طور پر کاربند نہ ہوں۔ گویا مرد و عورت انسانی معاشرے کی گاڑی کے دو ایسے پہیے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک میں بھی اگر کسی طرح کا نقص وتعطل ہو تو وہ گاڑی صحیح سے چل نہیں سکتی۔ پھر عورت جس سے کائنات کی نیرنگی قائم ہے اور جس کے ساز سے زندگی کا سوز دروں مربوط ہے، کی تعلیم وتربیت سے انحراف بھلا انسانی معاشرے کے لیے کیوں کر درست اور سود مند ہوسکتا ہے۔ بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زند گی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف سے اسی درج کا در مکنوں
کتاب وسنت میں عورتوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق جابجا خصوصی فرامین اس بات پر شاہدِ عدل ہیں کہ عورت کی ذات مسلم معاشرے میں انتہائی وقیع الشان اور رفیع القدر ہے۔ ایک عورت ذات قابلِ احترام اور مستحقِ فضل و شرف کیوں نہ قرار پائے کہ قیامت کے دن مردوں کو حاصل ہونے والا سب سے بڑا اعزاز اسی کی تعلیم وتربیت اور پرورش وپرداخت کا رہینِ منت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
من عالَ جاريتينِ دخلتُ أنا وَهوَ الجنَّةَ كَهاتين وأشارَ بأصبُعَيْهِ (صحيح الترمذي: 19149)
جو شخص دو لڑکیوں کی کفالت وتربیت کرنے میں کامیاب ہوجائے، حتی کہ وہ بالغ ہوجائیں، ميں اور وه جنت ميں يوں چپک كر داخل ہوں گے۔ آپ ﷺ نے درمیانی اور شہادت کی انگلیوں کو جوڑ کر اشارہ کرکے بتایا۔
ایک اور روایت میں آپﷺ نے فرمایا:
مَن عالَ ثلاثَ بَناتٍ، فأدَّبهُنَّ، وزوَّجهُنَّ، وأحسَنَ إليهِنَّ، فله الجَنَّةُ. (تخريج سنن أبي داود: 5147، قال شعيب الأرناؤوط: صحيح لغيره)
جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، ان کی تعلیم وتربیت کی، ان کی شادیاں کیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔
آزاد خواتین کی تعلیم وتربیت کی بات تو اپنی جگہ اہم ہے ہی، اسلام نے لونڈیوں کی تعليم وتاديب پر بھی بہت زیادہ زور دیا ہے اور ان کے حسن تعلیم وتربیت اور اعتاق وتزویج پر دہرے اجر کی بشارت سنائی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
ثَلَاثَةٌ لهمْ أجْرَانِ: رَجُلٌ مِن أهْلِ الكِتَابِ، آمَنَ بنَبِيِّهِ وآمَنَ بمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، والعَبْدُ المَمْلُوكُ إذَا أدَّى حَقَّ اللَّهِ وحَقَّ مَوَالِيهِ، ورَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أمَةٌ فأدَّبَهَا فأحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، وعَلَّمَهَا فأحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أجْرَانِ (بخاری:97)
تین شخص ہیں جن کے لیے دو گنا اجر ہے۔ ایک وہ جو اہل کتاب سے ہو اور اپنے نبی پر اور محمدﷺ پر ایمان لائے۔دوسرے وہ غلام جو اپنے آقا اور اللہ تعالی دونوں کا حق ادا کرے۔ تیسرے وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی ہو جس کی وہ اچھی طرح تربیت کرے، اسے بہترین تعلیم دے، پھر اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے۔
تعلیم نسواں کے سلسلے میں اسلام کی ان سنہری تعلیمات وہدایات ہی کا نتیجہ و اثر ہے کہ کل تک عورت، جو علم و ادب سے نا آشناے محض تھی، آج اس کی نگہبان و محافظ بن گئی اور دنیاے فکر و ادب میں جس کا کوئی وجود نہیں تھا وہ آفتاب علم و ہدایت بن کر چمکنے لگی۔ قرون اولی میں مردوں کی طرح عورتوں نے بھی باضابطہ اپنے آپ کو زیور علم وعرفان سے اچھی طرح آراستہ کیا اور معاشرے کو صالح اور خوش گوار بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کے اندر حقیقی ایمان تھا، انھیں شوہر اور دیگر خویش واقارب کے حقوق کا پتہ تھا، بچوں کی تعلیم وتربیت کا سلیقہ معلوم تھا اور خانگی ذمہ داریوں سے وہ بخوبی واقف تھیں۔ نتیجتاً گھریلو زندگی میں سکون تھا اور پورا معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ مرد و عورت دونوں کے دل ودماغ یکساں طور پر خوف الہی سے معمور تھے۔ ہر ایک کی عزت وآبرو محفوظ تھی۔ بے حیائی، بے پردگی، زناکاری وبدکاری اور فسق وفجور جیسی اخلاقی قباحتیں معدوم تھیں اور ہر سو ایک دوسرے کے تئیں عزت و احترام اور ہمدردی و غم خواری کے جذبات عام تھے۔ لیکن جیسے جیسے چراغ علم بجھتا گیا اور جہالت کی تاریکیاں پھیلتی گئیں، ویسے ویسے شرک و بدعت اور دیگر اخلاقی برائیاں عروج پذیر ہوتی گئیں۔ خاص طور پر خواتین جب ناخواندہ، اصولِ تربیتِ اطفال سے نا آشنا، مبادیاتِ دین سے ناواقف اور خانگی امور ومعاملات کی انجام دہی کے گر سے نابلد ہوگئیں تو معاشرے فساد کے شکار ہوگئے۔
گھریلو ماحول کو دینی وخوش گوار بنانے اور بچوں کی تعلیم وتربیت میں ماں کا سب سے بڑا رول ہوتا ہے۔ ماں کی گود بچوں کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ بچپن میں بچوں کے صاف وشفاف ذہن میں جو کچھ بھی ڈالا جائے گا وہ نقش برحجر کی طرح مستحکم اور پائیدار ہوگا۔ غلط چیز ڈالی جائے تو بچہ زندگی بھر غلطیوں میں غلطاں وپیچاں رہے گا اور اگر صحیح چیز ڈالی جائے تو اس کی زندگی میں اس کے مثبت و خوش گوار اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ عورت کا تعلیم یافتہ اور باکردار ہونا کتنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے امہات المؤمنین اور دیگر صحابیات کی تعلیم وتربیت کا خصوصی اہتمام فرمایا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر متعدد صحابیات علوم قرآن اور علوم حدیث سے پوری طرح واقف تھیں۔ ازواج مطہرات کے علم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے علمی وفقہی اختلافات کو رفع کرنے میں بڑی مدد دی تھی۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد كان الصحابة رضي الله عنھم يختلفون في الشيء فتروي لھم إحدى أمھات المؤمنين عن النبي ﷺ شيئا فيأخذون به ويرجعون إليه ويتركون ماعندھم له.(زاد المعاد،جلد:5،ص: 476)
صحابۂ کرام کے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوتا اور امہات المؤمنین میں سے کوئی حدیث بیان کرتیں، تو وہ اس کو فوراً قبول کرلیتے اور اپنے تمام اختلافات کو چھوڑ کر اسی کی طرف رجوع کرتے۔
خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی علمی وفقہی مرجعیت تمام صحابۂ کرام کے درمیان مسلم تھی۔ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ جیسے عالم وفقیہ صحابی اپنا اور اپنے جیسے دوسرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ما أشكَل علينا – أصحابَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم – حديثٌ قطُّ فسأَلْنا عائشةَ إلَّا وجَدْنا عندَها منه عِلْمًا.( صحيح الترمذي: 3883)
ہم صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کبھی کسی حدیث کے معاملے میں کوئی مشکل پیش آئی اور ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے دریافت کیا تو دیکھا کہ ان کو اس کے متعلق علم ضرور ہے۔
بلاشبہ ایک عورت کو اسلامی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک پورے خاندان کو اسلامی سانچے میں ڈھال دینے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ کیوں کہ تربیت اولاد میں ماں کا کردار ہی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ماں اگر اسلامی تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ ہوگی، توحید وشرک اور سنت وبدعت سے آگاہ ہوگی اور اسلامی جذبات واحساسات سے سرشار ہوگی تو اس کی گود میں پلنے والے بچے بھی صحیح مسلمان اور اسلامی اقدار وروایات کے سچے پاسبان ہوں گے۔
آج جبکہ ہر طرف دین بےزاری، الحاد ولادینیت اور ارتداد کے فتنے عام ہیں، آئے دن مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کی مصنوعی محبت کے جال میں پھنس کر عزت وآبرو اور ایمان واسلام سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، غیر مسلموں کے مکر وفریب اور دسیسہ کاریوں کا شکار ہوکر ان سے دھڑلے سے شادیاں رچاتی ہیں۔ اور چند ہی دنوں کے بعد جب جعلی اور پر فریب عشق کی قلعی کھلتی ہے تو کہیں کی نہیں رہتی ہیں، نہ گھر کی نہ گھاٹ کی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نوبت آتی ہی کیوں ہے۔ ہماری بچیاں دوسروں کی ناپاک منصوبہ بندیوں کا نشانہ کیوں بنتی ہیں۔ اس کے بہت سارے اسباب وعلل ہیں۔ ان میں سے ایک بنیادی اور اہم سبب مسلم بچیوں کا دینی تعلیم وتربیت اور اسلامی اقدار وروایات سے عاری ہونا ہے۔ تربیتی فقدان، اسلامی تعلیمات کے عدم شعور اور اخلاقیات سے محرومی ہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے مسلم بچیاں بہ آسانی مکاروں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔
تربیت اولاد کے حوالے سے اسلام نے ماں کے کاندھے پر جو عظیم ذمہ داری ڈالی ہے، ان پرآشوب حالات میں اس کی اہمیت وضرورت دو چند، سہ چند بلکہ دہ چند ہو جاتی ہے۔گھر ایک ایسا مضبوط حصار ہے جہاں ماں ہی اپنے بچوں کی نت نئے فتنوں کے بارے میں ذہن سازی کرسکتی ہے، ان کی اسلامی تعلیم وتربیت کا اہتمام کر سکتی ہے اور انھیں الحاد ولادینی کے جھکڑ سے اور بے حیائی کے سیلاب سے بچا سکتی ہے۔ کیوں کہ باپ تو بیرونِ خانہ فکر معاش ہی میں الجھا رہتا ہے۔
اور ماں ایک بہترین استانی ومعلمہ کا کردار تب ادا کرسکتی ہے جب وہ خود اسلامی تعلیمات و آداب سے آشنا، زیور تعلیم سے آراستہ اور دینی جذبہ وشعور سے بہرہ ور ہو۔ حالات وظروف سے آگاہ اور نت نئے فتنوں کی سنگینی سے اچھی طرح واقف ہو۔ اور ایک ماں کے اندر یہ ساری مطلوبہ خوبیاں حصول علم کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتیں۔
اللہ تعالی ہمیں بچوں کے ساتھ ساتھ بچیوں کی تعلیم وتربیت کا بھی خصوصی اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ماشاءاللہ بہت خوب