جناب جاوید اختر کے نام

ش م احمد

میرا کھلا خط چند دن قبل اس عنوان سے’’اذان: جناب جاویداختر کے نام‘‘ شائع ہوا۔ ناچیز نے اس میں فلمی دنیا سے وابستہ معروف اسکرپٹ رائٹر اور نغمہ نگار جاوید اختر صاحب کے لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے کے خلاف ٹویٹ پر اپنے معروضات اس نقطہ نظر سے سپرد ِقرطاس کی تھیں کہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو، اِتمام حجت بھی ہو اور اگر یہ ٹوٹی پھوٹی تحریر صاحب موصوف کے باصرہ نواز ہوئی تو وہ زیر بحث دل آزار ٹویٹ کے مضرات پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور وفکر کر کے اخفاء میں اللہ کے حضور کم ازکم معافی تلافی کریں گے اور اگر اس سے کچھ زیادہ ہی توفیق ِالہٰی ملی تو علانیہ طور اس بابت اُن مسلمانوں سے معذرت کریں گے جن کے لیے متذکرہ ٹویٹ ذہنی کوفت کاسامان بنا۔

بعض احباب نے اَحقر کے مضمون کو پڑھ کر ہند اور بیرون ِ ہند سے فون کر کر کے عاصی کے نقطہ نظر کی پذیرائی کی، اللہ انھیں اس کا اجر عظیم دے۔ دلوں کا بھید تو اللہ ہی جانتا ہے، راقم الحروف نے یہ چند سطریں کوئی واہ واہی بٹورنے کے لیے ایک کھلے مکتوب کی صورت میں قلم بند نہ کی تھیں بلکہ صیام الکریم میں ایک نیک کام سمجھ کر اسے منصہ شہود پرلایا۔
بہر صورت اس دوران کئی ایک حضرات نے میری توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی کہ خط میں جناب جاوید صاحب کا خاندانی پس منظر مسلمانانہ ہی سہی بتایا گیا ہے مگر وہ اپنے والد مرحوم جان نثار اختر کی طرح ادبی اصطلاح میں’’ترقی پسند‘‘ اور عوامی زبان میں سلمان رُشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے ملحد اور دہریے ہیں۔

میرے لیے یہ ایک ناخوش گوار انکشاف تھا۔ ان قارئین کے تاثرات کی تصویب یا تردید کے لیے ہوتے ہوتے بات گوگل سرچ تک پہنچی۔ یہاں محترم جاوید صاحب کے پروفائل نوٹ یا تعارف کہیے، میں انھیں واضح لفظوں میںatheist لکھا پایا۔ چونکہ میرے نزدیک گوگل کوئی الہامی منبع اطلاعات نہیں کہ بلاچوں چراں اس کے رُوبرو سر تسلیم خم کروں، اس لیے شک کا فائدہ دیتے ہوئے میں’’واللہ اعلم بالصواب‘‘ لکھ کر یہ بات خود مکتوب الیہ پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں کم ازکم اس امر سے اپنا دامن بچاتا ہوں کہ گوگل پر آنکھ بند کر کے کسی جاوید کو جے کشن یا جان پال کہہ دوں۔ حاشاء وکلا۔ پھر بھی بالفرض اگر یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جاوید صاحب کا معاملہ میر ؔ کے الفاظ میں ع
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
والا ہی ہے تو بھی یہ کوئی مرغوبِ خاطر بات نہیں۔ لہٰذا جاوید اختر صاحب نے اگر واقعی اسلام سے ترک تعلق (اللہ انھیں صراط المستقیم پر عود کرنے کی توفیق فرمائے) ہی کیا ہے تو پھر اُنھیں کون سا اخلاقی حق یا کوئی قانونی اختیار ملتا ہے کہ دخل دَر معقولات کر کے اذان جیسے شعائر ِاسلامی کے حوالے سے اجماع ِملت پر حرف گیری کریں۔

جناب جاوید صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ اذان مخالف ٹویٹ سے انھیں وقت کے جبارین سے داد ملے تو ملے مگر مسلمان اُن کی گفتنی سے ناراض ہوئے۔ بالخصوص اس پس منظر میں جب غازی آباد میں ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کی طرف سے اذان پر پاپندی کا حکم اور اس مسئلے پر وہاں عدلیہ کارُخ، دلی میں پولیس کا ایک مسلم بستی میں جاکر مسجد سے اذان نہ دینے کا وائرل ویڈیو اور اسی طرح کی دیگر چیزوں سے مترشح ہوتا ہے کہ آج کی تاریخ میں ان حوالوں سے مسلمان کس بکٹ سے گزارے جا رہے ہیں۔ بایں ہمہ ہمارے اس قبیل کے تمام کرم فرماؤں کو جاننا چاہیے کہ آج مسلمان چاہے عملاً کتنے بھی گئے گزرے ہوں، اُن کے لیے جابہ جا اصحابِ اُخدود جیسے ذوانواسی آتشی گھڑے کتنے ہی دہکائے جارہے ہوں، اُن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے ائمہ باطل شام اور مغربی کنارے سے لے کر سرزمین ِہند تک کتنے ہی زہریلے منصوبے آزما رہے ہوں، ان کے عقائد اور شعائر پر کتنی بھی حملے ہورہے ہوں پھر بھی اُن کے لیے دین اسلام، قرآن وسنت اور اجماعِ اُمت اسی طرح اَٹل، ناقابل ِتبدل، قیل وقال سے بالاتر ہیں جس طرح مارکس اور لینن کے نظریات و مزعومات اشتراکیت پسندوں، اہل ِتشکیک اور دہریوں کے لیے حرف ِ آخر ہیں باوجودیکہ مارکس اِزم کو تاریخ نے مسترد کیا۔ اس کا قبلہ ۔۔۔ماسکو ۔۔۔لشکرِ ابرہہ کی طرح تاریخ کی دُھول میں گم ہے اور اس کا طنطنہ اس قدر قصہ پارینہ ہوچکا ہے کہ آج اس کا سوشلزم رُوس میں اُسی طرح اجنبی بنا ہوا ہے جیسے جرمنی میں ہٹلر اور نازی اِزم کا نام لینا گالی بنا ہوا ہے۔ اس لیے ہمارے دین اسلام کی مرمت‘‘ کرنے والے یہ کرم فرما یقین مانیں کہ پہاڑ دُھنی ہوئی کپاس کی طرح ریزہ ریزہ ہو کر بکھر سکتے ہیں، آسمان اوندھے منہ زمین پر گرسکتا ہے، دریا وسمندر خشک صحرا بن سکتے ہیں لیکن قرآن اور پیغمبر قرآن صلی اللہ علیہ و سلم کی بتائی ہوئیں آفاقی سچائیاں، زمان ومکان کی حد بندیوں سے ماوراء اس کے عقائد اور اس کے جملہ شعائر آن بان شان کے ساتھ موجود ہیں اور موجود رہیں گے۔ آج اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جب پوری دنیا میں کورونا کی قہر سامانیاں دنیائے انسانیت کا گلا دبارہی ہیں، مکہ ومدینہ سے لے کر تمام مسلم ممالک تک میں مسجدیں نمازیوں کی منتظر ہیں، پھر بھی پنج وقتہ اذانیں لاوڈ اسپیکروں پر پورے اہتمام کے ساتھ جاری وساری ہیں۔ حالانکہ مساجد میں نمازیں ادا کرنے کی اجازت صرف انگلیوں پر گنے جانے والے نفوس تک ہی محدود ہے۔
اذان پر جاوید صاحب کا یہ کہنا بھی حقیقت حال سے کوئی لگا نہیں کھاتا ہے کہ پچاس سال قبل لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینا علمائے اسلام نے حرام قرار دیا تھا۔ نہیں حضور! یہ آدھا سچ ہے، پورا سچ یہ ہے کہ ۱۹۲۸ء میں وقت کے چوٹی کے عالم ِدین مولانا اشرف علی تھانوی صاحب علیہ رحمہ نے لا وڈ اسپیکر کے استعمال کے باب میں حرمت کا فتویٰ ضرور دیا تھا مگر انھوں نے ایک نہیں بلکہ تین مختلف فتاویٰ دیے ہیں جو’’امدادالفتاویٰ‘‘ مرتب مولانا مفتی محمد شفیع علیہ رحمہ کے حصہ اول میں موجود ہیں۔ ان میں ترتیب زمانی کے ساتھ مولانا تھانوی نے ترامیم بھی کیں۔ اس سلسلے میں علماء فرماتے ہیں چونکہ اُس زمانے اول آلہ مکبر الصوت نیا نیا مارکیٹ میں آیا تھا، اس کی بناؤٹ اور طریقۂ استعمال وغیرہ کے بارے میں ابھی معلومات اتنی ثقہ بھی نہ تھیں۔ مولانا نے اپنی اجتہادی قوت کے بل پر لاوڈ اسپیکر کو گرامافون سمجھا جو موسیقی اور گانے بجانے میں استعمال ہوتا تھا۔ بنابریں انھوں نے اپنا فتویٰ یہ سمجھ کر دیا کہ لاوڈ اسپیکر پہلے ریکارڈ کرتا ہے پھر بجاتا ہے۔ بایں ہمہ اس موضوع پر مولانا شبیرا حمد عثمانی صاحب علیہ رحمہ نے مولانا سے اختلاف کیا، یعنی مسلمان اپنی آنکھ کا دروازہ کرتا ہے اور نہ دل دماغ کا۔ البتہ مغرب کے جو چیلے مستند و باعمل علماء کو ’’ملا‘‘ کے نام سے یاد کر کے انھیں بزبان دشنام جامدیت کے پیکر اور ترقی و کمال کے دشمن جتلانے میں مرزا قادیانی کی مریدی کرتے پھرتے ہیں، وہ شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ لاؤڈ اسپیکر کے موضوع پر مولانا اشرف علی تھانویؒ اور ان کے شاگردانِ رشید نے نہ صرف نو ایجاد شدہ آلہ کے بارے میں حقائق کی تفصیلی گرہ کشائی کے لیے پروفیسر سید شبیر علی، ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ سائنس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے رجوع کیا بلکہ ایک ہندو ماہر برج نندر، سائنس الیگزینڈر ہائی اسکول سے بھی رابطہ کرنے میں پس وپیش نہ کیا۔ کیوں کہ علم وعمل کے یہ دُر نایاب دین یا دینی شعائر کے بارے میں اتنے سنجیدہ اور غیر محتاط نہیں ہوسکتے تھے کہ معاملات کے حوالے سے عوام کی ناقص رہنمائی کرکے اپنی عاقبت گنوا بیٹھیں۔ اس لیے جاوید صاحب کے لیے بہتری اسی میں مضمر ہے کہ لاوڈ اسپیکر پر مولانا تھانویؒ کے فتاویٰ کا پس منظر اور پیش منظر جاننے کے لیے ایک حقیقت شناس محقق کی طرح بات کی تہ تک پہنچ جائیں۔
ریکارڈ کو دُرست رکھنے کے لیے میں اپنا مضمون یہاں پھر سے شامل اشاعت کر نا مناسب سمجھتا ہوں۔

جناب جاوید اختر صاحب!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اُمید ہے آپ میرا یہ کھلا مکتوب پڑھنے کے لیے اپنے مصروف اوقات میں سے چند لمحات نکالنے کی زحمت گوارا کریں گے۔
آپ بفضل تعالیٰ ایک باشعور مسلمان، فہمیدہ انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مستند ادیب، مقبول اسکرپٹ رائٹر، مشہور گیت کار اور فلمی دنیا کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ آپ کا خانوادہ ان معنوں میں ہمہ آفتاب ہے کہ علم و ادب اور درس وتدریس اس کا وجہ امتیاز رہا ہے۔ اور خیر سے آپ کا سلسلۂ نسب جب آپ کے جد امجد فضل الفضلاء، خاتم الحکماء، رئیس المتکلمین، مجاہدِ جلیل، قائد جنگ آزادی کہلانے والے مولانا فضل ِحق خیر آبادیؒ جیسے جید عالم دین سے منسوب ہو، جنھوں نے تصنیف و تالیف اور سخن وری کے علاوہ شجاعت و عزیمت کی دھاک بٹھاتے ہوئے ۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی میں نہ صرف ایک قابل قدر کردار ادا کیا بلکہ کالا پانی کی سزا خوشی خوشی برداشت کر کے انگریزوں کے قید وبند میں ہی وصال ِابدی فرمایا، جنھوں نے اپنے رشحاتِ قلم سے وقت کے دبے کچلے مسلمانوں میں یقین کی روشنیاں جگمگائیں اور ایمان کی جوت جگائی، اس لیے مشکل سے بھی یقین نہیں آتا کہ آپ اذان کے بارے میں علانیہ طور پر ایسا بے احتیاط تبصرہ کریں گے جن سے صرف مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی اور کچھ نہ ہوا۔
آپ موجودہ زمانے کے حالات وکوائف کے رمز شناس ہیں، اس لیے ادباً عرض ہے کہ اس دورِ پُر آشوب میں اذان پر فلم نگری کے گلوگار سونم نگم جیسی منفی خیال آرائی کسی مسلمان کی زبانی ہونا اہل ِاسلام کے لیے ہرے زخموں پر نمک پاشی ثابت ہوسکتی ہے، خاص کر اس وقت جب مسلمانان ہند ملک بھر میں ستیہ کے مارگ سے بر گشتہ بعض تشدد پسند ہم وطنوں کے ہاتھوں جعفر آباد دلی جیسی بھیانک جارحیت کا سامنا کررہے ہوں۔ جب ان کو مختلف بہانوں سے ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہو، جب غریب مسلم ٹھیلے والوں اور سبزی چھاپڑی فروشوں تک کو نان شبینہ کا محتاج بنانے کی غرض سے اُن کا بائیکاٹ کروانے کے لیے عام غنڈے ہی نہیں بلکہ بھگوا نیتا اور ایم ایل اے تک میدان میں کمر کسے کھڑے ہوں، جب کسی رحیم الدین کو اپنا نام سنگھی لیڈر کے سامنے جھوٹ موٹ راج کمار بتاکر اپنی زندگی بچانے کا رقص نیم بسمل کرنا پڑ رہا ہو، جب مسلمانوں کے پرسنل لاء سے لے کر ان کے تمام جمہوری حقوق تک پامال کرنے کا چلن عام ہو، جب کورونا کے پھیلاؤ میں تبلیغی مرکز نظام الدین دلی کو انڈیا کا وُہان جتلانے میں گودی میڈیا رات دن زمین و آسمان کے قلابے ملارہا ہو، جب اعتدال پسند لوگوں کا مسکن کہلانے والے تامل ناڈو تک میں مسلم آبادی کے خلاف زہرناکی کا یہ اثر ہو کہ ایک بیکری والا اشتہار آویزاں کرے کہ اس کے بیکری کارخانے میں کوئی مسلمان کام نہیں کرتا، جب ایک شفاخانے میں پوسٹر چسپاں کیا گیا ہو کہ مسلم مریض کورونا فری ہونے کی سند پیش کر کے ہی وہاں علاج ومعالجہ کی سہولت سے مستفید ہوگا۔
آپ کو یہ بتانے کی بھی غالباً ضرورت نہیں کہ ایک جانب بیس کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل مسلم کمیونٹی عملاً سیاسی حاشیے پر پھینکے گئے ہیں، دوسری جانب اسلاموفوبیا کا وائرس پیدا کر کے کلمہ خوانو ں کی ہمہ وقت کردار کشی ہورہی ہیں، اُنھیں برائی کا استعارہ، جہالت کا مرکب، دقیانوسیت کا مظہر اور انسان دشمنی کے چلتے پھرتے نمونے جتلایا جارہا ہے۔ حد یہ کہ ہندوستان میں مسلم بیزار حالات اور واقعات کے بڑھتے سلسلے پر پہلی بار مشرق وسطیٰ کے حکومتی حلقے اپنے ملکوں میں اسلام مخالف ٹویٹس کی لہر پر اس قدر برافروختہ ہیں کہ انھیں انڈیا کو گاندھی واد کی یاد ہی نہیں دلانا پڑ رہی ہے بلکہ مسلمانوں کے خلاف hate speech میں ملوث وہاں اعلیٰ عہدوں پر فائز بھارتی ملازمین نوکری سے برخواست بھی کیے جا رہے ہیں۔اس ساری گھمبیر صورت حال کے چلتے اگر آپ جیسی عوامی شخصیت ارباب ِحکومت سے غریب مزدوروں پر ترس کھاکر ان کی راحت کاری کا مطالبہ کرتی، اُم الخبائث (شراب) کی دوکانیں کھول کر سوشل ڈسٹنگ کی دھجیاں اُڑائے جانے پر ناراضی کا اظہار کرتی، مسلمانوں کو گودی میڈیا کے ذریعے شب وروز ہدفِ ملامت بنانے سے گریز کرنے کی تاکید کر کے ملکی عوام کو اتحاد وہم آہنگی کا درس دیتی، برادران وطن کو یومیہ مزدوری کرنے والے غریب مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کرنے کی حماقت سے باز آنے کی تلقین کرتی تو کوئی بات تھی۔ اس کے بجائے آپ کا اذان کے حوالے سے لاوڈ اسپیکر کے استعمال کی بندش پر حلت وحرمت کا دفتر کھولنا بے وقت کی راگنی ہے۔
محترم! یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اذان مسلمانوں کی نماز کے لیے محض بلاوا ہوتی ہے جو صرف دو پانچ منٹ میں ادا ہوتی ہے۔ آج کل تو دیار مغرب میں بھی اس پر لگی پابندی ہٹا کر مسلمانوں کو لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے کی اجازت دی جارہی ہے۔ البتہ اذان کے
علاوہ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے کسی بھی عنوان سے غیر ضروری استعمال پر علمائے دین پہلے ہی بار بار فتویٰ کرتے رہے ہیں۔ بایں ہمہ اگر آپ اس بارے میں کسی مدلل وضاحت کے طلب گار ہیں یا عام روش سے ہٹ کر اس موضوع پر کوئی علمی اختلاف یا موقف رکھتے ہیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ پیغمبرؐ اسلام نے کبھی بھی کسی انسان سے استفسار یا وضاحت طلبی کی حوصلہ شکنی نہ کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب ایک صحابی نے آپ ؐ سے زنا کی اجازت مانگی تو آپ ؐ نے اس کا کوئی بُرا نہ مانا بلکہ پیغمبرانہ نرم مزاجی کے ساتھ انھیں وہ مسکت اور معقول جواب دیا کہ سائل اس ناجائز کام کی قباحت کا بہ دل و جان قائل ہوا۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ آپ اذان کے بارے میں اپنے خیال یا اشکال کو public domain میں لاتے بہتر یہ تھا کہ اسلام کے مستند علماء اور اسکالروں سے اس بابت کھلے دل ودماغ سے تبادلہ خیال کرتے۔ اس صورت میں یا تو آپ انھیں اپنا ہم خیال بنا کر چھوڑتے یا اُن کے خیالات سے خود مطمئن ہوجاتے۔ بہر کیف کسی سنجیدہ فکر آدمی کا طارق فتح کے لب ولہجہ میں موقع بے موقع مسلمانوں کے خلاف گند اُچھالنا اور ہر چیز سے کیڑے نکالنا مولانا فضل حق خیرآبادی کے اَخلاف کو کسی طرح سے زیب نہیں دیتا۔
والسلام علیٰ من تبع الھدیٰ

آپ کے تبصرے

3000