میں کیا بتاؤں مجھے کیا تری نظر سے ملا

عبدالکریم شاد شعروسخن

میں کیا بتاؤں مجھے کیا تری نظر سے ملا

وہی جو رات کو تابانیِ قمر سے ملا


کرو گے اپنی صفائی میں پیش کیا آخر

تمھارا تیرِ نظر تو مرے جگر سے ملا


کبھی پلٹ کے بھی دیکھا کہ کھو گیا کیا کیا

یہ مانا کچھ تمھیں دنیا کی رہ گزر سے ملا


یہ میرا عکس ہے آئینے! ایک بات بتا

اسے میں ڈھونڈ رہا تھا تجھے کدھر سے ملا


اتارا آنکھ سے چشمہ تو مجھ پہ راز کھلا

گلی گلی جسے ڈھونڈا وہ اپنے گھر سے ملا


نہ جانے کیسے مرے ضبط نے اسے پالا

میں آج اپنے ہی اندر کے جانور سے ملا


ملیں گی دل کی لکیریں وفا کے نقطے پر

ادھر سے میں بھی ملاتا ہوں تو ادھر سے ملا


جب آئی دھوپ تو سایہ ابھر گیا میرا

ہزار شکر کہ میں اپنے ہم سفر سے ملا


مرے وجود کو دنیا نے ڈھا دیا اے شاد!

جہان بھر کا خزانہ مرے کھنڈر سے ملا

آپ کے تبصرے

3000