وبا کے بعد

شہاب الدین کمال عبادات

راہ راست سے بھٹکے ہوئے انسان کا صراط مستقیم پر چل پڑنے کا ایک سبب مصیبتیں، پریشانیاں، بیماریاں اور بلاؤں کا نزول بھی ہوتا ہے۔ جب انسان خود کو دنیا کی رنگینیوں میں رنگ کر آخرت کو بھول بیٹھتا ہے، راہ راست سے اس کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں، صحیح غلط، کھرے کھوٹے اور سیاہ و سفید کی تمیز کھو بیٹھتا ہے تو اللہ رب العالمین راہ راست پر لانے کے لیے مصیبتوں، پریشانیوں، بیماریوں اور بلاؤں کو نازل کرتا ہے۔ تب بندہ اپنی بری خصلتوں کو ترک کردیتا ہے، رب کے حضور اپنے گناہوں پر رو اور گڑگڑا کرکے اپنے خالق سے رشتے کو استوار کرنے کی کوشش کرتا ہے، حتى المقدور اللہ اور رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق زندگی بسر کرنے لگتا ہے اور یکسر اپنے آپ کو تبدیل کر لیتا ہے پھر دوبارہ ان گناہوں اور خطاؤں کی طرف مڑ کر تاکتا بھی نہیں ہے۔

لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو تکلیف اور مصیبت کے وقت اپنی بری عادتوں کو چھوڑ دیتے ہیں، گناہوں اور نافرمانیوں سے باز آجاتے ہیں اور فرائض، سنن ونوافل کا اہتمام بھی کرنے لگتے ہیں لیکن جیسے ہی مصیبت ٹلتی ہے اور برے وقت کا بادل چھٹ جاتا ہے تو وہ الٹے پاؤں نافرمانیوں، گناہوں اور من مانیوں والی زندگی کی طرف پلٹ آتے ہیں۔

اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو یہ بات ذہن نشین کرلے کہ ایسا شخص جو فقط کسی بیماری اور مصیبت کے وقت یا کسی قلم کار کے اچھوتے انداز میں لکھے ہوئے مضمون کا مطالعہ کرکے، یا کوئی نصیحتی کلام سن کر جذبات میں آکر کے اعمال خیر شروع کرتا ہے، لیکن جلد ہی اس کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے یا اکتاہٹ اور معمولی عذر کی بنا پر اعمال خیر اور سیدھی راہ کو ترک کردیتا ہے۔ تو ایسے شخص کے اعمال اللہ رب العالمین کے نزدیک محبوب نہیں ہوتے ہیں، بلکہ نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق:

“وأنَّ أحَبَّ الأعْمالِ إلى اللَّهِ أدْوَمُها وإنْ قَلَّ”

کہ اللہ رب العزت کے نزدیک سب سے محبوب اور پسندیدہ وہ عمل ہوتا ہے جس پر ہمیشگی اور دوام برتا جائے خواہ وہ عمل تھوڑا ہی کیوں نہ ہو”۔ (صحیح البخاری)

اسی طرح ایک مرتبہ آپ ﷺ نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:

“لا تَكُنْ مِثْلَ فُلانٍ كانَ يَقُومُ اللَّيْلَ، فَتَرَكَ قِيامَ اللَّيْلِ”

یعنی تم فلاں شخص کے مثل نہ ہوجانا جو رات میں قیام کرتا تھا پھر اس نے قیام اللیل کو ترک کردیا۔(صحیح البخاری) اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

“كانَ عَمَلُهُ دِيمَةً”

کہ آپ ﷺ کا عمل ایسا ہوتا تھا جس پر آپ مداومت کرتے تھے۔

عرض مدعا یہ ہے کہ جس طرح سے ہم کورونا وائرس کی وجہ سے گناہوں اور نافرمانیوں سے توبہ کرکے رب کی اطاعت اور فرمانبرداری میں لگ گیے ہیں، آئیے عہد کرتے ہیں کہ اسی طرح اس وبا اور مصیبت کے ٹلنے کے بعد بھی ہم اللہ اور رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق زندگی گزاریں گے، اور جو تقوی اور رب کا ڈر ہمارے اندر پیدا ہوا ہے اس کی ہم پرورش کریں گے کیونکہ اللہ رب العالمین سے وقتی طور پر ڈرنا اور تقوی پیدا کرلینا کافی نہیں ہوتا ہے، بلکہ جب تک اس دنیا میں ہم سانس لیتے رہیں ہمیں اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا گیا ہے:

“یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِۦ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسۡلِمُونَ”

اور عبادت میں بھی دوام ضروری ہے:

“وَٱعۡبُدۡ رَبَّكَ حَتَّىٰ یَأۡتِیَكَ ٱلۡیَقِینُ”

یعنی جب تک موت نہ آجائے اللہ کی بندگی اور عبادت کرتے رہو۔
اللہ سے دعا کرتے ہیں:

“يا مُقَلِّبَ القُلوبِ ثَبِّتْ قَلْبي على دِينِكَ وطاعَتِكَ”

کہ اے دلوں کو الٹنے پلٹنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین اور اطاعت پر ثابت رکھ۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000