گھر واپسی

ش م احمد

میں نصیب لال ناکام نگر کا باسی ہوں، ایک غریب کنگال آدمی، مجوری کام دھندا ہے۔ پتا شری بد قسمت لال نے میرا نام نصیب لال کیوں رکھا، وہی جانے، پرنتو مجھ پر یہ راز ۲۵ مارچ کی راتری کو کھل گیا کہ ہم جیسے ویکتی جنم جنم سے بدنصیب ہوتے ہیں۔
اس رات میں دلی کے پانچ ستارہ ہوٹل کے پچھواڑے میں کرایے کی جھگی میں ٹھیک نو بجے ٹھیکیدار کا پھٹیچر ٹی وی دیکھ رہا تھا، جب کہ سات ماہ سے گربھ وَتی میری پتنی فقیرن دیوی، تین سالہ بیٹے نڈھال چند، ڈیڑھ سالہ بیٹی غم رانی اپنی ہی دُھن میں مست تھے۔ یکایک پردھان منتری مودی جی ٹی وی پہ بھاشن دینے آئے۔ انھوں نے کیا کیا کہا، میرے پلے کچھ نہ پڑا، پرنتو یہ کہہ کر کہ کورونا کی مہا ماری سے یُدھ میں وجے پراپت کرنے کے لیے آج رات سے دیس میں تین ہفتے کا لاک ڈاؤن رہے گا، میرا سر چکرایا۔ سچ میں میرا ماتھا ٹھنکا، بدھی بھرشٹ ہوگئی۔ میں ہوں ایک سادھارن، اَشکشت، اَگیانی ناگرک، راج نیتی کا ہیر پھیر کیا جانوں، میں نے یہ سمجھا مودی جی نے دیس میں پھر سے نوٹ بندی کر دی۔ اس کا اَرتھ صاف تھا میں اور میری دھرم پتنی دوچار سال پہلے کی طرح دہاڑی سے گئے۔ فوراً اپنا پھٹا پرانا بٹوہ ٹٹولا یہ دیکھنے کے لیے اس میں کتنا بچا ہے، بٹوے میں دو سو دس روپے موجود تھے۔ پچھلے بیس دن کی دہاڑی دوہزار روپے نقد ابھی ٹھیکیدار کے پاس ہی تھے، ٹھوڑی راحت ہوئی، سکھ کا سانس لیا۔ میں بھی کتنا باؤلا ہوں فوراً فقیرن کو یہ اَشبھ سماچار سنائی: سنتی ہو، نوٹ بندی پھر سے لاگو ہوگئی۔ یہ سننا تھا کہ اس کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا، بچاری تھر تھر کانپنے لگی۔ اِدھر یہ سوچ کر میں بہت پریشان ہوا کہ سنکٹ کی گھڑیوں میں چند روپیوں سے کیا گزارہ چلاؤں، اُدھر دوکاندار نہال بابو کا غصہ ڈرا رہا تھا، اس نے پچھلی نوٹ بندی کی طرح اگر آج بھی اُدھار دینے سے صاف منع کیا تو جئیں گے کیسے؟
نراشا اور چنتاؤں کی اسی ادھیڑ بُن میں غوطے مار رہا تھا کہ اپنے گاؤں کا مزدور ساتھی غریب لال دوڑتے ہانپتے جھگی میں گھس آیا، اس کی سانسیں پھولی تھیں، لرزتی زبان میں بولا: نصیبو! کچھ سنا تم نے؟
میں نے صرف سر ہلایا۔ وہ بولا: مودی جی نے اب اکیس دن کا جنتا کرفیو لگایا۔ مطلب کوئی مجوری نہیں، سو کام کاج ٹھپ۔ جنتا جناردن کو آدیش دیا گھر سے باہر لکشمن ریکھا کھینچ دی گئی، اس سے باہر آنے کی بھول نہ کر ئیو، مطلب کام دام چھوڑ کے گھر میں ہی سڑجاؤ ۔
میں نے غریب لال کو جھٹلایا: نہیں بھئی، تم سے سننے میں چُوک ہوگئی، میں نے ابھی خود سنا، پردھان منتری نے گھوشنا کی آج رات سے دیس میں نوٹ بندی پھر لاگو ہوگئی۔
غریب لال نے میری سادگی پر چوٹ کی: ارے بُدھو! کاہے کو اُلٹا سمجھ گئے، لاک ڈاؤن نوٹ بندی نہیں، جنتا کرفیو ہے۔ اپنا تو پیچھے ہی کئی دن کام بند رہا، بھلا بتاؤ اب کیاکماؤں کیا کھاؤں؟ گھر گرہستی کیسے چلائیں؟
یہ سن کر مجھ پر سناٹا چھاگیا، فقیرن کا مانو دَم ہی نکل گیا۔ میں نے خود کو سنبھالا دے کر فقیرن کو تسلی دی: ارے پگلی! تمھیں اَشانتی کیوں؟ بھگوان جو کرتا ہے سنسار کے بھلے کے لیے کرتا ہے۔ اب کم ازکم تمھیں روز کی مجوری سے کچھ دن چھٹکارا ملا، اپنے شریر کا بھی کچھ خیال کرنا، تمھارے کوکھ میں پل رہے بچے کو بھی تھوڑا سا آرام چاہیے۔ نچنت ہوجاؤ، کچھ نہ کچھ کر کے روز کمائی کروں گا۔ بھگوان کوئی نہ کوئی اُپائے کرے گا۔
غریب لال نے پھر سے میرا مذاق اُڑایا: ارے بُدھی مان! کیا ہوائی قلعے بنارہے ہو؟ لاک ڈاؤن ہوگا تو مجوری کاہے کی؟ پولیس کام پر جانے دے گی بھی تب نا، سمجھ لو اپنا سب کچھ لٹ گیا، فاقے ہوں گے، اچھے دن تو دُور دانے دانے کو محتاج ہونے کے دن آگئے۔ کہیں سے دان دکشنا بھی نہیں ملنے والا، یہ سوچ کر مررہا ہوں اپنی بوڑھی ماں، وکلانگ بھائی، اپنی جورو، چار بچوں کو کھلاؤں تو کیا کھلاؤں۔ دلی دل والوں کی نہیں، یہاں کوئی مفت میں روٹی توڑنے دے گا؟ ٹھیکیدار بھی ٹھینگا دکھائے گا، میری بات گرہ میں باندھ لینا۔
ایک ہی سانس میں یہ سب اُگل کر غریب لال نے ٹھنڈی آہ بھری اور جلدی جلدی دوسرے سجنوں کو یہ
اَ شبھ سوچنا دینے کے لیے ڈگ بھر دئے۔
اس رات نہ میں نہ فقیرن سوسکی۔ نیند آتی بھی کیسے، یہاں بچوں کی پڑی تھی، وہاں ڈیڑھ ہزار میل دور گھر میں ماتا پتا اور بہنا کی چنتا ئیں کھائے جارہی تھیں۔ رات بھر اسی وِشے پر سوچ سوچ کر دماغ کی نسیں پھول گئیں، دل بیٹھ گیا اب بھکمری ہونی ہی ہونی ہے۔ یہ وچار بھی آیا کیوں نہ گھر واپسی کی راہ لوں لیکن یہ خیال حوصلہ توڑ رہا تھا خالی پیٹ، خالی ہاتھ، گاڑی نہیں، کرایہ بھی نہیں، اتنی دوری کا فاصلہ ٹبر کے ساتھ کٹے تو کیسے کٹے؟ آہ! زندگی نے کس نرک میں دھکیلا۔
اگلے دن صبح تڑکے جاگ اُٹھا۔ شیڈ سے باہر چلا آیا، دیکھا جھگی بستی میں مزدور جگہ جگہ ٹولیوں میں جمع تھے، سب لوگ رات والے مودی گھوشنا کے وِشے پر چرچا کر رہے تھے، کوئی کانا پھونسی کر رہا تھا، کوئی دانتوں تلے انگلی دابے بیٹھا تھا، سب کے سب بے جان لگ رہے تھے، چہر ے اُترے ہوئے، ہونٹ خشک، کوئی آہیں بھر رہا تھا، کسی کی انکھیا بھیگی تھیں، میں بھی یہ سوچ کر آنسوؤں کا ساگر بہانا چاہتا تھا کہ غریبی کی سزا آج بھکمری کی صورت ملنے والی ہے۔ نراشا سے جوجھ رہے ان چہروں کو دیکھ کر میرے اندر کا ڈر مزید گہرا گیا۔ کیوں نہ ہو، جب دہاڑی بند ہو تو جینے کا سادھن کیا۔ پردھان منتری کی مہاماری پر وجے پانے کی گھوشنا سے کیا کچھ ہو، میرے جیون کی پراجت ہونا طے تھی۔
میرے تمام سپنے فوراً بکھر گئے۔ اب میں اکیلا اپنے بُڑھے ماتا پتا، بہنا، بھیا، بچوں اور فقیرن کا کیا کروں؟ میں جانتا ہوں کسی مزدور کے لیے بغیر کمائی کے جیوت رہنا نرک میں جانے کے برابر ہے۔ اسی لیے تو ہمارے گاؤں میں کھیتی کسانی کر منے والے بابو چند، لکشمی، دُکھیا نے غربت سے تنگ آکر آتم ہتیا کر لی تھی۔ یہ یاد کر کے میرا خون کھول رہا تھا کہ مزدورں کا نوالہ چھن جانے پر آڑے وقتوں میں کوئی بڑ بولا نیتا سامنے نہیں آتا م، سماج سیوک کا چولہ پہننے والا نو دو گیارہ ہوجاتا ہے، غریبوں کا مسیحا کہلانے والا کافور ہوجاتا ہے، بس جھوٹے دلاسے سننے کو ملتے ہیں یا خشک بھاشن، صرف جملہ بازیوں کا بازار گرم ہوتا ہے۔
ہزار چنتاؤں کا بوجھ، پہاڑ جیسی چنوتیوں کا انبار، نراشا کی بھاری پوٹلیاں لادے میں بوجھل قدموں سے کٹیا میں واپس چلا آیا… اور پھر ہمارے اگلے دس دن تک ہم سب کی سانسیں روکنے کے لیے جو سنکٹ ہم سب نے جھیلا، اُسے شبدوں میں کیا بیان کروں۔ فقیرن، اس کی پیٹ میں پل رہا ننھا مہمان، دو معصوم بچے اور میں اپنے شیڈ میں جیون اور مرتیو کی منجدھار میں ہچکولے کھاتے رہے۔ کھانے کو کچھ نہ بچا تھا، آٹا دال سب ختم، ٹھیکیدار پیسہ دینے سے مُکر گیا، مزدورں سے پنڈ چھڑانے کے لیے اُس نے اپنا منہ ہی خراب کرلیا، فون ملایا بند پایا، جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی، نہال چند ادھار دینے سے انکاری تھا، اُدھر جھگی والے نے کرایے کی اوگرائی شروع کی۔ بستی کے تمام مزدوروں کی یہی ایک جیسی بپتا تھی۔ بھوک کی مہا ماری نے سب کو بے ہوش کر ڈالا۔ کئی دن بھوک، پیاس، جھلسا دینے والی گرمی سہنے کے بعد ہم سب مزدروں کو گھر لوٹنے کے علاوہ کوئی اور بات من کو نہ بھائی۔ ہماری سرکار صرف گوشناؤں کا پاٹھ جپ رہی تھی: اَشانت ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، دھیرج رکھیے، اَپرواسی مزدوروں کو سرکار کی طرف سے مفت کھانا، مفت رہائش کا بندوبست کیا گیا ہے۔ یہ ایک ڈھکوسلہ تھا، سراسر جھوٹ، مضحکہ خیز مذاق۔ ہاں کافی لمبے انتظار کے بعد ایک روز بابو لوگ بستی میں کوئی سو دو سو فوڈ پیکٹ لائے، وہ بھی ہزاروں مزدروں میں بانٹنے کے لیے، ساتھ میں دور درشن کے بابو اور پولیس والے تھے۔ ان کو بھوک کی آگ میں جھلس رہے ہزاروں مزدروں نے دیکھا تو یکایک پورا ہجوم بابوؤں پر ٹوٹ پڑا، سب کے سب آپس میں گتھم گھتا ہوگئے، پھر پتہ نہیں کس کے ہاتھ کیا لگا۔ میں خالی ہاتھ رہا، واپس جھگی کو لوٹا تو بچوں کی نراشا جنک حالت نہ سہہ سکا۔ مجھے خالی ہاتھ دیکھ کر فقیرن کے گال پر آنسوؤں کے چند موٹے قطرے جم گئے، میں اپنا ہوش کھو بیٹھا۔ ایسے میں بچوں کو جھوٹ موٹ کا دلاسہ دینا فضول تھا۔
روز بھوک سے بلک رہے بچوں کی بدحالی اب مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ ہم نے بھی بستی کے دوسرے ہزاروں مزدوروں کی طرح آخر کار پیدل گھر لوٹنے کا اَٹل فیصلہ لیا۔ سوچا پربھو نے اگر بھکمری سے مرنا ہی لکھا ہے تو بھی اپنے گھر گاؤں میں اَرتھی کو کم ازکم کندھا دینے والا کوئی تو ہوگا۔ یہاں اس اجنبی شہر میں ہم پرواسی ہیں یعنی بیگانے، نہ کوئی سگا سمبندھی نہ کوئی شناسا، کوئی اپنا متر نہیں، چاروں طرف صرف ہماری جفاکشی کے گدھ نما خریدار… کھیت کھلیان کی ہریالی ہم پر نِرڈھر مگر آج ہم ہی اناج کے دانے دانے کو ترسیں، وکاس کا پہیہ ہمارے خون پسینے سے گردش کرے پرنتو آج مہاماری میں ہم ہی بھوکے پیاسے دُھتکارے ہوئے، جن سڑکوں کو ہم نے پتھر کُوٹ کُوٹ کر، تارکول بچھا بچھا کر اپنی محنت کا خون پلایا آج اُن پر ہم پیر رکھیں تو پولیس کے ڈنڈے ہم پر ہی برسیں، جن کارخانوں نے ہمارے کندھوں پر بیٹھ کر ترقیوں کے آکاش چھولیے، وہ آج ہم سے آنکھیں پھیر گئے، آسمان کو چھونے والی عمارتیں ہم نے کھڑی کیں مگر ہمارے اپنے سر چھت کے سایہ سے محروم، جن ریلوے ٹریکوں کے بنانے پر ہم نے اپنی جوانیاں نچھاور کیں انہی پر چلتی مال ٹرین ہمارے جسم کو سوتے میں ٹکڑوں میں بکھیر جاتی ہے کیونکہ ہماری کوئی قیمت نہیں…
اگلے ہی لمحے ہم نے اپنی کُل پونجی دو پوٹلیوں میں سمیٹ کر ڈیڑھ ہزار میل دوری پر واقع گاؤں کی راہ لی۔ ہمارے ساتھ سینکڑوں دوسرے پُرش اور مہیلا م، بُڑھے مزدور بھی پیروں میں ٹوٹی چپلیں، گودی میں معصوم بچے، ہاتھوں میں پوٹلیاں لیے اس بے گانہ شہر سے چلچلاتی دھوپ کی پرواہ کیے بغیر اپنے گاؤں کی طرف ایک لمبے سفر پر پیدل چل دیے، اب سڑک ملے یا ریلوے ٹریک، ہم پاؤں کے چھالے، پیاس کی شدت، بھوک کے درد کی اَن دکھی کر کے گھر پہنچنے کی آشا میں چلتے رہیں گے، چلتے رہیں گے، چلتے رہیں گے…
پس تحریر:
کیا نصیب لال (ایک خیالی کردار) کا اپنے پریوار سمیت زندہ اور صحیح وسالم گھر پہنچنے کا خواب شر مندہ تعبیر ہوگا یا وہ بھی کہیں پولیس ڈنڈے، کہیں پتھراؤ، کہیں مار پٹائی، کہیں سڑک حادثے، کہیں ریل ایکسڈنٹ سے دوچار ہوگا؟ اس انوکھے سفر کے دوران کہیں وہ خود یا اس کی حاملہ بیوی یا دو معصوم بچے کسی منحوس خبر کی سرخی بن کر کورونا وبا کے اِتہاس کی دُھول میں گم ہو جائیں گے، اس بارے میں بھی کچھ بھی خم ٹھونک کرنہیں کہا جاسکتا۔
گزشتہ پنتالیس دن سے انڈیا میں کورونا سے پیچھا چھڑانے کے لیے لاک ڈاؤن جاری ہے۔ یہ ایک م برہنہ حقیقت ہے کہ لاک ڈاؤن سے انڈیا کے گوشے گوشے میں ہرکس وناکس کی زندگی جامد و ساکت ہو کر رہ گئی ہے۔ بلاشبہ مہاماری کے خلاف دفاعی اقدام کے طور بندشوں اور حصاروں کی کھنچی لکشمن ریکھا کی کلیدی اہمیت اپنی جگہ مگر یہ بات کیونکر نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بغیر کسی پیشگی تیاری کے لاک ڈاؤن کے الل ٹپ اعلان نے ملک کے طول وعرض میں مزدوروں، طلبہ، بیماروں اور مختلف قسم کے مسافروں کے سامنے طرح طرح کے پیچیدہ مسائل کا گھنا جنگل آناً فاناً لاکھڑا کیا۔ کشمیر سے کنیا کماری تک جو لوگ مارچ کے اواخر میں اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور محنت مزدوری، کاروبار، تعلیم، ملازمت، سیاحت یا کسی دوسری وجہ سے مقیم تھے، ان کے لیے لاک ڈاؤن کا آنا فاناً ہونے سے ایسے تمام لوگوں کی زندگیاں مختلف پیرایوں میں اجیرن ہوتی چلی۔ یہ کوئی ناقابل فہم امر نہیں۔ اس بنا پر عام آدمی کو کن کن ناگفتہ بہ حالات سے پالا پڑا ہوا ہے، اس کے مسائل کس قدر گھمبیر سے گھمبیر تر ہورہے ہیں، کہاں کہاں لاک ڈاؤن کی آڑ میں انسانیت کی کھلے عام تذلیل ہورہی ہے، یہ ایک ایسی اَن کہی کہانی ہے کہ جب کبھی وقت کا مورخ اسے الم ناکیوں کے قلم اور محرومیوں کی سیاہی سے لکھ کر سامنے لائے گا تو پڑھنے والوں کے دل دہل جائیں گے۔ تاریخ کی یہ دلدوز کہانی ضرور بتائے گی کہ یوپی، بہار، بنگال، اوڑیسہ اور دیگر ریاستوں کے یومیہ مزدور کہیں کام کاج سے فارغ اور نوکری سے برخواست بے سر وسامانی، بھوک، بے نوائی اور بے گھری کی کڑی مار سہہ رہے تھے اور کہیں یہ بے خانمان لوگ اَن گنت تعداد میں سینکڑوں ہزاروں میل پیدل مارچ کر کے گھرواپسی کا جان لیوا جوکھم اُٹھارہے تھے۔ کئی ایک جگہ ان کامگاروں کے کھردرے مگر انمول ہاتھوں میں پولیس کے خلاف پتھر اُٹھے جو عام حالات میں پتھر کی سلوں کی تراش خراش کر کے ان سے عمارتیں اور سڑکیں بنانے کے عادی ہوتے ہیں۔ تاریخ یہ جگر سوز مناظر بھی آگے ہمیں دکھائے گی کہ کس طرح یہ بے خانماں قافلہ نتائج وعواقب کی پرواہ کیے بغیر بھوک، پیاس اور تپتی دھوپ کے باوجود اپنے دور اُفتادہ نشیمن کی طرف دن رات بے بسی کی حالت میں جا تا رہا، ان میں کسی مزدور کی کل کائنات ایک معمولی بیگ کی صورت میں اس کی پیٹھ پر آویزاں تھی یا سر پر گٹھری کی صورت میں، کسی کسی کے ساتھ اس کی جورو تھی جو اپنے معصوم وکم سن بچے یا بچی کی انگلی تھامے ایک طویل مسافت چھالے پڑے پاؤں سے کاٹنے پر مجبور تھی، کسی مزدور کی شریک حیات اُمید سے تھی اور بچے بھوک سے روتے بلکتے تھے۔ مزدوروں اور پھنسے پڑے لوگوں کے حوالے سے ان کرب ناک مناظر سے کسی سنگدل سے سنگدل کا کلیجہ منہ کو نہ آئے تو جان لیجیے اس کا دل پتھر اور ضمیر مر چکا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن سے پہلے حکومت نے اس ساری گھمبیر صورت حال کی اُسی طرح پیش بینی کیوں نہ کی جیسے کشمیر میں دفعہ ۳۷۰ ہٹانے سے ایک خاصی مدت سے پہلے کشمیر سے سیاحوں کو گھر واپس آنے کی فوری ہدایت دی گئی، امر ناتھ یاترا بیک جنبش قلم موقوف کی گئی، کشمیر میں فورسز کی مزید کئی کمپنیاں جنگی پیمانے پر روانہ کردی گئیں، سرکاری افسروں کے نام ہر طرح کی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے اعلیٰ حکومتی سطح پر پے درپے ہدایات صادر کی گئیں، وغیرہ وغیرہ، لیکن ملکی پیمانے پر موجودہ لاک ڈاؤن کے لیے اس تیاری کی سرے سے کوئی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی، مورخ کے قلم اور سوچ کی پرواز کے لیے یہ ایک دلچسپ معمہ ہوگا جس کی گتھی سلجھانے کے لیے وہ عقل کی کمندیں قیاسات کے آسمان پر ڈالنے کے لیے مجبور ہوگا ؎
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

آپ کے تبصرے

3000