غلہ اور اناج کے عوض زمین کرایہ پر لینے کی شرعی حیثیت

نسیم سعید تیمی فقہیات

ہمارے یہاں کھیتی باڑی کے معاملات میں سے ایک معاملہ “کوت” یا “کوتا” کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ زمین کا مالک اپنی زمین کسان کو متعین اناج کے بدلے متعین مدت تک کے لیے دے دیتا ہے، پھر کسان اس زمین میں طے شدہ مدت تک کاشت کرتا ہے، اسے فقہاء کی اصطلاح میں “ایجار الارض بالطعام”، یا “استئجار الارض بالطعام”، یا “کراء الارض بالطعام” یا “اکتراء الارض بالطعام” کہا جاتا ہے، یعنی اناج اور غلے کے عوض زمین کرایہ پر دینا یا لینا۔
سونا چاندی اور نقدی کے عوض زمین کرایہ پر لینے کے جواز پر اہل علم کے درمیان اجماع قائم ہے، اور اس اجماع کی مخالفت صرف چند اہل علم نے کی ہے جسے “خلاف شاذ” شمار کیا گیا ہے۔ (الإجماع لابن المنذر، ت: فؤاد، ط: المسلم (ص: 105)
اس اجماع کے بعد اہل علم نے طے شدہ غلہ اور اناج کے بدلے زمین کرایہ پر دینے کے سلسلہ میں اختلاف کیا ہے، فقہ کی کتابوں میں اس کے جواز اور عدم جواز کے دو قول ملتے ہیں:
1- غلہ اور اناج کے بدلے زمین کرایہ پر دینا جائز ہے، یہ قول سعید بن جبیر، عکرمہ، ابراہیم نخعی، حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا ہے۔
(دیکھیے: اختلاف الفقهاء لابن جرير ص: 148،والأوسط لابن المنذر – دار الفلاح 11/ 82-83، والإشراف على مذاهب العلماء لابن المنذر 6/ 264، وشرح مختصر الطحاوي للجصاص 3/ 413، والبناية شرح الهداية للعینی 11/ 485)، والأم للشافعي 4/ 15، والحاوي الكبيرللماوردی (7/ 453-455)، والمغني لابن قدامة (5/ 319)، والشرح الكبير على المقنع لشمس الدین المقدسی:ت التركي (14/ 256-258)
2- غلہ اور اناج کے بدلے زمین کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے، یہ قول امام مالک کا ہے۔
(دیکھیے: النوادر والزيادات للقيرواني7/ 153، والمعونة على مذهب عالم المدينة لعبد الوہاب ص: 1139-1140)
معلوم ہوا کہ جمہور اہل علم اس کے جواز کے قائل ہیں، صرف امام مالک نے ناجائز کہا ہے۔

جمہور علماءکی دلیل:
عن ثَابِت بن الضحاک، «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمُزَارَعَةِ، وَأَمَرَ بِالْمُؤَاجَرَةِ، وَقَالَ: «لَا بَأْسَ بِهَا» (صحيح مسلم 3/ 1184، نمبر:1549)
“ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمزارعت (زمین کی پیداوار کی متعین مقدار پر بٹائی) سے منع فرمایا، اور مؤاجرت (کرائے پر دینے) کا حکم دیا اور فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے”۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمین کرایہ پر دینے کا فرمان عام اور مطلق ہے، یہ عموم اور اطلاق اس بات پر دال ہے کہ کسی بھی متعین چیز کے عوض زمین کرایہ پر دینا جائز ہے، خواہ وہ متعین چیز نقدی ہو یا اناج وغلہ ہو۔
عن حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: «سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، فَقَالَ: «لَا بَأْسَ بِهِ، إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ يُؤَاجِرُونَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ، وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ، وَأَشْيَاءَ مِنَ الزَّرْعِ، فَيَهْلِكُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَهْلِكُ هَذَا، فَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إِلَّا هَذَا، فَلِذَلِكَ زُجِرَ عَنْهُ، فَأَمَّا شَيْءٌ مَعْلُومٌ مَضْمُونٌ، فَلَا بَأْسَ بِهِ». (صحيح البخاري (3/ 191،نمبر: 2722،صحيح مسلم (3/ 1183، نمبر: 1547، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں)
“حنظلہ بن قیس انصاری سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا رافع بن خدیج- رضی اللہ عنہ – سے زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں۔ (رہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع فرمانے کی تو اصل بات یہ ہے کہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں لوگ ٹھیکے پر زمین اس شرط پر دیتے تھے کہ پانی کے قریب والی زمین، نالوں کے کناروں پر واقع زمین اور کئی طرح کا (متعین) غلہ ان کا ہوگا۔ اس صورت میں کبھی یہ ہلاک ہو جاتا (نقصان اٹھاتا) اور وہ سلامت رہ جاتا (نفع مند رہتا) اور کبھی یہ سلامت رہ جاتا اور وہ ہلاک ہوجاتا۔ ان دنوں میں لوگوں کے پاس زمین کو ٹھیکے پر دینے کی صرف یہی صورت تھی، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔ رہا ٹھیکے کا وہ معاملہ جو معلوم و متعین اور ضمانت شدہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں”۔
یہ حدیث سونا، چاندی اور نقدی کے بدلے زمین ٹھیکہ پر دنیے کے جواز کی صریح دلیل ہے، اس میں سونا چاندی کا ذکر بطور مثال ہے؛ چوں کہ عام طور پر سامان ان ہی دونوں چیزوں سے خریدا جاتا ہے، اسی لیے سونا چاندی کا ذکر کیا گیا، سونا چاندی کے علاوہ ہر اس چیز کے عوض زمین کرایہ پر دینا جائز ہے جو کسی سامان کی قیمت بن سکتی ہو جیسے گیہوں، چاول، مکئی اور اس طرح کے دوسرے اناج وغلہ جات۔ اس مفہوم کی تائید اس حدیث کا آخری ٹکڑا بھی کررہا ہے، جو کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا قول ہے، وہ یہ ہے (فَأَمَّا شَيْءٌ مَعْلُومٌ مَضْمُونٌ، فَلَا بَأْسَ بِهِ)” رہا ٹھیکے کا وہ معاملہ جو معلوم و متعین اور ضمانت شدہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں”۔ یعنی کسی بھی متعین چیز کے عوض زمین کرایہ پر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
• عقلی دلیل: جس طرح مکان وغیرہ دینار و درہم اور تولے جانے والے یا وزن کیے جانے والے اناج وغلہ جات سے کرایہ پر لینا جائز ہے اسی طرح زمین بھی ان چیزوں سے کرایہ پر لینا جائز ہے۔
مالکیہ کی دلیل:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ المُحَاقَلَةِ، وَالمُزَابَنَةِ» (صحيح البخاري 3/ 75، نمبر: 2187)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔
عن عَطَاءٌ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمُخَابَرَةِ وَالْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ، وَعَنْ بَيْعِ الثَّمَرَةِ حَتَّى تُطْعِمَ، وَلَا تُبَاعُ إِلَّا بِالدَّرَاهِمِ وَالدَّنَانِيرِ، إِلَّا الْعَرَايَا» قَالَ عَطَاءٌ: فَسَّرَ لَنَا جَابِرٌ، قَالَ: ” أَمَّا الْمُخَابَرَةُ: فَالْأَرْضُ الْبَيْضَاءُ، يَدْفَعُهَا الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ فَيُنْفِقُ فِيهَا، ثُمَّ يَأْخُذُ مِنَ الثَّمَرِ، وَزَعَمَ أَنَّ الْمُزَابَنَةَ: بَيْعُ الرُّطَبِ فِي النَّخْلِ بِالتَّمْرِ كَيْلًا، وَالْمُحَاقَلَةُ فِي الزَّرْعِ عَلَى نَحْوِ ذَلِكَ، يَبِيعُ الزَّرْعَ الْقَائِمَ بِالْحَبِّ كَيْلًا » (صحيح مسلم: 3/ 1174، نمبر: 1536)
ترجمہ: “عطاء نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ، محاقلہ، مزابنہ اور کھانے کے قابل ہونے سے پہلے پھلوں کو فروخت کرنے سے منع فرمایا اور (حکم دیا کہ پھلوں اور اجناس کی) صرف درہم و دینار ہی سے بیع کی جائے، سوائے عرایا کے۔ عطاء نے کہا: حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) نے ان الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: مخابرہ سے مراد وہ چٹیل زمین ہے جو ایک آدمی دوسرے کے حوالے کرے تو وہ اس میں خرچ کرے، پھر وہ (زمین دینے والا) اس کی پیداوار میں سے حصہ لے۔ اور ان کا خیال ہے کہ مزابنہ سے مراد کھجور پر لگی ہوئی تازہ کھجور کی خشک کھجور (کی معینہ مقدار) کے عوض بیع ہے اور محاقلہ یہ ہے کہ آدمی کھڑی فصل کو ماپے ہوئے غلے کے عوض بیچ دے”۔
ان دونوں حدیث میں آپﷺ نےمحاقلہ سے منع فرمایا، اہل علم نے محاقلہ کے تین معنی بیان کیے ہیں:
1- کھڑی فصل کو ماپے ہوئے غلے کے عوض بیچنا، یہ معنی راوی حدیث جابر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا، اکثر علماء نے اسی معنی کو اختیار کیا ہے۔
2- اناج کے عوض زمین کو کرایہ پر لینا۔
3- زمین کو اس کی پیداوار کے بعض حصے کے عوض کرایہ پر لینا۔
(دیکھیے: شرح صحيح البخارى لابن بطال 6/ 329، والاستذكار لابن عبد البر7/ 63، ومطالع الأنوار على صحاح الآثار لابن قرقول 2/ 342، فتح الباري لابن حجر 4/ 404،َ وغريب الحديث لابی عبید 1/ 287)
امام مالک نے محاقلہ کے دوسرے معنی کو اختیار کرتے ہوئے اناج کے عوض زمین کرایہ پر لینے کو ناجائز کہا ہے۔
لیکن محاقلہ سے یہ معنی مراد لینا دو ناحیے سے مرجوح ہے:
• راوی حدیث حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے یہ معنی بیان نہیں کیا ہے، حدیث کے معنی ومفہوم کو راوی حدیث دوسروں سے بہتر جانتا ہے؛ کیوں کہ اسے حدیث کے سبب ورود سے واقفیت ہوتی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس ضمن میں حدیث بیان فرمائی ہے اس کا اسے علم ہوتا ہے، نیز صحابی عہد نبوی کے واقعات اور معاملات سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔ اس لیے راوی حدیث کی تفسیر اور اس کے بیان کردہ معنی کو دوسروں کی تفسیر پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے اکثر علماء نے جابر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ بیان کیے گئے معنی کو اختیار کیا ہے۔
• حدیث میں محاقلہ اور مزابنہ کا ذکر ہے، مزابنہ یہ ہے کہ آدمی درخت میں لگے ہوئے پھلوں کو ماپے ہوئے خشک پھلوں کے عوض بیچ دے، تو مزابنہ کا تعلق پھلوں سے ہے اور محاقلہ کا تعلق اناج اور غلہ جات سے ہے، لیکن دونوں کے بیچنے کی صورت ایک جیسی ہے، اس لیے دونوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتھ بیان فرمایا، امام مالک کی تفسیر کے مطابق دونوں کے درمان کوئی مطابقت نہیں رہے گی، اور یہ قرینہ مطابقت راوی حدیث کی تفسیر کی تائید کرتا ہے۔
عن رافع بن خديج رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، أَوْ فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ، وَلَا يُكَارِيهَا بِثُلُثٍ وَلَا بِرُبُعٍ وَلَا بِطَعَامٍ مُسَمًّى» (سنن أبي داود 3/ 260،نمبر: 3395)
ترجمہ: رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماما: جس کے پاس زمین ہو وہ خود کاشت کرے، یا اپنے مسلم بھائی کو کاشت کے لیے دے دے، اور اس کی پیداوار کے ایک تہائی یا چوتھائی حصے یا متعین اناج کے عوض کرایہ پر نہ دے”۔
یہ حدیث صحیح مسلم میں ان الفاظ کے ساتھ ہے: «نَهَانَا أَنْ نُحَاقِلَ بِالْأَرْضِ فَنُكْرِيَهَا عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، وَالطَّعَامِ الْمُسَمَّى» (صحيح مسلم 3/ 1181خ نمبر: 1548)
کہ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو اس کی پیداوار کے ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصے، یا متعین اناج کے عوض کرایہ پر دینے سے منع فرمایا”۔
بظاہر یہ حدیث متعین اناج کے عوض زمین کو کرایہ پر دینے کے عدم جواز کی صریح دلیل ہے، لیکن رافع بن خدیج کی ایک مفصل روایت ہے جس میں کرایہ کی جائز اور ناجائز دونوں صورتوں کا ذکر ہے، چنانچہ اس روایت کو اس مفصل روایت کی ناجائز صورت پر محمول کیا جائے گا۔ وہ مفصل روایت اس طرح ہے: عن حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، فَقَالَ: «لَا بَأْسَ بِهِ، إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ يُؤَاجِرُونَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ، وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ، وَأَشْيَاءَ مِنَ الزَّرْعِ، فَيَهْلِكُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَهْلِكُ هَذَا، فَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إِلَّا هَذَا، فَلِذَلِكَ زُجِرَ عَنْهُ، فَأَمَّا شَيْءٌ مَعْلُومٌ مَضْمُونٌ، فَلَا بَأْسَ بِهِ» (صحيح البخاري (3/ 191،نمبر: 2722،صحيح مسلم (3/ 1183، نمبر: 1547، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں)
“حنظلہ بن قیس انصاری سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں۔ (رہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع فرمانے کی تو اصل بات یہ ہے کہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں لوگ ٹھیکے پر زمین اس شرط پر دیتے تھے کہ پانی کے قریب والی زمین، نالوں کے کناروں پر واقع زمین اور کئی طرح کا (متعین) غلہ ان کا ہوگا۔ اس صورت میں کبھی یہ ہلاک ہو جاتا (نقصان اٹھاتا) اور وہ سلامت رہ جاتا (نفع مند رہتا) اور کبھی یہ سلامت رہ جاتا اور وہ ہلاک ہو جاتا۔ ان دنوں میں لوگوں کے پاس زمین کو ٹھیکے پر دینے کی صرف یہی صورت تھی، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔ رہا ٹھیکے کا وہ معاملہ جو معلوم و متعین اور ضمانت شدہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں”۔
ابن دقیق العید “إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام” (2/ 156) میں اس کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں: “وقد جاءت أحاديث مطلقة في النهي عن كرائها، وهذا مفسر لذلك الإطلاق”۔
کہ کرایہ کی ممانعت میں کچھ مطلق احادیث آئی ہیں، یہ حدیث ان احادیث کے اطلاق کی تقیید اور تفسیر کرتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اناج اور غلہ جات کے عوض زمین کرایہ پر لینے اور دینے کے سلسلہ میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے، جمہور اہل علم نے اسے جائز کہا ہے، یہی قول اقرب الی الصواب ہے؛ کیوں کہ ان کی دلیلیں صحیح اور واضح ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

 

نسیم سعید تیمی کی دیگر تحریریں

آپ کے تبصرے

3000