اسلام کا وقتی بیانیہ: ایک جائزہ (قسط:٢)

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی

مارچ 2019 کی 24 تاریخ تھی جب میں نے (اسلام کا وقتی بیانیہ: ایک جائزہ) کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا، جس میں بنیادی پیغام یہ تھا کہ نبیﷺ کی حدیث(نضر اللہ امرأ سمع منا حدیثا فبلغہ کما سمعہ فإنہ رب مبلغ أوعی من سامع)(واللفظ للدارمي) کی روشنی میں حاملین اسلام کا فریضہ یہ ہے کہ اسلام کو ہر دور میں جوں کا توں پیش کردیں کیونکہ خود اسلام میں یہ خوبی ہے کہ وہ قیامت تک آنے والے ہر زمانے اور علاقے کو متاثر کرنے کی فطری طاقت رکھتا ہے اور اس کی سادگی ہی اس کا حسن اور کمال ہے۔ اسی حقیقت کی طرف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اس اثر میں اشارہ فرمایا ہے (اتبعوا ولاتبتدعوا فقد کفیتم) طے شدہ راہ پر چلو، نئے کی جستجو نہ کرو کیونکہ تمھیں اس سے بے نیاز کردیا گیا ہے۔(الدارمي:۲۱۱) اسلام کے ساتھ تفہیم ِاسلام یا تشریح ِاسلام کے نام پر ہر نئے زمانے میں تجربات نہ کریں، کیونکہ ہر تجربہ ایک نئے بیانیہ کو جنم دے گا اور اگلا بیانیہ پچھلے بیانیے کو جھٹلائے گا۔ اس طرح اسلام ایک طرف تبدیلی کا بھی شکار ہوگا اور دوسری طرف اپنی نفی آپ خود کرے گا اور ساتھ ہی اپنی فطری قوت بھی کھو بیٹھے گا۔
مضمون کے نشر ہوجانے کے بعد کئی ایک سنجیدہ قسم کے لوگوں نے اس مضمون کے مشمولات پر تبادلہ خیال بھی کیا اور رد وقدح بھی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ مضمون میں ذکر کردہ حقائق زمینی بھی ہیں اور سمجھ میں آنے والے بھی۔ مضمون کے عام ہوجانے کے بعد ۲ اپریل کو ایک صاحب کی طرف سے (ظن غالب ہے کہ اس مضمون کی زد خود ان کی فکر پر بھی پڑی ہوگی) درجِ ذیل تحریر موصول ہوئی:
مثال کے بغیر
بینکنگ کی اصطلاح میں ایک لفظ ہے ڈڈ چیک (dud check) یعنی ایک ایسا چیک جس کے حق میں بینک میں ضروری رقم موجود نہ ہو۔ ایسی ہی مثال اس مضمون یا کتاب کی ہے، جس میں بڑی بڑی باتیں بیانیہ انداز میں ہوں، مگر ان باتوں کے حق میں کوئی ثابت شدہ دلیل موجود نہ ہو۔
مثال کے بغیر تحریر کا یہ انداز قدیم دور میں عام تھا۔ جب سائنس کا زمانہ آیا تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ متعین مثال کے بغیر کوئی تقریر یا تحریر اتنا ہی بے قیمت ہے، جتنا کہ بینک کی اصطلاح میں ڈڈ چیک (dud check)۔ مثلاً آپ کہیں کہ شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی عالم ادب کے آفتاب و ماہتاب تھے۔ یا محمد اقبال اور محمد علی جناح برصغیر کی مسلم سیاست میں عہد ساز مفکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تو ایسا بیان علمی اعتبار سے ڈڈ چیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ ان بیانات میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بیانیہ انداز میں ہے، دلیل کے انداز میں نہیں۔
جو لوگ اس طرح کے بیان کی کمزوری کو نہ جانتے ہوں، ان سے میں کہوں گا کہ وہ ایک کتاب کے صرف ایک باب کو پڑھ لیں۔ یہاں کتاب کا نام اور اس باب کا نام لکھا جاتا ہے:
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West, (Chapter: The Death of Metaphor) J. Murray, 1965, pp. 132.
جیسا کہ معلوم ہے کہ بینک کسی ڈڈ چیک پر لکھے ہوئے اماؤنٹ پر کوئی ادائیگی نہیں کرتا، جب تک اس رقم کے حق میں بینک میں ضروری کیش موجود نہ ہو۔ اسی طرح ایسا مضمون جو دعوی کی زبان میں ہو، لیکن اس میں کوئی مثال نہ دی گئی ہو، ایسے مضمون کو پڑھنے سے قاری کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملتا ہے۔ ایسا مضمون صرف ڈڈ چیک کی مانند ہے۔ اس میں نہ لکھنے والے کے لیے کچھ ہوتا ہے، اور نہ پڑھنے والے کے لیے کچھ۔ ایسا مضمون لکھنا اور پڑھنا، دونوں صرف وقت کا ضیاع ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔”

پہلے پہل تو بات سمجھ میں نہ آئی مگر استفسار پر پتہ چلا کہ یہ تحریر دراصل مذکورہ بالا مضمون (اسلام کا وقتی بیانیہ: ایک جائزہ) پر استدراک یا رد ہے۔ واٹس اپ پر موصول اس تحریر کے جواب میں بروقت میں نے لکھ دیا: ’’مضمون میں مثالیں تو ہیں مگر تفصیل نہیں، کئی لوگوں نے پڑھ کر سمجھا بھی ہے۔ بہرحال فیڈبیاک (feedback) کا شکریہ‘‘ اور بات ختم کردی۔ مگر دل میں یہ بات تھی کہ کیوں نہ اس سلسلے کی دوسری قسط لکھ دی جائے اور بعض مثالوں کے ذریعے بات کو اور واضح کردیا جائے۔ زیر نظر تحریر دراصل اسی سلسلے کی تکمیل ہے۔ (مناسب ہوگا کہ آگے بڑھنے سے پہلے ایک مرتبہ پہلی قسط پڑھ لیں)

قبل اس کے کہ مضمون کی مزید وضاحت کی طرف آئیں مذکورہ بالا تبصرہ والی تحریر میں پائے جانے والے جھول پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
تبصرہ نگار کا اس مضمون کو (dud check) ڈڈ چیک قرار دینا ان کی کوتاہ نظری ہے، کیوں کہ اس مضمون میں ’’کلامی بیانیہ‘‘ ’’جہادی بیانیہ‘‘ اور’’ سلمی بیانیہ‘‘ کی مثالیں دی گئی تھیں۔ لیکن شاید یہ مثالیں تبصرہ نگار کے نزدیک ’’واضح ‘‘ نہیں تھیں، تب ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان کی وضاحت طلب کرلیتے مگر مضمون کو ہی سرے سے ڈڈ چیک قرار دینا ایک طرف قرین ِانصاف نہیں تو دوسری طرف تبصرہ نگار کی کوتاہ بینی کا مظہر بھی ہے۔
دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ فرق ایک مبتدی درجہ کا طالب علم بھی سمجھتا ہے کہ کسی تحریر یا تقریر میں صرف دعوی کا ہونا اور اس کے ساتھ دلیل کا ذکر نہ کیا جانا ایک الگ مسئلہ ہے اور تحریر وتقریر کا سرے سے دلیل سے عاری ہونا اور محض ایک گپ کی حیثیت رکھنا ایک الگ مسئلہ۔ ایک قاری یا سامع کی حیثیت سے آپ یقینا اس کے مجاز ہیں کہ اس دعوی کی دلیل کا مطالبہ کریں لیکن یہ آپ کی کوتاہ فہمی ہوگی کہ سرے سے اس تحریر یا تقریر کو ہی نکار دیں۔

اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک خطیب یا قلمکار اس اعتماد کے سہارے بھی بات کو مختصر کرلیتا ہے کہ سامعین یا قارئین بھی جہاندیدہ اور علم والے ہیں بلکہ بسا اوقات خطیب یا قلمکار سے زیادہ علم وفضل کے حامل ہیں، ضابطہ یا نظریہ سمجھ جائیں تو مثالیں خود اکٹھا کرلیں گے۔ اب اگر کوئی ایسی صورت حال میں بھی طفلِ مکتب بننے کی کوشش کرے اور انگلی پکڑ کر چلنے کی ضد کرے تو کیا کیا جائے؟

تبصرہ نگار کے بقول ’’ایسا مضمون لکھنا اور پڑھنا، دونوں صرف وقت کا ضیاع ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔‘‘ چونکہ میں اس گناہ کا مرتکب ہوہی چکا ہوں اس لیے کفارہ یہی ہے کہ دوسری قسط لکھ کر اس مضمون کو ذرا اور واضح کردوں اور پہلی قسط میں لگے سبھی کے وقت کو کارآمد بنادوں۔ لہذا پیش خدمت ہے دوسری قسط۔

وقتی بیانیہ کی کئی مثالیں ہیں اور ہوسکتی ہیں مگ سردست ہم انہی مثالوں کے سلسلے میں بات کرتے ہیں جن کا تذکرہ پہلی قسط میں اجمالا آچکا ہے۔ ‘کلامی بیانیہ، جہادی بیانیہ اور سلمی بیانیہ’ ان میں سے سب سے پہلے کلامی بیانیہ ہی کو لیجیے۔

کلامی بیانیہ:
خلافت عباسیہ میں خلیفہ ابوجعفر منصور کی علم دوستی سے ہوئی شروعات نے ہارون رشید کے دور میں بیت الحکمۃ کی شکل اختیار کرلی۔ مامون کا دور آیا تو اسی بیت الحکمۃ میں روم سے یونانی فلسفہ کی کتابوں نے جگہ پائی، فلسفہ کی ان کتابوں کے جو اثرات ہوئے ان کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اسلامی عقائد کے سلسلے میں عقلانی شبہات، اعتراضات اور شکوک وشبہات کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ فکر ونظر کے اس معرکہ میں ایک طرف فلاسفہ تھے جن میں سے بعض وجود باری کے ہی منکر تھے تو بعض اللہ تعالی کو اسماء وصفات سے عاری ’’مجرد وجود‘‘ قراد دیتے تھے تو دوسری طرف انہی سے متاثر معتزلہ وجود میں آئے جنھوں نے اللہ تعالی کے اسماء حسنی کے اثبات کے باوجود اس کی جملہ صفات کا انکار کردیا۔
اب اس صورت حال کا سامنا کرنے اور اسلامی عقائد کی حفاظت اور ان کے دفاع کے سلسلے میں جو طریقہ اپنایا گیا ان میں سے دو طریقوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ایک طریقہ محدثین کرام کا تھا جنھوں نے حسب ِسابق قرآن وسنت اور صحابہ کے فرمودات کو بنیاد بنایا اور قرآن وسنت کے بیان کردہ حقائق اور ان پر اعتراضات کا عقلی پیرائے میں بھی دفاع کیا جس کا مظہر تیسری اور چوتھی صدی میں لکھی گئی اہل علم کی متعدد تصانیف ہیں اور اسی تسلسل کا شاندار نتیجہ علامہ ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہما اللہ کی متعدد تصانیف ہیں بالخصوص شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی شاہکار کتاب (درء تعارض العقل والنقل) ہے۔
دوسرا طریقہ وہ ہے جو اشاعرہ وماتریدیہ نے اپنایا، عقل کا توڑ عقل ہی سے کرنے کی ٹھانی، فلسفہ کا جواب علم کلام جیسی ایجاد کے ذریعے دینے کی کوشش کی۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں کلامی بیانیہ وجود میں آیا۔ انھوں نے یہ دیکھا کہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا کہ عقیدہ کے مسائل خالص عقلانی نہیں ہیں گرچہ وہ معقول ہیں۔ قرآن وسنت کے بیان کردہ سبھی عقائد مطلوبہ حد تک سمجھ میں تو آتے ہیں لیکن ان کے اثبات کے لیے خالص عقلانی پیرایہ مفید نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالی کی لا تعداد اعلی صفات میں سے صرف سات صفات (قدرت، ارادہ، علم، حیات، سماعت، بصارت، کلام) کو ثابت کیا بقیہ کی حقیقت کی نفی کردی اور تاویل کا راستہ اپنالیا۔ اس طرح حفظت شیئا وغابت عنک أشیاء کا مصداق بنے۔ ایک طرف فلاسفہ اور معتزلہ پر رد بھی کیا اور دوسری طرف خود ان کی بہت ساری گمراہیوں کے اقراری بھی بن بیٹھے۔ شیخ الإسلام ابن تیمیہ نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اشاعرہ اور ماتریدیہ کے بارے میں یہ بات نقل کی ہے کہ شیخ ابواسماعیل انصاری رحمہ اللہ انھیں ’’مخانیث المعتزلۃ‘‘ کہتے تھے۔ یعنی انھوں نے معتزلہ سے آدھا اختلاف کیا تو آدھی موافقت بھی کرلی۔

اس کلامی بیانیہ کا اثر یہ ہوا کہ اللہ تعالی کی سات کے علاوہ بقیہ صفات کا انکار کیا گیا، اللہ کی صفت کلام کے سلسلے میں بے جا قسم کی تاویلات ہوئیں، اسماء وصفات سے متعلق نصوص کی تاویل ہوئی، سلف صالحین صحابہ وتابعین کے بارے میں یہ کہا گیا کہ وہ ان ساری حقیقتوں سے نابلد بدووں کی طرح صرف الفاظ پڑھتے تھے معانی کی گہرائی کی طرف توجہ نہیں تھی۔ اللہ تعالی کی صفات جو قرآن وسنت میں وارد ہیں ان کے اثبات کو تشبیہ اور تجسیم قراردیا گیا۔ اس طرح اسلام کے فطری اور سادہ اور انتہائی معقول عقائد کی نفی خود اسلام کے نام پر کی گئی اور اس گمراہی کو غلط بنیادوں پر اہل سنت کا مذہب قراردیا گیا۔
کلامی بیانیہ بظاہر ایک ضرورت کی ایجاد تھی، جس میں فساد نیت کا بھی کوئی عمل دخل نہیں تھا (والعلم عنداللہ)۔ لیکن محدثین کے طرز پر اسلامی عقائد کے سادہ بیانیہ کے بجائے عقلانی بیانیہ کی اس ’’کوشش‘‘ نے یہ گل کھلائے ہیں۔ اس کے مقابلے محدثین کرام نے عقائد کے بیان کے اسی فطری اور سادہ سے اسلوب کو اپنائے رکھا، اسلامی عقائد کی صحیح ترجمانی بھی کی، شبہات کا ازالہ بھی کیا اور اعتراضات کا جواب بھی دیا، کسی نئے بیانیہ کے چکر میں نہیں پڑے اور اس طرح اہل سنت کے لقب کے حقیقی وارث قرار پائے۔
کلامی بیانیہ کی جدت کے باوجود اس کی ناکامی اور سلف صالحین کے اس سادہ بیانیہ کی کامیابی کا اعتراف علم کلام کے اس بحر بے کنار کے شناور امام رازی نے ان الفاظ میں کیا ہے(لقد تأملت الطرق الکلامیۃ والمناھج الفلسفیۃفما رأیتھا تشفي علیلا ولاتروي غلیلاورأیت أقرب الطرق طریقۃ القرآن) یعنی میں نے علم کلام کے طریقوں کو بھی جانچ لیا اور فلسفہ کے مختلف مناہج بھی پرکھ کر دیکھ لیے، میں نے نہیں دیکھا کہ وہ کسی(شکوک وشبہات کے کسی) بیمار کو شفا دیتے ہوں یا پیاسے کی پیاس مٹاتے ہوں۔ اس کے برخلاف میں نے یہی دیکھا کہ (منزل مقصود تک پہنچانے والے) سارے راستوں (بیانیوں) میں قریب تر قرآن کا طریقہ ہے۔ مزید آگے فرماتے ہیں (ومن جرب مثل تجربتي عرف مثل معرفتي) اور جو میرے جیسا تجربہ کرے گا میری ہی طرح اسی نتیجہ تک پہنچے گا۔ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ: ۱۷۸)

جہادی بیانیہ:
دوسری مثال جہادی بیانیہ کی ہے۔ جہاد اسلام کا ایک اہم حکم ہے، نبیﷺ کا فرمان ہے: (وأما ذروۃ سنامہ فالجہاد في سبیل اللہ)(مسند أحمد:۲۲۰۶۸)یعنی جہاد اسلام کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔ اور جب جہاد صحیح شرعی بینادوں پر قائم ہو تو اس صورت میں فرمایا: (من مات ولم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو مات علی شعبۃ من النفاق) جو اس حال میں مرجائے کہ اس نے جہاد نہ کیا ہو اور جہاد کی آرزو نہ کی ہو وہ نفاق کے ایک شعبہ پر مرتا ہے۔ (مسلم: ۱۹۱۰)
شریعت اسلامیہ میں جہادکے اغراض ومقاصد، شرائط وآداب اور فضائل ومناقب سب کچھ مذکور ہیں۔ حدیث وفقہ کی تقریبا تمام کتابوں میں کتاب الجہاد ایک نمایاں باب ہے جس میں اسلامی جہاد کے احکام ومسائل مذکور ہیں۔ تاریخ اسلام میں متعدد اہل علم نے جہاد کے موضوع پر کتابیں تصنیف کی ہیں اور سب سے بڑھ کر امت نے اپنی چودہ سوسالہ تاریخ میں جہاد کی ایک عظیم تاریخ پیچھے چھوڑی ہے جو ان اعلی تعلیمات کی عمدہ مثال بھی ہیں اور اس کے خیرات اور برکات کا مظہر بھی۔ مگر اس سب کے باوجو د جہاد محض اسلام کی ایک اہم تعلیم ہے وہ خود کل دین نہیں ہے۔ جہاد بمعنی قتال ہی کو کل دین بتانا جہادی بیانیہ ہے، جس میں جہاد کی ضرورت کے پیش نظر اس کی اہمیت کو کچھ اس انداز میں بیان کیا جائے کہ وہی دین کا محور بن جائے اور دین کے جملہ احکام کی ترتیب کچھ یوں بدل جائے کہ عقیدہ وعمل کی تمام کڑیاں بجائے اس کے کہ باہم جڑی نظر آئیں سب کی سب اسی جہاد بمعنی قتال پر منتج ہوں۔

عصر حاضر میں یہ صورت حال پیش آئی کہ انیسویں صدی عیسوی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز نے ایک طرف بالعموم مسلمانوں کا ہمہ جہتی زوال دیکھا تو دوسری طرف بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز میں مختلف داخلی وخارجی وجوہات اور کچھ اپنوں کے اور کچھ پرایوں کے فراہم کردہ اسباب کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون بے دریغ بہایا گیا، ان کے مقدسات کی توہین کی گئی، ان کے ملک تباہ ہوئے اور چشم فلک نے کئی طرح کے تماشے دیکھے۔

دنیا کے دستور کے مطابق سیاسی زوال کے لازمی تقاضوں میں سے کئی ایک کا سامنا ہوا تو مسلمانوں کے اندر دو طرح کی فکر نے جنم لیا۔ ایک طرف چند لوگوں نے یہ مان لیا کہ مسلمانوں کے سیاسی غلبہ ہی سے اس ذلت کا خاتمہ ممکن ہے اور پھر اسی فکر کے حاملین میں سے بعض نے مزید آگے بڑھ کر یہ مان لیا کہ اس سیاسی غلبہ اور حکومت کے قیام کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ سیدھے جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ دوسری فکر رد عمل کی تھی کہ جب غیر ہمیں مارتے ہیں تو ہم بھی جیسے کو تیسا کا معاملہ کریں۔ اور بدلہ کی اسی جنگ کو مطلقا ’’اسلامی جہاد‘‘ قرار دے دیا۔ دھیان رہے کہ ان دونوں طرح کی فکر میں کچھ سچائی تھی تو دوسری طرف بہت ساری جذباتیت اور غیر علمی اور غیر منہجی غلطیاں جس کے نیتجہ میں اسلام کی ایک خاص تصویر ابھر کر سامنے آئی۔ یہی تصویر اسلام کا جہادی بیانیہ ہے۔ آپ چاہیں تو اسے اسلام کے تصور جہاد میں غلو کہہ لیں، شرعی ضوابط اور حدود کی تاویل بلکہ بسااوقات تردید کے ساتھ جہاد کے نام پر ایسی ایسی کارروائیوں کو جواز فراہم کیا گیا جن کا شرعا کوئی جواز نہیں بنتا تھا جو جہاد نہیں فساد تھیں۔

اس بیانیہ کے نقصانات کیا ہوئے؟ یہ اظہر من الشمس ہے. اسلامی جہاد کے عظیم مقاصد میں سے کسی مقصد کا حصول تو درکنار الٹا خون مسلم کی ارزانی، جائداد واملاک کی بربادی، مسلم آبادیوں کی تباہی، جان ومال اور عزت وآبرو کی بے وقعتی اور سب سے بڑھ کر جو اسلام اور جہاد اسلامی پر ناحق دہشت گردی کا لیبل لگارہے تھے، جو مستشرقین تاریخ اسلام کو توڑ مروڑ کر مثالیں گھڑا کرتے تھے اور محض کتابی دنیا میں اسلام اور دہشت گردی کو مترادف قراردیا کرتے تھے ان کو زمینی سطح پر بھرپور مواد فراہم کردیا گیا۔ اس پر مستزاد ملکی وبین الأقوامی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے لیے نت نئے مسائل کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا جن کا سامنا صبح وشام وہ کررہے ہیں جن کا علم سب کو ہے۔ اب تو لگتا ہے ایک طرف مسلمانوں میں سے اس بیانیہ سے متاثر افراد کو اس کے اثرات سے نکلنے اور دوسری طرف اس کے نیتجے میں غیر مسلموں میں پیدا غلط تاثر کو ان کے ذہن و دماغ سے مٹانے کے لیے کم از کم ایک نسل کا گزرنا ضروری ہے۔

سِلمی بیانیہ:
تیسری مثال ’’سلمی بیانیہ‘‘ کی ہے۔ سلمی بیانیہ دراصل جہادی بیانیہ کا رد عمل ہے۔ جہادی بیانیہ کی حقیقت افراط تھی تو سلمی بیانیہ کی حقیقت تفریط ہے۔ سلمی بیانیہ کو مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو یوں کہیں اسلام کا ایسا بیانیہ کہ جس میں جہاد کا ذکر سرے سے نہ ہو یا ہو تو جہاد بمعنی قتال کی بالواسطہ یوں نفی ہو کہ جہاد تو اسلام میں رہے لیکن قتال جہاد کا حصہ نہ رہے۔ سلمی بیانیہ لگ بھگ وہی ہے جو تحریف شدہ انجیل میں عیسی علیہ السلام کا یہ مسلک بتاتا ہے (لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنا گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیردے اور اگر کوئی تجھ پر نالش کرکے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا) (انجیل متی باب ۵:۴۰-۴۲) حالانکہ عیسی علیہ السلام کی یہ تعلیم بھی سیاق وسباق کی روشنی میں اخلاقیات کا حصہ لگتی ہے جو خالص شخصی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں۔

سلمی بیانیہ دراصل اس صورت حال کی پیدا وار ہے جو جہادی بیانیہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ ایک طرف مستشرقین نے اسلام کے خلاف بالخصوص جہاد کے خلاف ایک زمانے سے محاذ قائم کر رکھا تھا تو دوسری طرف اسلام کے نام پر بعض مسلمان یا غیروں کی طرف سے دہشت گردانہ واقعات کی کثرت نے اسلام اور جہاد پر اعتراضات کا بازار گرم کردیا تب کچھ اسلام کے ’’خیرخواہوں‘‘ نے اس بیانیہ کو اپنایا۔ ان کی نیت کو اللہ جانتا ہے مگر ان کے اس بیانیہ نے اسلام کی ایک ایسی نئی تصویر پیش کی جس میں ایک طرف تاریخ اسلام کے عظیم مجاہدین ِاسلام کٹگھرے میں کھڑے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف مسلم تاریخ کے عظیم حکمرانوں کے حق میں طعن وتشنیع کی سوغات کے علاوہ اور کچھ نہیں جاتا۔
اس بیانیہ کے مظاہر کئی ایک ہیں:
(۱)کچھ لوگوں نے جہاد ہی کو سرے سے منسوخ قرار دے دیا۔
(۲)کچھ لوگوں نے مسیحی ماڈل اور محمدی ماڈل کی بے سند تقسیم کو بنیاد بناکر محمدی ماڈل کو جزوی طور پر نئے حالات میں ناقابل انطباق قراردیا جس سے ان کی منشا ہی یہی تھی کہ نئے زمانے میں جہاد کی نفی کردی جائے۔
(۳)کچھ لوگوں نے جہاد کا معنی محض ’’انتھک کوشش کرنا‘‘ بیان کرتے ہوئے کہنا شروع کردیا کہ اسلام غربت کے خلاف جنگ کی دعوت دیتا ہے، برائیوں کے خلاف لڑنے کی دعوت دیتا ہے، نفسانی خواہشات کے خلاف برسر پیکار ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اور یہی جہاد ہے۔ جہاد کے وسیع مفہوم کو بیان کرنا اور اس کی الگ الگ قسموں کو بیان کرنا غلط نہیں تھا لیکن زبان قال سے صرف انہی صورتوں کا تذکرہ کردینا اور زبان حال سے جہاد بمعنی قتال کی نفی کردینا ان لوگوں کا وطیرہ ہے۔
(۴)کچھ لوگ لفظ اسلام کو محض سلامتی کا ہم معنی قرار دینے اور اسی کی تبلیغ پر اس قدر مصر ہیں جیسے جہاد واقعی دہشت گردی جیسی کوئی چیز ہو اور سلامتی والے دین کا حصہ نہ ہو۔ یاپھر جیسے انھیں مجبورا اقرار کرنا پڑرہا ہو، جھینپے جھینپے سے، معذرت خواہانہ لہجہ، جھکی جھکی نظریں اور سہمہ سہمہ سا انداز۔
(۵)کچھ لوگ اسلام کو محض روحانیت کا باب قرار دینے پر مصر اور اسلام کو صرف بندے اور رب کے باہم رشتے سے تعلق رکھنے والا مذہب قراردینا چاہتے ہیں اور اس پر مصر ہیں کہ نئے زمانے کا دین ڈیموکریسی ہے جس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مذہب آدمی کا ایک پرائیویٹ معاملہ ہے اس کا دنیاوی نظام میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
جتنے منہ اتنی باتیں، ہاں ان سب میں یہ قدر مشترک ہے کہ جہاد کا اقرار کہیں در نہ آئے، یہ سلمی بیانیہ ہے جو لوگوں سے پوچھتا ہے کہ آپ کو کیسا اسلام چاہیے؟ پھر آپ جس پر راضی ہوں وہی اسلام ہے۔
جہادی بیانیہ اور سلمی بیانیہ کے افراط و تفریط کے درمیان سلف صالحین کا مبنی بر اعتدال سادہ اور ہر حال میں بے لچک بیانیہ یہ ہے کہ وہ ایک طرف اس بنیاد پر قائم رہتے ہیں(الجھاد ماض منذ بعثني اللہ إلی أن یقاتل آخرأمتي الدجال ) جہاد میری بعثت سے لے کر اس وقت تک باقی رہے گا جب تک میری امت کے آخری لوگ دجال سے لڑ نہ لیں(أبوداود- حسن لغیرہ) تو دوسری طرف عین میدان جنگ میں بھی ہونے والی اجتہادی بے اعتدالی یا جہاد کے نام پر ہونے والے غلط اقدام کو ان الفاظ کے ساتھ نکار دیتے ہیں (اللہم إني أبرأ إلیک مما صنع فلان) اے اللہ! میں فلاں کی کارستانی سے بری ہوں۔(البخاری)

اسلام کے اس فطری بیانیہ کا تقاضہ یہ ہے کہ جہاد کا اقرار بھی کیا جائے اور اس پر اٹھنے والے اعتراضات کا جواب بھی دیا جائے۔ اس بیانیہ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اسلام کی ہر تعلیم کی طرح جہاد کو بھی انسانیت کی فلاح وبہبود کا ضامن قراردیتا ہے۔ اس کی نظر سے یہ حقیقت کبھی اوجھل نہیں ہوتی کہ ایک جان لیتے ہوئے بھی {ولکم في القصاص حیاۃ یا أولی الألباب } عقلمندو! تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ (البقرۃ :۱۷۹) کی تعلیم دینے والے اسلام کا پیغام ِجہاد بھی انسانیت کے لیے باعث رحمت ہی ہے اور اس حقیقت کی سب سے بڑی گواہ سیرت ِرسول ﷺ ہے۔ اس بنیاد پر جب تک خود کو مطمئن نہیں کرپائیں گے تب تک معترض سے پہلے خود ہمارے ذہن جہاد سے بدظن ہوں گے اور دوسروں کے اعتراض سے قبل ہم خود معذرت خواہانہ مزاج کے حامل بن جائیں گے۔ اور دوسری طرف اس بیانیہ کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ جہاد کے نام پر بے لگام خون کی ہولی کھیلنے والوں کے غلط تصرفات پر کھلے الفاظ میں نکیر کی جائے، اور اس انکار کے پیچھے کسی اور کو خوش کرنے سے زیادہ خود اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے کا جذبہ کارفرما ہو۔

جاری………

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
D Ziaur Rahman

تیسری قسط مطلوب ہے

سعد احمد

مضمون کی دوسری قسط “علمي کار کردگی” ہے۔ مضمون میں ذکر کی گئیں بحثیں بھی موضوع بحث بنائی جانی چاہیئں۔ مضمون نگار جس طرح اپنی بات رکھنے میں بے خوف ہیں وہ یقینا خلوص اور سچائی کی وجہ سے ہے۔ اللہ مضمون نگار کو جزائےخیر دے۔ مضمون جتنا تعریف و تمجید کا مستحق ہے، تنقید، تجزیہ اور جائزوں کے لئے بھی ابھارتا ہے۔