صدقہ فطر کی معنویت وافادیت (بعض غلط فہمیوں کا ازالہ)

رفیق احمد رئیس سلفی رمضانیات عبادات

اسلام روئے زمین پر اللہ کا آخری اور مکمل ہدایت نامہ ہے۔اس کے تمام مسائل واحکام میں انسانیت کی بقا، اس کی خدمت اور اس کا احترام پایا جاتا ہے۔ وہ خوشی اور غم دونوں مواقع پر حد اعتدال پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ سماج کے کمزور طبقات کی رعایت اس کی روح میں جلوہ گر ہے۔ غریبوں، محتاجوں، بیواؤں اور یتیموں کی خبر گیری کو وہ عبادت کے درجے میں رکھتا ہے۔ ان کو نظر انداز کرکے جو سماج زندگی گزارتا ہے، اسلام کی نظر میں ایسا سماج ظالم قرار پاتا ہے۔ اسلام کے دونوں عظیم تہواروں میں وہ چاہتا ہے کہ تمام اہل اسلام اجتماعی خوشیوں میں ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ آخرت سے بے نیاز معاشرہ اپنی خوشیوں میں جو رویہ اپناتا ہے اور انسانیت کو نظر انداز کرتا ہے، اسلام اسے قطعی پسند نہیں کرتا۔ عید الفطر اور عیدالاضحی میں اس کی جو تعلیمات ہمارے سامنے ہیں، ان میں سماج کے کمزور اور محروم طبقات کی خوشیوں کا وافر سامان موجود ہے لیکن اہل اسلام کے بعض گروہوں کی حرفیت پسندی، ظاہریت اور تقلید جامد نے ان تعلیمات کی تصویر مسخ کردی ہے اور ان کی جو معنویت تھی، اسے شدید ضرب لگائی ہے۔ اس کی ایک بڑی اور نمایاں مثال صدقہ فطر ہے۔
صدقہ فطر کے سلسلے میں جو تعلیمات ہمارے سامنے آتی ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کے اختتام پر ہر مسلمان خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت، امیر ہو یا غریب، روزہ سے رہا ہو یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے اس نے روزے نہ رکھے ہوں، سب پر ایک خاص قسم کا صدقہ فرض ہے۔ یہ صدقہ اس کے روزوں میں پیدا ہونے والی کمیوں کو دور کرکے اسے پاک کردے گا اور سماج کے کمزور طبقات اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل جل کر اجتماعی خوشی حاصل کرسکیں گے لیکن اس صدقہ فطر میں بعض بے اعتدالیاں ایسی راہ پاگئی ہیں جنھوں نے اس کی افادیت اور معنویت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ذیل میں اس اجمال کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
(1) صدقہ فطر نکالنے کا وقت
احادیث میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ اس صدقہ کا آخری وقت نماز عید کی ادائیگی سے پہلے تک ہے۔ اس کے بعد دیا ہوا صدقہ صدقہ فطر نہیں بلکہ ایک عام صدقہ شمار ہوگا اور ایسا مسلمان ایک فرض کی ادائیگی سے محروم قرار دیا جائے گا۔ صحیح بخاری میں بعض آثار صحابہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں نماز عید سے ایک دو دن پہلے صدقہ فطر جمع کردیا جاتا تھا اور ضرورت مندوں کے گھر پہنچادیا جاتا تھا تاکہ وہ عید کے دن اپنے بچوں کے ساتھ خوشی مناسکیں اور خاص طور پر اس دن کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ذلت سے محفوظ رہیں۔ اگر عہد رسالت میں مدینہ کی چھوٹی بستی میں ایک دو روز پہلے صدقہ فطر جمع کردیا جاتا تھا تو آج کی پھیلی ہوئی وسیع آبادی میں ایک ہفتہ دس دن پہلے جمع کرنے میں بظاہر کوئی حرج نہیں ہے تاکہ غریبوں تک یہ صدقہ ایک خاص انتظام کے تحت پہنچادیا جائے لیکن روح شریعت پیش نظر رکھ کر کوئی لائحہ عمل ترتیب دینے کی بجائے ہمارا طرز عمل یہ بن گیا ہے کہ نماز عید کو جاتے ہوئے سڑکوں کے کنارے بیٹھے ہوئے غریبوں اور محتاجوں کی پھیلی ہوئی چادروں پر صدقہ فطر ڈالتے ہوئے ہم عید گاہ پہنچ جاتے ہیں۔ ذرا سوچیے! اسلام نے عید کے دن سوال کرنے کی جس ذلت سے بچانے کے لیے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا تھا، کیا وہ مقصد پورا ہورہا ہے، یہاں تو پورے شہر میں غریبوں کی ایک بھیڑ نظر آتی ہے جو ہمارے دین کو شرم سار کرتی ہے اور مسلم سماج کو اس کا آئینہ دکھاتی ہے کہ یہ ہے تمھارا سماج جس میں غریب سڑکوں پر ہیں، تم زرق برق لباسوں میں ملبوس ہوکر خوشی خوشی عیدگاہ جارہے ہو اور یہ تمھارے سماج کے غرباء ومساکین تمھارا منہ دیکھ رہے ہیں۔
اگر کوئی نظام ہمارے پاس موجود ہوتا جس میں ہفتہ بھر پہلے ان غرباء کی خبرگیری ہوگئی ہوتی اور ان کو یہ معلوم ہوتا کہ عید کے آخری دن تک کوئی مسلمان ایسا نہیں بچا ہوگا جو صدقہ فطر دینے والا ہو تو سڑکوں کے کناروں کا یہ تکلیف دہ منظر ہمارے سامنے نہ ہوتا۔
مکہ مکرمہ میں کئی سالوں تک مقیم میرے ایک محترم دوست نے مجھے بتایا کہ وہاں بھی صورت حال بہت زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ہمارے محترم شیوخ اپنی چمچماتی گاڑیوں میں آتے ہیں، جائے نماز عید کے آس پاس کی دوکانوں سے گیہوں اور چاول کے پیکٹ خریدتے ہیں اور سڑکوں پر موجود سیاہ فام غریبوں کی چادروں پر وہ پیکٹ ڈالتے چلے جاتے ہیں، یہ سیاہ فام صدقے میں ملے ہوئے یہ پیکٹ دوکانداروں کو نصف یا تہائی قیمت پر بیچ کر پیسے کمالیتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ صرف چاول اور گیہوں سے تو پیٹ نہیں بھرے گا لہذا اس کے ساتھ کسی سالن کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں ریال بھی چاہیے جو ہم اس طرح حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی صورت حال تقریباً یہی ہے۔ ذرا سوچیں! کیا اس سے صدقہ فطر کا مقصد پورا ہوا؟
قبل نماز عید صدقہ دینے کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا کہ نماز سے ذرا دیر پہلے ہی یہ صدقہ دیا جائے گا، اس سے پہلے نہیں۔ عید کے دن دکانیں عام طور پر بند رہتی ہیں، اگر کسی غریب کو اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کی ضرورت ہو تو وہ کیسے انتظام کرے گا اور اس کے بچے عید کی مسرتیں کیسے حاصل کریں گے۔ روح شریعت کا تقاضا ہے کہ آپ دوچار دن پہلے اپنے محلے، بستی اور شہر کے غرباء تک اپنا صدقہ فطر پہنچادیں، نماز عید کا انتظار نہ کریں۔ حدیث میں صدقہ فطر ادا کرنے کی آخری حد بتائی گئی ہے، صدقہ فطر نکالنے کے وقت کی تعیین ہم اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق کریں گے۔
(2)صدقہ فطر کی مقدار
ایک دوسرا اہم مسئلہ صدقہ فطر کی مقدار کا ہے۔ شریعت نے اس کے لیے جو پیمانہ مقرر کیا ہے، وہ ایک صاع ہے۔ہماری کتب فقہ میں دو طرح کے صاع کا ذکر ملتا ہے: ایک صاع حجازی اور دوسرا صاع عراقی۔ حجازی صاع چھوٹا ہوتا ہے جب کہ عراقی صاع اس کے مقابلے میں بڑا ہوتا ہے۔ ہمارے ائمہ فقہ میں کچھ لوگ حجازی صاع کو معیار تسلیم کرتے ہیں، جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں معیار عراقی صاع ہے۔ حجازی صاع میں ڈھائی کلو کے آس پاس گیہوں آتا ہے جب کہ عراقی صاع میں تقریباً تین کلو گیہوں آتا ہے۔ گیہوں عہد رسالت میں حجاز میں پایا نہیں جاتا تھا، جو کی روٹی وہاں عام طور پر کھائی جاتی تھی، اسی لیے جو کا ذکر احادیث میں کثرت سے ملتا ہے۔ جب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو انھوں نے شام سے گیہوں حجاز کے مختلف علاقوں میں بھیجنا شروع کیا۔اہل مدینہ بھی گیہوں کی روٹی بہت شوق سے کھانے لگے، صحابہ کرام چوں کہ اپنی روزمرہ کی خوراک سے صدقہ فطر نکالتے تھے، اس لیے انھوں نے گیہوں سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا شروع کیا لیکن ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی وجہ سے گیہوں چوں کہ کافی قیمتی تھا، اس لیے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر مدینہ آکر یہ فرمان جاری کیا کہ اگر کوئی گیہوں سے صدقہ فطر ادا کرتا ہے تو چوں کہ وہ کافی گراں ہے، اس لیے اگر وہ نصف صاع گیہوں نکال دے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کا صدقہ فطر ادا ہوجائے گا۔ لیکن بعض صحابہ کرام نے اس جدید فتوے کی مخالفت کی اور اصرار کیا کہ چوں کہ عہد رسالت میں ایک فرد کی طرف سے ایک پورا صاع صدقہ فطر ادا کیا جاتا تھا، اس لیے صدقہ فطر ایک صاع ہی ادا کیا جانا چاہیے۔ آج احناف کے یہاں ڈیڑھ کلو گیہوں کا جو فتوی دیا جاتا ہے، اس کی پوری حکایت یہی ہے۔ اس میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فتوے کی پیروی کی گئی ہے جس کی مخالفت بعض صحابہ کرام بجا طور پر کرچکے ہیں۔
آپ ذرا سوچیں! ایک طرف فقہ حنفی میں یہ فتوی موجود ہے کہ اگر کوئی مسلمان کھجور سے صدقہ فطر ادا کرتا ہے تو اسے تین کلو کھجور ادا کرنا ہوگا لیکن اگر گیہوں دیتا ہے تو صرف ڈیڑھ کلو گیہوں دینے سے صدقہ فطر ادا ہوجائے گا۔ پروفیسر نجات اللہ صدیقی نے امام ابویوسف کی کتاب الخراج کا ترجمہ کیا ہے، اس پر انھوں نے بڑا علمی اور مفید مفصل مقدمہ لکھا ہے، اس میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ ایک بار قاضی ابویوسف مدینہ منورہ تشریف لائے، امام مالک رحمہ اللہ کے تلامذہ سے کئی ایک مسائل پر علمی گفتگو ہوئی۔ ان میں ایک مسئلہ صاع کا بھی تھا۔ جب مدینہ منورہ میں موجود صحابہ کرام کی نسلوں کے سو (100) گھروں سے صاع منگایا گیا جو ایک ہی پیمانہ کے تھے تو قاضی ابویوسف نے صاع کے مسئلے میں اپنے استاذ کے مسلک سے رجوع کرلیا اور حجازی صاع کو معیار تسلیم کرلیا اور یہ بھی فرمایا کہ اگر میرے استاذ حیات ہوتے تو اتنی کثرت میں ایک پیمانے کے صاع کو دیکھ کر حجازی صاع ہی کو معیار تسلیم کرلیتے۔ اب آپ ذرا احناف کی تقلید پسندی دیکھیں کہ وہ آج بھی ہندوستان جیسے ملک میں ڈیڑھ کلو گیہوں صدقہ فطر میں ادا کرنے کا فتوی دیتے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں سب سے سستا اناج یہی ہے۔ احناف کے دوسرے گروہ جن کو لوگ بریلوی سے تعبیر کرتے ہیں، وہ بے چارے رات دن مدینہ کی گلیوں میں مرنے جینے کی بات کرتے ہیں لیکن سرکار مدینہ کے صاع کو معیار تسلیم کرنے کی بجائے عراق کے صاع کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں محبت رسول اور عشق رسول کی تمام باتیں ہوا ہوجاتی ہیں اور تقلید جامد کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔
مختصر یہ کہ حجازی صاع ہی شرعی احکام کے لیے معتبر ہے، اس میں ڈھائی کلو کے آس پاس گیہوں آتا ہے، آپ اگر واقعی اپنے نبی سے سچی محبت کرتے ہیں اور ہر مسلمان یقیناً کرتا ہے تو غریبوں کا حق مت ماریے اور ڈیڑھ کلو گیہوں کی بجائے ڈھائی کلو ہر فرد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کیجیے۔ اس مسئلے میں امام اعظم کا مسلک کمزور ہے جب کہ ان کے شاگرد رشید کا مسلک حدیث اور روح شریعت کے مطابق ہے۔ اگر اپنے استاذ کی بات ترک کرکے قاضی ابویوسف کی حنفیت پر فرق نہیں آتا تو اس مسئلے میں صحیح حدیث پر عمل کرنے سے آپ کی بھی حنفیت متاثر نہیں ہوگی۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم صرف کتاب وسنت پر عمل کرنے کے پابند ہیں مسالک کا وجود بہت بعد میں ہوا ہے، ان سے وابستگی غیر ضروری بلکہ بعض صورتوں میں غیر شرعی ہے۔

(3)صدقہ فطر میں قیمت یا اناج
ایک تیسرا بڑا اہم مسئلہ یہ ہے کہ صدقہ فطر میں قیمت ادا کریں یا اناج۔ سعودی عرب کے بعض محترم مفتیان کرام کا اصرار ہے کہ صدقہ فطر میں صرف اناج دینے سے صدقہ فطر ادا ہوسکتا ہے، اگر آپ نے اس کی قیمت ادا کی تو صدقہ فطر ادا نہیں ہوگا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مسلک یہی ہے اور اسی مسلک کے زیر اثر یہ فتوی شد ومد کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اہل حدیث جماعت کے بیشتر علماء بھی یہی فتوی دیتے ہیں اور ہر سال اس قسم کی تحریریں سامنے آتی ہیں کہ اگر اناج کی بجائے آپ نے اس کی قیمت دی تو صدقہ فطر ادا نہیں ہوگا۔
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عہد رسالت میں درہم ودینار کی دستیابی کے باوجود اگر اناج دیا گیا ہے تو سنت یہی ہے کہ اناج دیا جائے۔ لیکن ذرا سوچیں کہ صدقہ فطر کا مقصد غریبوں کو خوراک فراہم کرنا ہے۔ ایک غریب فیملی اپنے بچوں کے ساتھ عید کے دن بھر پیٹ کھانا کھالے اور اسے کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ کیا یہ ضرورت گیہوں، آٹے اور چاول سے پوری ہوجاتی ہے۔ ایک بیوہ عورت جس کے پاس دو تین چھوٹے چھوٹے یتیم بچے ہیں، اگر آپ نے اپنا پندرہ بیس کلو صدقے میں نکالا ہوا گیہوں، آٹا یا چاول اس بیوہ کو دے دیا تو کیا وہ اس سے اپنا چولھا گرم کرسکے گی۔ اس کے ساتھ دال، سبزی یا گوشت کی ضرورت ہوگی جس سے وہ اپنے بھوکے بچوں کو کھانا کھلاسکے گی۔ اب اس کے سامنے متبادل یہ ہوگا کہ اگر زکوۃ وصدقات میں ملی ہوئی کوئی رقم اس کے پاس موجود ہے تب تو وہ روٹی اور چاول کے ساتھ کھانے کے لیے کسی سالن کا انتظام کرلے گی لیکن اگر کوئی دوسری رقم موجود نہ ہوئی تو اس کی ہنڈیا کیسے پکے گی، اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ اگر وہ دوچار کلو آٹا یا چاول بازار میں جاکر فروخت کرتی ہے تو کس حساب سے کوئی دکان دار اس سے خریدے گا۔ آپ نے آگر آٹا پچیس روپے میں اور چاول پچاس روپے فی کلو خریدا ہے تو اس بے چاری سے دوکان دار آٹا دس روپے اور چاول بیس روپے فی کلو خرید لے تو اس کا یہ بڑا احسان ہوگا۔اپنا صدقہ فطر ہم نے بے معنی بنادیا ہے اور ایک غریب کو عید کے دن خوراک فراہم کرنے کا جو مقصد تھا، وہ ہماری حرفیت پسندی اور ظاہریت کی وجہ سے بے معنی بن گیا ہے۔ صحیح فتوی تو یہ ہوسکتا تھا کہ اگر آپ کی فیملی میں دس افراد ہیں تو پانچ کی طرف سے اناج اور پانچ کی طرف سے صدقہ فطر کی قیمت نکال کر دوچار غریب فیملی کو دے دیں تاکہ وہ کھانا کھالیں لیکن مقاصد شریعت جب نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور کچھ بڑے لوگوں کی تقلید سر پر سوار ہوجاتی ہے تو اسی طرح کے لایعنی فتوے صادر کیے جاتے ہیں جو روح شریعت اور مقاصد شریعت کو سخت نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہاں تین باتیں آپ حضرات کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں، ان سے مسئلے کی نوعیت سمجھنے میں ان شاء اللہ آپ کو مدد ملے گی:
(1)عہد رسالت میں عام طور پر جس طرح کا لوگ کھانا کھاتے تھے اور آج ہمارے دور میں ایک متوسط فیملی جس قسم کا کھانا کھاتی ہے، اس میں کافی فرق ہے۔احادیث میں جن اجناس سے صدقہ فطر ادا کرنے کی بات معلوم ہوتی ہے، ان میں سرفہرست جو، کھجور، کشمش اور پنیر ہیں۔ ایک غریب بیوہ نے جو کوٹے، کھجور کے ٹکڑے کیے، کشمش اور پنیر ڈالا اور ہانڈی چولھے پر چڑھادی، تھوڑی دیر میں عربوں کا مرغوب کھانا تیار ہوگیا۔ لیکن ہمارے ملک میں صرف آٹے اور چاول سے کچھ نہیں ہوسکتا جب تک دال، سبزی اور گوشت اس کے ساتھ نہ ہو۔ کھانے کے اس فرق کو ہمارے مفتیان کرام کیوں ملحوظ نہیں رکھتے اور ایک ایسے فتوے پر اصرار کرتے ہیں جو صدقہ فطر کے مقصد اور اس کی روح کے خلاف ہے۔
(2)ہمیں معلوم ہے کہ عہد رسالت میں اہل یمن کا عام پیشہ کپڑے بنانا تھا۔ ہمارے نبی ﷺ کا خاص حکم تھا کہ اہل یمن اگر کپڑے کی صورت میں زکوۃ نکالیں تو ان کے لیے بھی سہولت ہوگی اور اہل مدینہ کو بھی آسانی ہوگی کہ ان کو بآسانی بیت المال سے کپڑے مل جائیں گے۔ عہد رسالت میں یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یمن میں جانور پالنے والے اور دوسری نوعیت کی تجارت کرنے والے لوگ نہ رہے ہوں۔ ایسی صورت میں اگر جانور اور درہم ودینار کی زکوۃ کپڑے کی صورت میں قبول کی جاسکتی ہے تو صدقہ فطر ہماری اپنی ضرورت کی وجہ سے روپے پیسے کی شکل میں کیوں نہیں ادا کی جاسکتی۔ عید کے دن برصغیر میں عام طور سے میٹھی سوئیاں کھانے کا رواج ہے، گیہوں اور چاول ادا کرنے کی صورت میں ایک غریب کو سوئیاں کہاں سے ملیں گی اور وہ بھی عید کے دن جب کہ عام طور پر دکانیں بند ہوتی ہیں۔
(3) عہد رسالت کا مدنی دور جس میں اسلام پورے طور پر جلوہ گر تھا، اسلام کے تمام احکام وقوانین اپنی جگہ لے چکے تھے۔ بیت المال کا نظام قائم تھا، عہد خلفائے راشدین میں غرباء کا رجسٹریشن بھی ہوچکا تھا۔ ہر غریب کو وظائف وقت پر مل جایا کرتے تھے اور ان کی ضروریات پوری ہوجایا کرتی تھیں۔ ایسی صورت میں عید کے دن صدقہ فطر میں اناج ملنے سے ان کی خوشیاں دوبالا ہوجاتی تھیں۔ کھانے کے علاوہ ضروریات کی دیگر چیزیں انھیں پہلے سے فراہم تھیں۔ لیکن ہمارے اپنے دور میں خاص طور پر اپنے ملک میں جب بیت المال کا کوئی ہمارا اپنا نظام نہیں ہے، بڑے شہروں میں یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کتنے سفید پوش ایسے ہیں جن کے گھروں میں گزشتہ دو دنوں سے فاقہ ہورہا ہے۔ عام فقراء اور غرباء تو دست سوال دراز کرلیتے ہیں، دوسروں کے دروازوں پر پہنچ کر اپنی ضرورتوں کا اظہار کرلیتے ہیں لیکن سفید پوشوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اس بگڑے ہوئے نظام میں ایک خاص مسئلے میں ایک مستحکم اور رواں دواں نظام میں مروج صورت حال کو نافذ کرنے کی کوشش کرنا غیر معقول طرز عمل ہے، پہلے آپ نظام اسلامی قائم کریں، ہر مسئلے کو اس کی جگہ رکھیں، اس کے بعد اپنے اس فتوے پر اصرار کریں تو بات ان شاء اللہ معقول ہوگی، لوگوں کی سمجھ میں آئے گی اور پھر شرح صدر کے ساتھ لوگ اس پر عمل بھی کریں گے۔
مختصر یہ کہ روپے پیسے کی شکل میں صدقہ فطر ادا کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ شریعت کی جو حکمت ہے اور جو اس کا اہم مقصد ہے، موجودہ حالات میں، ہمارے اپنے ملک میں وہ روپے کی شکل میں صدقہ فطر ادا کرنے سے زیادہ خوش اسلوبی سے پورا ہوجاتا ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اسلام کے تمام احکام ومسائل کو سمجھنے اور ان کی حکمتوں اور مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000