گل کا استعمال بہت سے لوگ منجن کے طور پر کرتے ہیں اور چونکہ اس میں نشہ پایا جاتا ہے اس وجہ سے لوگوں میں اس بات کے متعلق تشویش پائی جاتی ہے کہ کہیں یہ مفسد صوم تو نہیں۔ چنانچہ متعدد متعارفین و غیرمتعافین نے مجھ سے اس بابت رابطہ کیا اسی کا جواب میں نے مختصر طور پر یہاں دینے کی کوشش کی ہے۔ قبل اس کے کہ گل منجن کا روزے پر اثر اور اس کا حکم جانتے ہیں پہلے اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ گل منجن کیا ہے؟
گل منجن کیا ہے؟
گل تمباکو سے تیار کیا ہوا ایک قسم کا نشیلا مواد ہے اور اس میں ضرررساں کیمیائی مواد نیکوٹین کی بھی ملاوٹ ہوتی ہے اس وجہ سے اس کا وہی نقصان ہے جو سورتی، گٹکھا اور سگریٹ وغیرہ کا ہے۔ طبی رپورٹ کے مطابق موسی گل میں 0.14 فیصد نیکوٹین ملا ہوتا ہے جو بیماری ہی نہیں موت کا سبب بننے والا ہے گویا ہم یہ سمجھیں گے اور بجا طور پر کہہ بھی سکتے ہیں کہ اگر سگریٹ دھوئیں والا تمباکو ہے تو گل منجن بغیر دھوئیں والا تمباکو۔
میں نے انٹرنیٹ پر گل کی انواع واقسام کا پتہ لگایا ہے تو مختلف قسم کی کمپنیاں ملیں مثلا چاند تارا گل، موسی کا گل، نور کا گل، ایس ایس گل، تیغی گل، سلیمان گل، شکوراللہ گل وغیرہ۔ ان تمام کمپنیوں کے ڈبے پر ہندی میں لکھا ہے کہ تمباکو سے کینسر ہوتا ہے، ساتھ ہی اس ہندی جملے کا انگریزی ترجمہ بھی درج ہے: (Tobacco causes Cancer)
ہم جانتے ہیں مصنوعات تیار کرنے کی کوئی کمپنی اپنی مصنوعات کی برائی نہیں بیان کرتی ہے بلکہ وہ تو پیسے دے کر جھوٹی تعریف کرواتی ہے۔ لیکن گل منجن ڈبے پہ یہ لکھا ہوا ہونا کہ تمباکو سے کینسر ہوتا ہے مجبوری میں لکھا گیا ہے اور مبنی بر حقیقت ہے۔ اس جملے سے ایک حقیقت تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ گل منجن بھی تمباکو کی ہی ایک قسم ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ گل منجن نشہ پیدا کرنے والا ہے اور تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ گل منجن کا استعمال جانی نقصان کا باعث ہے۔
حیرانی کی بات ہے کہ اس گل کا استعمال چھوٹی عمر سے لے کر بڑی عمر تک کے لوگ کرتے ہیں، خواتین میں بھی اس کا استعمال عام ہے۔ سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ گل منجن تیار کرنے والے اکثر مسلمان نظر آتے ہیں اسی لیے ان منجنوں کا نام بھی مسلمانی ہوتا ہے۔ ان تمام حیرانیوں میں ایک افسوس ناک پہلو علماء کا گل منجن کرنا ہے۔ جب میں اس مسئلے میں مختلف مسالک کے فقہی نظریات کا مطالعہ کررہا تھا تو ایک اور چونکانے والی بات معلوم ہوئی جس کا تعلق بریلوی مکتب فکر کے فقہی سیمینارسے ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر کسی کو گل استعمال کیے بغیر پاخانہ نہیں ہوتا تو اس عذر کی وجہ سے اس کے لیے حکم میں اس قدر تخفیف ہوگی کہ وہ گل پہلے ہتھیلی وغیرہ پر نکال کر پانی سے بھگودے پھر اسے احتیاط کے ساتھ دانتوں پر ملے اور جلد ہی کلی کرکے اچھی طرح اپنا منہ صاف کرلے۔ (فتاوی مرکز تربیت افتاء جلداول ص 470 مطبوعہ فقیہ ملت اکیڈمی اوجھا گنج بستی)
اس فتوی سے ایک بات یہ سامنے آئی کہ گل کا استعمال کرنے والے اس میں موجود نشہ سے بڑھ کر جنون کی حد تک استعمال کرتے ہیں کہ اس کے بغیر قضائے حاجت نہیں ہوتی۔ دوسری بات یہ سامنے آئی کہ مسلمانوں میں بعض طبقات ایسے بھی ہیں جو بہانے بناکر حرام چیز کو بھی حلال کرلیتے ہیں۔ کیا کسی کو شراب پئے بغیر باتھ روم نہ لگے یا نیند نہ آئے تو اس کے لیے شراب حلال ہوجائے گی؟ ہرگز نہیں۔
گل منجن کے استعمال کی حرمت:
گل کا تعلق منشیات سے ہے اور منشیات ہر قسم کے نشہ آور چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے لیے عربی زبان میں “خمر” کا لفظ عام طور سے استعمال کیا جاتا ہے۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے خمر کی وضاحت بایں الفاظ کی ہے:
والخمرُ ما خامر العقلَ(صحيح البخاري:5581،صحيح مسلم:3032)
یعنی خمر کا اطلاق ہر نشہ آورچیز پر ہوتا ہے۔ اس کی تائید مسلم شریف کی ایک اور روایت سے ہوتی ہے: كلُّ مُسكِرٍخَمرٌوَكُلُّ خَمرٍحرامٌ(صحيح مسلم:2003) کہ ہرنشہ آور چیز خمر کہلاتی ہے اور ہر قسم کا خمر حرام کردیا گیا ہے۔
یہاں یہ اعتراض کرنا بے جا ہوگا کہ گر کم مقدار میں نشہ والی اشیاء استعمال کرنے سے نشہ نہ پیدا ہونے پر اتنی مقدار پینا جائز ٹھہرے گا۔ اس اعتراض کی گنجائش بایں طور نہیں ہے کہ نشہ کے سلسلے میں اسلام کا دوسرا اصول یہ ہے: ما أسكرَ كثيرُهُ فقليلُهُ حرامٌ(صحيح الترمذي:1865)
ترجمہ: جس کا زیادہ حصہ نشہ آور اور مفتر ہو اس کا کم مقدار میں بھی استعمال کرنا حرام ہے۔
مذکورہ تعریف کو اصول بنانے سے منشیات کے زمرے میں شراب، تمباکو، بیڑی، سورتی، گھینی، سگریٹ، گل، گٹکھا، گانجہ، بھنگ، چرس، کوکین، حقہ، افیم، ہیروئین، وہسکی، شیمپین، بئر، ایل ایس ڈی، حشیش اور مخدارت کی تمام اشیاء شامل ہیں۔
ایک طرف ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ گل نشیلی چیز ہے اور نشیلی چیزیں جان لیوا ہوتی ہیں جیسا کہ گل منجن کے ڈبے پر کینسر ہونے کا سبب لکھا ہے۔ دوسری طرف اسلام نے حفظان صحت کا بہت بہترین نظام پیش کیا ہے، اس کی روشنی میں جسم کو نقصان پہنچانے والی تمام چیزیں منع ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ۔ (البقرة: 195)
ترجمہ: اپنے آپ کو ہلاکت ميں مت ڈالو۔ اس وجہ سے گل منجن کا استعمال اسلام کی رو سے حرام ہے۔
گل منجن دانتوں کی دوا نہیں بیماری ہے:
گل کا استعمال کرنے والے اسے منجن سمجھ کر استعمال کرتے اور دانتوں کی صفائی کا سامان خیال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ حدیث سنانا چاہتا ہوں کہ
ایک صحابی طارق بن سوید الجعفی رضی اللہ عنہ نے شراب کو بطور دوا استعمال کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی تو آپ نے ان سے فرمایا: إنه ليس بدواءٍولكنه داءٌ (صحيح مسلم:1984) کہ شراب دوا تو نہیں ہے مگر بیماری ضرور ہے یعنی یہ بیماری کا سبب بنتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نشہ آور چیزوں میں فائدہ نہیں نقصان ہے لہذا جو گل کو دانتوں کی صفائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ آپ اپنے جسم میں بیماری داخل کررہے ہیں جو رفتہ رفتہ آپ کے وجود کو ختم کردے گی۔ آپ سے گزارش ہے کہ دانتوں کی صفائی کے لیے گل منجن کے بجائے مسواک استعمال کریں جو نہ صرف منہ کی صفائی کا سبب ہے بلکہ اس سے رب کی رضا بھی حاصل ہوتی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: “السواک مطھرۃ للفم مرضاۃ للرب” کہ مسواک سے منہ صاف ہوتا ہے اور اللہ کی رضامندی حاصل ہوتی ہے۔
دانتوں کی صفائی کے لیے مسواک ہی ضروری نہیں ہے ض، کوئی بھی منجن استعمال کرسکتے ہیں لیکن حرام چیز کو دانتوں کی صفائی کا ذریعہ نہیں بناسکتے۔
گل منجن کا روزے پر اثر:
چونکہ لوگ گل کا استعمال منجن کی شکل میں کررہے ہیں اس لیے اکثر یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ کیا روزہ کی حالت میں گل منجن کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ اس سلسلے میں بریلوی مسلک کے یہاں گل منجن کو مفسد صوم لکھا ملا ہے اور دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے کہ گل یا منجن کرنے سے روزہ ٹوٹتا نہیں ہے، مکروہ ہوتا ہے البتہ اگر گل منجن کرنے سے گل یا منجن کے ذرات حلق میں چلے گئے تو روزہ بلاشبہ ٹوٹ جائے گا۔ (دارالافتاء دیوبندی،جواب رقم:60211)
میں جب گل منجن کو روزہ اور رمضان سے جوڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ گل منجن سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں ٹوٹتا بلکہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ روزہ کی حالت میں یا رمضان المبارک میں گل منجن کا استعمال کیسا ہے؟ اس سوال پر میرا جواب یہ ہوگا کہ گل منجن کا استعمال عام دنوں میں حرام ہے اور روزہ یا رمضان المبارک میں اس کی حرمت میں زیادتی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ رمضان المبارک میں جس طرح نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے اسی طرح برائیوں کا گناہ میں زیادہ ہوجاتا ہے۔
جہاں تک گل منجن سے روزہ ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں میرا یہ ماننا ہے کہ گل منجن ذرات کا مجموعہ ہے، اس کو منہ میں لینے سے حلق سے نیچے اترنے کا خدشہ ہے تاہم منہ کی اچھی صفائی کی گئی ہو تو گل منجن کو مفطر نہیں مانا جائے گا کیونکہ محلول و ریشے تو مسواک میں بھی پائے جاتے ہیں بلکہ رطب مسواک میں محلول کے ساتھ ذائقہ بھی تیز ہوتا ہے اس کے باوجود ہم خشک ورطب دونوں قسم کی مسواک روزہ کی حالت میں استعمال کرسکتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ گل منجن سے روزہ نہیں ٹوٹتا بشرطیکہ منہ کی اچھی صفائی کی گئی ہو تاہم اس سے زیادہ اہم سوال یہی ہے کہ کیا ایک مسلمان روزہ رکھتے ہوئے گل منجن کا استعمال کرسکتا ہے جس کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ حرام بھی ہے اور جان لیوا بھی؟
اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ روزہ کی حالت میں فحش افلام دیکھ لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر یہاں بھی وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان روزہ کی حالت میں گندی فلم دیکھ سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی ایسی چیز دیکھنا حرام ہے تو روزہ کی حالت میں دیکھنا بدرجہ اولی حرام ہوگا۔ یہی حال روزہ کی حالت میں گل منجن کے استعمال کا ہے۔
آپ کے تبصرے