۱۹۱۲ -۱۹۹۳
شہر مئو ناتھ بھنجن جو علم وادب کے حوالے سے محتاج تعارف نہیں ہے۔ اس شہر میں فیض قدرت نے جن عظیم شخصیات کو وجود بخشا ہے ان میں مولانا ابو الوفا عظیم اللہ صاحب کا اسم گرامی علمی حلقوں میں بڑے ادب واحترام سے لیا جاتا ہے۔آپ ایک علمی خانوادےسے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے سلسلۂ نسب میں آپ کے علاوہ ہر کوئی حفظ قرآن کی سعادت سے سرفراز ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ بھی حافظہ قرآن تھیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے خاندان کا رجحان علم دین کی طرف کس قدر تھا۔ آپ کا پورا سلسلہ نسب یہ ہے: عظیم اللہ بن حافظ احمد بن حافظ احمد اللہ بن حافظ عبد الرحمن مئوی۔
آپ نے ۱۳۳۱ھ = ۱۹۱۲ء میں اسی مخزن علم وفن میں آنکھیں کھولی۔ دینی ماحول میں آپ کی تربیت ہوئی۔ جب سن شعور کو پہنچے تو رسم ورواج کے مطابق الف، باء کی تعلیم گھر خاندان کے بزرگوں سے حاصل کی۔ قرآن مجید ناظرہ حافظ محمد مئوی سے اور اردو و فارسی مولانا سلیم اللہ صاحب مئوی سے پڑھا۔ باقاعدہ تعلیم کا آغاز ۱۳۳۸ھ میں مشرقی یوپی کی مشہور دانش گاہ جامعہ فیض عام مئو سے ہوا اور یہیں کے اجلہ اساتذۂ علم وفن سے کسب فیض کرکے ۱۳۵۰ھ = ۱۹۳۸ء میں سند فراغت حاصل کی جو سند درس وتدریس کے ساتھ افتاء پر مشتمل تھی۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا ابو الفیاض نور محمد بن محمد بن اسماعیل کوٹھا، قاسم پورہ (متوفی۱۳۵۷ھ) مولانا احمد بن ملا حسام الدین مئوی، صدر مدرس جامعہ فیض عام (متوفی۱۳۶۷ھ) مولانا عبد الرحمن نحوی (۱۳۸۲ھ) مولانا عبد اللہ شائق مئوی (متوفی۱۳۹۴ھ=۱۹۷۴ء) مولانا محمد احمد صاحب ناظم جامعہ فیض عام (۱۴۰۲ھ= ۱۹۸۲ء) – رحمہم اللہ تعالی – جیسے اساطین علم ودانش مشہور ومعروف ہیں۔
جامعہ فیض عام مئو سے فراغت کے بعد علم کی جستجو اور طلب کشاں کشاں مظاہر العلوم سہارن پور لے گئی۔ وہاں آپ نے مولانا محمد زکریا کاندھلوی سے درس حدیث لیا۔ مولانا چونکہ اہل حدیث خانوادے کے ایک فرد تھے اور پوری تعلیم پر اہل حدیثیت کا رنگ غالب تھا جن کے یہاں حدیث کی تدریس وتشریح میں محدثین اور سلف صالحین کے منہج کی دھوم دھام ہے، اس لیے مولانا کاندھلوی سے علمی انداز میں خوب بحث ومناقشہ ہوتا۔ مظاہر العلوم کے دیگر اساتذہ میں مولانا جمیل احمد، مولانا ظہور احمداور مولانا ظریف احمد -رحمہم اللہ – قابل ذکر ہیں۔
فراغت کے بعدآپ نے تدریسی خدمات اپنی مادر علمی جامعہ فیض عام مئو ناتھ بھنجن سے شروع کیااور مختلف علوم وفنون کا درس دیا۔ یہاں آپ سے کسب فیض کرنے والے طلبہ کی تعداد کافی ہے۔ جب فن حدیث میں تدریس درجۂ کمال کو پہنچی تو’ شیخ الحدیث‘ کے اعلی منصب پر فائز ہوئے۔جامعہ عالیہ عربیہ مئو ناتھ بھنجن، جامعہ محمدیہ رائے درگ (آندھراپردیش) دارالعلوم ششہنیاں (بستی) کے علاوہ مالدہ اور جنوبی ہند کے بعض مدارس میں تدریسی خدمات انجام دی۔
جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلو م جو جماعت اہل حدیث کا مرکزی ادارہ ہے اور اپنی سمعت وشہرت میں یکتائے زمانہ ہے۔ اس دانش کدے میں ۲۳ ذی الحجہ ۱۳۸۷ھ مطابق ۲۳ مارچ ۶۸ ۱۹ء بروز شنبہ، آپ کو اراکین جامعہ کی طرف سے ’شیخ الحدیث‘ کے منصب جلیل کے لیے دعوت دی گئی‘ جسے آپ نے برضا ورغبت قبول کرتے ہوئے جماعتی غیرت وحمیت کا ثبوت دیا۔جامعہ میں آپ نے الفوز الکبیر، قصب السکر اور صحیح مسلم کے علاوہ دیگر کتابوں کا درس دیا اور یہاں کی متنوع علمی سرگرمیوں اورمختلف دعوتی نشاطات میں شریک کار رہے۔ مولانا ابو عبیدہ عبد المعید صاحب بنارسی رحمہ اللہ کے بعد تدریسی میدان میں سب سے مقبول اور ہر دل عزیز استاد تھے، لیکن صحت کی ناہمواری کی بنا پر ۲۰ جمادی الآخرہ ۱۳۸۹ھ مطابق ۵اگست ۱۹۶۹ء کو مستعفی ہوکر عازم وطن ہوئے اورجامعہ اثریہ دارالحدیث، مئو ناتھ بھنجن کی مسند تدریس کوچند سال تک زینت بخشی اور یہاں کی سرگرمیوں میں شریک وسہیم ہوئے۔ بعض اسباب کی بنا پر اس جامعہ کو بھی خیر باد کہہ کر وطن سے بہت دورمولانا محمد اقبال صاحب رحمانی رحمہ اللہ کی دعوت پرلبیک کہتے ہوئے ضلع گونڈہ میں لب دریا واقع ایک معروف اور مشہوردینی درس گاہ جامعہ سراج العلوم بونڈیہار تشریف لے گئے۔ یہاں دس سال کے طویل عرصے تک درس وتدریس کے علاوہ ’شیخ الحدیث‘ کے منصب جلیل پر فائز رہے۔علاوہ ازیں شعبہ افتاء سے بھی منسلک رہے۔اس طرح فتوی نویسی کو بھی اپنے معمولات ومصروفیات میں شامل کیا۔یہاں بھی خرابی صحت آپ کی ہم جلیس رہی۔ اسی وجہ سے آپ نے درس وتدریس سے مستعفی ہو کراپنے وطن مئو ناتھ بھنجن کے لیے رخت سفر باندھا اور عمر عزیز کے بقیہ ایام اپنے مولد ومسکن اور اہل وعیال کے مابین گزارا اور کچھ دنوں صاحب فراش رہ کر اپنی جان جانِ آفریں کے حوالہ کردی۔
آپ کا انتقال ۲۰ ربیع الآخر ۱۴۱۴ھ مطابق ۶ اکتوبر ۱۹۹۳ء بروز چہار شنبہ ہوا۔اس طرح علم وعمل کا یہ درخشاں ستارہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
آپ کاتدریسی میدان بہت وسیع ہے اور ایک طویل عرصہ پر مبنی ہے۔ آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے والے مستفیدین کی تعداد غیر محصوراور لا محدود ہے‘ جو ہندوستان جیسے وسیع وعریض ملک کے چپے چپے میں پھیلی ہوئی ہے۔آپ کے تلامذہ کی جو تفصیل ہمارے سامنے آئی ہے ان میں ڈاکٹر مولانا مقتدی حسن صاحب ازہری، حافظ محمد اسماعیل صاحب مئوی،مولانا صفی الرحمن صاحب مبارک پوری، مولانا نور اللہ صاحب سیونی، دکتور محفوظ الرحمن زین اللہ صاحب مدنی، ڈومریا گنج، مولانا شاہد جنید صاحب سلفی صدر جامعہ سلفیہ، بنارس،ادیب عصرمولانا ابو القاسم صاحب فاروقی،مؤرخ جماعت مولانا محمد مستقیم صاحب سلفی، مولانا عبید اللہ طیب صاحب مکی، ڈاکٹر عبد العلی صاحب ازہری،ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب پریوائی،مولانا سہیل احمد صاحب مئوی،مولانا عزیز الرحمن صاحب سلفی اور مولانا عبد الوہاب صاحب حجازی جیسے جہابذہ علم وفن مشہور ہیں ۔
درس وتدریس کے علاوہ آپ کو تصنیف وتالیف سے شغف رہا ہے تاہم تدریسی مشاغل کی وجہ سے اس طرف توجہ کم رہی، پھر بھی آپ نے اردو زبان میں مختلف علوم وفنون پر طبع آزمائی کی ہے۔آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں :
۱- کشف الظلام من روایۃ الأعلام
یہ کتاب ایک د یوبندی عالم مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے رسالہ ’’الأعلام المرفوعۃ فی الطلقات المجموعۃ‘‘ کا شافی وکافی جواب ہے۔ مسئلہ مابہ النزاع تطلیقات ثلاثہ ہے۔ دو سو صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی تصنیف ہے۔ اس کے بعض حصے ’’اخبار اہل حدیث ‘‘ دہلی میں چھپ چکے ہیں۔
۲- العروۃ الوثقی
یہ کتاب شرک وبدعت کی تردید میں لاجواب اور قابل دیدہے۔
۳- نھج الصحابۃ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اعتصام بالکتاب، تمسک بالسنۃ اور ان کے طریقہ استدلال میں بہترین اور قابل مطالعہ تصنیف ہے۔
۴- برہان عظیم
یہ کتاب ۳۲ صفحات پر مشتمل ہے اور فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے ثبوت میں ہے۔
مولانا ابو القاسم صاحب فاروقی کا بیان ہے کہ’’ مولانا ان اساتذہ میں سے تھے جن سے میں بہت زیادہ متاثر تھا۔ حقیقت میں مولانا کوتصنیف سے زیادہ تدریس میں ملکہ تھا۔ دو طرح کا ترجمہ کرتے تھے۔ ایک لفظی اوردوسرا مفہومی۔ لفظی ترجمہ بڑے سلیقے اور تیزی سے کرتے تھے اور ترجمہ کے بعد ان کے چہرے پر ہلکا تبسم اور مسکراہٹ ہوتی تھی‘‘۔
مولانا محمد مستقیم صاحب سلفی آپ کی تدریسی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ماہنامہ محدث (نومبر ۱۹۹۳ء، ص : ۴۴)میں رقم طراز ہیں :
’’ مرحوم ایک صاحب نظر اور باذوق عالم تھے۔ علمی مسائل کے ساتھ ساتھ حالات پر بھی آپ کی نظر تھی۔ شخصیات کے مزاج وافتاد سے خوب واقف تھے۔ پیش آمدہ معاملات میں فیصلہ کن اور صائب رائے دیتے تھے۔ آپ کا تدریسی ملکہ پختہ تھا۔ عبارت کو اس طرح حل فرما دیتے تھے کہ مفہوم ومدعا بالکل واضح ہو جاتا تھا۔ تدریس کی زبان اور اسلوب بڑا شگفتہ ودل نشین تھا، اس لیے طلبہ کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ درس کے دوران علمی لطائف بھی ذکر فرماتے تھے۔ مئو کی علمی ودینی تاریخ کے اہم واقعات بڑی دل چسپی سے بیان فرماتے تھے۔ اگر یہ باتیں قلم بند ہو گئی ہوتیں تو تاریخ کا ایک اہم حصہ محفوظ ہو جاتا۔ آپ علم وفضل کے سمندر تھے۔ سادگی، بے نفسی، شرافت اور خوش خلقی قابل رشک تھی‘’
آپ کے تبصرے