پنج وقتہ نمازوں کی امامت ایک اہم فریضہ ہے، ہر کوئی اس کا اہل نہیں ہو سکتا، منصب امامت پر فائز ہونے والے کے لیے کچھ شرائط ہیں جن کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے اس لیے کہ یہ شرائط امام کائنات نے متعین کی ہیں، اس کی تفصیل حدیث کی روشنی میں درج ذیل ہے:
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ»)صحیح مسلم:۶۷۳)
ترجمہ: حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے جو ان میں قرآن کریم کا سب سے زیادہ پڑھا ہوا ہو، اگر پڑھنے میں سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرائے جو احادیث کا سب سے زیادہ جانکار ہو، اگر احادیث کے علم میں بھی سب برابر ہوں تو وہ شخص امامت کرائے جس نے سب سے پہلے (مدینہ کی طرف) ہجرت کی، پھر اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو وہ شخص امامت کرائے جو سب سے پہلے مسلمان ہوا ہو،اور کوئی شخص (بلا اجازت) کسی کی جگہ امامت نہ کرائے اور نہ کسی کے گھر میں صاحب خانہ کی بیٹھک پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھے۔“
بیہقی کی صحیح روایت میں اسلام کی جگہ عمر کا ذکر ہے کہ: ’’جو شخص عمر میں سب سے زیادہ ہو۔‘‘(۵۳۱۷)
تشریح: مذکورہ بالا حدیث میں نماز کی امامت کے چند شرائط بیان کی گئی ہیں، سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ ایسا شخص امام بنے جو قرآن کریم کا سب سے زیادہ پڑھنے والا ہو۔
الأقرأ (قرآن کریم کا سب سے زیادہ پڑھنے والا) اس کے متعلق ائمۂ کرام اور علماء عظام کے تین اقوال ہیں:
(۱)الأقرأ (قرآن کریم کی سب سے زیادہ سورتیں یاد کرنے والا)
(۲)الأقرأ (قرآن کریم کی زیادہ بہتر تلاوت کرنے والا)
(۳)الأقرأ (قرآن کریم کے معانی اور مفہوم کو زیادہ سمجھنے والا)
مذکورہ بالا اقوال میں سے تیسرا قول زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ اولین مخاطبین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور میں قراء سے مراد ان صحابۂ کرام کو سمجھا جاتا تھا جو قرآن کریم کے معانی و مفاہیم کے سمجھنے میں مہارت رکھتے تھے، چنانچہ صحابۂ کرام اس چیز کا زیادہ سے زیادہ اہتمام بھی کرتے تھے جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ سورۂ بقرہ کے مکمل معنی و مفہوم اور اس میں موجود احکام و مسائل کو سمجھنے میں دس سال کا وقت لگایا، اسی طرح دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا بھی عمل ہوتا تھا۔
’الأقرأ‘ کے تیسرے مفہوم کو ائمۂ کرام اور علماءِ عظام کی اکثریت نے ترجیح دی ہے، البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے’زیادہ سورتیں یاد رکھنے والا’ پہلے مفہوم کو ترجیح دی ہے۔
مذکورہ تینوں مفہوم کو مدنظر رکھنا بہتر ہے لیکن تیسرے مفہوم کو بہرحال ترجیح دی جائے گی اس لیے کہ حدیث میں امامت کے لیے جو دوسری شرائط بتائی گئی ہیں وہ بھی علم سے متعلق ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اگر قران کریم کا علم رکھنے میں سب برابر ہوں تو وہ شخص امامت کرائے جو احادیث نبویہ کا زیادہ علم رکھنے والا ہو، اگر دوسری شرط میں بھی سارے لوگ برابر ہوں تو وہ شخص امام بنے جو ہجرت کرنے میں سب سے قدیم ہو، اس لیے کہ ہجرت کرنا صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا نہیں ہے بلکہ اللہ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر کے دین کی سربلندی کے لیے اور اس پر مکمل عمل کی غرض سے اپنا شہر اور ملک چھوڑ کر دوسری جگہ آباد ہونا ہے۔ یہ باتیں کہنے سننے میں بڑی آسان لگتی ہیں لیکن اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، امامت کے لیے ہجرت میں قدیم ہونے کی شرط بھی کتاب و سنت کے علم پر دلالت کرتی ہے وہ اس طرح کہ ہجرت جیسا عظیم عمل وہی شخص انجام دے سکتا ہے جسے کتاب و سنت کا گہرا علم ہو، جسے اشاعت دین کی فکر ہو، جسے قرآن و حدیث پر مکمل عمل کرنے کا جذبہ ہو اور جسے قیامت وآخرت کی فکر ہو۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ شخص امام بنے جو اسلام قبول کرنے میں دوسروں پرسبقت کر گیا ہو، بعض روایت میں ہے کہ وہ شخص امام بنے جو عمر میں سب سے بڑا ہو۔
آخر الذکر دونوں شرطیں بھی کتاب و سنت کے علم کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اس لیے کہ جو شخص قبول اسلام کے اعتبار سے جتنا قدیم ہوگا یا عمر میں جتنا بڑا ہوگا اسے دوسروں کے مقابلے میں علم حاصل کرنے کا موقع زیادہ ملا ہوگا ورنہ صرف عمر میں بڑا ہونا یا قبول اسلام میں سبقت کرنے کا کوئی معنی نہ ہوگا۔
مذکورہ بالا حدیث کے ترجمہ و تشریح سے یہ بات خوب واضح ہو جاتی ہے کہ مساجد میں منبر و محراب اور منصب امامت کی ذمہ داری کے لیے ایسے علماءِ کرام کا انتخاب کیا جائے جو لوگوں کی اصلاح کرتے رہیں، لوگوں کی کمیوں اور غلطیوں پر نظر رکھتے ہوئے تنہائی میں حکمت و دانائی کے ساتھ ان کو متنبہ کریں، دینی اور دنیاوی اعتبار سے لوگوں کو کتاب و سنت کی روشنی میں مفید مشورے دیں۔
بعض جگہوں پر امامت کے لیے صرف حافظ قرآن رکھ لیا جاتا ہے اور بسا اوقات کسی بزرگ یا حاجی صاحب کو منصب امامت سونپ دیا جاتا ہے، چنانچہ ایسی جگہوں پر عوام کے درمیان دعوت و تبلیغ کا کوئی کام نہیں ہو پاتا، لوگوں کو اپنے مسائل کا حل کتاب و سنت کی روشنی میں نہیں مل پاتا ہے، علمی ذوق اور سوال و جواب کا سلسلہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے، جمعہ کے دن کسی کتاب سے خطبہ دے کر کام چلا لیا جاتا ہے، چنانچہ ایسی جگہوں پر عوام میں دینی بیداری کم ہونے لگتی ہے، علم دین حاصل کرنے کا شوق مرنے لگتا ہے اور ضرورت پڑنے پر ایسے علاقوں میں اصول دین سے ناواقف لوگ فتوی دینا شروع کر دیتے ہیں۔
آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ مساجد کے متولیان؟ یا علماءِ کرام؟
مذکورہ بالا سوالوں کے جواب آپ کے ذمے کرتے ہوئے ایک دوسری چیز کی طرف آپ سب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ موجودہ دور میں منصب امامت کو بڑی حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور کسی عالم کو کسی مسجد کا امام ہونا اس کی کم علمی کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔
موجودہ دور میں ائمۂ کرام کے بلند حوصلے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ علامہ محمد جونا گڑھی، علامہ مختار احمد ندوی اور علامہ داؤد راز رحمہم اللہ، جیسے کبار اور ذی وقار شخصیات نے ایک لمبی مدت تک امامت کا فریضہ انجام دیا ہے اور علمی، دعوتی و اصلاحی پہلو سے عوام کے لیے جو حقوق تھے منبر و محراب یا نمازوں کے بعد دروس کتاب و سنت کے ذریعے اور تجارتی چھٹیوں کے ایام میں پروگراموں کے ذریعے دینی خدمات انجام دیتے تھے جس کے نتیجے میں لوگ صحیح عقیدہ و منہج پر جمے رہتے تھےاور علماء و صلحاء سے جڑ کر زندگی کے ہرگوشے میں حلال و حرام کے درمیان فرق کرتے تھے اور اپنے تمام تر معاملات میں مساجد کے ائمۂ کرام سے مشورہ کرتے تھے۔
حدیث شریف میں منصب امامت کے لیے جو شرائط بتائی گئی ہیں ان سے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ ائمۂ کرام اپنے اندر علمی گہرائی پیدا کریں اور حالات حاضرہ اور نئے نئے فتنوں کی خطرناکی سے مصلیان کرام اور عوام کو متنبہ کرتے رہیں جبکہ مساجد کے ذمہ داران و متولیان حضرات کو چاہیے کہ شرائط کا خیال رکھتے ہوئے منبر و محراب اور منصب امامت کی ذمہ داری باذوق اور ذی وقار علماءِ کرام کے حوالے کریں اور انھیں وارثین انبیاء سمجھتے ہوئے ان کے علمی و دینی خدمات کی کما حقہ قدر کریں۔
اللہ ہم تمام علماءِ کرام، ذمہ داران اور دینی خدمات انجام دینے والوں کو اتفاق و اتحاد کے ساتھ نیک اعمال انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین تقبل یا رب العالمین
آپ کے تبصرے