کورونا اور کشمیر

ش م احمد

کورونا پوری دنیا میں بلا روک ٹوک اپنے آہنی پنجے گاڑے آگے ہی بڑھتا جارہا ہے۔ ہیبت، خوف اور بھیانک موت کے ہتھیاروں سے لیس انسانی آنکھ کو نظر نہ آنے والا یہ جان لیوا جرثومہ کتنا سفاک اور بے رحم ہے، اس کی ڈراؤنی مثالیں ہم اٹلی، سپین، امریکہ، فرانس، جرمنی میں ہی نہیں بلکہ دلی اور اسلام آباد میں بھی مایوسی اور بے بسی کے ساتھ دیکھتے جا رہے ہیں۔ ہلاکت آفرین کووڈ ــ۱۹ کی یہی کیا کم قیامت ہے کہ جہاں بھی یہ قدم جمائے، سب سے پہلے یہ تمام انسانی رشتوں ناطوں کو روندتا ہوا محبت، تعلق داری، اظہارِ ہمدردی جیسے زندگی بخش اقدار کو بھولی بسری داستان بنا کر دم لیتا ہے۔ من وتُو، امیرغریب، مذہب، رنگ، ذات، نسل، جغرافیہ، زبان کا امتیاز کیے بغیر جس کم نصیب انسان کو یہ بیماری اپنی لپیٹ میں لے، وہ خود کو اپنے ہی بھائی بند، اہل خانہ اور پورے سماج میں یکہ و تنہا پاتا ہے جیسے وہ اپنوں کے درمیان کوئی راندہ درگاہ یا عضوئے معطل ہو جس سے دوری بنانا ہر فرد بشر کے لیے ضروری ہے۔ صاف ہے جب ایسے موذی مرض کے سامنے لوگ اس قدر بے دست وپا ہوں کہ مریض کے گھر والے تک اس سے قطعِ تعلق پر مجبور ہوں بلکہ اس مرض کی بھینٹ چڑھنے والے کی موت کی صورت میں تدفین یا انتم سنسکار تک میں اپنے سگے سمبندھی شرکت سے کتراتے ہوں، حتیٰ کہ مرے ہوئے مریض کو قبر ستان میں دفنانے یا شمشان گھاٹ میں اس کا داسنکار کر نے سے لوگ گریزاں ہوں تو بھلا روگی کا کیا حال بد ہوتا ہو گا، یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ان معنوں میں کورونا جریدہ عالم پر آپادھاپی جیسی غیرانسانی روش کی ایک انوکھی تاریخ رقم کرتا جارہا ہے۔
اس سوال کا فی الحال کسی کے پاس جواب نہیں کہ کورونا وبا کے چلتے کب تک انسانی دنیا کا گلا دبتا رہے گا، کب تک مہاماری بے لگام ہوکر انسانوں کو تابوتوں اور اَرتھیوں میں سوار کرتی رہے گی، کب تک یہ ہسپتالوں میں آہ وبکا کے ناقابل برداشت مناظر کی صورت گری کرتی رہے گی، اس کے زیر اثر انسانی زندگیاں کب تک اجیرن ہوتی رہیں گی، اس سے بچنے کی تدبیر کے طور پر سماجی دوری (جسمانی دوری صحیح لفظ ہے) کب تک انسانی روابط اور تعلقات پر ہمہ وقت کوڑے برساتی رہے گا، کب تک یہ مہلک وبا ہر کسان، محنت کش، یومیہ مزدور، کاریگر، صنعت کار، غیر سرکاری ملازم، ٹرانسپورٹر، ٹھیلے والے اور خوانچہ فروش جیسوں لوگوں کے لیے آذوقہ کمانے کا پہیہ جام کرتا رہے گا، لاک ڈاؤن اور بندشوں کا بھوت کب تلک انسانی بستیوں میں ڈیرا جماتا رہے گا۔ نہ اس بارے میں ابھی کچھ وثوق سے کہا جاسکتا ہے اور نہ اعتماد کے ساتھ اندازہ لگایا جاسکتا کہ آگے گھمبیر وبائی حالات دنیا میں کیا رُخ اختیار کر تے ہیں۔ البتہ اس عالمی المیے کی دُھوم کے بیچوں بیچ ایک خوش آئند امر بس یہ ہے کہ چین سمیت جس یورپ میں کورونا موت اور معاشی تباہیوں کی بھیانک رُوداد لکھتا جارہا ہے، وہاں سائنس دان اور ماہرین طب دواساز لیبارٹریوں میں اپنی نیندیں حرام کر رہے ہیں تاکہ کووڈ ۱۹ کے تدراک کے لیے ٹیکہ تیار کر کے وہ انسانوں کو مہاماری سے نجات دلا سکیں۔ یہ ویکسین کب ایک حقیقت کا روپ دھارن کرے، کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم تجربات کی شروعات آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی جاچکی ہے جو عالم انسانیت کے لیے ایک مژدہ جانفزا ہے۔
کشمیر میں کورونا کی دستک مارچ کے اوائل میں ہی پورے زور وشور سے سنی گئی، تادم تحریر اس نحوست آمیز مرض کا شکار بننے والے لوگوں کی روز بہ روز تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ تادم تحریر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق جموں کشمیر میں کل پازیٹو مریضوں کی تعداد پانچ سو سے متجاوز ہے جب کہ دس مریض پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔

دنیائے انسانیت کے لیے لاک ڈاؤن کی صورت میں گھروں میں محصور ہونا بھلے ہی ایک انہونی بات ہو مگر وادی بھر میں بندشوں اور محصور ہونے کی کہانی گزشتہ تیس سال سے شد ومد سے جاری ہے۔ لہٰذا کشمیریوں کے لیے بہ حیثیت مجموعی اس نوع کی سختیاں اور محدودیتیں سہنے اور جھیلنے کی قوت بھی ناقابل تسخیر بنی ہوئی ہے۔ انھوں نے ایسے کڑے سے کڑے حالات میں بھی جینے اور معمولات زندگی چلانے کا منفرد فن اَزبر کیا ہوا ہے۔ بہر کیف مارچ ۲۵ سے ایک ہاتھ لاک ڈاؤن کا نظام الاوقات سختی کے ساتھ نافذالعمل ہے، ودسرے ہاتھ مریضوں کی تعداد میں بڑھوتری ہورہی ہے۔ حالات کا یہ پہلو فکرو تشویش سے لبریز ہے۔ بلاشبہ انتظامیہ مشنری کے ہاتھوں لاک ڈاؤن کا زوردار نفاذ مفادِ عامہ میں ہے اور یہ زمینی حالات کاتقاضائے اول ہے، اس لیے اس میں بلاوجہ کوئی نرمی، سہل انگاری یا ڈھیلاپن سیدھے طور پہلے سے ہی ناگفتہ بہ حالات کی چکی میں پسے جارہے اہل ِکشمیر کے لیے ہر اعتبار سے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ مقام شکر ہے کہ کم ازکم اس ضمن میں باشعور لوگ ایڈمنسٹریشن کو بھر پور تعاون دے رہے ہیں۔ ڈاسٹر مینیجمنٹ کے حوالے سے گرمائی راجدھانی سری نگر کے ڈپٹی کمشنر شاہد اقبال چوہدری کی اس بابت غیر معمولی فعالیت کی خاص طور پر عوام میں بہت پذیرائی ہورہی ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ موصوف کورونا کے پھیلاؤ کو مزید روکنے میں انتہائی سنجیدگی سے اپنے منصبی فرائض ایک انتظامی ضرورت سے زیادہ ایک مشن کے طور انجام دے رہے ہیں۔ تاہم شفاخانوں میں وبا سے دو دو ہاتھ کر نے کے لیے درکار ضروری وسائل کی کم یابی کی شکایات عام ہیں، جب کہ قرنطینیہ کے لیے مخصوص جگہوں میں بھی لازمی ضروریات کے حوالے سے لوگ بالعموم شاکی ہیں۔ میونسپل عملہ اس حوصلہ شکن فضا میں اپنے فرائض انجام دینے میں کوئی تساہل نہیں برت رہا ہے۔ یہ ایک اُمید افزا حقیقت ہے جس کے لیے ایک واجبی مشاہرے پر کام کرنے والے خاکروبوں کی خدمات کو سلام پیش کیا جانا چاہیے۔ بنک، اے ٹی ایم اور خوراک ورسدات محکمہ بھی موجودہ صبر آزما حالات میں قابل تحسین کام کررہے ہیں۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جب دنیا بھر میں مہلک وبا کے سبب معاشی میدان پر ۱۸۲۹ء کے گریٹ ڈیپرشن کی مانند نقطہ انجماد چھایا ہو اور اقتصادی سرگرمیاں اتنی تلپٹ ہوں کہ عالمی بازار میں تیل کی قیمتیں گردو غبار سے کم تر سطح پر آجائیں، تو کشمیر کی تن مردہ والی معیشت کس شمار وقطار میں! اس میں دو رائے نہیں کہ یہاں گزشتہ تیس سال طویل نامساعد سیاسی حالات کے دوران معاشی سرگرمیاں ویسے بھی نام کی تھیں، سیاحت، زراعت اور دیگر ترقیاتی شعبوں کو پہلے ہی مکمل گہن لگ چکا تھا، رہی سہی کسر گزشتہ سال دفعہ ۳۷۰ کی آئینی عمارت دھڑام گرائے جانے سے نکل گئی کہ ابھی یہ نڈھال سرزمین کاملاً سکتے سے باہر نہیں آچکی ہے۔ مرکزی حکومت کے اس تاریخی اقدام کے ردعمل میں اگست ۱۹ء کے اوائل سے دسمبر کے اواخر تک کشمیر گویا ایک شہر خموشاں بنارہا، نظام ہست وبود منجمد، طویل کرفیو اور ہڑتال کا دور دورہ، مواصلاتی سسٹم ٹھپ، تعلم وتعلم نابود۔ اس صورت حال سے کشمیر کی نیم مردہ معیشت کا مزید جاں بلب ہونا ظاہر سی بات ہے مگر جوں ہی جنوری ۲۰ء سے رفتہ رفتہ حالات میں کچھ ٹھہراؤ پید ہوا، فون اور دیگر سرکاری سہولیات جزوی طور بحالی ہونے لگیں تو ایک موہوم سی اُمید پیدا ہوچکی تھی کہ آمد بہار اور دربار مو کے بشمول یہاں کاروبار زندگی کی سکڑی نسیں ممکنہ طور پھر سے حرکت میں آنے لگیں گی۔ یہ خوش اُمیدیں ابھی قیاسوں کے بطن میں ہی کروٹیں بدل رہی تھیں کہ کورونا نے ان پر یک بار پانی پھیرا۔ اب حالات کیا ہیں، اسے لفظوں میں شاید ہی بیان کیا جاسکے۔
اس وقت حال یہ ہے کہ کشمیر ایک وسیع وعریض قبرستان بنا ہوا ہے جہاں کورونا اپنے خوف، وسوسوں، اندیشوں کی گھٹاؤں کے ساتھ چہار سُو اپنے جاہ وجلال کے ساتھ براجمان ہے۔ لاک ڈاؤن نے پوری آبادی کو گھر کی چار دیواری میں مقید و محصور کیا ہوا ہے، اس لیے قافلہ حیات درماندہ پڑا ہوا ہے۔ باوجودیکہ بہار کی خوشبوئیں اور عطر بیزیاں اپنی سرمستیوں کے ساتھ جھوم رہی ہیں مگر ان سے حظ اٹھانے والے تمام لوگ کورونا کے خوف سے سہمے گھروں میں دبکے پڑے ہیں۔ سڑکیں سنان، بازار ویران، بستیاں بے جان، خاموشیاں اور افسردگیاں ہر جانب رقصاں ہیں، معمول کے کام دھندے سب چوپٹ ہیں۔ مساجد سے زیادہ سے زیادہ صرف اذانیں بلند ہورہی ہیں جب کہ ترک جماعت کے مذہبی فتوؤں اور سرکاری فیصلے پر من وعن عمل درآمد ہورہا ہے۔ مساجد میں نمازِ باجماعت سے کنارہ کشی کا اعلان سب سے اول جمعیتہ اہل حدیث جموں کشمیر نے کیا تو اس پر مذہبی حلقوں میں سراسیمگی پھیلی مگر آہستہ آہستہ کورونا سے بچنے کی تدبیر کے طور تمام مذہبی علماء نے بھی اسی اعلان کے پلڑے میں چار وناچار اپنا وزن ڈال دیا۔
عمومی طور رواں سیزن وادی میں شادیوں کی تقاریب، مکانات کی تعمیر ومرمت اور دوسری دیگر سماجی مشغولیات کے لحاظ سے مصروف رہتا ہے۔ اس سے اور باتوں کے علاوہ سماجی روابط کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیاں بھی اگلے کئی ماہ تک اپنے عروج کی طرف گامزن رہتی ہیں۔ اس بار کورونا کے قہر نے وادی کشمیر میں اب ان روایات اور مصروفیات کو عملاً نسیاً منسیا اور ناقابل عمل کیا ہوا ہے۔ گو یہاں مارچ کی ابتدا سے ہی ایک قلیل تعداد میں بہار، بنگال، اوڑیسہ اور پنجاب وغیرہ سے مزدور، کاریگر اور ریڑھی بان وغیرہ محنت مزدوری کے لیے واردِ کشمیر ہوئے تھے مگر یک بہ یک وبا کا بگل بجتے ہی یہ غیر آبائی محنت کش طبقہ گروپوں کی صورت میں کرایہ پر لیے گئے اپنے کمروں میں محدود ہوکر رہ گیا۔ ان کے پاس نہ کام کاج ہے اور نہ گزرِ اوقات کے لیے پیسہ مگر بھلا ہو اہل کشمیر کے جذبہ انسانیت اور احساس ذمہ داری کا کہ حسب معمول مقامی محتاجوں اور غرباء سمیت غیر ریاستی باشندگان کے لیے بھی بلا تمیز مذہب وملت رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے جگہ جگہ متحرک وفعال ہیںم بنابریں کوئی ایک بھی کشمیری یا غیر ریاستی کہیں بھوکا سوتا ہے نہ دوادارُو کے لیے پریشان ہے ۔ ۲۰۰۸، ۲۰۱۴، ۲۰۱۶ اور ۲۰۱۹ کے ادوارِ پُر آشوب کی طرح بے پناہ مشکلات اور دشواریوں کے باوجود ہر بستی میں ان دنوں رضاکار نوجوان، مساجد کمیٹیاں اور کئی ایک مذہبی انجمنیں محتاج امداد لوگوں کی بلا کسی بھید بھاؤ کے نقد و جنس سے امداد کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں لوگ اپنی مدد آپ کے سنہری اصول کے تحت رضاکاروں کی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خوشی خوشی مالی امداد کر رہے ہیں، خاص کر صیام الکریم کے ان ایام میں لوگ خیرات وصدقات اور زکوٰۃ کا یہ ایک بہترین مصرف سمجھتے ہیں۔ البتہ اس سال وہ تمام مدارس، خیراتی ادارے، رفاہی تنظیمیں، یتیم خانے اور عام غرباء ان متبرک ایام میں مالی امداد کے لیے دردِ دل رکھنے والے اصحابِ ثروت سے رابطہ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں گے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دینے والے ہاتھ ان لینے والے ہاتھوں کی ضروریات قطعی فراموش کر بیٹھیں، ہرگز نہیں، ہماری انفردای واجتماعی امداد و اعانت اور حاجت روائی ہی امتحان کی ان گھڑیوں میں ان لوگوں کے لیے رگ جان کے مترادف ہے۔
کشمیر میں کورونا سے عوام الناس کو نجات دلانے والے تمام مخلص وبے لوث سرکاری وغیر سرکاری ادارے شاباشی وآفرین کے مستحق ہیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Shafi Ahmad

Very fine and detailed analysis.