متعالم اگر متعلم نہ بنے تو صرف ایک ہی علاج ہے

کاشف شکیل تعلیم و تربیت

ایک چیز ہے عالم ہونا ایک چیز ہے عالم بننا۔ سو جو عالم ہے وہ علم بانٹے مگر جو عالم نہیں ہے وہ خود کو معقولات و منقولات کا امام سمجھ کر علم کے نام پر اپنی لن ترانیاں بانٹے ایسے شخص کو “متعالم” (Wiseacre) کہتے ہیں۔ جھولا چھاپ ڈاکٹر جس طرح جسمانی صحت کے لیے مضر ہے اسی طرح یہ متعالمین علمی صحت کے لیے۔ نیم حکیم خطرہ جاں، نیم‌ ملا خطرہ ایماں۔
علامہ صالح الفوزان سے پوچھا گیا (اور یہ فتوی ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے) کہ عالم اور متعالم کے درمیان فرق کیسے ہو؟ تو علامہ صاحب نے فرمایا کہ یہ بہت واضح بات ہے۔ علماء لوگوں‌کے درمیان معروف ہیں۔ جب کہ متعالم وہ شخص ہے جس نے علماء و مشائخ سے کسب علم نہ کیا ہو، بس کچھ کتابیں پڑھ رکھی ہوں۔ علم کو علماء سے نہ حاصل کیا ہو۔ ایسا شخص لقیط ہے نہ کہ عالم۔ لقیط اس نوزائیدہ بچے کو کہتے ہیں جو پبلک پلیس یا کوڑے دان وغیرہ میں ملے اور اس کے ماں باپ کا کچھ پتہ نہ ہو۔
متعالمین کا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ راسخین فی العلم کے پاس جو علمی اصالت (Scientific Authenticity) ہے اس سے حسد کرتے ہیں، اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور علماء کے پاس جو علمی رسوخ ہے اس کے دشمن ہوتے ہیں‌۔ شاعر نے سچ ہے:
جَهِلْتُ فَعَادَيْتُ الْعُلُومَ وَأَهْلَهَا
كَذَاك يُعَادِي الْعِلْمَ مَنْ هُوَ جَاهِلُهْ

ایسے لوگ عام طور پر خاص ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ خود اشتہاری اور خود توصیفی (Self Glorifying) کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ خود گنگو تیلی رہتے ہیں مگر بڑے بڑے علمی راجوں کو اپنے آگے ہیچ سمجھتے ہیں۔ مثلا ابھی ہفتہ عشرہ قبل ایک خبر یہ دیکھنے میں آئی کہ انجینئر محمد علی مرزا جو مصحف سے دیکھ کر بھی قرآن صحیح ڈھنگ سے پڑھنے سے عاجز ہے، عربی اور علمی دقائق سے نابلد جیسا کہ برادرم ڈاکٹر حافظ ابویحیی نورپوری نے بارہا اس کو چیلنج کیا مگر مرزا کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ نورپوری صاحب نے خود مرزا کے شہر اور علاقے میں جا کر مرزا سے بارہا ٹیبل ٹاک کے لیے کہا مگر مرزا منکر رہے۔ خیر میں جو بات کہنا چاہ رہا تھا وہ یہ کہ مرزا صاحب نے چند شرائط کے ساتھ خود کو مناظرے کے لیے تیار کر لیا۔ سب سے پہلی شرط تھی کہ آنجناب صرف علامہ پروفیسر سینیٹر ساجد میر، پروفیسر حافظ سعید، علامہ مفتی محمد تقی عثمانی، علامہ کوکب نورانی سے ہی مناظرہ کریں گے۔ اب نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
یہ پہلی شرط تھی۔ اب اس کے بعد باقی شرائط ذکر کرنا فضول ہے۔ ویسے سنا ہے مرزا صاحب نے مناظرے کے اس “چیلنج” سے بھی رجوع کرلیا۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ متعالم کے حوالے سے شرع شریف کا موقف کیا ہے۔ آئیے ایک آیت اور ایک حدیث سے اس کو سمجھ لیتے ہیں۔
اللہ پاک نے فرمایا: قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (الأعراف:33)

“اے محمد! ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام، خواہ کھلے ہوں یا چھپے، اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی، اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اس نے فرمائی ہے۔” (ترجمہ مودودی)
امام عالی مقام ابن قیم رحمہ اللہ اس آیت پر کمنٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ نے محرمات کے چار مراتب بیان فرمائے ہیں۔ اور سب سے کم مرتبہ محرمات یعنی فواحش کا ذکر ابتدا میں کیا، دوسرے نمبر پر اس سے سخت محرمات یعنی ناحق ظلم و اثم کا بیان ہوا۔ پھر تیسرے نمبر پر اس سے بھی زیادہ شدید حرام کام یعنی شرک کا تذکرہ کیا۔ پھر آخر میں اللہ نے ان تمام سے بڑا گناہ ذکر کیا یعنی “قول علی اللہ بغیر علم” (اللہ کے ذمہ ایسی بات لگانا جو اللہ نے نہ کہی ہو)
اس سے صاف پتہ چل گیا کہ ایسے متعالمین جو اللہ کے نام پر بے سروپا باتیں کرتے ہیں ان کا انجام کیا ہوگا۔

حدیث پاک میں پیغمبر رؤف و رحیم نے فرمایا ہے:
“الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ” (بخاری 5219، مسلم 2129)

جو چیز حاصل نہ ہو اس پر فخر کرنے والا اس شخص جیسا ہے جو فریب کے جوڑے پہنے (یعنی‌ جھوٹا ہے)۔
متعالمین کے حوالے سے میرے ذاتی مشاہدات اور شنیدہ حکایات تو بہت سی ہیں مگر طوالت کے خوف سے قلم انداز کرتا ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ چھٹ بھیے متعالمین ائمہ عظام تک پر کمنٹ پاس کر رہے ہوتے ہیں۔ جرأت بے جا کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر سوال کا جواب دینا فرض منصبی گردانتے ہیں خواہ “مکروہ” تک کی تعریف نہ پتہ ہو۔ ان کو نہیں معلوم کہ محض اپنے وقت کے نہیں ، عصر کے نہیں بلکہ دنیائے اسلام کے تمام ازمنہ کے تین بڑے امام: مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ بڑے فخر سے سوالوں کے جواب میں “لا أدری” فرمایا کرتے تھے۔

متعالم کی بعض علامات:
1- ایسی کتابوں کو پڑھنے کا مشورہ دے جس کا اس نے خود مطالعہ نہ کیا ہو۔
2- وہ ناخواندہ کتابوں کا حوالہ دے کر یا نام لے لے کر دھونس جمائے۔
3- ایسے دینی مسائل میں کلام کرے جو مدت مدید تک مطالعہ کے متقاضی ہوں۔
4- کبار علماء جن امور پر زبان کھولنے سے کتراتے ہوں ان مسائل پر بے تکان بولے۔
5- اچھوتے مسائل بیان کرے اور انوکھی تشریحات کرے۔
6- انوکھی معلومات دینے کا مدعی ہو۔
7- علوم و فنون کے متفقہ اصولوں میں غلطیاں نکالے۔
8- لن ترانیاں جھاڑے۔ خود کو ہرفن مولی سمجھے۔ بزبان خود اپنی تعریف میں رطب اللسان رہے۔
9- علماء راسخین پر کلام کرے۔
10- وہ ہر مسئلہ پر کچھ عمومی دلائل کا انطباق کرنے پر ہمیشہ تیار رہے۔
11- قرون ثلاثہ میں جو تعامل رہا ہو اس کے برخلاف کوئی رائے دے۔
12- اپنے فالوورز بڑھانے پر پورا زور صرف کرے۔
13-ہر فن پر بے لاگ گفتگو کرے۔
14- بدیہات اور دین سے ضروری طور پر معلوم باتوں میں بھی موشگافی کرے۔
15- ہر چیز میں شک کرے اور اختلاف کو روا رکھے۔ بطور خاص صحابہ کی شان میں نازیبا کلمات کہنا جائز سمجھے۔
16- خود اشتہاری کو ہدف اصلی بنا لے۔ وغیرہ وغیرہ
یہ کچھ اوصاف ہیں جو بالعموم متعالمین میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید اوصاف بھی ہو سکتے ہیں۔ متعالمین کب کیا کر بیٹھیں اس بابت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
دراصل لوگوں کی علم کے لحاظ سے چار قسمیں ہیں۔
1- عالم جو اپنے علم کا شعور رکھتا ہو۔
2- عالم جو اپنے علم کا شعور نہ رکھتا ہو۔
3- جاہل جس کو اپنی جہالت پتہ ہو۔
4- ایسا جاہل جس کو اپنی جہالت کا شعور نہ ہو۔ یعنی جاہل محض۔
سو یہ متعالمین اس آخری صنف سے ہی بی لانگ کرتے ہیں۔

علاج: اس کا علاج ایک حرف سے ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ متعالمین اپنے اندر سے الف نکال لیں۔ یعنی متعلمین بن جائیں۔
دوسرا علاج حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ والا ہے۔
واقعہ یوں ہے کہ بنوتمیم کا ایک آدمی‌ جس کا نام صبیغ بن عسل تھا۔ وہ کچھ کتابیں لے کر مدینہ آیا۔ اور لوگوں سے متشابہات قرآن کے سلسلے میں سوال کرنے لگا۔ اس کی بھنک امیر المومنین عمر بن خطاب کے کانوں میں پڑی تو انھوں نے کھجور کی کچھ ٹہنیاں تیار کیں اور اس شخص کو طلب کیا۔ جب وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور بیٹھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم کون ہو؟
اس نے کہا : اللہ کا بندہ صبیغ
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اور میں اللہ کا بندہ عمر ہوں۔
پھر اس کی طرف لپکے اور کھجور کی ٹہنیوں سے اس کو پیٹنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ اس کے چہرے سے خون بہنے لگا تو اس نے کہا: امیر المومنین بس کیجیے۔ وہ ساری الول جلول چیزیں اور خرابات جو میرے دماغ میں تھیں اب نکل گئیں۔
(( أخرجه الدارمي (1/ 252، تحت رقم 146)، والآجري في الشريعة (1/ 483، تحت رقم 153)، ( 5/ 2556، تحت رقم 2065)، واللالكائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة (4/ 702، تحت رقم 1137 – 1138) تخریج از علامہ محمد عمر بازمول)

آخر میں حافظ کا شعر لکھ کر بات ختم کرتا ہوں:
رموز مصلحت ملک خسروان دانند
گدای گوشہ نشینی تو حافظا خاموش

9
آپ کے تبصرے

3000
8 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
8 Comment authors
newest oldest most voted
محمد مهرالدين

ماشاءالله بہت خوب

Safiurrahman Salafi

بردرس تو قرآنی آیات نہیں پڑھ پاتے ہیں

مارو گھٹنا پھوٹے سر والی بات کرتے ہیں

ماہر

جملہ اوصاف جو آپ نے متعالمین کے بیان فرمائے وہ مولوی طبقے پر بھی اسی طرح منطبق ہوتے ہیں. حق تو یہ ہے کہ دو ہی قسمیں ہیں، علمائے ربانیین، اور علمائے سوء، دونوں اقسام میں مولوی اور بردر دونوں پائے جاتے ہیں. البتہ مدرسے کے اندر فارغ مولوی کے اندر ایک احساس ترفع پیدا ہوجاتا ہے جس کہ بنیاد پر وہ دندناتا پھرتا ہے، دینی احکامات کی آبروریزی کرتا ہے، مگر چونکہ اس کے پاس مدرسے کا سرٹیفکٹ ہوتا ہے اس لیے اسے تقدس کا درجہ دیا جاتا ہے، البتہ کوئی شخص ایک آیت پڑھ کر صرف اس وجہ… Read more »

سعد احمد

آپ کا جواب بھی بہت دو ٹوک ہے. یقیناً آپ سچ کے پرستار ہوں گے اور آپ کی باتوں میں تجربہ بھی بہت حد تک دخیل محسوس ہوتا ہے. شکریہ یہاں تبصرے کے لئے

سعد احمد

یہ بہت اچھا مضمون ہے۔ انجینٗر صاحب ہندوستان کی سیکولر مسلمانوں کو بہت بھاتے ہیں۔ مگر ان کی باتیں کبھی سمجھ نہیں آئی۔ دین کی مکمل تفہیم کے ان دعوے داروں کو جو اپنے آپ کو دیگر علماء سے الگ تھگ بڑا عالم سمجھتے ہیں ان سے ضرور گفتگو کی جانی چاہئے۔ مگر آج کل گفتگو کے نام پہ بڑے بڑوں کے حلق سوکھ جاتے ہیں۔مضمون کے لئے مبارک باد۔بہت ہی میچیور مضمون!!!

عبدالمحسن بن عبدالمبين

ماشاء اللہ بارک اللہ فی علمک
کاشف بھائی آپ نے تو موضوع کاحق ادا کردیااور بہت ہی عمدہ معلومات لوگوں کے سامنے پیش کیں

اعظم سلفی مغل

ماشاء اللہ بہت خوب صورت اور مدلل لکھا ہے
اللہ تعالیٰ بہت ذیادہ برکت اور ذہانت سے نوازے

ہلال ہدایت

ماشاء اللہ
بہت خوب کاشف بھائی

عبدالمتين

ما شاء الله. بہت خوب. انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے دور میں اس طرح کے متعالمين کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے. آپ نے شناخت کی مگر مناسب اور کارگر حلول نہیں پیش کئے. نام نہاد عقلمند اور ہر چیز کو اپنی محدود عقل پر تولنے والے بہت لوگ ان متعالمين سے گمراہ ہو رہے ہیں. ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں اور ان سے پیدا ہونے والے فتنوں کا سد باب كيا جائے.وقت کے تقاضوں کے مطابق علماء كرام کی ذمے داریاں ہر دور میں مختلف ہو جاتی ہیں. جتنے زہریلے مواد جن جن محفلوں، فورمز، سائٹس… Read more »