ہر گهر عيد گاه اور عيد گاہيں ويران

عمارہ رضوان رمضانیات

رمضان كا مبارک مہينہ دنيا كے بيشتر ممالک ميں ختم ہوا اور وہاں پر آج عيد منائى جارہى ہے۔ بيشتر ملكوں ميں لاک ڈاؤن كے ساتھ كرفيو بهى لاگو ہے۔ لہذا ہر گهر عملى طور پر عيدگاه ميں تبديل ہوگيا ہے اور ہر گهر سے تكبير اور تہليل كى بلند آوازيں سنى جاسكتى ہيں۔ اور گهر كے افراد پر مشتمل دوگانہ نماز بهى ادا كى جارہى ہے، ہمارے ابّو كے ايک دوست رياض، سعودى عرب ميں رہتے ہيں۔ ان كے بقول رياض ميں سوئياں كهانے اور كهلانے پر پابندى عائد كردى گئى ہے۔ جس دن سے وہاں پر عيد كى چهٹى كا اعلان ہوا ہے اسى دن سے وہاں پر كرفيو لاگو ہے، ہر كوئى اپنى ڈش خود تيار كرے اور گهر والوں كے ساتھ ہنسى خوشى كهائے۔ ہنسى خوشى كهانا ضرورى ہے كيونكہ يہ عيد كا دن ہے۔

اب سے پہلے عيد كى نماز يا تو كهلے ميدان ميں ادا كى جاتى تهى يا پهر گاؤں اور قصبوں كى مساجد ميں، مگر مساجد تو پہلے سے نوحہ كناں ہيں، ان كے آبادكار تو پہلے ہى محروم كردیے گئے نماز پنچگانہ سے، جمعہ كے خطبات ونماز سے، تلاوت كى حلاوت سے، تراويح كى روح پرور فضا سے اور سال ميں ايک بار اعتكاف كرنے والے معتكفين سے۔ مساجد كو عيدگاه نہ بنائے جانے پر زياده شكوه نہيں ہے كيونكہ وه ان پابنديوں كى پہلے سے عادى ہوچكى ہيں۔ مگر عيدگاہوں كى چيخ پكار دل كے تاروں كو بكهير كر ركھ ديتى ہے۔ ان كى گريہ وزارى بهى بجا ہے، ان كا كہنا ہے كہ ہميں تو سال ميں صرف دوبار ہى موقع ملتا ہے كہ الله كے يہ نيک بندے ميرے احاطے ميں سجدہِ شكر بجا لائيں اور اپنى خوشيوں كا اظہار كريں اور اسى بہانے ميرے اس احاطے كى بهى ذرا خاطر تواضع ہو جائے۔ وگرنہ سال بهر تو كوئى ہمارى طرف رخ بهى نہيں كرتا۔ اس احاطے ميں تو سب شير وشكر ہوكر گلے ملتے تهے۔ آخر كس كو يہ ادا ناپسند ٹهہرى جس نے اس روح پرور مناظر پر ہى پابندى لگادى۔
ہمارے ملک كا بہت بڑا الميہ ہے كہ اس ملک كے رگ وپے ميں مذہبيت ہے مگر اس كو كهرچ كهرچ كر نكالنے كى كوشش كى جارہى ہے۔ شراب كے ٹهيكے جو تمام برائيوں كى جڑ ہیں، دهڑلّے سے كهلے ہوئے ہيں تاكہ ان غريب اور پس مانده لوگوں كو اپنى غربت و پس ماندگى كا ذرّه برابر احساس نہ ہو اور وه اپنى حالت ميں بدمست رہيں۔ كيوں كہ اگر وه ہوش ميں رہے تو وه اپنے حقوق كى مانگ كرنے لگيں گے اور اگر ہوش كے ساتھ شعور كا ملاپ ہوگيا تو وه بهى كسى پُر امن مظاہرے كا حصّہ بن جائيں گے جس سے ہمارى حكومت سب سے زياده خوف زده رہتى ہے۔
آخر جب سماجى دورى اختيار كرتے ہوئے سب كام انجام دیے جاسكتے ہيں تو ہمارى عبادتوں پر ہى قدغن كيوں؟ كيا مسجدوں اور عيدگاہوں ميں ہمارى عبادتيں، چرچ، گرودواروں اور مندروں ميں ديگر قوم كى عبادتيں حكومتى ہدايات كو ملحوظ ركھ كر انجام نہيں دى جاسكتيں؟ اس وقت تو زياده ضرورت ہے كہ لوگ اپنے اپنے ماننے والے رب كے حضور روئيں، گڑگڑائيں اور اپنے گناہوں كى معافى مانگيں۔ ہمارے وزير اعظم مودى جى كو يہ بات معلوم نہيں كب سمجھ ميں آئے، مگر چچا سام ڈونالڈ ٹرمپ جى كو يہ بات تقريبا ايک لاكھ جانيں گنوانے كے بعد سمجھ ميں آگئى ہے۔ انهوں نے كہا ہے كہ “اب ہم عبادت گاہوں كو مزيد بند نہيں كرسكتے، يہ وقت ، وقت دعا ہے، اب اوپر والے كا سہارا ہے”۔
ہمارى حكومت جو كرنا چاہتى ہے پورے شرح صدر كے ساتھ كرتى ہے، پورى قوت كے ساتھ كرتى ہے، ڈنڈے كے زور پر كرتى ہے مگر ہمارے قائدين كچھ زياده ہى اطاعت گزار واقع ہوئے ہيں۔ وه حكومتى فرمان آنے سے پہلے ہى اپنے ليٹرپيڈ اور مہر كو تيار كرليتے ہيں كہ كس طرح سے پورى قوم كو گهروں ميں قيد رہنے كے گُر سكهائے جائيں۔ اور عيد كى نماز كے جتنے ممكن طريقے ہوں وه بتادیے جائيں۔ ہمارى ايک سہيلى نے ازراه مذاق كہا كہ ايک فتوى ايسا بهى آنا چاہیے جو ابهى تک نہيں آيا ہے كہ نماز عيد الفطر دراصل شكرانہ كى نماز ہے اور شكر كا اصل مقام دِل ہے۔ موجوده حالات ميں ہم سب كو كورونا پر صبر اور عيد كى آمد پر شكر دل ہى دل ميں ادا كرنا چاہیے۔ اور يہ بات ان لوگوں كے لیے زياده قابل عمل ہے جو ممبئى جيسے گهنے شہروں ميں رہتے ہيں، جہاں لوگ فليٹ اور ولاز كے بجائے چهوٹى چهوٹى كهوليوں ميں رہتے ہيں۔ اور اگر وه گهر ميں نماز ادا كريں تو ركوع وسجود كرسكتے ہيں مگر قيام نہيں۔
انڈونیشيا اور مليشيا جيسے مسلم ممالک ميں لوگوں نے عيدگاه ميں سماجى دورى كا خيال كرتے ہوئے عيد كى نماز ادا كى ہے۔ اسى طرح تهائى لينڈ كے دار الحكومت بينكاک كى ايک تصوير سوشل ميڈيا پر گردش كررہى ہے جس ميں لوگ ايک ميٹر كے فاصلے كو برقرار ركهتے ہوئے نماز عيد ادا كرتے ہوئے ديكهے جا سكتے ہيں۔
شہروں كى بات سمجھ ميں آتى ہے كہ يہاں پر كورونا نے وبائى مرض كى شكل اختيار كرلى ہے۔ اگر اجتماعى طور پر نماز ادا كرنے كى اجازت دى جائے تو بيمارى پهيلنے كا خطره ہے مگر ان گاؤں ميں جہاں كورونا كا ايک بهى مريض نہيں، يہ پابندى كيوں؟ جہاں عبادت كے علاوه ہر كام كى اجازت ہے، شادى بياه ہو يا كوئى اور تقريب ہر ايک كے لیے اجازت ہے اور جو ہمارے منتخب نمائندے ہيں چاہے وه پارليمنٹ كے ممبر ہوں يا اسمبلى كے وه تو اس “پچاس” والى پابندى سے اپنے آپ كو اوپر سمجھتے ہيں۔ تبهى تو ان كى ہر محفل گل زار رہتى ہے۔
بہرحال ہميں خوشى ہے كہ ملت كا جمود ٹوٹا ہے، اجتہاد كے دروازے كهلے ہيں، اسى لیے تو اتنے سارے فتوے سوشل ميڈيا پر گردش ميں ہيں۔ مگر ايک بات سمجھ ميں آئى كہ ہمارے ملک ميں رؤيت ہلال كى كتنى كميٹياں ہيں۔ جتنى بهى ہوں، ہيں تو سب مركزى رؤيت ہلال كميٹى۔ اس سے اچها تو ہمارا پڑوسى ملک ہے جہاں رؤيت ہلال كى تصديق كے دو ہى ادارے ہيں ايک كى سرپرستى مفتى منيب الرحمن فرماتے ہيں اور دوسرے كی فؤاد چودهرى-

آپ کے تبصرے

3000