ہمارے یہاں خرید وفروخت کی ایک صورت یہ ہےکہ جس کے پاس تالاب ہوتا ہے، وہ اس میں مچھلیاں پالتا ہے، یا بارش اور سیلاب کی وجہ سے اس میں خود ہی مچھلیاں آجاتی ہیں، جب اس میں مچھلیاں بڑی ہوجاتی ہیں تو وہ مچھلیوں کو تالاب میں ہی کسی آدمی سےبیچ دیتا ہے، حالانکہ تالاب میں پانی زیادہ ہونے اور مچھلیاں بڑی تعداد میں ہونے کے سبب کسی کو بھی ان کےصحیح وزن اور تعداد کا علم نہیں ہوتا ہے۔تمام مچھلیوں کے سائز کا بھی علم نہیں ہوتا۔ بعض مچھلیاں بڑی ہوتی ہیں اور بعض چھوٹی ہوتی ہیں۔ جب تک تالاب سے مچھلیاں نکال کر انھیں نہ تولا جائے، صحیح مقدار کا علم نہیں ہوتا۔ مچھلیاں خریدنے والا آدمی انھیں پکڑنے کے لیے کبھی مشین وغیرہ کے ذریعہ تالاب کا پانی نکالتا ہے اور کبھی نیٹ اور جال وغیرہ سے مچھلیاں نکالتا ہے۔ اس معاملے میں بسااوقات مچھلی خریدنے والے کونفع حاصل ہوتا ہے اور بسااوقات وہ نقصان وخسارے کا شکار ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خرید و فروخت کی یہ صورت شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں ؟
تو اس کا جواب – والعلم عند اللہ- یہ ہے کہ خرید وفروخت کا یہ معاملہ شرعا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ بیع کی اس صورت میں مچھلیوں کی صحیح مقدار کا علم نہیں ہوتا ہے، لہذا اس میں غرر اور دھوکہ پایا جاتا ہے اور بیع وشرا اورخرید وفروخت کی صحت اور جواز کے لیے یہ شرط ہے کہ جو چیز فروخت کی جارہی ہو، اس کی مقدار معلوم ہو، مجہول نہ ہو، تاکہ غرر اور دھوکہ سے بچا جا سکے۔ اس مسئلہ میں مچھلیوں کی مقدار معلوم نہیں ہے، مچھلیاں بیچنے والے اور خریدنے والے کسی کو بھی ان کےصحیح مقدار کا علم نہیں ہے۔گویا اس میں غرر اور دھوکہ ہے اور یہ اسلام میں ممنوع ہے۔رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ، وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ» [صحیح مسلم 3/ 1153،حدیث نمبر: 1513]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر پھینک کر بیع کرنے اور دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے ۔
حدیث کا پہلا ٹکڑا بیع الحصاۃ (کنکر پھینک کر بیع کرنا)ہے۔ اس کا ایک معنی بیان کرتے ہوئے ابن حبان فرماتے ہیں:
’’ایک آدمی بکریوں یا جانوروں کے ریوڑ، یا چند غلاموں کے پاس آئے اور بیچنے والے سے کہے کہ میں یہ کنکر پھینک رہا ہوں، ان میں سےجس پر بھی یہ گرےگا میں اسے اتنے اتنے ریٹ میں خرید لوں گا۔“ [صحیح ابن حبان: 11/352،حدیث نمبر: 4977]
اس کا وسیع مفہوم بیان کرتے ہوئے امام نووی رقمطراز ہیں:
”بیچنے والا یہ کہے کہ میں آپ سے وہ کپڑا بیچوں گا جس پر کنکر پھینکوں گا، یا یہ کہے کہ زمین کے اس حصےسے جہاں تک کنکرپہنچےگا وہاں تک کی زمین آپ سے بیچوں گا، یا یہ کہے کہ آپ کو کپڑا لینے ،یا نہ لینے کا اختیار ہے، لیکن جب میں کنکر پھینک دوں تو یہ اختیار ختم ہوجائےگا، یا یہ کہے کہ جب میں اس کپڑے پر کنکر پھینک دوں گا تو گویا اسےمیں نے اتنے ریٹ میں آپ سے بیچ دیا۔“[شرح النووي على مسلم:10/ 156]
یہ زمانۂ جاہلیت کے بیع وشرا کی ایک صورت تھی، اسلام نےاس صورت کو حرام قرار دیا؛ کیوں کہ اس میں غرر اور دھوکہ تھا۔
حدیث کا دوسرا ٹکڑا بیع الغرر ہے، غرر کے معنی دھوکہ اور فریب کے ہیں۔ اس سے مراد ہر وہ بیع ہے جس میں دھوکہ اور فریب پایا جائے۔ حدیث کا پہلا ٹکڑا بیع الحصاۃ بھی اس میں داخل ہے، کیوں کہ اس کی حرمت کا سبب اس کے اندر غرر اور دھوکہ کا پایا جانا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے خصوصی طور پراس لیے ذکر فرمایا ؛کیوں کہ یہ صورت زمانۂ جاہلیت میں رائج تھی۔غرر کی وجہ سےآپ ﷺ نے بیع کی اس صورت سے منع فرمادیا، ساتھ ہی بیع کی ان تمام صورتوں سے بھی منع فرمایاجن میں غرر اور دھوکہ پایا جائے۔
امام نووی شرح مسلم میں(10/ 156)فرماتے ہیں:
((وَأَمَّا النَّهْيُ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ فَهُوَ أَصْلٌ عَظِيمٌ مِنْ أُصُولِ كِتَابِ الْبُيُوعِ وَلِهَذَا قَدَّمَهُ مُسْلِمٌ وَيَدْخُلُ فِيهِ مَسَائِلُ كَثِيرَةٌ غَيْرُ مُنْحَصِرَةٍ كَبَيْعِ الْآبِقِ وَالْمَعْدُومِ وَالْمَجْهُولِ وَمَا لَا يُقْدَرُ عَلَى تَسْلِيمِهِ وَمَا لَمْ يَتِمَّ مِلْكُ الْبَائِعِ عَلَيْهِ وَبَيْعِ السَّمَكِ فِي الْمَاءِ الْكَثِيرِ وَاللَّبَنِ فِي الضَّرْعِ وَبَيْعِ الْحَمْلِ فِي الْبَطْنِ ۔۔۔ وَكُلُّ هَذَا بَيْعُهُ بَاطِلٌ؛ لِأَنَّهُ غَرَرٌ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ))
”جہاں تک بیع غرر سے منع کرنے کی بات ہے تو یہ کتاب البیوع کےاصول وضوابط میں سے ایک بہت بڑا ضابطہ ہے۔ اسی لیے امام مسلم نے اسے پہلے ذکر کیا ہے، اس میں بہت سارے مسائل داخل ہیں جن کو شمار کرنا مشکل ہے؛ جیسے:بھگوڑے غلام کا بیچنا، یا معدوم شئ کابیچنا، یا مجہول چیز کا بیچنا، یاایسی چیز کا بیچنا جسے -خریدنے والے کے-حوالہ کرنا ناممکن ہو، یا ایسی چیز کا بیچنا جس پر فروخت کنندہ کو مکمل ملکیت حاصل نہ ہوئی ہو، یا بہت زیادہ پانی کے اندرموجود مچھلی کا بیچنا، یا دودھ کا تھن میں رہتے ہوئے بیچنا، یاجانور کے پیٹ میں پل رہے بچے کا بیچنا۔۔۔ان تمام چیزوں کی بیع وشرا باطل ہے؛ کیوں کہ یہاں غرر اور دھوکہ ہے ،حالانکہ اس کی کوئی حاجت وضرورت نہیں ہے۔“
مسئلہ ہذا کے سلسلے میں ایک خاص حدیث بھی وارد ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
«لَا تَشْتَرُوا السَّمَكَ فِي الْمَاءِ، فَإِنَّهُ غَرَرٌ»
” پانی میں رہتے ہوئے مچھلی مت خریدو؛ کیوں کہ اس میں غرر اور دھوکہ ہے۔“
اس حدیث کو بعض راویوں نے مرفوعا روایت کیا ہے، یعنی انھوں نے اس حدیث کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی ہے۔
جبکہ بعض راویوں نے اسے عبد اللہ بن مسعود کی طرف منسوب کیا ہے اوران کا قول قرار دیا ہے۔
راجح یہ ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں ہے، بلکہ روایت کے اعتبار سےیہ ابن مسعود کا قول ہے۔
اس حدیث کا مداریزید بن ابی زیاد پر ہے، ان سے صرف محمد بن سماک-میم مشدد-نے مرفوعا روایت کیا ہے، چنانچہ امام احمدمسند (6/ 197، نمبر: 3676) میں بیان کرتے ہیں:
((حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّمَّاكِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَشْتَرُوا السَّمَكَ فِي الْمَاءِ، فَإِنَّهُ غَرَرٌ»))
جبکہ زائدہ بن قدامہ، محمد بن فضیل، سفیان ثوری اور ہشیم بن بشیر نے اسےموقوفا روایت کیا ہے، سند میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے، بلکہ اسےابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا ہے۔
زائدہ بن قدامہ کی روایت طبرانی کی معجم کبیر (9/321، نمبر:9607)میں ہے۔
محمد بن فضیل کی روایت ابن ابی شیبہ کی مصنف (4/ 452، نمبر: 22050)میں ہے۔
سفیان ثوری کی روایت کی طرف بیہقی نےسنن کبیر(5/ 555، نمبر: 10859 )میں اشارہ کیا ہے۔
اور ہشیم بن بشیر کی روایت کی طرف امام احمد نے اشارہ کیا ہے جیسا کہ طبرانی نے معجم كبير (10/ 207) میں عبد اللہ بن احمد کے طریق سے بیان کیا ہے۔
یہ چاروں راوی ثقہ ہیں، لہذا ان کی روایت راجح ہے جو کہ موقوف ہے اور ان کی مخالفت کرنے والے محمد بن سماک کی روایت شاذ، یا منکر ہے، کیوں کہ وہ مختلف فیہ راوی ہیں، ابن حبان نے انھیں ((مستقیم الحدیث)) کہا اور ابن نمیر نے ایک مرتبہ ((صدوق)) کہا اور دوسری مرتبہ:(( لیس بشیء ))کہا ۔ دیکھیں:[الثقات لابن حبان 9/ 32، ميزان الاعتدال 3/ 584]
نیز انھوں نے ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے۔
ائمۂ جرح وتعدیل نے بھی موقوف روایت کو راجح قرار دیاہے، چنانچہ دارقطنی نے علل میں(5/ 275 – 276) کہا:((الموقوف أصح))۔ کہ اس کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے۔
اورابو نعیم حليۃ الأولياء(8/214)میں مرفوع روایت کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ:
”اس کا متن اور سند دونوں غریب ہیں، اسے ہم نے صرف ابن سماک کے طریق سے ہی لکھا ہے۔“
موقوف جو کہ روایت کے اعتبار سے راجح ہے، اس کی سند بھی صحیح نہیں ہے، اس میں دو علتیں ہیں:
پہلی علت:یزید بن ابی زیاد جن پر حدیث کا مدار ہے، ضعیف راوی ہیں۔ دیکھیں: [تقريب التهذيب ص: 601، نمبر: 7717]
دوسری علت: مسیب بن رافع اور ابن مسعود کے درمیان انقطاع ہے۔ چنانچہ بیہقی نے سنن کبیر (5/ 555) میں مرفوعا روایت کرنے کے بعد کہا:
((هكذا روي مرفوعًا، وفيه إرسال بين المسيب وابن مسعود، والصحيح ما رواه هشيم، عن يزيد موقوفًا على عبد الله، ورواه أيضًا سفيان الثوري، عن يزيد موقوفًا على عبد الله أنه كره بيع السمك في الماء))
”اس طرح یہ حدیث مرفوعا روایت کی گئی ہے، اور اس میں مسیب اور ابن مسعود کے درمیان انقطاع ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ عبد اللہ پرموقوف ہے جسے ہشیم نے یزید سے روایت کیا ہے، اسی طرح اسے سفیان ثوری نے بھی یزید کے طریق سے روایت کرتے ہوئے عبد اللہ پر موقوف قرار دیا ہے کہ انھوں نے پانی میں موجودمچھلی بیچنے کو ناپسند کیا ہے۔“
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
اس مسئلہ کی مزید وضاحت کے لیےابن قدامہ -رحمہ اللہ- کا قول نقل کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا، وہ فرماتے ہیں:
((لا يجوز بيعه في الماء إلا أن تجتمع ثلاثة شروط؛
أحدها، أن يكون مملوكا.
الثاني، أن يكون الماء رقيقا، لا يمنع مشاهدته ومعرفته.
الثالث، أن يمكن اصطياده وإمساكه.
فإن اجتمعت هذه الشروط، جاز بيعه؛ لأنه مملوك معلوم مقدور على تسليمه؛ فجاز بيعه، كالموضوع في الطست.
وإن اختل شرط مما ذكرنا، لم يجز بيعه لذلك. وإن اختلت الثلاثة، لم يجز بيعه لثلاث علل. وإن اختل اثنان منها، لم يجز بيعه لعلتين))
”پانی میں مچھلی فروخت کرنا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ اس میں تین شرطیں پائی جائیں:
پہلی شرط:فروخت کرنے والے کی مچھلی پرملکیت ہو۔
دوسری شرط: پانی اتنا صاف شفاف ہو کہ وہ مچھلی کو دیکھنے اور اس کے حجم وسائز کو جاننے میں مانع اور رکاوٹ نہ بنے۔
تیسری شرط:مچھلی کو شکار کرنا اور اسے پکڑنا ممکن ہو۔
یہ شرطیں موجود ہوں تو پانی میں مچھلی فروخت کرنا جائز ہے؛ کیوں کہ اس پرفروخت کرنے والے کی ملکیت ہے،اس کی مقدار وغیرہ معلوم ہے اور فروخت کرنے والا اسےخریدنے والے کے حوالے کرنے پر قادر ہے۔ لہذا اس طرح کی مچھلی بیچنا جائز ہے،گویا یہ طشت وبرتن میں رکھی ہوئی مچھلی کی طرح ہے۔
مذکورہ شرطوں میں سے اگر ایک بھی شرط مفقود ہو تو اس شرط کے مفقود ہونے کی وجہ سےاسے بیچنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر تینوں شرطیں مفقود ہوں، تو تینوں علتوں کی وجہ سے اسے بیچنا جائز نہیں ہوگا اور اگر دو شرطیں نہ پائی جائیں تو دو علتوں کی وجہ سے اسے بیچنا جائز نہیں ہوگا۔ “ [المغني لابن قدامہ:4/ 151-152]
مذکورہ مسئلہ میں ابن قدامہ کے بیان کردہ شرائط میں سےدوسری شرط مفقود ہے؛ کیوں کہ تالاب میں اتنا کثیر پانی ہوتا ہے اور مچھلیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ان کی مقدار اور سائز وغیرہ جاننا ناممکن ہوتا ہے۔
تالاب کی مچھلیاں فروخت کرنے کی جائز صورت یہ ہے کہ مچھلیاں تالاب سے نکا لی جائیں، پھر انھیں بیچا جائے تاکہ بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں غرر اور دھوکہ سے محفوظ ر ہیں اور آپس میں لڑائی جھگڑا،فتنہ وفساد اور عداوت ودشمنی پیدا نہ ہو۔
اس مسئلہ کی مزید تفصیلات کے لیے دیکھیں:الإشراف على مذاهب العلماء لابن المنذر (6/ 20)، الأصل للشيباني (5/ 93)، المبسوط للسرخسي (13/ 11)، المدونة (4/ 472)، الأم للشافعي (7/ 109)، الحاوي الكبير للماوردي (5/ 327)، المجموع شرح المهذب للنووي (9/ 283)، مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله (ص: 279)
آپ کے تبصرے