سلف کس کو کہتے ہیں؟
عربی زبان میں سلف کا سادہ سا مفہوم ہے ’’کل من تقدمک فھو سلفک‘‘ جو بھی آپ سے پہلے گذر چکے ہیں وہ آپ کے سلف ہیں۔ جب ہم یہ اصطلاح دین کے معاملہ میں استعمال کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے سلف ہیں تو ان سے مراد وہ مقدس ہستیاں ہیں جو دین کے معاملہ میں ہم سے پہلے گذر چکی ہیں۔
پیارے نبی ﷺ کے امتیوں کی اگر ہم بات کریں تو سب سے پہلے صحابہ ہیں ان کے بعد تابعین ہیں، ان کے بعد تبع تابعین ہیں اور ان کے بعد جو ان کے نقش قدم پر چلیں ان کو ہم سلف کہتے ہیں بلکہ بعض اہلِ علم ایک حدیث کی روشنی میں اللہ کے نبی ﷺ کو بھی سلف کی تعریف میں داخل مانتے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ جب ہم سلف کہیں تو اس سے مراد پیارے نبیﷺ کے صحابہ، تابعین، تبعِ تابعین ہیں اور یہ اصل ہیں ان کے زمانے کے بعد کے جو مسلمان ہیں وہ سلف کی تعریف میں داخل ہوسکتے ہیں لیکن ایک شرط کے ساتھ۔ اور وہ شرط یہ ہے کہ بعد میں آنے والے لوگ پہلے والے لوگوں سے ایسا اختلاف نہ کریں جو ان کی روش سے دور لے جائے۔ اگر کسی مسئلہ میں وہ پہلے والوں سے ایسا کوئی اختلاف کریں تو وہ سلف کی تعریف میں داخل نہیں ہوں گے اس لیے کہ انھوں نے سلف کے طریقہ سے اختلاف کیا ہے۔ اب آپ یہیں سے یہ معنی بھی متعین کرلیں کہ آج ہر کوئی اپنے علماء، بزرگ اور سابقین کو اپنے اسلاف کہتا ہے۔ ایک مسلک سے جڑے لوگ اپنے مسلک کی بات کرتے ہوئے “ہمارے اسلاف” کہتے ہیں تو اس سے ان کی مراد ان کے اپنے علماء ہوتے ہیں۔ دوسرے مسلک والے جب یہی کہیں تو ان کے نزدیک کچھ اور اشخاص مراد ہوں گے۔ اس طرح ہر مسلک والے کے اپنے اسلاف ہیں لیکن شریعت کی اصطلاح میں جب سلف کہا جائے تو اس سے مراد صحابہ ہیں تابعین ہیں اور تبعِ تابعین ہیں، یہی اصلی سلف ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا
’’خیر الناس قرني ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم‘‘ سب سے بہتر لوگ میرے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں یعنی وہ تابعین ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں یعنی وہ تبعِ تابعین ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ نے تین یا چار صدیوں کا تذکرہ فرمایا ہے، گویا تین سے چار صدیوں کے جو علماء تھے جو ائمہ تھے اور ان کا جو عقیدہ تھا جو ایمان وعمل تھا یہی اصلی سلف ہیں اور یہی سلفیت ہے۔ اب ان کے بعد آنے والے سلف کی تعریف میں اسی وقت داخل ہوں گے جب یہ لوگ ان کے نقش قدم پر چلیں اور ان کے طریقہ پرقائم ہوں۔ اگر ان کے طریقہ سے اختلاف ہوگا تو اس صورت میں چاہے وہ کسی بھی مسلک سے جڑے ہوئے ہوں اور اپنا نام بھی سلف سے جوڑے رکھتے ہوں اگر وہ سلف کے نہج پہ نہ ہوں تو وہ سلف کے مفہوم میں شامل نہیں ہوں گے۔
صحابہ کے منہج ہی کی پیروی کیوں ضروری ہے؟
عربی میں منہج کا معنی ہوتا ہے طریقہ۔ ’’منہجِ سلف‘‘ یعنی’’سلف کا طریقہ‘‘، صحابہ کا طریقہ، تابعین کا طریقہ، تبعِ تابعین کا طریقہ۔ اس کا سیدھا سا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید جو اللہ تعالی کا کلام ہے قیامت تک رہے گی۔ نبی کریم ﷺ کی سنت، حدیث، یہ بھی قرآن کی طرح اللہ تعالی جب تک باقی رکھنا چاہیں گے باقی رہے گی۔ جب تک قرآن ہے اس کی تفسیر کے طور پر اللہ تعالی حدیث کو بھی باقی رکھیں گے، اور در حقیقت دین انہی دو چیزوں کا نام ہے ایک تو قرآن ہے دوسری نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔
اب ایک سوال یہ ہے کہ قرآنِ مجید اور حدیثِ نبوی ﷺ کے سمجھنے کے سلسلہ میں شریعت نے کیا ہر کسی کو آزادی دی ہے کہ آیت کا جو مطلب جس کی سمجھ میں جیسے آئے وہ ویسے عمل کرلے یا پھر شریعت اسلامیہ نے اس سلسلے میں کسی قسم کی قید بھی رکھی ہے؟ یہی اصل سوال ہے۔ اور اس کا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ اسلامی شریعت نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ دیکھو! قرآن اور نبی ﷺکی سنت ان دونوں کی وہی تشریح و تفسیر اور وہی سمجھ معتبر ہوگی جو صحابہ کے طریقہ سے آئے۔ جس پر صحابہ تھے صحابہ کے بعد تابعین تھے اور ان کے بعد ان کے شاگرد تبعِ تابعین تھے۔ دین کی اسی سمجھ کا اعتبار ہوگا جو اللہ کے ان معزز بندوں یعنی نبی کے صحابہ کی ہوگی، اسی حقیقت کو ہم منہجِ صحابہ یا منہجِ سلف کہتے ہیں۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ نماز روزہ زکوۃ ودیگر ارکان واعمال قرآن اور نبی ﷺ کی احادیث سے ثابت ہیں لیکن ان پر عمل کرنے کا عملی طریقہ نبی ﷺ سے صحابہ نے لیا، صحابہ سے تابعین نے لیا اور تابعین سے تبعِ تابعین نے لیا۔
اسی طرح عقیدہ کا بھی معاملہ ہے۔ عقیدہ کے باب میں آئی کوئی آیت شرک سے متعلق ہے کوئی آیت اللہ کی صفات سے متعلق ہے کوئی آیت اللہ کے فرشتوں سے متعلق ہے۔ ان سب آیات سے کیا معنی و مطلب صحابہ نے سمجھا ہے یہ دیکھا جائے۔ دین کا کوئی بھی مسئلہ آپ لے لیں آپ سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ قرآن کی آیت، حدیث اور شریعت کے اس مسئلہ کو صحابہ نے کیسے سمجھا ہے اس کو اپنے سامنے رکھیں اور اسی کی روشنی میں آیت وحدیث کے معنی ومفہوم کو متعین کریں۔ اور پھر اپنے آپ کو اسی سمجھ کا پابند رکھیں اور اسی طرز استدلال اور افہام وتفہیم میں اسی سمجھ کو معیار بنا کے چلیں، یہی منہج سلف کا سیدھا مفہوم ہے۔
منہج سلف کے مفہوم کو ایک اور طریقہ سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ آپ یہ دیکھیں کہ دنیا کی کوئی بھی کمپنی کوئی سامان بازار میں لاتی ہے اور کسی پروڈکٹ کو مارکیٹ میں ریلیز کرتی ہے تو اس سامان یا پروڈکٹ کے ساتھ ایک کتابچہ دیتی ہے (عام طور پہ الکٹرانک اشیاء میں یہ ہوتا ہے) اس کتابچہ میں ہدایات اور انسٹرکشن ہوتے ہیں کہ اس آلہ کو اگر آپ کمپنی کے طے کردہ اصولوں کے مطابق استعمال کریں گے، تو کمپنی نے جو بھی وعدے کیے ہیں اس آلہ کی کارکردگی کو بالکل آپ ویسا ہی پائیں گے اور اسی نتیجہ تک پہنچیں گے جس کی امید رکھتے ہوئے وہ سامان حاصل کیا گیا ہے۔ منہج بھی دراصل قرآن وسنت کو برتنے کا وہی ہدایت نامہ ہے۔ یہ ایک مثال ہے۔ یہ حق ہے کہ مثالوں سے شریعت یا شریعت کا کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا مگر شریعت کا طے کردہ مسئلہ مثالوں سے واضح ضرور ہوتا ہے۔
منہج کیا ہے؟
مذکورہ بالا تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن اللہ تعالی کلام ہے، حدیث اللہ کے نبی ﷺ کی بات ہے یہ دونوں ہمارے سامنے ہیں لیکن ان کی سمجھ اور ان کے سمجھنے کا طریقہ ہمیں نبی کریمﷺ کے صحابہ سے ملا ہے۔ ہم اگر قرآن و سنت کو اللہ کے نبیﷺ کے صحابہ کے طریقہ پر چل کر سمجھیں گے تو قرآن و سنت کا وہ معنی و مطلب سمجھیں گے جو اللہ کی مراد ہے، جو اللہ کے نبی ﷺ کی مراد ہے۔ اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ بڑا پیارا جملہ کہا کرتے تھے ’’آمنت باللہ وبما جاء عن اللہ علی مراد اللہ وآمنت برسول اللہ وبما جاء عن رسول اللہ علی مراد رسول اللہ‘‘
یعنی میں اللہ تعالی پر ایمان لاتا ہوں اور اللہ کی طرف سے جو باتیں آئیں ان پر بھی ایمان لاتا ہوں اسی معنی اور مراد کے ساتھ جو معنی اللہ کی نظر میں مطلوب ہے۔ ایسا نہیں کہ بات اللہ کی ہے اور سمجھ میری ہے اور مفہوم میرا ہے۔ اسی طرح کہا کرتے تھے کہ میں اللہ کے رسول پر ایمان لاتا ہوں اور اللہ کے رسول کی جو باتیں پہنچی ہیں ان پر بھی ایمان لاتا ہوں اسی معنی اور مراد کے مطابق جو معنی اللہ کے رسول کی مراد ہے۔ یہی اصل سلفیت ہے، یہی منہجِ سلف ہے، یہی صحابہ کا طریقہ ہے، یہی ائمہ کا طریقہ ہے، یہی مجتہدین کا طریقہ ہے جو سنت کے مطابق چلنے والے تھے، یہی اصل طریقہ ہے، اسی کو ہم منہجِ سلف کہتے ہیں۔
یعنی منہجِ سلف کا مطلب یہ ہوا کہ ہم قرآن کی تفسیر میں، حدیث کا معنی متعین کرنے میں یا شریعت کے کسی بھی مسئلہ میں سب سے پہلے یہ دیکھیں گے کہ صحابہ نے اس کو کیسے سمجھا، تابعین نے اس کا معنی کیا لیا ہے، تبعِ تابعین نے اس کا کیا معنی نقل کیا ہے۔ اگر سارے صحابہ متفق ہوجاتے ہیں تب پھر بعد میں آنے والے کی پرواہ نہیں ہوگی اور نہ صحابہ کی سمجھ کے برخلاف ان کی سمجھ کی۔ وہ کوئی بھی ہوں، اپنی جگہ کتنے ہی بڑے علم والے ہوں۔ ان کا علم اس بات کی گواہی نہیں ہے کہ صحابہ کی فہم کے برخلاف ان کی بات بھی لی جانی چاہیے۔ اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالی نے صحابہ کے طریقہ پر چلنے کا حکم ہمیں دیا ہے، سلف کے منہج کو اپنانے کی اللہ نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: {فإن آمنوا بمثل ما آمنتم بہ فقد اھتدوا وإن تولوا فإنما ھم في شقاق فسیکفیکھم اللہ وھوالسمیع العلیم}
اگر یہ لوگ ایمان لے آئیں (خطاب صحابہ سے ہے اور بات کی جارہی ہے یہودیوں کے بارے میں جو مدینہ کے تھے) جیسا تم لوگ ایمان لے آئے ہو – سامنے صحابہ ہیں- تو یہ لوگ ہدایت یافتہ ہو جائیں گے۔ یعنی صرف ایمان لانے کا حکم نہیں ایمان بھی ویسا لانے کا حکم ہے جیسے صحابہ کا ایمان تھا۔ معلوم ہوا کہ سلف کے منہج کو شریعت میں اللہ نے کیا مقام عطا کیا ہے۔
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ بعض اوقات لوگ اس مسئلہ کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں جب دو ہی چیزیں شریعت کا مرجع ہیں، قرآن ہے سنت ہے اور ان دو کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ باقی جو کچھ ہے، اجماع ہے قیاس ہے، سب قرآن کے تابع ہے۔ تو یہ تیسری چیز کہاں سے آگئی؟ صحابہ کی پیروی کرنے والی بات؟یاد رکھیے یہ تیسری کوئی چیز نہیں یہ حقیقت کے اعتبار سے انہی دو چیزوں کا خلاصہ ہے، انہی دو چیزوں سے جڑی ہوئی حقیقت ہے۔
قرآن میں ایک اور مقام پہ اللہ تعالی نے فرمایا: {ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی ونصلہ جھنم وساء ت مصیرا}
یعنی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد جو رسول کے طریقہ پر چلنے کے سلسلہ میں بحث کرے یا اس سے حجت کرے یا جھگڑا کرے اور مومنوں کے راستے سے ہٹ کر کسی اور راستہ پر چلے تو کیا ہوگا؟ اللہ نے فرمایا ’’نولہ ما تولی ونصلہ جھنم‘‘ ایسے آدمی کو ہم خود اسی کے حوالہ کردیں گے اور اسے جہنم میں داخل کردیں گے۔
یہاں نوٹ کرنے کی دو باتیں بہت اہم ہیں نمبر ایک یہ کہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول کے ساتھ جھگڑا کرے، بحث کرے، اختلاف کرے، یہ کہنے کے بعد اللہ تعالی نے دوسری بات بیان فرمائی ’’ویتبع غیر سبیل المؤمنین‘‘ مومنوں کے راستہ کو چھوڑ کر چلے۔ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں کوئی کلمہ کوئی بات زائد نہیں ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالی کا مقصود صرف نبی کریمﷺ کی اطاعت کا حکم دینا ہوتا تو ’’ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی‘‘ سے مقصد پورا ہوچکا تھا پھر یہ جو ’’ویتبع غیر سبیل المؤمنین‘‘ کا اضافہ رکھا ہے اس کا معنی کیا ہے؟ یہی وہ معنی ہے جس کو ہم سمجھانا چاہتے ہیں کہ قرآن و سنت پہ چلنا چاہیے لیکن طریقہ وہ ہونا چاہیے جو صحابہ کا تھا۔ اس لیے کہ نزول قرآن کے وقت جو مومن تھے وہ صحابہ تھے لہذا کوئی ان مومنوں کے طریقہ سے ہٹ کر چلے گا تو اللہ نے صاف فرمادیا ’’نولہ ماتولی‘‘۔ سب سے پہلا مسئلہ یہ کہ ہم ہاتھ کھینچ لیں گے، اللہ تعالی آپ کی ذمہ داری سے بری ہوجائیں گے، اللہ آپ کو خود آپ کے حوالہ کردیں گے، آپ جو طریقہ اپناتے ہیں اللہ تعالی اس کے حوالہ کردیں گے، ہدایت کا سامان پھر اللہ تعالی آپ کو نہیں دیں گے۔ اس لیے کہ صحابہ کے طریقہ کو چھوڑ کرآپ زبان حال سے یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ نہیں چاہیے ہمیں یہ طریقہ۔ اب اس کا انجام جو ہوگا وہ جہنم ہے کیونکہ جب طریقہ سے ہٹیں گے اور اللہ تعالی ان سے بری ہو جائے گا تو ٹھکانہ جہنم ہی ہوگا۔ آیت کا مطلب واضح ہے کہ راہ ہدایت قرآن وسنت ہی ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس کی سمجھ صحابہ کے مطابق ہو اور یہ کوئی زائد چیز نہیں ہے بلکہ صحابہ کی سمجھ کو مقدم رکھنا یہ قرآن کی تعلیم ہے اور قرآن کا حصہ ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہم کہتے ہیں کہ حدیث کوئی نئی چیز نہیں ہے، قرآن مجید ہی کی تفسیر ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوہ‘‘
ترجمہ: اور تمھیں جو کچھ رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ (الحشر:۷) گویا نبی کی ہر بات قرآن کی تفسیر ہو گئی اور ایسے ہی صحابہ کے منہج کو اپنانے کا معاملہ بھی ہے۔ اس قسم کی آیات کا مقصود ہی ہے صحابہ کے منہج کو اپنانا، ان کے طریقے کو اپنانا قرآن مجید کی تعلیم اور ہدایت کا حصہ ہے اور اللہ تعالی کا حکم ہے۔
منہج سلف کی ضرورت
پہلی مثال: امت کے اندر ایسے مسائل بہت ہیں جو مختلف فیہ ہیں۔ ان میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ نبی ﷺ اللہ کے نور سے پیدا کیے گئے ہیں کہ نہیں؟ یہ ایک مسئلہ ہے جس میں بہت سے لوگ موافق ہیں اور بہت سے مخالف۔ اب اس کو حل کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے؟ صحابہ کرام نے نبی اکرم ﷺکو کیا سمجھا تھا؟ کیا اللہ کے نبیﷺ کے بارے میں صحابہ کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ کے نبی ﷺنور سے پیدا کیے گئے تھے؟ اللہ کے نبیﷺ اللہ کے نور کا حصہ تھے؟ کائنات سے پہلے اللہ کے نبی کی تخلیق ہوئی تھی اور اللہ تبارک وتعالی نے اللہ کے نبی کی خاطر ہی دنیا کو پیدا کیا تھا؟ ایسی جتنی باتیں آتی ہیں ان کے حل کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لوگ جو آیتیں پڑھ پڑھ کر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسرے کچھ آیتیں پڑھ کر اس کا انکار کرتے ہیں ان دونوں قسم کی آیتوں کو لیا جائے اور دیکھا جائے کہ ان آیتوں کا مطلب صحابہ کے یہاں کیا تھا؟ جو مفہوم ان کا تھا وہی معتبر بھی مستند بھی اور حل نزاع کا معیار بھی۔ اور اگر اس سلسلے میں نبیﷺ کی احادیث کا حوالہ دیا جاتا ہو تو دیکھا جائے کہ نبیﷺ کی ان احادیث کا معنی و مطلب صحابہ کیا سمجھتے تھے؟؟
دوسری مثال: یہ مسئلہ کہ کسی ایک ہی مخصوص امام کی تقلید ہونی چاہیے کہ نہیں ہونی چاہیے؟ امت کے اندر یہ ایک مختلف فیہ موضوع ہے۔ بہت سے لوگ اس کے قائل ہیں کہ کسی ایک امام کی تقلید کرنا واجب ہے اور اگر کوئی ایک مسلک کا ہوتے ہوئے وہ دوسرے مسلک کی بات کو اپناتا ہے تو وہ گمراہ ہے، اسے اجازت نہیں کہ وہ اپنے مسلک کی بات کو چھوڑ کر دوسرے مسلک کی بات اپنائے۔ اور دوسرا طبقہ یہ کہتا ہے کہ کسی ایک امام کی اندھی تقلید کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ اب یہ ایک مسئلہ ہے، صحابہ کے پاس دیکھیں! کیونکہ جن آیتوں کو پڑھ کر تقلید کے وجوب کو ثابت کیا جاتا ہے اور جن آیات کو پڑھ کر تقلید کا انکار کیا جاتا ہے یہ دونوں قسم کی آیتیں صحابہ کے سامنے تھیں، صحابہ نے پڑھیں، کیا مطلب لیا انھوں نے؟ تقلید کے سلسلے میں ان کے پاس کیا طریقہ تھا؟
تیسری مثال: بہت سے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالی تک پہنچنے کے لیے اولیاء کا وسیلہ لیا جائے اور وہ اس مسئلہ کو قرآن کے حوالے سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب صحابہ کی طرف پلٹ کر جائیں‘ دیکھیں انھوں نے کیسے سمجھا؟ نبیﷺ کی زندگی میں جو نیک لوگ تھے ان کے مرنے کے بعد کیا صحابہ انہی لوگوں کے وسیلہ سے اللہ تعالی تک پہنچتے تھے؟؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ملے تو ہمیں دنیا کی پرواہ نہیں۔ رب کا فرمان ہے، نبی کی سنت ہے اور صحابہ نے اس کا معنی و مطلب یہی سمجھا ہے تو ہم اور کسی چیز کی طرف کیا دیکھیں؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر ساری دنیا کہے اور کرے مگر ہم یہ کہیں کہ جو قرآن میں نہیں، نبی کی سنت میں نہیں اورصحابہ نے ویسے نہیں سمجھا نہیں کیا ہم وہ کیسے کریں؟ اور کہاں سے سمجھنے لگیں؟
سمجھنے والوں کے لیے یہ بہت آسان مسئلہ ہے اور اسی کو کہتے ہیں منہج سلف کو اپنانا، صحابہ کے طریقے پر چلنا۔
چوتھی مثال: تصوف کے نام پر نفس کی تربیت کے لیے کہا جاتا ہے کہ کسی شیخ یعنی نیک بزرگ کے ہاتھ پہ بیعت کرنا چاہیے اور ان کے پاس جاکر اپنے نفس کی تربیت کروانی چاہیے اور تربیت کے طریقے بھی بتائے جاتے ہیں۔ جیسے صبح شام آپ کو مختلف قسم کے اذکار کا اہتمام کرنا چاہیے، شیخ کے پاس بیٹھ کر آپ کو صبح سے شام تک کی غلطیاں بتانی چاہیے تاکہ وہ آپ کی اصلاح کر سکے۔ تصوف کی دنیا کا یہ ایک اپنا نظام ہے۔ تربیت کا یہ طریقہ اگر صحابہ کے یہاں تھا تو آئیں ہم یہ طریقہ اپنائیں چاہے دنیا کچھ بھی کہے۔ لیکن صحابہ کے پاس تربیت کا یہ طریقہ اگر نہیں تھا تو ہم اس طریقے سے برائت کا اعلان کریں، اسے کوئی شرعی ولازمی طریقہ سمجھ کر اپنانا چھوڑدیں۔
مختصر یہ کہ زندگی کے ہر معاملے میں، زندگی کے ہر مسئلے میں، قرآن وسنت ہی اللہ کی ہدایت کا سرچشمہ ہیں، اللہ تبارک وتعالی کے دین کی اصل ہیں، خلاصہ ہیں، بنیاد ہیں۔ لیکن اس قرآن کا معنی، حدیث کا مفہوم، ہم ویسے سمجھیں جیسے صحابہ نے سمجھا تھا‘ صحابہ کے بعد تابعین نے، تبع تابعین نے۔ اگر ہم اس طریقے کو اپنا لیں گے تو ہم سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے والے بن جائیں گے۔
اسلاف میں آمین با لجہر فاتحہ خلف الامام میں بھی اختلاف ہوا ۔۔گویا یہ یہ معروف تھا نہ کی بنایا ہوا پھر اہل حدیث ان مسائل کو اتنی شدت سے کیوں اچھالتے ہیں اور ساری اہل حدیثیت ان مسائل کے ارد گرد گھومتی نظر اتی ہے
اہل حدیث، الحمد لله ایک منہج ہے یہ منہج صحابہ ہے، لہذا دین فہمی کی جو وسعت ہے سلف کے طریقہ پر وہ یہاں پائ جاتی ہے، اب اگر کوئی شخص اندھی تقلید میں پھنس کر منہج سلف کو سمجھنا ہی نہ چاہے، ان سے استفادہ نہ کرے اور حقيقت كا اعتراف نہ کرے تو یہ اس کی سوچ کا قصور ہے نہ کہ اہل حديثيت كا چند مسائل میں محصور ہونا ہے
بارك الله فيكم ونفع بكم الإسلام والمسلمين
ماشاءاللہ