صدقہ فطر: احکام و مسائل

محمد اشفاق سلفی رمضانیات

ماہ رمضان کے اختتام پر صدقۂ فطر کی ادائیگی مشروع ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اسے فرض کیا ہے اور جس چیز کو آپ ﷺ نے فرض کیا ہو یا جس کی ادائیگی کا حکم دیا ہو وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرض کردہ عمل کے حکم میں ہے۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ومن يطع الرسول فقد أطاع الله
(النساء:۸۰)رسول اللہﷺ کی جو اطاعت کرے اس نے يقینا اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کی۔
بعض سلف صالحین ’’قد أفلح من تزكى وذكر اسم ربه فصلى‘‘ (الاعلی:۱۴)کی تفسیر میں’تزکی‘ سے مراد صدقۂ فطر اور ذکرو صلاۃ سے تکبیرات عید اور نماز عید مراد لیتے ہیں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیحین میں مروی ہے:
فرض رسول الله ﷺ زکاۃ الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعیر علی العبد والحر والذکر والأنثی والصغیر والکبیر من المسلمین
(رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر کھجور یا جو سے ایک صاع نکالنا ہر غلام ،آزاد ، مذکر، مونث ، چھوٹے اور بڑے ہر مسلمان پر فرض کیا ہے)
حدیث مذکور کی روشنی میں ہر غلہ سے ایک صاع نکالنا ہی متعین اور لازم ہے۔ بعض اہل علم نے گیہوں سے آدھا صاع نکالنے کو جائز کہا ہے مگر اس سلسلہ میں صحیح اور مرفوع حدیث نہیں ہے۔ بلکہ صحیحین میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ہم لوگ عہد نبوی میں ہر قسم کے غلہ سے ایک صاع صدقۂ فطر نکالتے تھے اور سنن ابی داؤد میں اس قدر اضافہ بھی وارد ہے’’لا أخرج أبدا إلا صاعا‘‘ یعنی میں ہمیشہ ایک صاع ہی ادا کروں گا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اجتہاد بسلسلہ نصف صاع گندم پر رد فرماتے ہوئے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بات بیان فرمائی۔
حدیث میں ’طعام‘ سے مراد بعض لوگوں کے نزدیک گندم ہے اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ یہ لفظ عام اور مجمل ہے جس کا بیان حدیث کے اگلے فقروں میں ہے یعنی کھجور ، جو ، منقی اور پنیروغیرہ سے ایک صاع نکالتے تھے ۔ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں شام سے گندم منگوایا جاتا تھا، چنانچہ انھوں نے دیکھا کہ آدھا صاع گیہوں کی قیمت ایک صاع کھجور و منقی کے برابر ہے اس لیے اپنے اجتہاد سے آدھا صاع گیہوں نکالنے کا فتویٰ دیا جس پر بعض صحابہ نے بھی عمل کیا۔ آج ہم اگر اسی نقطہ نظر سے دیکھیں تو شاید ۴/۱صاع کھجور اور اس سے بھی کم منقی کی قیمت، ایک صاع گیہوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہے تو کیا معاویہ رضی اللہ عنہ کے اجتہاد پر عمل کرنے والے چوتھائی صاع کھجور یا منقی صدقۂ فطر میں نکالنا جائز قرار دیں گے؟ کوئی فقیہ اس کی اجازت نہیں دے گا۔
معلوم ہوا کہ غلوں کی قیمتوں کے درمیان موازنہ کرنے کا عمل ہی صحیح نہیں ہے۔ ایک صاع متعین ہے وہی نکالنا چاہیے۔ صاع کی مقدار بعض علماء کے نزدیک ڈھائی کلو گرام ہے۔ امام العصر علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے تین کلو گرام کہا ہے۔
صدقۂ فطر کی ادائیگی کا وقت:
صدقۂ فطر کا معنی ہے: رمضان المبارک کے روزوں سے افطار کرنے یعنی ماہ صیام کے اختتام پر نکالا جانے والا صدقہ ، اس لیے اس کی ادائیگی کا افضل وقت آخری رمضان کو آفتاب غروب ہونے کے بعد سے لے کر نماز عید کی ادائیگی سے قبل تک ہے ۔ ایک دو دن قبل بھی فقراء و مساکین کی رعایت کرتے ہوئے نکالنا جائز ہے۔(صحیح البخاری عن ابی سعید و ابن عمر و نافع)
ان دنوں عام طورپر لوگ ابتدائی رمضان ہی سے صدقۂ فطر کی وصولی شروع کر دیتے ہیں جو سنت کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ صدقۂ فطر نکالنے کی مصلحت یعنی عیدکے دن فقراء و مساکین کو دست سوال دراز کرنے سے بچانے اور انھیں لوگوں سے مستغنیٰ کرنے کی حکمت کے بھی منافی ہے۔
اگر اجتماعی طور پر صدقۂ فطر ایک جگہ جمع کیا جاتا ہو تو بھی اس کی تقسیم عید سے دو دن قبل کی جانی چاہیے تاکہ فقراء اس صدقہ کو عید کے دن کی ضرورتوں کے لیے استعمال کریں۔
گویا اس صدقہ کی ادائیگی کا وقت وجوب عید کی شب غروب آفتاب کا وقت ہے۔ لہٰذا جو غروب آفتاب تک زندہ رہا پھر چند منٹوں کے بعد وفات پاگیااس کے ذمہ صدقۂ فطر واجب ہوگیا، اس کے وارثان اس کی جانب سے ادا کریں گے۔ اور اگر غروب آفتاب سے چند منٹ پہلے اس کی موت ہوگئی تو اس کے ذمہ سےصدقۂ فطر ساقط ہوگیا۔ یہی حال غروب آفتاب سے قبل یا بعد پیدا ہونے والے بچہ کا ہے۔ غروب آفتاب سے قبل پیدا ہوا تو صدقۂ فطر کی ادائیگی لازم ہوگی ورنہ نہیں۔ لیکن اگر شب عید میں غروب آفتاب کے بعد پیدا ہونے والے بچہ کی طرف سے صدقہ ادا کردیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ کیونکہ درحقیقت اس صدقہ کی ادائیگی کی علت اور وجہ رمضان کے روزوں سے افطار کرنا ہے اور افطار کا تعلق غروب آفتاب سے ہے۔ بہر حال نماز عید سے قبل ادائیگی کو یقینی بنانا چاہیے الا یہ کہ کسی معقول عذر کی بناپر تاخیر ہوجائے، مثلاً اچانک یکم شوال کی صبح میں چاند نکل جانے کی اطلاع آئے اور نماز عید کی ادائیگی کے لیے جلد عید گاہ نکلنے کی ضرورت ہو اور صدقۂ فطر کی ادائیگی کا موقع نہ ہو یا کوئی شخص اپنے کسی قریبی شخص کو اپنی جانب سے صدقۂ فطر ادا کرنے کامکلف کرے اور وہ بھول جائے تو عید کے بعد بھی ادائیگی ممکن ہے۔ لیکن اگر کوئی بلاوجہ نماز عید کے بعد ادا کرتا ہے تو وہ گنہگار ہوگا لیکن صدقۂ فطر کی ادائیگی بعد نماز عید بھی لازم ہوگی۔
گھر کے گارجین پر اپنی جانب سے اور ان تمام لوگوں کی جانب سے صدقۂ فطر ادا کرنا لازم ہے جن کے نان و نفقہ اور دیگر اخراجات کا وہ شرعاً مکلف ہے ، بشرطیکہ وہ صدقۂ فطر ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہو ، یعنی عید کے دن اور اس کی رات میں اپنی ذات اور اہل و عیال کے نفقہ سے زائد غلہ اس کے پاس موجود ہو۔ اگر تمام لوگوں کی طرف سے ادا کر سکتا ہو تو بہت بہتر ، ورنہ جتنے لوگوں کی طرف سے ادا کرنے پر قادر ہو ان کی جانب سے ادا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ وسعت سے زیادہ کسی بندہ کو مکلف نہیں کرتا۔
جس مقام پر اس نے رمضان کے روزے پورے کیے ہوں وہاں کے فقراء کو اپنا اور اپنے ماتحتوں کا صدقۂ فطر ادا کرنا چاہیے ۔ اگر وہاں فقراء و مساکین نہ پائے جاتے ہوں تو دوسری جگہ کے فقراء و مساکین کو صدقہ دیا جاسکتا ہے اور اگر چاہے تو جہاں اس کے اہل و عیال آباد ہیں وہیں اپنے گھر کے کسی فرد کو پورے اہل خانہ کے صدقات فطر ادا کرنے کا پابند کردے۔
صدقۂ فطر کی حکمت:
صدقۂ فطر کی حکمت نبی ﷺ نے خود ہی بیان فرمادی ہے چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
فرض رسول الله ﷺ زکاۃ الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساکین
(سنن ابی داؤد و ابن ماجہ ) رسول اللہ ﷺ نے روزہ دار کے نفس کو لغو اور فحش باتوں کے گناہ سے پاک کرنے اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی غرض سے صدقۂ فطرفرض کیا۔
اس حدیث سے بعض اہل علم نے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسکین ہی صدقۂ فطر کا اکیلا مستحق ہے اور بعض اہل علم نے صدقۂ فطر کا مصرف، مصارف زکاۃ بتایا ہے۔ بہر حال فقراء و مساکین جس طرح زکاۃ کے زیادہ مستحق ہیں اسی طرح صدقۂ فطر میں بھی ان کی حیثیت مقدم ہے، ان کو محروم کرکے دوسرے مصارف میں صدقۂ فطر خرچ کرنا شریعت کے خلاف ہے۔
صدقۂ فطر میں غلہ کے عوض نقد کی ادائیگی:
صدقۂ فطر کی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی جو غلہ کھاتا ہے اور جو اس کی غالب خوراک ہے اس میں سے فی کس ایک صاع نکالے ۔ کسی بھی حدیث میں ایک صاع غلہ کی قیمت ادا کرنے کی بابت منقول نہیں ہے، بلکہ قیمت نکالنا ، عمل نبوی اور عمل صحابہ کے خلاف ہے ، کیونکہ نبی ﷺنے مختلف غلوں سے ایک صاع نکالنے کی ہدایت فرمائی ہے جبکہ غلوں کی قیمتیں ایک دوسرے سے متفاوت ہوتی ہیں۔ اگر قیمت نکالنا شرعاً معتبر ہوتا تو کسی ایک غلہ کی تعيین کر دی جاتی۔ علاوہ ازیں عہد نبوی میں بھی دینار و درہم پائے جاتے تھے، اگر قیمت کی ادائیگی درست ہوتی تو آپ ﷺقیمت ادا کرتے اور اپنی امت کو اس کی رہنمائی فرماتے ۔ بہر حال جس نے بھی قیمت نکالنے کو جائز کہا ہے اس نے اپنے اجتہاد سے فتویٰ دیا ہے اور اجتہادات کے اندر خطا و صواب دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ نبی ﷺ یا کسی صحابی سے صدقۂ فطر میں غلہ کی قیمت نکالنا ثابت نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امام اہل السنہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک قیمت ادا کرنے سے صدقۂ فطر ادا نہیں ہوتا نبی ﷺ نے ایک صاع غلہ نکالنا فرض کیا ہے ، اس کی قیمت نہیں۔ دلیلوں کی روشنی میں یہی قول راجح ہے۔
والحمد لله رب العالمين

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
اعجازالرحمن

بھائی اگر آپ کے گھر میں کھانے پینے کو کچھ بھی نا ہو کوئی بندہ عید والے دن آکر آپ کو 10 کلو گندم دے آپ کیا کریں گے کوئی چکی والا تو اس دن آپ کو پیس کر نہیں دے گا صحابہ رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگوں پیسے سے کو سروکار نہیں تھا ان کو کھانے پینے والی اشیاء کی زیادہ ضرورت تھی اس لیے جنس ادا کی جاتی تھی اب اگر جنس ادا کرنی ہے تو ایسی ہونی چاہیے جو ان کو عید والے دن کام دے سکے جیسا کہ چاول ہم لوگ گندم کی ہی… Read more »