رمضان المبارک کچھ اہم سبق دیتے ہوئےہم سےرخصت ہوگیا

مقبول احمد سلفی رمضانیات

جن حالات سے آج دنیا گزر رہی ہے ان کی تاریخ رقم ہوتی جارہی ہے، آنے والی نسلیں ہماری تاریخ پڑھیں گی اور جانیں گی کہ اس میں ان کے لئے بہت کچھ اسباق پائے جاتے ہیں، ممکن ہے مستقبل بہتر بنانے کے لئے اپنی اصلاح بھی کرے۔ ان نسلوں کو آنے میں ابھی وقت ہے، پہلے ہمیں یہاں سے گزرنا ہوگا لیکن سوال ہمارے لئے بھی بہت اہم ہے کہ ہم نے رقم ہوتی ہوئی آج کی تاریخ سے کیا کچھ سیکھا اور سبق لیا؟
رمضان آیا اور جیسے لگا لمحوں میں ہم سےرخصت ہوگیا مگر اس کی برکتیں سال بھر ختم نہیں ہوتیں بشرطیکہ حاصل کرنے والوں نے ماہ خیر وفلاح سے واقعی سعادت وبرکت حاصل کی ہو۔ اللہ کا فرمان ہے: قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ (الأعلى:14-15)
ترجمہ: بے شک اس نے فلاح پائی جو پاک ہوگیا اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جس نے اپنے نفس کو برے اخلاق سے پاک کیا۔ جوکچھ اللہ نے رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا اس کی تابعداری کی۔ اللہ کی رضا اوراس کے احکام وشریعت کی پاسداری کرتے ہوئے نماز کو اپنے وقتوں پر قائم کیا وہ کامیاب ہوگیا۔ انتہی۔
اس آیت کو آیت صیام کے لفظ “لعلکم تتقون”(تاکہ تم پرہیزگار بن سکو) سے جوڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ماہ صیام اور اس کی عبادتیں مومنوں (اس میں نام کے مسلمان داخل نہیں ہیں) کو گناہوں سے پاک اور نفس کو پرہیزگار بنا دیتی ہیں ۔ ہمیں اللہ کی بے پایاں رحمتوں سے امید ہے کہ اس ماہ مبارک میں مومنوں کی مغفرت ہوگئی ہوگی اور ہم کامیاب ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ ان شاء اللہ
ابھی ہماری مغفرت ہوگئی اور ہم گناہوں سے پاک ہوگئے لیکن یاد رکھیے معصیت کا ارتکاب کرنے سے پھر ہم گنہگار اور اللہ کے مجرم ہوجائیں گے اس لیے اپنے نفس کو پاک رکھنا اور اسی طہارت وپاگیزگی پر خود کوباقی رہنا بہت ہی اہم مسئلہ ہے جو کہ اکثر نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ اللہ نے کامیابی کے لئے کیا کہاہے؟ اللہ فرماتا ہے کہ “بے شک اس نے فلاح پائی جو پاک ہوگیا اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا”۔ یہاں نماز سے مراد پنچ وقتہ نمازوں کو اپنے وقتوں پر قائم کرنا اور اس کی محفاظت کرتے رہنا ہے جیسا کہ مختلف مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اصل کامیابی اس کی ہے جو اللہ کے احکام وشریعت کی پاسداری کرتا اور اس کی رضا کے واسطے ہمیشہ نمازوں کی پابندی کرتے رہتا ہے۔ کسی خاص موقع سے عبارت کرلینا کمال نہیں ہے بلکہ سدا عبادت پر قائم رہنا کمال ہے اور یہی مطلوب مومن بھی ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے: فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ (هود: 112)
ترجمہ: پس اے محمد! تم اور تمہارے وہ ساتھی جو (کفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں، ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو۔
یہی بات نبی ﷺ نے ایک موقع پر سوال کرنے والے صحابی سفیان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو بتائی جب انہوں نے آپ سے سوال کیا کہ مجھے اسلام کی ایک ایسی بات بتلائیں کہ پھر آپ کے بعد کسی سے اس کے متعلق سوال نہ کروں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: “قل آمنت بالله، ثم استقم” (صحیح مسلم: 38)کہو میرا رب اللہ ہے اور اسی پر قائم رہو۔
اس لیے گزرتے ہوئے رمضان سے ایک اہم سبق یہ ملتا ہے کہ بلاشبہ رمضان گزر گیا ہے مگر اللہ کا ذکر باقی، اس کا دین اور اس کی عبادت باقی ہے، ہم اس کی حمدوثنا کرتے رہیں گے، اس کے دین پر چلتے رہیں گے اور اس کی عبادت مرتے دم تک کرتے رہیں گے جیساکہ فرمان الہی ہے: وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ (الحجر:99)
ترجمہ: اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے ۔
کورونا حالات کی وجہ سے رمضان المبارک میں مساجد بند ہوجانے سے ہم سب کبیدہ خاطر تھے، آج بھی اس کی وجہ سے ہم میں مایوسی ہے مگر اللہ کے دین میں بڑی کشادگی اور تسلی کا سامان ہے، یہی مذکورہ آیت دیکھیں جو نبی ﷺ کی تسلی کے لئے اس وقت نازل ہوئی جب مشرکین مکہ آپ کو طرح طرح سے ستاتے، آپ کا استہزا کرتے اور دیوانہ پاگل کہہ کر تکلیف پہنچاتے تھے، اس سے آپ رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہوجاتے۔ اللہ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے تسبیح بیان کرنے اور سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ آپ کو کہا اپنے رب کے لئے نماز پڑھتے رہیں اور اس کے لئے سجدہ وتسبیح میں لگے رہیں اسی میں آپ کو قلبی سکون ملے گا اور یوں آپ کو اللہ کی مدد بھی ملتی رہے گی۔
جس طرح اللہ تعالی نے حزن وملال کے موقع پراپنے نبی ﷺ کوعبادت وذکر کے ذریعہ ڈھارس بندھائی ہے اسی طرح اس میں ہمارے لیے بھی تسلی کا سامان ہے۔ ہم سے رب کی عبادت مطلوب ہے لہذا ہم جہاں بھی رہیں اور جس حال میں رہیں اپنے پروردگار کی حمدوثنا بیان کرتے رہیں اور پنچ وقتہ نمازوں کی محافظت کرتے رہیں اس سے دل کو سکون ملے گا اور اللہ کی مدد حاصل رہے گی۔
آج کے حالات اور رمضان المبارک سے عام مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ ہم نے دین کے وہ ضروری احکام بھی نہیں سیکھے تھے جن سے واسطہ روزمرہ کاہے، یہی وجہ ہے کہ رمضان جیسی عبادت کے موسم میں کتنے گھر نماز، تلاوت اور قیام اللیل سے سونے ہوں گے کیونکہ ان کے گھر کوئی نماز پڑھانے والا نہیں اورکوئی قرآن جاننے والے نہیں تھا۔ کیا یہ کورونا ہمیں سبق نہیں دیتا ہے کہ دین کو ہم میں سے ہر کوئی اتنا ضرور سیکھے جو کم ازکم عبادت کے لئے کافی ہو؟
مساجد بند ہوجانے میں ان لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو صرف جمعہ کی عبادت کرتے تھے، ان سے مسلسل جمعہ چھوٹ رہا ہے حتی کہ رمضان المبارک کے جمعہ بھی چھوٹ گئے۔ ایسے لوگوں کے لیے نصیحت ہے کہ نماز صرف ہفتہ میں فرض نہیں ہے بلکہ دن ورات میں پانچ دفعہ فرض ہے، یہ بات دین میں لکھی ہوئی پہلے سے موجود ہے اور آج کورونا کی وجہ سےاسقاط جمعہ وجماعت نے احساس بھی دلا دیا۔ اے کاش کہ ہم نصیحت حاصل کریں۔
اس طرح کے بے شمار اسباق مل جائیں گے لیکن میری نظر میں تین اہم تھے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کورونا کے اس دور میں رمضان سے ایک سبق تو یہ ملا جو کہ ہر رمضان کا سبق ہے کہ ہماری کامیابی دراصل اس میں ہے کہ پنچ وقتہ نمازوں کی محافظت کرتے رہیں گے خواہ قید رہیں یا آزاد رہیں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دین کی بنیادی تعلیم بھی حاصل کریں تاکہ خود سے بھی رب کی بندگی، اس کی حمد وثنا اور قرآن کی تلاوت کرسکیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی ڈگری حاصل کرلینے کے باوجود ہمیں نماز پڑھنا اور قرآن کی تلاوت کرنا نہ آئے۔ تیسری بات یہ ہے کہ جو لوگ دین پر اپنی مرضی سے عمل کرتے تھے وہ سنبھل جائیں، رب کی اس طور بندگی کریں جس طرح کرنے کا حکم ہوا ہے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ رمضان میں انجام دیئے گئے ہمارے اعمال کو قبول فرما کر اسے ہماری نجات کا ذریعہ بنائے، ہم سے کورونا کی وبا دور کردے اور ہمیں مرتے دم تک اپنی بندگی کی توفیق سے نوازے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000