فاین تذھبون

ش م احمد

یوٹیوب پر الشیخ سعود الشریم کی سورہ ’’النازعات‘‘ کی لحن ِداؤدی والی تلاوت نہاں خانۂ دل میں اُترکر وجد آفریں طراوت دوڑا رہی تھی۔ افطار سے تھوڑی دیر قبل گناہ گار اس سورت پُرحلاوت میں کھویا ہوا تھا۔ سورہ مبارکہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ اُس جاں گسل اور ہوش رُبا ساعت ِقیامت کی منظر کشی کرتا ہے جب جہانِ ناپائیدار تلپٹ ہوگا، سورج بے نور پڑے گا، فلک کے تارے بکھریں گے، پہاڑ ڈَھہ جائیں گے، سمندر بھڑک اُٹھیں گے، خوف ودہشت کے عالم میں انسان کا حال یہ ہوگا کہ اپنی محبوب ترین اشیاء کا ہوش کھو بیٹھے گا، دشت و بیابان کے وحوش ڈرے سہمے بدحواسی میں ایک ہی جگہ جمع ہوں گے۔ میری نگاہ میں اللہ یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اس وقت گناہ گار انسان پسپائی کے عالم میں اپنا پندار بھلاکر اللہ جل شانہ کے سامنے بس ایک ہارا ہوا شکست خوردہ وجود ہوگا، اُس کے پاس اپنے کبرونخوت پر ندامت اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

ان آیاتِ بینات کی سماعت کے دوران میری تمام تر توجہ کورونا کی قیامت صغریٰ اور عالمی سطح پر اس کے سبب جان ومال کی بلا روک ٹوک تباہیوں کی جانب فوراً کھنچ گئی۔ اسی اثناء میں جونہی قاری صاحب آیت نمبر ۲۶ ’’فاین تذھبون‘‘ (پس تم کدھر جارہے ہو؟) کے سوال پر پہنچے تو دل میں اُترنے والی تلاوت یک بہ یک بند ہوئی، خیال وتوجہ کا سلسلہ ٹوٹ گیا، دفعتاً ایک اشتہاری نغمہ شروع ہوا۔ یہ کمرشیل بریک تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ روح کی پرواز تھم گئی یا یوں کہیے کہ پاکیزگی کے گلستان میں کوئی صیاد دَر آیا۔ یوٹیوب پر کمرشیل وقفے ہوتے رہتے ہیں۔ اکثر الاوقات وقفہ آتے ہی انھیں نظر انداز (skip) کر کے آگے بڑھتا ہوں مگر اس بار نہ جانے ایسی کیا بات ہوئی کہ ’’ہم ہار نہیں مانیں گے‘‘ کے visuals پر میری آنکھیں مرتکز، کان متوجہ اور فکر کا گھوڑا سرپٹ دوڑنے لگا۔ یہ کورونا کے موضوع پر ایک نیا نغمہ ہے، بڑا دل نشین، سجا سجیلا۔
نغمے کے پُرکشش بول اور دُھن کی جتنی چاہیے داد دیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی نغمے کے بول کووڈ۔ ۱۹ کے پیدا شدہ ہمارے اپنے زمینی حالات سے میل بھی کھاتے ہیں؟ نغمہ نگار پرسُن جوشی کا کلام، اے آر رحمن کی فنی چابکدستی، مختلف گلوکاروں کی مدھر آوازیں، متعدد آلاتِ مزامیر مل کر نغمے میں جان ڈالتے ہیں مگر اس کے اندر چھپے پیغام پر تھوڑا سا سوچ بچار کریں تو یہ نغمہ سوالات کی سوغات سونپ دے گا۔ شاید ہی ان سوالوں کے جواب نغمہ نگار اور موسیقار کے پاس ہوں۔ خیر کئی منٹ طویل کمرشیل بریک کے بعد کلامِ الہٰی کی تلاوت اپنی حلاوتیں، رُوح پرور معانی، حیات بخش مفاہیم کے انمول موتی لٹانے دوبارہ شروع ہوئی۔

میرے کان میں کورونا کے حوالے سے نغمہ نگار کی شاعرانہ تعلی ’’ہم ہار نہیں مانیں گے‘‘ دیر تک گو نجتی رہی۔ نغمے میں ہار جیت کا جو فلمی فلسفہ تراشا گیا ہے، وہ میرے ذہن اور ضمیر کو ذرہ برابر مطمئن نہ کرسکا۔ ایک جانب وائرس کی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی وحشت ناک زیاں کاریاں، دوسری جانب انسان کے لیے ’’فاین تذھبون‘‘ (پس تم کدھر جارہے ہو؟) کا خدائی سوال۔ میرے واسطے یہ ایک لمحہ فکریہ بنا۔ میں سمجھتا ہوں اس حوالے سے حقیقت کی تہ تک پہنچنے کے لیے کلامِ الہٰی کے علاوہ کہیں اور سے رہنمائی ملنا محال ہے۔

میری ناچیز رائے میں اگر ہم کورونا کے خلاف نام نہاد جنگ میں کھوکھلے دعوؤں اور جھوٹے وعدوں کی ٹامک ٹوئیاں بند کرکے مہلک وبا کے آئینے میں ’’پس تم کدھر جارہے ہو؟‘‘ کے سوال پر ضمیر کی بارگاہ سے جواب طلب کریں تو وہاں سے یہ صدا آئے گی: اے انسان! آج تُو، تیرا مادی علم، تیری ٹیکنالوجی، تیرا میڈیکل سائنس، تیری صنعتی ترقیاں، تیرے حربی کارنامے، تیرے فن اور ہنر کے کرشمے، تیری عیاشیاں، تیری خرمستیاں سب کچھ شرق وغرب، عرب وعجم میں اللہ کی مشیت کے سامنے ڈھیر ہے۔ تُو اللہ کے پیدا کردہ ایک معمولی وائرس سے اتنی بری طرح ہارا پچھڑا ہے کہ رات کی نیند ہے نہ دن کا چین۔ پھر بھی اگر تُو باصرار کم مایہ وائرس کے ہاتھوں اپنی شکست وریخت نہ ماننا چاہے تو شوق سے نہ مان، کسی کو سورج کی روشنی اندھیرا ماننے کی ضد ہو تو یہ اس کی اپنی بنیائی اور عقل ودانش کا قصور ہے نہ کہ سورج کا۔
ہار تو پسرِ نوح نے نہ مانی تو کیا خدائی طوفان تھم گیا؟ ابرہہ نکھٹو نے خانہ کعبہ کو ڈھانے میں اپنے’’ویپن آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ کی ہار خواب وخیال میں بھی نہ سوچی تھی مگر کیا ابابیلی لشکر اصحابِ فیل کو موت کی وادی میں پہنچادینے والی سنگ باری میں ہارا؟ موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کرنے والے فرعون اور اس کے لاؤلشکر نے اپنی ضدم ضدا نہ چھوڑی تو کیا دریائے نیل کی فلک بوس لہروں نے اُسے دنیا وآخرت کے لیے نشانۂ عبرت بنا چھوڑ دینے میں ہار مانی؟ نمرود نے اپنی شقاوتِ قلبی سے شکست تسلیم نہ کی تو کیا ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ سلامتی والی ٹھنڈ بننے میں ہار گئی؟ اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے چھری حلقوم پر نہ چلی تو کیا خنجر کی ہار نہ ہوئی؟ یوسف علیہ السلام کا کام تمام کرنے آپ کو اپنے سوتیلے بھائیوں نے ایک اندھے کنویں میں دھکیل کر من ہی من جیت کا جشن منایا تو کیا مولائے کائنات نے بے وطن و بے گھر یوسفؑ کے سامنے برادران یوسف کو آخر اپنی ہار کا مزا نہ چکھایا؟ عیسیٰ علیہ السلام کو پچھاڑنے کے لیے بنی اسرائیل کے احبار ورہبان نے رومی حاکموں سے ساز باز کر کے اُنھیں تختہ دار پر پہنچانے کا رقص نیم بسمل کیا تو کیا آپؑ کے رفع السماء کا خدائی فیصلہ ہار گیا؟ پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کفارانِ مکہ نے ہر رنگ میں اور ہر محاذ پہ اپنی یقینی ہار ٹالنے کی اَن تھک کارستانیاں کیں تو کیا کافروں کی ہار لاکھ روکے رُک سکی؟ ہار کر بھی ہار نہ ماننا ایک چیز ہے اور حقیقی جیت کا تمغہ پانا دوسری چیز ہے۔

خدائے مہربان نے کورونا کی مہاماری سے فی الحال دنیا کو گھمبیر حالات وحوادث کے قید وبند میں رکھا ہوا ہے آگے کیا ہوگا وہی علیم وخبیر ہے۔ بنیادی طور پر اس خدائی فیصلہ سے نوعِ انسانی کی مرضیات، اس کی چاہتوں، عیاشیوں، مجازی خدائیوں کا تختہ اُلٹ دیا گیا ہے۔ ٹرمپ، بورس جانسن، پیوتن کی قوموں سے لے کر مودی، عمران خان اور حسن روحانی کے ملکوں تک میں کون ایسا ہے جو آج کی تاریخ میں کورونا سے پیدا شدہ بے قابو حالات کے سامنے ہارا ہوا نہیں دِکھ رہا ہے؟ عملاً صورت حال یہ بنی ہے کہ ایک طرف کورونا کا نظر نہ آنے والا شیر ہے اور دوسری طرف عالم ِانسانیت نوزائیدہ میمنہ کی صورت میں لڑ کھڑا رہا ہے۔ ’’فاین تذھبون‘‘

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، ۲۴مارچ کو انڈیا میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے پی ایم مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ مہابھارت کا یُدھ اَٹھارہ دن میں جیتا گیا، ہم اکیس دن میں کورونا سے مُکتی پائیں گے مگر کیا یہ ان کا محض ایک واہمہ ثابت نہ ہوا؟ کورونا کا یک طرفہ یُدھ جوں کا توں جاری ہے جب کہ اب خیر سے لاک ڈاؤن کا چوتھا دور چل رہا ہے۔ یہ سارا سلسلہ کب تلک یونہی طول کھینچتا رہے گا کوئی نہیں بتا سکتا۔ ملک بھر میں کورونا متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز بتائی جاتی ہے، مرنے والوں کی تعداد بھی پل پل رُوبہ اضافہ ہے۔ اس کے بعد کہنے کو اب رہتا بھی کیا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کووڈ۔۱۹ کی گھمبیرتا کا فہم وادراک کر کے ہینڈز اَپ ہوا، صاف لفظوں میں اعلان کر گیا کہ انسانی دنیا کو اپنی تمام بے بسی کے ساتھ اب کورونا کے ساتھ ہی جینا مرنا ہوگا۔ ’’ فاین تذھبون‘‘

میرے ناقص خیال میں مہلک وبا کی غیر مختتم گرفت سے بچنے کے لیے ہمیں کسی بہادری یا جنگ بازی کی قطعی ضرورت نہیں، جملہ بازی سے بھی کام نہیں چلے گا۔ کیونکہ یہ کسی دشمن ملک نے ہم پر جنگ مسلط نہیں کی ہے، اس لیے حقیقت شناسی سے منہ موڑنا درد کی دوا نہیں۔ کورونا پوری دنیا کو سرتاپا جھنجوڑنے کے لیے خدائی کارخانے سے نازل شدہ بلائے آسمانی ہے۔ یہ ناگہانی آفت مطالبہ کرتی ہے کہ نوع ِانسانی مہربان خالق کائنات کی طرف خلوص و بے ریائی کے ساتھ پلٹ آئے، دو ٹانگوں پر کھڑا انسان اپنی ضد ہٹ اور اکڑ سے دستبردار ہوکر زمین پر چلنے کا سلیقہ سیکھے۔ جب تک یہ خدائی فیصلہ دنیا میں نافذالعمل رہتا ہے ہمیں اس کے سامنے رحم کی بھیک مانگتے ہوئے سرنگوں ہونا چاہیے۔ اپنی بقا کے لیے جہد مسلسل بھی کرنی چاہیے، ہوش مندی سے بھی کام لے کر احتیاط کی پگڈنڈی اور پرہیز کی شاہراہ پر ہر حال میں چلنا چاہیے۔ ہاں لاک ڈاؤن کب ختم ہو، اس جنجال میں پڑے بغیر احساسِ ذمہ داری کی روش قائم رکھتے ہوئے اور سرکاری بندشیں توڑے بغیر اگر کسی فرد بشر کے لیے تھوڑی بہت معاشی دوڑ دھوپ کی ادنیٰ سی گنجائش نکلتی ہے تو اسے مبارک سمجھے، اس سے منہ نہ موڑے۔
ہمیں اچھا لگے یا بُرا مگر ہے یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کورونا کے بعد والی نئی دنیا قبل از کورونا دنیا (بل گیٹس کی دجالی دنیا) سے بالکل مختلف ہونا طے ہے۔ ہماری موجودہ دنیا میں ابلیسی سوچ کا غلبہ، کمزوروں کی مغلوبیت، احتکارِ زر، ظالمانہ مادہ پرستی کا بول بالا ہے۔ تاہم اگر ’’فاین تذھبون‘‘ کی صدائے درد پر ایک بار انسانی دنیا مثبت انداز میں لبیک کہنے کی روادار ہوئی تو ہر ملک وقوم دجالیت کے چنگل سے آزاد ہوگی، اس کی صبح وشام بدلی بدلی ہوگی، ترجیحات تعمیری اور امن پرورانہ ہوں گی، دلچسپیاں فطرت کے اشاروں کے سانچوں میں ڈھلی ہوں گی۔ اسی صورت میں فطرت کا غصہ کم ہوگا اور انسانی دنیا کورونا یا اس سے زیادہ خطرناک ہلاکت خیز وباؤں سے گلوخاصی پائے گی۔بہرحال جو کچھ بھی بہتر مستقبل کے بطن سے برآمد ہوتاہے، نئی دنیا میں مفید مطلب علم اور جدید سائنس وٹیکنالوجی سے لیس اقوام ہی بآسانی جی سکیں گی۔

’’فاین تذھبون‘‘ کا منشا یہی ہے کہ اخلاقی سطح پر نئی دنیا انسان کو فقط اپنی پیٹ پوجا کرنے والا حیوان نہ دیکھے بلکہ اسے دوسروں کے لیے بھی جینے کا سہارا بننے کی توفیق ملے ۔اس دنیا میں ’’فاین تذھبون‘‘ کے خدائی سوال کا جواب ’’ہم ہار نہیں مانیں گے‘‘ نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں جینے والوں کو اپنی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لاکر علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی تفسیر مجسم بننا ہوگا تاکہ دنیا خوان یغما نہیں بلکہ فوائد کی آماج گاہ اور خدمات کی جنت بن جائے ؎
تُو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
ترجمہ: تو نے رات بنائی تو میں نے چراغ بنایا۔
تو نے مٹی بنائی میں نے پیالہ ( کام کی چیز) بنالیا۔
اس وقت ہم پر مالک ِکائنات نے جو بھاری بھرکم بوجھ کووڈ۔ ۱۹ کی شکل میں لادیا ہے، اس سے پہلے بھی ہزاروں سال سے ایسی آفات وبلیات خدا انسانی بستیوں کو تہس نہیں کر تا رہا ہے۔ یہ اس کی حکمت ِ بالغہ ہے جو انسانی فہم سے بالاتر ہے۔ انسان نے ماضی میں ان چلنجوں کا سامنا کبھی بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے نہ کیا بلکہ اللہ کی ودیعت کی ہوئی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو بلا دھڑک استعمال کر کے اپنا مدافعتی و تخلیقی محاذ سنبھالا۔ آج بھی انہی صلاحیتوں کی خوشہ چینی کر کے ہم پیش آمدہ ہلاکت خیز آفت سے تعمیری امکانات کی ایک حسین دنیا دریافت کر سکتے ہیں جہاں بھوک، بیماری، افلاس، ناخواندگی، تنگ نظری، تنفر، تخریب کاری اور تشدد کی جگہ بھائی چارہ، ہم آہنگی، کثرت میں وحدت کی شیریں نغمہ خوانیاں ہوں۔ اس کے برعکس جہاں ’’گھر میں گھس کر ماریں گے‘‘ کی ڈینگیں ہوں ’’گولی مارو سالوں کو‘‘ کی دھمکیاں ہوں، لاک ڈاؤن کے ستائے ہوئے لاکھوں کروڑوں غریب مزدور، معصوم بچے، لاغر عورتیں سمیت ننگے پاؤں، خالی جیب، خالی پیٹ سینکڑوں میل پیدل چلنے پر مجبور ہوں، اُن کی گھرواپسی بھوک، پیاس، چلچلاتی دھوپ، پولیس ڈنڈوں اور سڑک حادثات کی بھینٹ چڑ ھتی رہے۔ انھیں ساری ذلت وخواری اس لیے برداشت کرنی پڑ رہی ہو کہ اپنے حاکمانِ وقت نے لاک ڈاؤن کی غلط پلاننگ کی جس کے باعث یہ لاکھوں کروڑوں غریب اَتیاچاروں کی ٹھوکریں کھاتے جا رہے ہیں۔ اس سب کی موجودگی میں واللہ ہم سب اور ہمارا سسٹم ہار ا ہوا ہے اور یہ ہمارا خالص بھرم ہے کہ ’’ہم ہار نہیں مانیں گے‘‘ گنگنا رہے ہیں۔ کیا موجودہ گھمبیر صورت حال میں یہ نغمہ زمینی حالات کے بجائے سرکاری بیانیے کی تائید میں گنگنائی گئی بالی وُوڈ سٹائل قوالی نہیں لگتا؟ یہ عملی دنیا کی گفتگو نہیں ہوسکتی۔ خود ہی انصاف کیجیے اس وقت جب ہمیں متحدہ طور پر مہاماری سے گلوخلاصی کے لیے کمر بستہ ہونے کی اَشد ضرورت ہے، انتہا پسندوں کے ہاتھوں اقلیتی مسلمانوں سے غیرانسانی برتاؤ معمول بنا ہوا ہے، ان کے کھانے پینے، ٹوپی، حجاب، اذان سے لے کر اُن کے تشخص کی ساری علامتوں تک خدا واسطے بیر برتا جارہا ہے۔ اس پر بھی یہ دعویٰ ’’ہم ہار نہیں مانیں گے‘‘۔ حد یہ کہ سوشل میڈیا دکھا رہا ہے کس طرح ایک دلت ڈاکٹر نے ہسپتال میں پی پی ای کی عدم دستیابی کی شکایت کرنے کا تحفہ یہ پایا کہ پولیس اسے سر راہ گھسیٹے تھانے لے جارہی ہے، وہ بھی ننگے جسم، پیچھے کی طرف ہاتھ بندھے، اس کی تذلیل کے لیے سر کی مکمل حجامت کی گئی ہے۔ اُف! کیا اس بے قصور انسان کے ساتھ کتوں جیسا سلوک کر کے قانون کی ہار اور مانوتا کی شکست کا اعلان نہیں ہوا؟ ایسی مغموم فضا میں ’’ہم ہارنہیں مانیں گے‘‘ کا نغمہ محض سخن سازی نہیں تو اور کیا ہے؟
’’فاین تذھبون‘‘ ایک حقیقی دنیا کی صدائے بازگشت ہے جب کہ ’’ہم ہار نہیں مانیں گے‘‘ کا نغمہ صرف ایک خیالی دنیا اور قیاسی جنت کا فریب نظر ہے۔ نغمے میں شاعرانہ خیال آرائی، لفظوں کی جادوگری یا جملوں کی موسیقی اپنی جگہ اور شاعر کا نومیدی کو مات دینے کے لیے زیست کی خوش خبری سنانا بھی تسلیم مگر کورونا کی مسلسل مار سے نجات پانے کے لیے حکومت اور سماج کو اپنی تمام ہاروں کو جیت کہلوانے کے بجائے ایک تعمیری اور انسانی سوچ سے کام لینا ہوگا، ایک نئے جوش، ولولے اور انسانی جذبے سے اپنی جملہ ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔
اس میں دو رائے نہیں کہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کارخانے، معاش گاہیں، انسانی زندگی پر اثر انداز ہونے والے تمام ادارے یک قلم بے کار پڑے ہیں۔ زندگی کا سارا نظام درہم برہم کرنے میں عالمی جنگوں نے جو ریکارڈ بنایا تھا، کارخانہ ٔقدرت شاید اسے اب توڑ کے رکھنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ ان حالات میں ملک وقوم کی نیا بچانے کے لیے ناگزیر ہے کہ’’فاین تذھبون‘‘ کی خداوندی کنجی سے عقل وفہم اور ضمیر کے بند تالے کھول کر ایسی نتیجہ خیز، انسانیت نواز، تازہ دم مدافعتی اور اختراعی پالیسیاں وضع کی جائیں جو زندہ قوموں کا شعار ہوتی ہیں ؎
آرزو حسرت اور اُمید شکایت آنسو
اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا

آپ کے تبصرے

3000