میاں صاحب کا مدرسہ: آزادی تک کی مختصر روئداد

عاصم افضال

 

ولی اللہی تحریک کو فروغ دینے میں جن اولین نقوش کا تذکرہ ملتا ہے ان میں میاں صاحب کا مدرسہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے ۔ اسی مدرسے کا ثمرہ ہے کہ آج پورے برصغیر ہند وپاک میں حدیث کا ایک الگ و انوکھا طرز تدریس دیکھنے میں آتا ہے ۔ فقہی اختلاف ، طریقہ استدلال و استنباط، رواۃ پر بحث کا اپنا جداگانہ منہج ہے۔

میاں صاحب شاہ اسحاق علیہ الرحمہ کے پروردہ تھے جب شاہ اسحاق ہندوستان سے ہجرت کر گئے تو میاں صاحب ان کے مسند تدریس کے وارث ہوئے ۔ کیوں نہ ہوں آپ ہی تو ان کے لائق و فائق شاگرد اور ان کے حقیقی علمی وارث و امین تھے ۔ شاہ اسحاق کے1842 میں مکہ ہجرت سے لے کر 1857 کی پہلی جنگ آزادی تک میاں صاحب مسجد اورنگ آبادی میں (جہاں اس وقت پرانی دلی ریلوے اسٹیشن واقع ہے) درس دیتےر ہے ۔ 1857 کے خلفشار نے دہلی کو خانماں برباد کر دیا اور جس اورنگ آبادی مسجد میں آپ درس دیا کرتے تھے اس کو انگریزوں نے ویران کردیا (بعد میں یہ مسجد بھی ریلوے کی توسیع کی نذر ہوگئی) پنجابی کٹرہ کے نام سے مشہور و معروف وہاں کا محلہ نیست و نابود ہوگیا، لوگوں کے آشیانے اجڑ گئے جس کو جہاں جگہ ملی وہ وہاں سدھار گیا، میاں صاحب بھاگ کر پھاٹک حبش خان آگئے، ایک مکان میں ٹھہرے اور پاس ہی ایک مسجد کو اپنا ماوی علم و فن اور مرکز درس و تدریس بنایا جس کو دنیا “مسجد میاں صاحب ” کے نام سے جانتی ہے…

یہی مسجد وہ مدرسہ تھا جہاں سے جہابذہ علم و فن پیدا ہوئے جنھوں نے شہرت و ناموری کے اعلی مقام کو پایا، ایسے اساطین علوم شرعیہ نکلے کہ جن کی کوششوں سے پورا بر صغیر قال اللہ و قال الرسول کی دل نواز صداؤں سے گونج اٹھا، ایک انقلاب برپا ہوا اور علم حدیث کی شمع ایسی فروزاں ہوئی کہ آج تک اسی روشنی سے لوگ نہال ہو رہے ہیں، میاں صاحب نے حق کی راہ میں جو آبلہ پائی کی تھی اس کا ثمرہ بجا طور پر آج بھی محسوس کیا جارہا ہے۔

میاں صاحب کا مدرسہ آج کل کے مدارس جیسا نہ تھا بلکہ وہ یگانہ روزگار تھا، فجر بعد ہی سے تعلیم کا سلسلہ شروع ہوجاتا، درس قرآن سے تعلیم کا آغاز ہوتا اہل علم کے ساتھ ساتھ عوام الناس بھی شریک ہوتے  پھر حدیث کی تدریس ہوتی ۔ ۱۱ بجے سے ۱۲ بجے تک وقفہ ہوتا جس میں میاں صاحب اپنے گھر جاتے ضروریات سے فارغ ہوکر ۱۲ بجے پھر آتے اور دیرشام تک درس و تدریس میں منہمک رہتے، نہ نصاب متعین تھا نہ گھنٹیاں بلکہ علوم شرعیہ میں جس فن کی حاجت ہوتی وہ سکھلایا جاتا، یہی میاں صاحب کا طریقہ تدریس اور معمول زندگی تھا، خلوص و وفا کے پیکر، بےجا تکلفات سے پرے، دنیوی خواہشات سے بے بہرہ و بے فکر ایک مقصد کی جانب رواں دواں تھے، طلبہ بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے، رہنے کا کوئی خاص انتظام نہیں جس کو جہاں جگہ ملی وہی اس کا مسکن قرار پایا، عجیب سماں ہوتا، آنے والی کی دنیا بدل جاتی خیرو برکت سے معمور علم کے خزینے لوٹتا رخصت پذیر ہوتا اور اپنے علاقے میں ان ثمرات کی برکات کو بکھیر دیتا۔

میاں صاحب کے مدرسے کے منتظم تھے سید تلطف حسین بہاری رحمہ اللہ، آپ میاں صاحب کے لائق وفائق شاگردوں میں سے تھے، فراغت کے بعد میاں صاحب کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی، علم میراث میں خصوصی درک حاصل تھا، مدرسے کا پورا نظم و نسق اور طلبہ کے قیام و طعام کی ساری ذمہ داری آپ پر ہی تھی ساتھ میں ریاض العلوم کے بھی مہتمم تھے، طلبہ بڑی کسمپرسی میں زندگی گزارتے، جینے بھر کھا لیتے اور علم کی تشنگی بجھاتے ۔ ایک مرتبہ راشن ختم ہوگیا، حیران و پریشان میاں صاحب کے پاس آئے اور فرمایا بچوں کے لیے کچھ بھی کھانے کو نہیں ہے، میاں صاحب بولے اللہ انتظام کرے گا ۔ میاں صاحب کا توکل دیکھیے کہ اسی وقت ایک صاحب مع غلہ جات کے آئے اور یوں بچوں کے طعام کا انتظام ہوگیا۔

میاں صاحب نے زندگی بھر تن تنہا قرآن و حدیث کی تدریس کا فریضہ نبھایا تقریباً 45 سال اس عہدہ جلیلہ پر فائز رہے یہاں تک کہ وقت موعود آن پہنچا ۔ آپ کے بیٹے سید شریف حسین نے باپ کے علم کو ازبر کیا، علامہ اقبال کی زبان میں  آپ حقیقی “لائق میراث پدر” تھے غضب کی صلاحیت تھی، آپ بھی درس دیتے تھے، میاں صاحب کے فتوے بھی لکھا کرتے تھے لیکن انھیں وقت کم ملا تھا اور میاں صاحب کی وفات سے 15 سال قبل ہی 1888 میں انتقال فرماگئے اوراس طرح  علم کا یہ پیکر عین جوانی ہی میں داغ مفارقت دے گیا…. سید شریف حسین کی دو نرینہ اولاد تھیں ایک عبد السلام اور دوسرے ابوالحسن، میاں صاحب کی یہی دو نشانی تھی ، یہی دو انمول رتن تھے جن کو میاں صاحب نے کندن بنایا ۔ اپنے ان دونوں پوتوں کی کفالت کی، پڑھایا لکھایا اور عالم بنایا ۔ میاں صاحب کی وفات کے بعد انھوں نے ہی  مدرسے کی باگ ڈور سنبھالی، میاں صاحب 1901 میں انتقال فرماگئے اور یہیں پر مدرسہ میاں صاحب کے ایک دور کی تاریخ مکمل ہو جاتی ہے.

میاں صاحب کی وفات کے بعد آپ کا مدرسہ اپنی تاریخ کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے، یہ مرحلہ کئی نشیب و فراز سے عبارت ہے ۔ ایک طرف مدرسے نے اپنا موسس و محسن کھو دیا، ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا وہیں میاں صاحب کے اخلاف و احفاد نے اس تناور شجر کی آبیاری کی، اس کو سینچا اور اساتذہ و معلمین سے معمور کیا ۔ میاں صاحب کےخلا کو پر کرنے کے لیے مولانا عبد الجبار عمر پوری، مولانا بشیر احمد سہسوانی اور مولانا عبد اللہ غازیپوری رحمہم اللہ کو دہلی بلایا گیا، ان میں مولانا عبدالجبارعمر پوری رحمہ اللہ یہاں استاد مقرر ہوئے، سید تلطف حسین رحمہ اللہ نے حسب سابق تمام تر انتظامی امورکو سنبھالے رکھا، آپ اس مدرسے کے سب سے کہنہ مشق اور تجربہ کار مدرس و منتظم تھے، آپ کی سرپرستی میں میاں صاحب کے احفاد نے مدرسے کو ترقی دی، مولانا عبدالسلام صاحب طلبہ کو ترجمہ قرآن پڑھاتے، حدیث کا بھی درس دیتے، علم میراث میں خصوصی درک حاصل تھا، فتوی نویسی کا کام بھی انجام دیتے تھے، میاں صاحب کے دوسرے پوتے تھے سید ابوالحسن رحمہ اللہ، آپ بھی تدریسی خدمات انجام دیتے اور مدرسے کی ذمہ داریاں سنبھالتے ۔ مولانا بشیرالدین دہلوی “واقعات دارالحکومت دہلی” میں لکھتے ہیں:
” دونوں بزرگان بلا کم وکاست میاں صاحب کی صفات حسنہ تھے، خود انہی سے تعلیم پائی اور انہی نے پالا پوسا، ابوالحسن بھی قرآن وحدیث کا درس دیتے ہیں اور جس طرح میاں صاحب کے زمانے میں مدرسہ تھا ویسا ہی چلاتے ہیں ”

اس طرح دونوں پوتے بحسن و خوبی مدرسے کی ساری ذمہ داریاں نبھارہے تھے، اس وقت جو لوگ تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے ان میں مولانا عبدالرحمن پنجابی، حافظ عبد الوہاب نابینا اور میاں صاحب کے بھتیجے حکیم سید عبدالحفیظ رحمہم اللہ تھے اور یوں یہ کاروان علم وفن اور مرکز کتاب و سنت اپنی راہ پر گامزن تھا، زمانے کے دشوار گذار حالات سے نبرد آزما اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ سید عبد السلام اور مولانا تلطف حسین عظیم آبادی جیسے اہم ذمہ دار  1916 ء میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ تین چار سال اور گزرتے گزرتے کچھ اور اہم اساتذہ بھی آخرت سدھار گئے، مدرسے کو مالی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا، آمدنی کے ذرائع بند ہوگئے، تعلیم متاثر ہوگئی، ایسی حالت میں پھاٹک حبش خان کی ایک مخیر اور بزرگ شخصیت نے مدرسے کا ذمہ اپنے سر لیا اور دامے درمے اس کی مدد فرمائی ۔ وہ شخصیت تھی الحاج محمد زکریا صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ کی، انھوں نے بہت ساری جائداد مدرسے کے نام وقف کردی اور 150 روپیہ ماہوار مدرسے کے لیے مقررکر دیا ۔ مولانا نوشہروی اپنی کتاب “تراجم علماء اہل حدیث “میں رقمطراز ہیں:
” بعد رحلت حضرت میاں صاحب مختلف دور اس مدرسے پر گذرا، آخر میں مدرسے کا نظم و نسق پھاٹک حبش خان کے مخیر بزرگ حاجی محمد زکریا صاحب مہاجر مکی کے ہاتھ میں آیا، آپ نے مبلغ 150 روپیہ ماہوار کی رقم مدرسے کے لیے وقف کر دی، جس سے مدرسہ میں جان پڑ گئی، حاجی صاحب مکہ ہجرت فرماگئے 1354ھ (1935ء) میں انتقال فرمایا اور جنت المعلی میں مدفون ہوئے، ان کے بعد ان کے فرزند اکبر حاجی محمد امین صاحب نے مدرسے کا اہتمام اپنے ذمہ لے لیا، آپ کے حسن انتظام سے مدرسہ روز بروز عروج و کمال کو پہنچ رہا ہے”۔

ایک جگہ حاجی محمد صدیق کراچی والے الحاج محمد زکریا صاحب کا ذکر خیر ان الفاظ میں کیا ہے:
“اس مدرسے کا تمام خرچ حاجی صاحب نے اپنے ذمے لے رکھا تھا اور اس کے لیے ایک بڑی جائداد وقف کی ہوئی تھی ”

اسی طرح تعلیم میں بہتری کے لیے مولانا یونس پرتاب گڑھی کو بطور استاد مدرسے کی زینت بنایا گیا، آپ شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ پرتاب گڑھی کے بھانجے تھے، اپنے ماموں اور حافظ عبداللہ غازیپوری سے جملہ علوم و فنون کو حاصل کر کے مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ میں مدرس ہو ئے پھر ایک سال بعد ہی 1922ء میں مدرسہ میاں صاحب میں تقرر ہوا، آپ کے آنے سے مدرسے کا تعلیمی معیار بلند ہوا، علمی فضا قائم ہوئی اور مدرسے کی رونق بڑھ گئی، آخر تک آپ میاں صاحب کے مسند تدریس پر متمکن رہے اور علم کے موتی بکھیرتے رہے آپ کے علاوہ ڈپٹی سید احمد حسن دہلوی اور مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی رحمہما اللہ نے یہاں پر تدریسی خدمات انجام دیں ،طلبہ کے تعلق سے کوئی تفصیل نہیں ملتی البتہ مولانا عبدالعزیز میمنی، مولانا محمد اسماعیل سلفی گجرنوالا اور مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہم اللہ یہیں کے فیض یافتہ تھے ۔

آزادی سے قبل دہلی میں سب سے قدیم مدرسہ یہی تھا، اب آزادی کے دن قریب آرہے تھے، مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ کی طرح اس کو شخصی مدرسہ نہیں کہا جاسکتا تھا جہاں طلبہ کے لیے بہتر رہائشی و تعلیمی انتظامات ہوں بہرصورت یہ مدرسہ میاں صاحب کی یادگار اور طلبہ کی علمی تشنہ لبی کا حاصل تھا، علم کے حصول کے لیے یہاں بھی بادہ پیمائی کی گئی اور ساغر و مینا توڑے گئے پھر ایک نوائے دلنواز سنی گئی کہ ملک آزاد ہو رہا ہے لیکن یہ خوش کن خبر ایک دلخراش و دلدوز سانحے میں بدل گئی، ملک تقسیم ہوگیا اوراس تقسیم کی بھینٹ کون کون سی چیز چڑھائی گئی بیان سے باہر ہے، دین کے یہ قلعے بھی اسی کی نذر ہوگئے، دلی تو کئی بار اجڑی لیکن اس کا یہ اجڑنا مسلمانوں کی عظمت کو گہنا گیا۔

3
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
2 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
یاسر اسعد

بہت بہترین مضمون، موضوع کے ساتھ الفاظ بھی بہت خوبصورت ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
میاں صاحب کی سن وفات کی بابت کچھ عرض کرنا تھا، 10 رجب 1320 کو آپ نے انتقال کیا، جس کی میلادی تاریخ 13 اکتوبر 1902 بنتی ہے۔ آپ نے 1901 لکھا ہے۔
(ملاحظہ ہو میاں صاحب پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، از مولانا رفیع احمد مدنی، سڈنی ودیگر کتب)
مدت تدریس کی بابت بھی کچھ تحفظات ہیں۔۔۔۔

Mohammad Asim

دبستان نذیریہ میں شیخ تنزیل احمد صدیقی حفظہ اللہ نے ۱۹۰۱ کو راجح قرار دیا ہے، میں نے اسی کا اعتبار کیا ہے

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

درست 13 اکتوبر 1902 ہی ہے۔ خود مجھ سے سہو ہو گیا۔ تنزیل