اولاد اور والدین کی مثال

حمود حسن فضل حق مبارکپوری

ایک بیج کو زمین میں بویا جاتا ہے اور وہ بیج کچھ دنوں کے بعد پھوٹتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک ننھا سا پودا بن جاتا ہے۔ اس کو پابندی کے ساتھ سیراب کیا جاتا ہے، اس کی پرورش اور دیکھ بھال کی جاتی ہے، اسے ہر طرح کی نقصان دہ چیزوں سے محفوظ رکھا جاتا ہے اور اس پودے کو بڑا کرنے کے لیے حتی المقدور تمام قسم کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ ان مراحل سے گزرنے کے بعد وہ ننھا سا پودا جو محض ایک بیج تھا اب ایک مضبوط اور تناور درخت کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اس درخت سے وابستہ اس بیج کو بونے والے کی امیدیں پوری ہو جاتی ہیں۔ وہ اس کے پھلوں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اللہ سے دعا‌ کرتا اور چاہتا ہے کہ اس کا‌ یہ درخت مزید پھل دے اور ہمیشہ شاداب رہے۔ اور اگر وہ درخت پھل نہیں بھی دیتا ہے تو اس کی پتیاں اور لکڑیاں بھی بہت سی چیزوں میں کام آ جاتی ہیں۔ وہ درخت بوڑھا بھی ہو جاۓ تو دھوپ میں سائے کا سامان بنتا ہے۔

ٹھیک اسی طرح ایک ماں اپنے بچے کو مہینوں کوکھ میں پالتی ہے اور پھر ہر طرح کی تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد اس دنیا میں اسے جنم دیتی ہے۔ کبھی اس کی زبان بن جاتی ہے تو کبھی اس کا ہاتھ اور پیر، کبھی اس کو ہنسانے کے لیے کھلونا بن جاتی ہے۔ اس کی صالح پرورش اور اچھی نشوونما کے لیے اپنے دن رات کے آرام کو قربان کر دیتی ہے۔ اور بچہ جب تھوڑا بڑا ہوجاتا ہے اور بولنے، سمجھنے کی قوت اس کے اندر آ جاتی ہے تو ماں کی آغوش سے باپ اسے سنبھال لیتا ہے اور اس کی انگلیاں پکڑ کر کسی مدرسے یا اسکول کی طرف لے جاتا ہے تاکہ اس کی اچھی تربیت ہوسکے اور اس کا ذہن و دماغ تعلیم کی روشنی سے منور ہو سکے۔ اس دوران وہ باپ اس کی ہر جائز ضد کو پورا کرتا ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کی خواہشوں کی تکمیل کرتا ہے۔ ماں باپ اس کے روشن مستقبل اور اس کی کامیابی کے لیے ہر لمحہ ہر وقت بلا کسی مطلب و غرض کے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوۓ دعا کرتے ہیں اور اپنے پاکیزہ آنسؤوں سے اس کی خوشی کے پودوں پر چھڑکاؤ کرتے ہیں۔ مرور ایام کے ساتھ وہ بچہ بھی توانا اور مضبوط جوان ہو جاتا ہے اور اپنے پیروں پر جم چکا ہوتا ہے۔ ماں باپ کی اس سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں کہ ان کا بچہ ان کے ان خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرے گا جو انھوں نے اس کے عہد طفولیت میں دیکھا تھا اور ان کی دبی خواہشوں کو کرید کر ان کی تکمیل کرے گا، ان کی خالص پرورش اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں اُف تک نا کہہ کر ان کے سامنے رحمتوں اور محبتوں کے بازو پھیلا دے گا اور کہے گا ”اے میرے رب! تو ان پر ویسے ہی رحم فرما جیسے بچپن میں انھوں نے مجھے پالا تھا“، وہ قدم قدم پر ان کا ساتھ دے گا اور ان کی بچی کھچی زندگی کا مضبوط سہارا بن جائے گا۔
لیکن یہ سب باتیں اور خواہشیں وہ اپنے ہونٹوں تک نہیں لاتے، وہ اس کا بچپن یاد کرکے نم آنکھوں سے مسکرا دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیسے ہم بن کہے اس کی بھوک اور پیاس کے اشاروں کو سمجھ جاتے تھے، کیسے ہمیں معلوم ہو جاتا تھا کہ اس کے رونے کا سبب اس کے پیٹ کا درد ہے۔ ماں کی مامتا اور باپ کی محبت اب بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ خوش رہے، شاد و آباد رہے، بام عروج پر آفتاب بن کر چمکے جس کی شعاعوں سے ان کی آرزوؤں اور دعاؤں کے اثرات کا محل چمکتا رہے۔ وہ ہر جگہ ہر موڑ پر کامیابی کی بلندیوں کو چھوتا رہے۔ اس کے علاوہ شاید ہی کوئی خواہش ان کے دل میں رہتی ہو۔
قربان جائیے ایسی محبت پر جو غرض سے پاک اور مطلب سے مبرا ہے، فدا کرئیے جان و دل ایسے رشتے پر جس کو نباہنے کے لیے ماں باپ توجہ اور التفات کے محتاج نہیں۔
کون سے ایسے لوگ ہیں جو آپ کو والدین سے زیادہ محبت کر سکتے ہیں؟ کون سا ایسا رشتہ ہے جو والدین کے رشتے سے زیادہ سچا اور خالص ہے؟

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
حماد ارشد

ماشاء اللہ، بہت عمدہ، دل کو چھو لینے والی تحریر
بارک اللہ فیکم