آہ! عکس جمیل اور ذوق جمیل کے خالق یوسف جمیل جامعی

کاشف شکیل تاریخ و سیرت

اللہ کو جب کسی پر بے حد پیار آتا ہے تو اسے علم و عمل سے نوازتا ہے۔ ایسے مراتب و مناصب عنایت کرتا ہے جہاں رہ کر وہ دین‌ حق کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرسکے۔ جب کوئی بندہ اور زیادہ محبوب ہوتا ہے تو ملأ اعلی میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ فرشتے رشک آمیز کانوں سے اس کا ذکر سنتے ہیں اور اس کے حق میں دعا کرتے ہیں۔ بزرگ و برتر رب ایسے بندوں کے دل کی دنیا دوسروں کے لیے وسیع کردیتا ہے اور دوسروں کے دلوں کی دنیا اس کے لیے۔ یعنی وہ دوسروں کے لیے بے حد نفع بخش ہوجاتا ہے اور مقبول ترین بھی۔ پھر شاید جب خدا کو اور زیادہ پیار آتا ہے تو بشارت دینے والے نوری فرستادوں کو بھیج کر اپنے پاس بلا لیتا ہے کہ اب تک جس کا ذکر سنتے تھے آج وہ خود یہاں آیا ہے۔
یوسف جمیل جامعی صاحب مزاج میں حسن‌ یوسفی اور ذوق جمیل کے مالک تھے۔ مجھے یاد ہے کہ آج سے تقریباً تین سال قبل 25 مارچ 2017 میں ہاسپیٹ کے اجلاس میں آپ سے ملاقات ہوئی تھی۔ پہلی بار وہیں آپ کا بیان بھی سنا۔ چونکہ میں ان دنوں ہرپن ہلی میں عبدالوہاب جامعی صاحب کے یہاں رہ کر تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کی ترتیب میں لگا تھا۔ لہذا عبدالوہاب جامعی کے ہمراہ اس کانفرنس میں جانے کا موقع میسر آیا۔ جنوبی ہند کے کبار علما وہاں زینت اسٹیج تھے۔ مجھ کو بھی اسٹیج کی دوسری صف میں جگہ ملی تھی۔ یہیں مولانا یوسف جمیل جامعی صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔

جیسا کہ کانفرنس کی اس تصویر میں شیخ عبدالوہاب جامعی اور شیخ یوسف جمیل جامعی اور شیخ فیض الحسن ہاسپیٹ کے ساتھ میں پچھلی صف میں دیکھا جا سکتا ہوں۔
خیر دل پر یہ ملاقات اس قدر اثر کرگئی کہ آج بتاریخ 30 اپریل 2020 دیر رات جب کہ ابھی وفات کی خبر سنے نصف گھنٹہ بھی نہیں ہوا اور یہ نذرانہ اشک ان کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، سینہ شق ہوا جا‌رہا ہے اور آنکھیں اشک آلود۔ پھر بھی وہ دن اور اس کے مناظر میرے پیش نظر ہیں۔ مجھے اس وقت سب سے زیادہ خوشی ہوئی جب یہ پتہ چلا کہ ترانہ اہل حدیث  اہل حدیث ہیں ہم یہ عزم ہے ہمارا کے خالق مولانا یوسف جمیل جامعی ہی ہیں۔ آہ رحمہ اللہ۔

اس کے بعد جامعی صاحب سے تعلق خاطر رہا۔ بعد کی ملاقاتوں میں وہ ایک مشفق اور مربی اور بے حد خورد نواز نظر آئے۔ ہم چھوٹوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے دو بول محبت کے بول کر سر پر ہاتھ رکھنا ان کا شیوہ تھا۔
کرناٹک سے میں واپس آگیا مگر واٹساپ سے ان سے رابطہ بنا رہا۔ بہت اچھے شاعر تھے۔ ذوق جمیل اور عکس جمیل جیسے ضخیم شعری مجموعوں کے خالق۔ دسیوں جامعات اور کلیات کے ترانہ نگار۔ حمد ، نعت، مرثیہ، قصیدہ، ترانہ سبھی اصناف پر دسترس تھی۔ ان کو جب سے معلوم ہوا کہ میں بھی شاعری کرتا ہوں تو خاصے کرم فرما ہوگئے۔ ابھی واٹساپ دیکھا تو ان کے بھیجے ہوئے پرانے اشعار دیکھ کر دل بھر آیا۔
صوبائی جمعیت آندھرا کے نائب امیر اور شہر کرنول کی جمعیت کے امیر تھے۔
میں ہرپن ہلی ہی میں تھا اور علامہ عبدالعزیز رحمانی کرنولی کی سوانح لکھ رہا تھا تو علامہ کرنولی کی کتاب “حیات مسیح ” کے بارے میں پڑھا۔ کتاب پڑھنے کا شوق ہوا تو اللہ نے کتاب کا بھی انتظام کر دیا۔ عبدالوہاب جامعی صاحب کی لائبریری میں ان کی کتاب مل گئی۔ کتاب اٹھا کر دیکھا تو یوسف جمیل صاحب کی تقدیم اور اہتمام سے کتاب چھپی تھی۔ ان کا ایک لمبا مضمون بھی تھا علامہ عبدالعزیز رحمانی کرنولی پر۔
آپ کا خطاب علمی و ادبی ہوتا تھا۔ دلائل سے بھرپور۔
آپ کی خانگی تفصیلات کا مجھے علم نہیں۔
بڑے سادگی پسند تھے، سادہ رہتے تھے۔ مزاج میں نرمی اور ذوق میں جمال تھا۔
ان کی ایک رباعی دبستان میں برادرم صدیق احمد سلفی نے فارورڈ کی۔ مرحوم لاک ڈاؤن کے عنوان سے لکھتے ہیں:
فرصت نہ تھی تو ملنا ملانا فضول تھا
فرصت ملی تو ایسی کہ ملنا محال ہے
حبس دوام ہوگئی یہ مختصر حیات
لگتا ہے اب عروج نہیں بس سوال ہے

جامعی‌صاحب اپنے اشعار میں‌ حالات حاضرہ کو پیش نظر رکھ کر بڑی اچھی تنقید فرماتے تھے۔ شاعری بڑی پاکیزہ کی۔ ایک شاعر کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ وہ پاکیزہ شاعری کر کے اپنا ادبی وجود منوا لے۔ غالبا حکومت کی طرف سے ایوارڈ یافتہ شاعر تھے۔
پروفیسر وصی بختیاری صاحب ذکر جمیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“مولانا یوسف جمیل جامعی رحمه اللّه بڑی ہی وضعدار، خلیق، متواضع اور منکسر المزاج شخصیت کے حامل تھے- ہر مسلک و مشرب کے لوگوں کے ساتھ خلوص اور اخلاق کے ساتھ پیش آتے تھے- ان کے روابط و تعلقات بہت وسیع تھے اور وہ انہیں بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ نباہتے تھے- خاص طور پر کرنول میں بزمِ ادب نامی تنظیم قائم کی گئی تو اس میں ڈاکٹر قیسی قمر نگری، ڈاکٹر سید وحید کوثر قادری، وغیرہ کے ساتھ بھرپور اشتراک کیا اور عملی طور پر مشاعروں میں شریک ہوتے رہے-
انہوں نے کرنول کے عمر عربک ہائی اسکول میں فارسی منشی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، حسن کارکردگی اور شعبہ تدریس میں انہیں صدرِ جمہوریۂ ہند کی جانب سے اعلیٰ صدارتی ایوارڈ عطا کیا گیا- تین دہائیوں قبل جب کرنول سے ایک ادبی ماہنامہ “پیکرِ خوشبو” جاری ہوا تو اس کے ایڈیٹر بھی مولانا یوسف جمیل جامعی ہی تھے۔ آہ! ان کی وفات سے علاقہ کرنول بلکہ رائل سیما ایک عالم ربانی اور ایک اسلام پسند شاعر سے محروم ہو گیا- ”

یوسف جمیل جامعی جامعی صاحب نے مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی وفات پر لکھا تھا۔ آہ وہ ان پر کتنا برمحل ہے۔ کیسے بتاؤں انھیں کہ روتے ہوئے یہ اشعار نقل کر رہا ہوں۔

یہ منبر و محراب یہ قرطاس و قلم بھی
شاہد ہیں ترے نطق کے، جو طرز بیاں ہے
اللہ انھیں بخش دے، فردوس بریں دے
جو لب پہ دعا آئی وہی دل کی زباں ہے
چلنے کو یہاں ہر کوئی تیار ہے لیکن
پھر بھی اے اجل کش مکش عمر رواں ہے

آخر کار عمر رواں کی یہ کشمکش ختم ہوئی اور آپ نے عمر جاودانی کی طرف قدم بڑھا دیا۔
آپ امر ہوگئے یوسف جمیل
رمضان آپ کو مبارک ہو
خدا کا یہ رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ مبارک ہو۔
اللہ آپ کو قبر و حشر میں ثابت قدم رکھے۔ آمین
بالفاظ حافظ عبدالحسیب عمری مدنی “ذوقِ جمیل” اور “عکسِ جمیل” کے شاعر کا یہ حق بنتا ہے کہ ان کے بعد ” ذکرِ جمیل” لکھ کر دنیا کو ان کی خدمات سے متعارف کروایا جائے۔ آپ کے تذکرہ کے بغیر نہ صرف جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ ، تاریخی شہر کرنول، جمعیت اہل حدیث جنوبی ہند کی بلکہ جنوبی ہند میں شعر و ادب اور دعوت و تبلیغ کی تاریخ ادھوری ہوگی. آپ کی وفات ایک خلا ہے ، ایک عہد کا خاتمہ ہے، ایک سایہ ہے جو کئی سروں سے اٹھ گیا۔”

آپ کے تبصرے

3000