جمہوریت

ابوحسان مدنی سیاسیات

علامہ اقبال رحمہ اللہ نے جمہوریت کی حقیقت کیا ہی خوب بیان کی ہے:
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

نظریۂ جمہوریت کلیسائی نظام کے رد عمل میں وجود پذیر ہوا، جس کی بنیاد مذہب بیزاری ہے، جمہوریت کی ابتدا انقلاب فرانس کے بعد اگست 1779 عیسوی میں ہوئی، جمہوری نظام حکومت کا تجربہ سب سے پہلے یوروپ وامریکہ میں کیا گیا اور پھر آگے چل کر اسی جمہوریت کے بطن سے جنمے نظام اشتراکیت نے روس و دیگر ممالک میں جو گل کھلائے اور جو قہر برپا کیا کہ اہل ادیان و مذاہب پر ظلم و ستم کے پہاڑ، لاکھوں بے قصور افراد کا قتل عام اور عبادت گاہوں کی تخریب و تدمیر سب کچھ کتب تاریخ میں ثبت ہے، پھر دنیا بھر میں جس جمہوریت کی دہائی دے کر کئی ممالک کی حکومتوں کو تخت و تاراج کیا گیا، لاکھوں افراد کا قتل عام، عورتوں کو بیوہ، بچوں کو یتیم اور کروڑوں نوجوانوں کو بے روزگار کیا گیا، ملکوں کو کھنڈر بناکر پوری ملکی معیشت کو نیست و نابود کردیا گیا، اسی جمہوریت کو سب کے لیے یکساں و مفید نظام بتایا گیا، جب کہ حقیقت میں جمہوریت، آمریت اور استبداد کی ایک نئی شکل ہے، اس جمہوری نظام میں اکثریتی پارٹی حاکم مطلق بن جاتی ہے، اور پھر پانچ سال کے لیے باقی ممبران پارلیمنٹ اور ساری رعایا محکوم، مجبور اور مقہور و مظلوم ہوجاتی ہے۔

عصر حاضر میں اگر اس جمہوریت کا کریہہ چہرہ دیکھنا ہو تو دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں تلاش کریں، زمینی سطح پر ایسے چشم کشا حقائق عیاں ہوں گے کہ غضب کے مارے آپ اپنی انگلیاں چبالیں گے، چند فیصد لوگوں کو چھوڑ کر بقیہ عوام الناس کی جو درگت بنی ہوئی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اس نظام جمہوریت میں انتظامیہ کے بے جا استعمال سے ہر اٹھنے والی آواز کو شانت کردیا جاتا ہے، اپرادھی ایوانوں میں بصورت حکمراں اور بے قصور افراد پر خطر جیلوں میں بصورت پریشاں ہوتے ہیں، طلبہ احتجاجا سڑکوں پر اور حکمراں طبقہ اپنے عالیشان محلوں میں، اور اگر کبھی کبھار اندرون خانہ سے بھی کسی کی رگ پھڑک اٹھتی ہے اور مخالفت پر آمادہ ظاہر ہوا چاہتا ہے تو اس کے ساتھ درج ذیل شعر میں موجود عمل کافی ہوجاتا ہے۔
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سُلا دیتی ہے اُس کو حُکمراں کی ساحری

جمہوری نظام کی اسی حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کہا تھا:
دیو استبداد، جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

اس سرابِ رنگ و بو کو گُلِستاں سمجھا ہے تُو
آہ اے ناداں! قفَس کو آشیاں سمجھا ہے تُو

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر!

درحقیقت جمہوریت انہدام دین کا ایک چور دروازہ ہے اور ہمارے کچھ بھولے بھالے مسلمان اپنی باتوں سے یا اپنی تحریروں سے یہ ثابت کرنے میں تلے رہتے ہیں کہ “اسلام کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمان بنیادی طور پر جمہوریت پسند ہیں” فليتأمل۔
اور بعض نام نہاد مسلمان تو سارے شرعی حدود و قیود سے آزاد ہو کر خود کو سب سے بڑا جمہوری، جمہوریت پسند، سیکولر اور سیکولرزم کا علمبردار ثابت کرنے میں اپنے دین و مذہب اور ایمان و عقیدہ کا بھی سودا کر بیٹھتے ہیں، چنانچہ وہ مندر کے لیے اپنی زمین دان کردیں گے، اس کی تعمیر میں مالی و بدنی ہر دو طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے، ہولی، دیوالی، کرسمس میں ان کے لیے خصوصی انتظامات کریں گے، بڑی گرمجوشی سے ملاقات کریں گے، بدھائی دیں گے، گنپتی میں منڈپ سجائیں گے، خصوصی چندہ دیں گے، پرساد کھائیں گے، گنپتی وسرجن میں جائیں گے، پوجا پاٹھ میں شرکت کریں گے، آرتی اتاریں گے اور یہ سارے اعمال اپنی شکل و صورت اور ہیئت کو مسلمان جیسا بنا کر کریں گے، سفید کرتا پاجامہ میں ملبوس، کندھے پر سفید گمچھا، سر پر سفید جالی دار ٹوپی، سفید یا ملون سجی سنوری ہوئی لمبی داڑھی اور پھر اس طرح کے اعمال کو بڑے ہی فخریہ انداز میں بیان کریں گے جیسے اپنی زندگی میں اب تک کے سب سے بڑے اور اہم نیک اعمال انجام دیے ہیں اور اب بس راہ جنت پر رواں دواں ہیں وہ تو اجل مسمی نے ملک الموت کو روک رکھا ہے ورنہ روح قبض ہوتے ہی علی الفور سیدھے جنت کی سیر کو نکل جائیں گے، جبکہ دوسری طرف موقع پرست جمہوریت کے نمائشی پرچارک (الا ما شاء اللہ) وقت آنے پر وہ درگت بناتے ہیں کہ جمہوریت و سیکولرازم کی ساری کی ساری دھارائیں اور دفعات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں، سارے دعوے کھوکھلے ثابت ہوجاتے ہیں ،خوشنما جمہوریت کی آڑ میں چھپے خوفناک چہرہ سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔
لہذا جب ہندوستانی مسلمانوں کا اس جمہوریت کے ساتھ تعامل ناگزیر ہے تو ایسے ناگزیر ماحول میں عموما ساری قوم اور خصوصا اپنا و اپنے اہل و عیال کا دین، دھرم، ایمان وعقیدہ اور اسلامی تشخص کے بچانے کی فکر کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے، ورنہ ہماری آئندہ کی نسلیں دین و مذہب سے نابلد اور ایمان و عقیدہ سے کوری رہ جائیں گی۔اللہ المستعان۔ اس لیے تمام جائز تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے اللہ سے دعا اور اس پر توکل کیا جائے، مختلف علوم و فنون کے حصول میں پیش قدمی ہو، غیروں سے شرعی حدود میں رہتے ہوئے تعلقات کو مضبوط کیا جائے، اچھے روابط قائم کیے جائیں، حسن سلوک کا رویہ اختیار کیا جائے، فرمان الہی ہے:(لَا یَنۡهںکُمُ اللہ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِي الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡهمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰه یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ/الممتحنة ﴿۸﴾)

ترجمہ: (اللہ تمھیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، جنھوں نے دین کے معاملے میں نہ تم سے جنگ کی ہے اور نہ تم کو تمھارے گھروں سے نکالا ہے، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔)
دعوت و تبلیغ کا بہتر نظام بنا کر منصوبہ بندی کے ساتھ دین کو عام کیا جائے، دین اسلام سے متعلق پائے جانے والے شکوک و شبہات کو احسن طریقہ سے رفع کیا جائے، فلاحی و رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر تعاون کیا جائے اور لوگوں کے دلوں سے اسلام و مسلمان سے نفرت کو ختم کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو نبھاسکیں۔ واللہ ولی التوفیق

آپ کے تبصرے

3000