اتنی جلد بازی بھی اچھی نہیں

راشد خورشید

تحریر: یاسر حارب
ترجمہ: راشد خورشید


میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں بہت جلد باز واقع ہوا تھا۔ گاڑی چلاتا تو برق رفتاری کے ساتھ۔ دوسری گاڑیوں کو اوور ٹیک کرنا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ ریڈیو آن کرتا تو ہر پل چینل ہی تبدیل کرتا رہتا۔ کچھ سنتا تو ختم ہونے سے پہلے ہی اسے بدل دیتا۔ کسی ریستوران کا رخ کرتا تو بنا کسی ایپٹائزر کے سیدھا کھانے پر ہی ٹوٹتا۔ کھانا کھاتا تو شیطانوں کی طرح کہ ابھی ایک لقمہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا ہاتھ میں تیار رکھتا۔ چاۓ یا کافی پیتا تو غٹاغٹ حلق سے اتار دیتا۔ کوئی اخبار اٹھاتا تو صرف سرخیوں کو پڑھ کر ہی سامنے میز پر اچھال دیتا۔ میرے اندر اتنا صبر نہیں تھا کہ بیٹھ کر کسی قصے کہانی کو مکمل سن سکوں۔ اور کتاب…. وہ تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی کتاب اٹھائی ہو اور اول تا آخر پڑھ ڈالی ہو۔

چلیں ایک واقعہ بتاتا ہوں۔ کسی زمانے میں جب میں سرکاری ملازم ہوا کرتا تھا، میری کمپنی میں ایک میٹنگ منعقد کی گئی، جس میں فرانس سے بھی ایک وفد آیا ہوا تھا۔ جب ڈائریکٹر ان کا استقبال کرکے فارغ ہوا تو میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا، اور جلدی جلدی کمپنی کی خدمات اور پالیسیوں سے انھیں آگاہ کرنے لگا۔ کیونکہ میرا ماننا تھا کہ کاروباری میٹنگز کو بنا ایسی فضول باتوں میں وقت ضائع کیے فوراً شروع کردینا چاہیے۔ میٹنگ کے اختتام پر ڈائریکٹر نے مجھے اپنے چیمبر میں طلب کیا اور کہا:
“اس طرح کی میٹنگز میں مہمانوں کا استقبال کرنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ انھیں لگے گا کہ تمھیں صرف ان کے پیسوں میں دلچسپی ہے اور تمھارے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔”
اسی طرح ایک مرتبہ مجھے اٹلی کی ایک کمپنی میں مدعو کیا گیا، جب ڈائریکٹر مجھ سے آنے کے بارے میں پوچھ رہا تھا تو میں نے اٹلی جانے والی ٹرینوں کی پوری لسٹ اس کے سامنے رکھ دی تاکہ جلد از جلد وہاں پہنچ کر میں میٹنگز کے لیے زیادہ تر وقت نکال سکوں۔ ڈائریکٹر میرا مقصد بھانپ گیا اور مسکراتے ہوئے بولا:
“یاسر صاحب! اتنا پریشان مت ہوں۔ آپ کسی بھی وقت آسکتے ہیں۔ ہم جاپانی نہیں اٹلی کے لوگ ہیں، زندگی کا تو انتظار کیا جاسکتا ہے۔ ہم بھی آپ کے منتظر رہیں گے۔”
اتنا کہہ کر اس نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ اور مجھے اپنی وہ ساری گذشتہ حرکتیں ایک ایک کرکے یاد آنے لگیں۔ وہ تیز رفتاری سے گاڑی ڈرائیو کرنا، ہر منٹ پر چینل تبدیل کرنا۔ مجھے اپنا وہ بزی شیڈول یاد آنے لگا جس میں اگر غلطی سے بھی کوئی فارغ وقت نکل آتا تھا تو مجھے شرمندگی سی محسوس ہونے لگتی تھی۔ میں یہ سب کچھ سوچے جارہا تھا اور میری نظر سامنے ان کشتیوں پر تھی جو سینۂ سمندر پر بڑی آسانی کے ساتھ تیرتی چلی جارہی تھیں۔
کشتی سے اتر کر میں ان دکانوں کی جانب چل پڑا جہاں شیشے، پرانے کاغذات اور لکڑی سے بنی قلم وغیرہ بکتے تھے اور ایک اسٹور میں جا گھسا۔ وہ ایک عمر دراز بڑھیا کا تھا، میں نے کچھ سامان خریدے اور بڑھیا کو تھما دیے۔ وہ بڑھیا انھیں پیک کرتی جارہی تھی اور میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے اس شہر کی تاریخ بھی بیان کرتی جا رہی تھی۔ انداز ایسا تھا گویا وہ کوئی معصوم چھوٹی سی بچی ہو۔ مجھے اس کی پرسکونی اور انداز بیان کو دیکھ کر حیرت بھی ہورہی تھی اور مزہ بھی آرہا تھا۔ سامان لے کر میں ایک تنگ کافی ہاؤس کی طرف چلا آیا اور بیگ سے جبران خلیل جبران کی ایک کتاب نکال کر پڑھنے لگا۔ دوران مطالعہ میری نظر ایک مضمون پر پڑی جس کا عنوان یوں تھا “آپ کا مقابلہ خود آپ کے ساتھ ہے”۔ میں وہ مضمون پڑھنے لگا اور جب اس عبارت پر پہنچا تو لمحہ بھر کے لیے ٹھہر سا گیا۔ لکھا تھا:
“روز ازل سے ہی ہمارا مقابلہ خود کے ساتھ ہی رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ ہم دنیا میں جو کچھ بھی اکٹھا کرچکے یا کر رہے ہیں وہ صرف چند ایسے بیج ہیں جنھیں ہم ایسی کھیتی کے لیے تیار کر رہے ہیں جن میں ابھی تک کاشتکاری کی ہی نہیں گئی اور وہ کھیت اور کاشتکار کوئی اور نہیں، ہم خود ہیں۔ اے دوست! تیرا مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ خود تجھی سے ہے، اور یہ عالیشان بنگلے جنھیں تم نے اپنی زندگی میں تعمیر کیا ہے یہ تمھاری اس مضبوط شخصیت کی اساس ہیں جو عنقریب کسی اور کے لیے اساس کا کام دینے والی ہیں۔”

آج میری حالت یہ ہے کہ مجھے اپنی گاڑی کی تفصیلات یاد نہیں، وہ مستقبل کے عزائم ومنصوبے، وہ مقالات، وہ کتابیں جنھیں میں کبھی پورا نہیں پڑھ سکا، دوران ملازمت حاصل شدہ وہ سارے اعزازات، یہاں تک کہ ان کولیگز کے نام جن کے ساتھ میں کام کرچکا ہوں۔ کچھ بھی تو یاد نہیں رہ گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ میری یادوں کی دنیا کا آغاز اسی اسٹور سے ہوا تھا، وہ پہلی آواز جو میرے کانوں سے ٹکرائی تھی وہ اس بڑھیا کی تھی جو بڑے اطمینان و سکون کے ساتھ کہہ رہی تھی: “کوئی بھی فن وقت، سکون اور اطمینان کا محتاج ہوتا ہے”۔

آج جب میں ان خوبصورت شہروں کو یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں جن کا میں نے سفر کیا تھا، وہ بلند و بالا پہاڑ جن کی چوٹیوں پر چڑھ کر میں نے دنیا کے دلفریب مناظر کا مشاہدہ کیا تھا تو صرف مایوسی ہاتھ لگتی ہے…کچھ یاد نہیں آتا… یاد بھی کیونکر آۓ جب میں نے ان حسین لمحات کو جیا ہی نہیں تھا… مجھ پر تو ہمیشہ دوسروں پر سبقت لے جانے کی دھن سوار رہتی تھی، مگر اب پتہ چلا کہ وہاں تو میرے سوا کوئی تھا ہی نہیں… وہ مقابلہ تو میرا خود کے ساتھ تھا۔
یاد رکھیں، زندگی کوئی میدان مقابلہ یا اکھاڑا نہیں، بلکہ یہ وہ وقت ہے جسے ہم روکنے کی استطاعت تو نہیں رکھتے، البتہ اس کا بھرپور فائدہ ضرور اٹھا سکتے ہیں۔
جبران رقمطراز ہیں: “اے میرے باغ کے باہر کھڑے مسافر، تم بھی اپنے آپ میں ایک کمپٹیٹر ہو اور میں بھی، گرچہ اس وقت میں گنجان سایہ دار درختوں کی چھاؤں میں لیٹا ہوا ہوں۔”
میں نے وہیں کافی ہاؤس میں بیٹھ کر ایک تحریر لکھی: “اے جلد باز مسافر، یہ مت بھول کہ تو باغ کے دروازے پر کھڑا ہے اہالیان باغ کو سلام کر رہا ہے… یاد رکھ، اس قدر جلد بازی صرف اسی وقت بہتر ہے جب اپنے کسی عزیز از جان سے ملنے جانا ہو جہاں تاخیر کی صورت میں صدیوں کی جدائی کا خدشہ ہو… سفر سے تو واپسی کبھی نہ کبھی ہو ہی جاتی ہے مگر اپنی ذات سے واپسی ممکن نہیں۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالمتين

ما شاء الله. بہت خوب. يقينا عجلت کسی بھی چیز میں مستحسن نہیں ہے. “في التأني السلامة وفي العجلة الندامة”.آپ نے کسی عزيز أز جان سے ملنے میں عجلت كو مستحسن سمجها ہے. یہی بات نیک أعمال میں عجلت پر بھی لاگو ہوتی ہے کیونکہ محبوب سے ملاقات میں تأخیر کی تلافی کسی اور موقع پر اسی دنیا میں ممکن ہے مگر الله کے میزان میں اگر گناہ كا پلڑا بھاری ہو گیا تو اسکی تلافی کی کوئی شکل نہیں نکل سکے گی. الله ہم سب کو نیک اعمال میں عجلت کی توفیق عطا فرمائے. آمين.

Umarfaruque

ماشاء الله بہت خوب آپ نے بجا فرمایا اللہ آپ کے علم مزید ترقی عطا فرمائے