(سود بھرنا) قرض کے بدلے قرض دار کی زمین سے فائدہ اٹھانے کی شرعی حیثیت

نسیم سعید تیمی فقہیات

ہمارے یہاں لین دین کی ایک صورت یہ ہے کہ اگر کسی زمین والے شخص کو نقدی اور روپے کی ضرورت ہوتی ہے تو کسی کاشت کار کے پاس جاتا ہے، پھر وہ اس کے ساتھ یہ طے کرتا ہے کہ مجھے 50000 پچاس ہزار روپے دیجیے اور اس کے بدلے میری فلاں زمین میں کاشت کیجیے۔ جب تک میں آپ کو یہ رقم واپس نہ کردوں اس کی پیداوار سے فائدہ اٹھائیے۔ چنانچہ یہ کاشت کار اس زمین سے اس وقت تک فائدہ اٹھاتا رہتا ہے جب تک کہ زمین کا مالک اسے وہ رقم واپس نہیں کرتا، اسے ہمارے یہاں سود بھرنا کہا جاتا ہے اور بعض علاقے میں اسے زر پیشگی بھی کہا جاتا ہے۔
یہ سودی لین دین ہے، بے لگام دنیا داری اور مال ودولت سے بے انتہا محبت نے اکثر لوگوں کے دلوں کو سخت بنادیا ہے، محتاجوں اور ضرورت مندوں کے تئیں دلوں میں کوئی نرمی باقی نہیں رہی، سیم وزر کی ہوس نے معاشرے سے قرض حسنہ کے تصور کو دھندلا کردیا ہے، حاجت مندوں کوکوئی قرض دینے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے انھیں مجبوری میں سود پر اپنی ضرورت پوری کرنی پڑتی ہے، سود کی یہ شکل بھی معاشرے کی اسی بے رحمی اور قساوت قلبی کی پیداوار ہے۔
یہ اصل میں قرض ہے؛ کیوں کہ دی ہوئی رقم کی واپسی پر بات طے ہوتی ہے، اور رقم کی واپسی قرض ہی میں ہوتی ہے۔ قرض کی تعریف کرتے ہوئے مرداوی کہتے ہیں:
«ْالقرضُ عِبارَةٌ عن دَفْعِ مالٍ إلى الغيرِ؛ ليَنْتَفِعَ به ويَرُدَّ بدَلَه» الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف ت التركي (12/ 323)،

نیز دیکھیے: شرح حدود ابن عرفة (ص: 297)، المصباح المنير للفیومی (2/ 498)
“قرض یہ ہے کہ کسی کو مال دے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے، پھر اس کا بدل واپس کردے”۔
نیز عقود کی قسموں پر بھی غور کریں تو بھی ثابت ہوگا کہ یہ قرض ہے۔
فقہاء کرام نے من جملہ طور پر عقود کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں:
-عقود معاوضات، اس میں وہ تمام معاملات آتے ہیں جن میں کسی چیز کو مال کے عوض خریدا جاتا ہے جیسے عقد بیع اور عقد اجارہ۔
-عقود تبرعات، اس میں وہ تمام معاملات آتے ہیں جن میں کسی کو کوئی چیز فری میں دی جائے جیسے صدقہ و ہبہ۔
-عقود الارفاق، اس میں وہ معاملات آتے ہیں جن کے ذریعہ کسی پر احسان کیا جاتا ہے جیسے قرض اور عاریہ۔
– عقود توثیقات، اس سے مراد وہ معاملات ہیں جن میں کسی چیز کی ضمانت ہوتی ہے، جیسے رہن۔
-عقود الامانات، اس سے کسی چیز کی حفاظت مقصود ہوتی ہے، جیسے ودیعہ۔ (موسوعة الفقه الإسلامي لمحمد تویجری: 3/ 362)
ان پانچوں اقسام پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ قرض “عقود معاوضات” میں نہیں آئے گا؛ کیوں کہ قرض سے کوئی چیز خریدنا مقصود نہیں ہوتا، نہ ہی تبرعات میں آئے گا؛ کیوں کہ اسے فری میں کسی کے حوالے نہیں کیا جاتا، نہ ہی عقود توثیقات میں آئے گا؛ کیوں کہ اس سے ضمانت مقصود نہیں ہوتی اور نہ ہی عقود امانات میں آئے گا؛ کیوں کہ قرض کی حفاظت مقصود نہیں ہے۔ گویا قرض عقود ارفاق میں آتا ہے اور عقود ارفاق کا مقصد دوسروں پر احسان، بھلائی اور نفع رسانی ہوتا ہے۔
اس مقدمہ سے ان لوگوں کے قول کی بھی قلعی کھل جاتی ہے جو اس معاملہ کو اجارہ بالنقد کہہ کر اسے جائز ٹھہرانے کی ناروا کوشش کرتے ہیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض کی غرض وغایت قرض دار پر صرف احسان کرنا ہوتا ہے، کسی طرح کا دنیاوی فائدہ مقصود نہیں ہوتا۔ لیکن زیر بحث صورت میں قرض کے بدلے منافع حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ قرض خواہ اپنے قرض کے بدلے قرض دار کی زمین سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے جبکہ قرض پر جو بھی منافع لیا جائے وہ سود شمار ہوتا ہے، فقہاء کے یہاں ایک متفقہ اور مجمع علیہ قاعدہ ہے: “کل قرض جر نفعا فہو ربا”
ہر وہ قرض جو منافع کا باعث ہو وہ سود ہے۔ اس قاعدہ پر ابن المنذر نے اجماع نقل کیا ہے۔ (دیکھیے: الإشراف على مذاهب العلماء لابن المنذر 6/ 142، موسوعة القواعد الفقهية لمحمد صدقی8/ 484)
اس معاملہ میں سود کی دونوں قسمیں “ربا الفضل اور ربا النسیئۃ” در آتی ہیں، منافع لینے کی وجہ سے یہ معاملہ قرض سے نکل کر عقد معاوضہ کے باب میں داخل ہوجاتا ہے۔ گویا قرض دینے والے نے طے شدہ رقم کو رقم کے بدلے بیچ دیا، اور رقم ونقدی سودی اور ربوی اموال میں سے ہے۔ سودی اموال کا ضابطہ یہ ہے کہ لین دین مجلس عقد ہی میں ہو، یہاں قرض دینے والے نے تو اسی مجلس میں طے شدہ رقم دے دی۔ لیکن قرض دار یہ رقم ایک مدت کے بعد ادا کرے گا تو یہ ربا النسیئۃ ہے، اور قرض دینے والا قرض کے بدلے قرض خواہ کی زمین سے فائدہ اٹھاتا ہے جو کہ اصل رقم پر زائد ہے یہ ربا الفضل ہے۔
اہل علم نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر قرض دار اور قرض خواہ کے درمیان پہلے سے ہدایے اور تحائف کا تبادلہ نہیں رہا ہے، لیکن قرض لینے کے بعد قرض دار قرض خواہ کو کوئی ہدیہ دیتا ہے تو یہ بھی سود ہے۔ دیکھیے: نيل الأوطار (5/ 275)
صحابی رسول عبد اللہ بن سلام نے ابو بردہ سے کہا: «إِنَّكَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِهَا فَاشٍ، إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ، فَأَهْدَى إِلَيْكَ حِمْلَ تِبْنٍ، أَوْ حِمْلَ شَعِيرٍ، أَوْ حِمْلَ قَتٍّ، فَلاَ تَأْخُذْهُ فَإِنَّهُ رِبًا»۔صحيح البخاري (5/ 38، نمبر: 3814)
کہ تمھارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں اگر تمھارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اور پھر وہ تمھیں بھوسا یا جَو یا گھاس کی ایک گٹھری بھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ بھی سود ہے۔
بعض حضرات زمین کو رہن وگروی قرار دے کر اس معاملہ کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ جس طرح سواری اور دودھ کے جانور گروی میں ہونے کے باوجود اس پر سوار ہونا اور اس کا دودھ پینا جائز ہے اسی طرح اس رہن شدہ زمین میں کاشت کر کے اس کی پیداوار سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ سواری اور دودھ کے جانور سے اتنا ہی فائدہ اٹھانا جائز ہے جتنا اس کے چارہ پانی پر خرچ آتا ہے، خرچہ سے زیادہ دودھ پینا اور سواری کرنا درست نہیں ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ رہن اور گروی میں رکھی ہوئی چیز راہن (قرض دار) کی ملکیت ہوتی ہے، ابن حزم کہتے ہیں: «وملك الشيء المرتهن باق لراهنه بيقين وبإجماع لا خلاف فيه». (المحلى بالآثار 6/ 366)
کہ رہن شدہ چیز کی ملکیت راہن کی ہوتی ہے، یقین اور اجماع کے ساتھ یہ بات ثابت ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
چنانچہ رہن میں مرتہن (جس کے پاس گروی رکھا جائے) کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ دوسرے کے مال میں تصرف کرنا حرام ہے۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ» صحيح مسلم (4/ 1986، نمبر:2564)
کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔
سواری اور دودھ کے جانور سے بھی علی الاطلاق فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کے چارہ پر جتنا خرچ آتا ہے اتنا ہی فائدہ اٹھانا جائز ہے، مثال کے طور پر دودھ کے جانور پر یومیہ 100 روپیہ خرچ آرہا ہے تو 100 روپے کے برابر اس کا دودھ پینا جائز ہے۔ اگر گائے 100 روپے سے زیادہ کا دودھ دیتی ہے تو راہن (گروی رکھنے والا) اس کا حقدار ہے، خرچہ نکال کر جو زائد روپے بچتے ہیں وہ راہن کو دے دے یا قرض کی رقم سے اتنا منہا کر دے، یعنی کم کردے۔ دیکھیں: (المغني لابن قدامة 4/ 288) ،فتح الباري لابن حجر (5/ 144)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الرَّهْنُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ، إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ بِنَفَقَتِهِ، إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ النَّفَقَةُ»۔ صحيح البخاري (3/ 143، نمبر: 2512)
کہ “مرہون” جانور پر خرچ کے عوض سواری کی جاسکتی ہے اور اس دودھ دینے والے “مرہون” جانور کا دودھ پیا جاسکتا ہے اور جو سوار ہوگا اور دودھ پیے گا وہ خرچ ادا کرے گا”۔
حدیث کے لفظ “بنفقتہ” میں “با” عوض کے لیے ہے، نفقہ کے معنی خرچ کے ہیں، یعنی خرچ کے عوض۔ گویا خرچ کے بقدر ہی سواری اور دودھ کے جانور سے استفادہ جائز ہے۔ اگر مطلقا رہن کے جانور سے استفادہ کو جائز قرار دیا جائے تو لفظ “بنفقتہ” مہمل اور بے معنی قرار پائے گا۔
ابراہیم نخعی کہتے ہیں: «ِذَا ارْتَهَنَ شَاةً شَرِبَ الْمُرْتَهِنُ مِنْ لَبَنِهَا بِقَدْرِ ثَمَنِ عَلَفِهَا فَإِنِ اسْتَفْضَلَ مِنَ اللَّبَنِ بَعْدَ ثَمَنِ الْعَلَفِ فَهُوَ رَبًّا»۔ صحيح البخاري (3/ 143)، فتح الباري لابن حجر (5/ 144)، نيل الأوطار (5/ 279)
کہ اگر کوئی بکری گروی میں ہو تو مرتہن اس کے چارے کی قیمت کے بقدر اس کا دودھ پیے گا، اور اگر چارے کی قیمت سے زیادہ دودھ پیے گا تو وہ سود ہے۔
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگر راہن (قرض دار) مرتہن کو گروی والی زمین سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دے دے تو کوئی حرج نہیں؛ کیوں کہ صاحب حق نے اپنے حق میں تصرف کرنے کی اجازت دے دی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قرض دار کا گروی رکھی ہوئی چیز سے قرض خواہ کو استفادہ کرنے کی اجازت دینا عقد رہن کے تقاضے کےخلاف ہے، کیوں کہ قرض کے بدلے کسی بھی طرح کا فائدہ لینا سود ہے،حرام ہے جیسا کہ پچھلے سطور میں گذرا۔
اس سود سے بچنے کے دو طریقے ہیں:
پہلا یہ ہے کہ مرتہن راہن سے گروی رکھی ہوئی زمین میں بٹائی کا معاملہ طے کرلے اور اس کی پیداوار سے اپنا حصہ لیا کرے، اور دوسرا حصہ زمین کے اصل مالک کو دے دیاجائے، یاحصہ دینے کی بجائے اس کے قرض سے اتنی رقم منہا کردے، یعنی کم کردے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ رائج الوقت اس زمین کا جتنا ٹھیکہ ہو سالانہ شرح کے حساب سے اس کے قرض سے منہا کردیا جائے اس طرح قرض کی رقم جب پوری ہوجائے گی تو زمین اصل مالک کو واپس کردی جائے۔
واضح رہے کہ اس زمین کا رائج الوقت جتنا کرایہ اور ٹھیکہ ہے اس سے کم نہ ہو ورنہ یہاں بھی سود داخل ہوجائے گا، اسی طرح بٹائی کا بھی معاملہ ہے، اگر رائج الوقت حصہ سے زمین کے مالک کو کم حصہ دیا جائے تو سود داخل ہوجائے گا، اس لیے رائج الوقت کرایہ اور رائج الوقت حصہ پر معاملہ طے کرنا ضروری ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں گروی رکھی ہوئی زمین سے فائدہ اٹھانے کی جو صورت رائج ہے وہ ناجائز اور حرام ہے، اس صورت کو ہمیں فوری طور پر چھوڑ دینا چاہیے اور اس کی جو جائز صورت ہے اسے اپنانا چاہیے،ض۔ اللہ ہمیں حرام کمائی اور حرام خوری سے بچائے اور حلال کمائی کی توفیق دے۔

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Taimi Wasim Nezam

جزاکم اللہ خیرا، یہ واقعی بہت اہم مسئلہ ہے جو آج ہمارے معاشرے میں رائج ہے، اس کی حقیقت کا انکشاف بہت ضروری تھا، ہمیں اس سے بچنا چاہیے اور قرض حسنہ کو رائج کرنا چاہیے

Nasim Sayed Taimi

جزاكم الله خيرا