ملی مرکزیت؛ کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے

ڈاکٹر عبدالرحیم خان رمضانیات

اجتماعیت کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے۔ ہدایت ہے کہ سفر میں ایک سے زیادہ لوگ ہوں تو کسی ایک کو امیر منتخب کرلیا جاۓ، گھر کا کوئی شخص دوسروں پر راعی یا نگہبان کی حیثیت رکھتا ہے، نماز میں دو یا زائد ہوں تو ایک کو امام بنا لیا جاۓ۔ یہ تو انفرادی یا چھوٹی سطح کی بات ہے وگرنہ بڑے پیمانے پر تو “عليكم بالجماعة”، “من شذ شذ في النار”، “واعتصموا بحبل الله جميعًا ولا تفرقوا” جیسی سخت تاکیدات و تنبیہات ہیں۔ ہر چھوٹی بڑی سطح پر اجتماعیت و مرکزیت پر اس قدر زور دینے کا واحد مقصد ہے کہ امت و ملت کے اجتماعی مفادات محفوظ ہوں اور کسی غیر ضروری انتشار کا شکار نہ ہونے پائیں۔ ساتھ ہی خواہ معاملات دنیاوی ہوں یا دینی، قرآن و سنت میں حل تلاشنے کی تاکید ہے اور واضح نصوص نہ ملنے کی صورت میں “اجتہاد” و “وأمرهم شورى بينهم” کی تلقین کی گئی ہے۔
دینی معاملات اور بالخصوص کسی غیر واضح مسئلے میں اہل عقل و دانش میں اختلافات کا ہونا لازمی امر ہے۔ البتہ ان اختلافات پر باہمی گفتگو، آراء اور مفاہمت و مشورے کے ذریعہ کسی متفقہ فیصلے پر پہنچنا عین مصلحت اور ملی مفاد و اجتماعیت کا غماز ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس وقت انسان انفرادیت کے بجاۓ کلونیل یا سوشل سسٹم میں زندگی گزارنے کو پسند کرتا ہے تاکہ تنظیمی اور اجتماعی شکل میں اس کے پاس لائحہ عمل موجود ہو۔ جمعیت و جماعتوں کے قیام کا بھی بنیادی مقصد یہی ہے کہ ملت کے تمام دینی مسائل کی وہاں سے اجتماعی بازگشت اور ترجمانی ہوسکے۔

اب ایسے دین سے وابستگی کے باوجود افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہماری آنکھوں کی بینائیاں اور ہمارے دماغوں کی عقلمندیاں ملت کے اجتماعی مفادات پر یکسر مقدم ہوجایا کرتی ہیں۔ اور ہم ہر جگہ اپنی دین فہمی اور علمی لیاقتوں کا دریا بہانے سے ذرا بھی گریز نہیں کرتے۔

دینی معاملات میں فتاؤں کی دو بنیادی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ایک ذاتی و انفرادی زندگیوں سے جڑے معاملات مثلاً کسی کے اندرون خانہ مسائل کا دینی حل، کسی مخصوص پریشانی سے متاثر شخص کے لیے صوم و صلات کے مسائل وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے اجتماعی معاملات مثلاً رویت ھلال، چرم قربانی کے مصارف، زکات کے مصارف اور فی الحال اس ناگہانی صورت میں عیدالفطر کی نماز اور اس کی فروعات وغیرہ۔ پہلی صورت میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی ذی علم و شریعت فہم عالم یا ادارہ قرآن و سنت اور نصوص کی روشنی میں فتوی دے دے۔ ایسی صورت میں اگر اجتہادی غلطی بھی ہوئی تو اس کا اثر فرد واحد یا محض چند لوگوں تک محدود ہوگا۔ البتہ دوسری صورت میں لازم ہے کہ مستند ادارے، علماء کبار اور دینی تنظیمیں باہمی تحقیق، اجتہاد، مشورے کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچیں اور ان سب کا متفقہ فیصلہ کسی اجتماعی پلیٹ فارم کے ذریعہ عوام الناس تک پہنچایا جائے تاکہ امت کی اجتماعیت، اولوالامری اور قیادت کی مرکزیت مجروح نہ ہو۔

امر واقع اس سے بالکل مختلف ہے۔ سب سے زیادہ جمہوریت اور لبرلزم کا دخل اب دینی معاملات میں آچکا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان دنوں ہر کس و ناکس مجتہد و مفتی ہے بلکہ بڑے ہی جمہوری انداز میں اسے ملت کے اجتماعی مسائل کو سوشل میڈیا اور عوام کے سامنے رکھنے کا حق بھی حاصل ہے۔ اجتہاد و تحقیق کے تمام دقائق سوشل نیٹورکس پر ہی ہونے لازمی ہوتے ہیں۔ معذرت مگر بعض دین فہموں کا معاملہ تو اس قدر مضحکہ خیز ہوتا ہے کہ اگر فلاں نے قافلے کا رخ شمال کی طرف کررکھا ہے تو میرا گھوڑا جنوب کی سمت دوڑنا چاہیے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ “من تشبه بقوم فهو منهم” کے زمرے میں آجاؤں۔ اب ایسی صورت میں اگر دیر سویر مرکزی تنظیم و جماعت کا فیصلہ آبھی جائے  توکچھ حاصل نہیں کیونکہ تب تک عوام الناس چُوں چُوں کے مربوں سے اپنی عقل و فہم کا پیٹ مکمل خراب کرچکی ہوتی ہے۔ نہ بھولا جاۓ کہ جمہوریت میں بھی ہر کسی کو اپنی علمی صلاحیتوں کی چھڑی گھمانے کا مکمل اختیار حاصل ہے مگر وہیں تک جہاں کہ دوسروں کی ناک نہ زخمی ہونے پائے۔

غالبا گزشتہ یا پیوستہ سال کی ہی بات ہے عید کے چاند کو لے کر ایک ایک جماعت کے درجنوں لیٹرہیڈ بازار میں نمودار ہوگئے۔ کسی نے چاند دیکھا، کسی نے نہیں دیکھا، کسی کے ہاں صبح عید تھی تو کسی کے ہاں آخری روزہ۔ کسی کی مسجدوں کے مائک عید کی تیاری کروارہے تھے تو کسی کے حافظ جی تراویح کی آخری سورتوں کی آیات سنا رہے تھے۔ نتیجہ کیا ہوا؟ جگ ہنسائی، پولیس کی مداخلت اور باہمی انتشار کی ٹھیک ٹھاک نمائش۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس دن چاند نکلا تھا یا نہیں، البتہ اس پر ضرور اعتراض ہے کہ ہر عالم اور ہر ادارے کو کس نے اختیار دیا کہ وہ اپنی اپنی سطح پر چاند کی رونمائی یا روپوشی پر کاغذ سیاہ کرتا پھرے؟ اگر عید کا چاند بھی ملت کا مرکزی اور اجتماعی مسئلہ نہیں تو اور کون سا مسئلہ مرکزی مسئلہ ہے؟

آج پھر وہی معاملہ ہے۔ میں نہ تو مفتی ہوں اور نہ دین و شریعت کا مجھے کچھ خاص علم ہے اس لیے میں اس بابت قطعا کوئی راۓ تک نہ رکھوں گا کہ کون سا موقف درست ہے اور کون سا غیر درست۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ علمی لیاقتوں کی نمائش کے نام پر ملی اجتماعیت کے انتشار کا سبب بن رہے چند نکات کو واضح کرنا چاہوں گا۔ کورونا وائرس کے اس ناگہانی وقت میں طبی و قانونی دونوں ہی اعتبار سے ہم عیدگاہ جاکر عید کی دوگانہ ادائیگی کی حالت میں نہیں ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس وقت مرکزی تنظیمیں یا ادارے کبار علماء و مجتہدین کرام سے راے و مشورے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچتے اور ایک حتمی فیصلے سے امت کو بذریعہ صوبائی، ضلعی اور ذیلی اکائیوں کے آگاہ کر دیتے۔ اس سے نہ صرف اجتماعیت و مرکزیت برقرار رہتی بلکہ عوام کے دلوں میں دینی معاملات میں ان کی اولوالامری کا احساس بھی باقی رہتا۔

ایسا نہ ہوسکا بلکہ ہر کسی نے قلم یا موبائل اٹھایا اور اپنی اپنی تحقیق و صوابدید کے بقدر درج ذیل فتاوے صادر فرمادیے:
۱۔ دو رکعت عید کی نماز اپنے گھر میں پڑھی جاۓ بنا خطبے کے۔
۲۔ دو رکعت عید کی نماز اپنے گھر میں پڑھی جاۓ خطبے کے ساتھ۔
۳۔ دو رکعت عید کی نماز اپنے گھر میں پڑھی جاۓ خطبے کے ساتھ اگر خطیب موجود ہو، بنا خطبے کے اگر خطیب موجود نہ ہو۔
۴۔ چونکہ عید کا مقصد اجتماعیت ہے اور اس سال گھر میں ہونے کی وجہ سے یہ مقصد ساقط ہے اس لیے عید کی نماز کا حکم بھی ساقط ہوجائے گا اور عید کی کوئی نماز نہ ہوگی، بلکہ عام دنوں کی طرح وقت پر ظہر کی ادائیگی حسب معمول ہوگی۔
۵۔ دو رکعت نماز اپنے اپنے گھروں میں ادا کریں اور آن لائن خطبے ہوں گے جس کی سماعت ہر کسی پر لازمی ہوگی۔

اب آپ ہی بتلائیں کہ میں بتلاؤں کیا۔ مان بھی لیں کہ سبھوں کا اجتہاد اپنی اپنی جگہ بجا ہے مگر اب یہ تو واضح فرمادیا جاۓ کہ عوام ان میں سے کون سا اور کیسے انتخاب کرے۔ اور اگر عوام خود اچھے برے میں تمیز کی اہل ہوتی تو پھر اسے اداروں اور علماء کی ضرورت ہی کیونکر درپیش ہوتی۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ انہی پانچوں میں سے کوئی ایک مرکزی پلیٹ فارم سے بھی آیا ہو، مگر مسئلہ تو عوام کے لیے پہلے سے پُرپیچ و خم ہو ہی چکا ہے۔

خدارا! خواہ ہم کم فہم ہوں یا صاحبِ عقل و دانش، ملت اور اس کے مرکزی مفادات کو لے کر ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا ضروری ہے۔ علمی لیاقت یہ ضرور ہوسکتی ہے کہ آپ کسی معاملے میں اپنا موقف دینے کے قابل ہوں پر یاد رکھیں علمی تفقہ اور دانشمندی یہ ہے کہ آپ اپنا موقف اس کے اثرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے صحیح طریقے اور صحیح مقام سے دینے کے اہل ہوں۔
کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے

مرکزی جماعتوں اور تنظیموں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اجتماعی مسائل میں ایسے انفرادی اقدامات پر روک لگائیں اور اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے باصلاحیت علماء کرام کی شمولیت کے ساتھ بروقت احکامات کا اصدار کیا کریں۔ بالخصوص ہم جس ملک میں جن حالات سے دوچار ہیں وہاں تو قطعی مناسب نہیں کہ ہر کوئی اپنا اپنا ڈھول پیٹ کر لوگوں کو جگ ہنسائی کا موقعہ دے۔ آپ اپنی تحقیقی پیاس بجھانے کے لیے علماء کے مابین گروپس اور فورمز بناسکتے ہیں جہاں آپ مختلف فیہ مسائل پر کھل کر محققانہ بحثیں کرسکتے ہیں، ایک دوسرے سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ اور عین یہی طریقۂ کار ہم دنیا داروں کے ہاں رائج ہے۔ ہم میٹنگیں کرتے ہیں، اپنی رائے رکھتے ہیں، بحثیں کرتے ہیں مگر کسی پروجیکٹ کے لیے فائنل مسودہ یا ڈرافٹ آگے بھیجنے سے قبل دو چیزیں ضرور کرتے ہیں۔ فائنل ڈرافٹ پر سب متفق ہوتے ہیں اور اسے آگے پہنچانے کے لیے چِیف یا ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ دیکھیے، آخر میں یہ مت کہہ دیجیے گا کہ دین دنیا سے الگ ہے۔

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
ابو حسان مدنى

ماشاءالله، بہت بہترین،جزاك الله خيرا

Parwez Sadaf

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

ریاض الدین شاہد

ماشاءاللہ بہت خوب نرالا انداز