گوگوئی کون؟

راشد خورشید سیاسیات

این آر سی: رنجن گوگوئی کی جانب سے حکومت ہند کو ایک بیش بہا تحفہ(حصہ دوم)
تحریر: ارشو جون
ترجمہ: راشد خورشید


رنجن گوگوئی کی ولادت 18 نومبر 1954 کو شمالی آسام کے ڈبرو گڈھ ضلع میں ہوئی۔ آپ کا گھرانہ بیک وقت سیاسی، سماجی اور معاشی ہر قسم کی سہولیات سے آراستہ تھا۔ گوگوئی کے ننھیال کا تعلق آہوم (Ahom) نامی شاہی خاندان سے تھا، جنھوں نے تقریبا 600 سال تک آسام پر حکومت کی تھی۔ یہ لوگ نسلاً ہندوستانی نہیں تھے بلکہ کہیں اور سے آکر یہاں بود و باش اختیار کر لی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا آہومی بادشاہ سُکافا نے 1215ء میں ملک چین کی موجودہ ریاست یونن (Yunnan) کے علاقہ مولانگ (Maulang) سے نکل کر تیرہ سال کی در بدری کے بعد آسام آکر اپنی حکومت کی داغ بیل ڈالی تھی۔2018 میں سائنسی تحقیق سے آہومیوں اور آج کی تھائی آبادی کے مابین جنینیاتی تعلق کا ثبوت ملتا ہے۔

گوگوئی کے نانا اور نانی کا تعلق کانگریس پارٹی سے تھا۔ ان کے نانا جوزف چندر بورگوہین آزادی سے قبل آسام کی قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے جبکہ ان کی نانی پدم کماری گوہین مسلسل تین بار(1957، 1962 اور 1967) کانگریس پارٹی کی طرف سے آسام قانون ساز اسمبلی کی رکن (MLA) منتخب کی گئی تھیں۔ انھیں عورتوں میں سب سے پہلی آسام کابینہ کی وزیر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ 1970 کی دہائی کے آغاز میں وہ وزیر کتائی و بنائی اور فلاح عامہ جیسے دیگر عہدوں پر بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکی تھیں۔

گوگوئی کی والدہ شانتی کو سیاست میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ وہ آسام کی ایک مشہور و معروف سماجی کارکن ہیں۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔2000 میں ڈبرو گڑھ ضلع میں انھوں نے سوشیو-ایجوکیشنل ویلفیئر ایسوسی ایشن نامی ایک NGO کی بنیاد ڈالی تاکہ آسام کی پسماندہ عوام کی خدمت کی جاسکے۔ 16 سال کی ہی عمر میں شانتی کی شادی کیشب چندر گوگوئی کے ساتھ کردی گئی۔

کیشب مالدار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب وکیل بھی تھے جو ڈبروگڑھ میں ہی وکالت کرتے تھے۔ انھیں فوجداری (Criminal) اور آبکاری (excise) قانون میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ آسام تحریک شروع ہونے سے ایک سال قبل 1978ء میں جنتا پارٹی کی طرف سے ڈبروگڈھ سے ریاستی انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ مگر چند دنوں بعد ہی وہ کانگریس پارٹی میں شامل ہو گئے۔ 1982 میں جب تحریک زوروں پر تھی، انھیں دو مہینے کے لیے وزیر اعلیٰ بھی بنایا گیا، اس کے بعد گورنر نے اسمبلی کو تحلیل کر دیا اور صدارتی حکم نافذ کردیا گیا۔ تحریک شروع ہونے کے بعد سے یہ تیسری بار تھا جب صدارتی حکم نافذ کیا گیا تھا۔

کیشب چندر ڈبرو گڈھ سے مسلسل کانگریس امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑتے رہے اور کامیاب ہوتے رہے۔ 1996ء میں وہ کانگریس پارٹی کو خیرباد کہہ کر ایک دوسری پارٹی کی طرف سے میدان میں اترے۔ مگر کانگریس پارٹی کے امیدوار سے منہ کی کھانی پڑی۔ اس کے دو سال بعد ہی کیشب کا انتقال ہوگیا۔

گوگوئی کے اہل خانہ کے مطابق، گھر میں زبردست سیاسی اور قانونی ماحول ہونے کے باوجود گوگوئی کو ان دونوں میں ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی۔ اکتوبر کے ابتدائی ایام تھے جب میں گوگوئی کی والدہ کے ساتھ برآمدے میں بیٹھا ہوا تھا، یہ گھر ڈبروگڈھ میں انہی کے والد کے نام سے منسوب سڑک کے سی گوگوئی روڈ (KC Gogoi Path) پر واقع ہے۔ برآمدے میں گوگوئی کی چھوٹی بہن نندتا اور اس کے شوہر نالن ہزارکا بھی موجود تھے۔ 85 سالہ شانتی بڑی روانی سے آسامی زبان میں گفتگو کر رہی تھیں اور نالن اس کا ترجمہ کر رہے تھے۔

”بچپن میں وہ بہت سنجیدہ تھا“ شانتی نے کہا،”اس کے دوست تو تھے پر وہ کسی سے زیادہ ربط ضبط نہیں رکھتا تھا۔ اصولوں کے معاملے میں وہ بہت بے لاگ اور کھرا تھا۔ کھیلتے وقت اگر کوئی کسی اصول کی خلاف ورزی کردیتا تو وہ اس پر بگڑ جاتا تھا، خواہ وہ اس کا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔“

گوگوئی نے ابتدائی تعلیم ڈبروگڑھ کے ڈان باسکو اسکول – جو ان کے گھر سے 20 منٹ کی دوری پر واقع تھا- سے حاصل کی تھی۔ شانتی نے بتایا کہ”وہ ایک کتابی کیڑا تھا“۔ نندتا کو وہ واقعہ یاد آگیا جب گوگوئی نے ہائی اسکول کے ایک ایگزام پیپر میں 80 صفحات لکھ ڈالے تھے اور نگراں امتحان کاپی چیک کرنے آیا تھا کہ آخر اس نے لکھا کیا ہے۔ نندتا نے بتایا، ”اپنے اسکول کی تعلیم اور عملی سرگرمیوں کو لے کر وہ ہمیشہ بہت سنجیدہ رہتے تھے“۔

ہائی اسکول کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے گوگوئی نے گوہاٹی کے کاٹن کالج (Cotton College) میں داخلہ لے لیا۔ وہاں تاریخ کے ایک استاذ اُدے دِتیہ بَھرالی کے ساتھ ان کے کافی گہرے تعلقات ہوگئے۔ بھرالی آسام کے ایک مشہور و معروف تاریخ دان تھے۔ وہ بھی آہوم خاندان کے ہی ایک فرد تھے۔ گوہاٹی کے جنوب، سَرَنیا (Sarania) علاقے میں واقع بھرالی ہاؤس میں بیٹھا ان کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔ باتوں باتوں میں گوگوئی کا ذکر چل پڑا تو انھوں نے شفقت سے بھرپور لہجے میں کہا، ”وہ میرا بہت اچھا شاگرد تھا، مجھ سے ہمیشہ محبت و احترام سے پیش آتا تھا“۔ انھیں کلاس کا وہ پہلا دن یاد آگیا جب گوگوئی نے ان سے چند لائقِ مطالعہ کتب کی طرف رہنمائی کرنے کی درخواست کی تھی۔ بھرالی نے کہا، ”وہ مجھ سے اکثر ملتا رہتا تھا، کم از کم مہینے میں ایک بار تو ضرور، وہ بہت عمدہ اخلاق کا حامل تھا“۔

گوگوئی اور بھرالی کی ملاقات کا یہ سلسلہ کئی برسوں تک جاری رہا۔ پھر 2003ء میں جب گوگوئی کو اپنی والدہ کی ایک کتاب کا رسم اجراء کرنا تھا تو انھوں نے بھرالی کو بھی بطورِ مہمان خصوصی مدعو کیا۔ بھرالی نے مجھے بتایا کہ آسام تحریک کے متعلق ان دونوں کی آپس میں کبھی کوئی گفتگو نہیں ہوئی، پر عین ممکن ہے کہ وہ اس مسئلے پر اپنے استاد کے شائع شدہ مضامین سے متاثر ہوئے ہوں گے۔ یاد رہے کہ 1996 سے 2001 کے درمیان آسام کے کثیر الاشاعت اسومیا روزنامے (Asomiya Pratidin) میں بھرالی کے 70 سے زائد مضامین شائع ہو چکے تھے، جن میں این آر سی (National Register of Citizens) کو اپڈیٹ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔

”میں نے 1996ء میں ایک پراسیس کا آغاز کیا تھا اور بتایا تھا کہ ریاست میں موجود غیر ملکی باشندوں کا ایک ہی حل ہے؛ کہ آسام معاہدے (Assam Accord) کی بنیاد پر تمام آسامی شہریوں کی ایک فہرست مرتب کی جائے“۔ بھرالی نے کہا، ”میرے سارے مضامین میں غیر ملکیوں کے بجائے اصل شہریوں پر ہی ساری توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا گیا تھا… 25مارچ 1971 کو آخری تاریخ مان کر اس سے قبل آئے سبھی لوگوں کو آسامی شہری تسلیم کرکے ان کا الگ رجسٹر تیار کیا جائے، پھر جو باقی بچیں گے وہ لامحالہ غیر ملکی یا وطن عزیز کے دیگر گوشوں سے آئے ہوئے شمار کیے جائیں گے“۔

گوگوئی اپنے استاد بھرالی سے کس درجہ متاثر تھے، اس کی ایک جھلک اس وقت دیکھنے کو ملی جب انھوں نے دہلی کے سینٹ اسٹیفن کالج میں داخلہ لے کر تاریخ کو اپنا موضوع منتخب کیا۔ نندتا نے بتایا، ”وہ آرٹس(Arts) کے ہی طالب علم تھے، سائنس میں انھیں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور ریاضی (Math) سے تو نفرت کرتے تھے۔ ان کی یادداشت بلا کی مضبوط تھی، اعداد و تواریخ کو بخوبی یاد رکھتے تھے… میرے خیال میں وہ ایک Photographic Memory کے مالک شخص تھے۔“

سینٹ سٹیفن کالج میں گوگوئی کے ایک سینئر نیلے دَتّا – جو فی الحال اروناچل پردیش کے ایڈوکیٹ جنرل اور سینئر وکیل بھی ہیں- کہتے ہیں، ”وہ بہت کھرے اور مضبوط قوت ارادی کے حامل شخص تھے، دوسروں کو دیکھ کر اپنا نظریہ کبھی تبدیل نہیں کرتے تھے“۔ دَتّا کے بقول گوگوئی کو سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، نہ ہی کبھی انھوں نے اسٹوڈنٹ پولیٹکس میں حصہ لیا، حتی کہ ایمرجنسی کے دنوں میں بھی نہیں۔ سینٹ اسٹیفن کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد تاریخ میں ماسٹرز کرنے کی غرض سے وہ دہلی یونیورسٹی چلے گئے۔

نندتا نے بتایا، ” علم قانون میں گوگوئی کو کوئی دلچسپی نہیں تھی“۔ ماسٹرز کرنے کے بعد وہ سول سروسز کی تیاری میں مشغول ہوگئے، مگر اپنی مرضی کے موافق جاب نہ ملنے کے باعث اسے بھی ترک کردیا۔ شانتی نے بتایا کہ گوگوئی کا ماننا تھا، ”جو بھی کام کیا جائے اسے پوری جانفشانی اور لگن کے ساتھ کیا جائے“۔ اسی لیے جب سول سروسز میں اپنی مرضی کے موافق عہدہ نہ ملا تو اسی وقت یہ فیصلہ کرلیا کہ اب دوبارہ کبھی اس کے لیے کوشش نہیں کریں گے۔

1970 کی دہائی کے وسط میں تو عجوبہ ہی ہوگیا، گوگوئی نے دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ قانون میں داخلہ لے لیا تھا۔ شانتی نے مجھے اس خط کے بارے میں بتایا جو گوگوئی نے داخلہ کے چند دنوں بعد ہی انھیں لکھا تھا کہ، ”مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ قانون کی تعلیم اس قدر دلچسپ ہوتی ہے…اگر مجھے پہلے سے پتہ ہوتا تو آپ ہی کے ساتھ کام کرتا“۔ دراصل ان کے والدین ڈبروگڈھ میں وکالت کرتے تھے اور یہاں وہ اسی کا تذکرہ کر رہے تھے۔ دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ قانون میں ان کے ساتھ اور بھی طلبہ تھے جو بعد میں جج بنے۔ جیسے، مَدن لوکُر، دیپک گپتا اور روہِنتن ناریمن وغیرہ۔ لوکُر نے تو سینٹ سٹیفن کالج میں تاریخ بھی پڑھی تھی، وہ گوگوئی کے ایک سال جونیئر تھے۔

1978ء میں قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گوگوئی نے گوہاٹی کے ایک مشہور وکیل جے پی بھٹاچاریہ کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا۔ بھٹاچاریہ کو ٹیکس، سروس اور کمپنی جیسے معاملات میں مہارت حاصل تھی۔ وہ ناگالینڈ کے ایڈوکیٹ جنرل بھی رہ چکے تھے، جس کی وجہ سے آسام کے نواح میں واقع پہاڑی علاقوں کے اکثر کیسز انہی کے پاس آتے تھے۔

باوجودیکہ گوگوئی آسام تحریک کے وقت گوہاٹی میں ایک نوجوان وکیل کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، مگر تحریک سے انھوں نے ایک مناسب دوری بنا کر رکھی، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کے والد کانگریس پارٹی میں تھے۔ نندتا نے بتایا کہ ہمارے گھر میں اس مسئلے پر کبھی کوئی گفتگو نہیں ہوتی تھی، کیونکہ والد صاحب ”کانگریسی تھے اور یہ تحریک کانگریس مخالف تھی“۔ انھوں نے کہا کہ والد صاحب بہت کم گو تھے۔ ان کا معمول تھا کہ گھر لوٹنے کے بعد تقریبا نو بجے وہ کھانا کھاتے اور پھر سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلے جاتے، وزیر اعلی بننے کے بعد بھی ان کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا“۔

گوگوئی کی تحریک سے عدم دلچسپی کا سبب، ان کو 1925 کی دہائی سے جاننے والے ایک وکیل نے اس شرط پر بتایا کہ اس کا نام صیغۂ راز میں ہی رکھا جائے، انھوں نے بتایا، ”گوگوئی کو کسی بھی طرح کے سیاسی کام میں کوئی دلچسپی نہیں تھی… وہ عدالت میں تبھی رکتے تھے جب کوئی مقدمہ ہوتا تھا اور جیسے ہی ختم ہوتا وہ گھر چلے جاتے تھے… دراصل کوئی بھی سماجی خدمت کرنے کے لیے ہمت ہونی چاہیے“۔

گوہاٹی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں جگہ گوگوئی کے ساتھ کام کر چکے لوکُر کا بیان ہے، ”ان کے دل میں سماجی انصاف کا کوئی جذبہ تھا ہی نہیں“۔ انھوں نے ایک اور بات بتائی کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ایچ ایل دَتّا نے 2014 میں میری (لوکُر) زیرِ صدارت دو رکنی”سوشل-جسٹس بینچ“ تشکیل کی لیکن ٹی ایس ٹھاکر نے چیف جسٹس بنتے ہی اسے تحلیل کر دیا، پھر جب جے ایس کھیہر (JS Khehar) کا دور آیا تو انھوں نے ”سوشل-جسٹس اینڈ انوائرمینٹ“ نامی بینچ کی تشکیل کی، مگر اس بار گوگوئی نے چیف جسٹس بنتے ہی اسے تحلیل کر دیا۔

میں نے چیف جسٹس گوگوئی کے سرکاری پتے پر ایک ای-میل اور گوہاٹی والے گھر کے پتے پر ایک خط لکھا تھا مگر کہیں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ مجھے ان کے پرسنل ای-میل اور فون نمبر کی بہت تلاش تھی پر نہیں مل سکا۔ سینئر وکیل اور گوگوئی کے بہت قریبی دو دوست پرنب پاٹھک اور ایس این سَرما سے معلوم ہوا کہ فی الحال وہ ای-میل استعمال نہیں کرتے، البتہ فون نمبر ہے مگر دینے کی اجازت نہیں۔ نندتا سے مجھے پتہ چلا کہ وہ نہ اخبار والوں سے بات کرتے ہیں اور نہ ہی اپنا رابطہ نمبر کسی کو دیتے ہیں۔ لوکُر نے بھی یہی بات کہی کہ ان کے پاس گوگوئی کا فون نمبر ہے نہ ہی ای-میل ایڈریس۔ سپریم کورٹ اور گوہاٹی ہائی کورٹ کے دفتر سے پتہ کرنے پر بھی یہی جواب ملا کہ سابق چیف جسٹس نے اپنے پیچھے ایسی کوئی معلومات نہیں چھوڑی ہے جس کے ذریعہ ان سے رابطہ ممکن ہو سکے۔

1980ء کی دہائی میں بھٹّا چاریہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے ان کا شوق پروان چڑھنے لگا۔1991ء میں گوہاٹی ہائی کورٹ میں آزادانہ طور پر وکالت شروع کردی۔ میں نے آسام کے جتنے بھی وکلاء سے ان کے بارے میں بات کی، ایک دو کے علاوہ بقیہ سبھی نے ان کی تعریف کی۔ ایک سینئر وکیل کے این چودھری جو کافی عرصہ سے گوگوئی کو جانتے تھے، انھوں نے بتایا کہ اس مستقبل کے چیف جسٹس کی کوئی خاص پریکٹس نہیں تھی، ”عہدہ برآ ہونے تک ان کے پاس فقط چند آبکاری معاملوں کے سوا کچھ نہیں تھا“۔

چودھری نے گوگوئی پر الزام لگایا کہ انھوں نے اپنے بچپن کے دوست اور رفیق کار اَمِتوا رائے کی تقرری میں اس لیے تاخیر کی کہ کہیں دونوں کا پروموشن ایک ساتھ نہ ہوجائے۔ ”2001ء میں گوگوئی جج بن گئے اور اس کے 17 ماہ بعد 2002 میں رائے کی تقرری عمل میں آئی، جبکہ دونوں کے لیے2000ء میں ایک ساتھ سفارش کی گئی تھی۔ اگر بیک وقت دونوں کے کاغذات پر کارروائی کی گئی ہوتی تو آج رائے گوگوئی کے سینئر ہوتے اور پھر سپریم کورٹ میں پہنچنے کا موقع ان کے ہاتھ سے نکل جاتا۔ ایسی حالت میں رائے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور گوگوئی گوہاٹی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ریٹائر ہوتے“۔

چودھری نے کہا، ”اگر کوئی شخص کسی کے مستقبل کے ساتھ ایسا کھلواڑ کر سکتا ہے تو اندازہ کیجیے کہ وہ کیسی شخصیت کا حامل ہوگا…اپنے بچپن کے دوست کے ساتھ اس طرح کا ناروا سلوک یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ کس قدر گھٹیا انسان ہیں“۔

ہائی کورٹ میں گوگوئی نے چڑچڑے اور بظاہر غصیل مزاج والے قابل ثالثی جج کی شبیہ اختیار کر لی تھی۔

سرما کو گوگوئی کی ایک عادت یاد آگئی کہ اگر کوئی وکیل کورٹ میں پوری تیاری کے ساتھ حاضر نہیں ہوتا تھا تو گوگوئی سینیرٹی اور جونیرٹی کی پروا کیے بغیر جم کر اس کو پھٹکار لگاتے تھے۔ سرما کہتے ہیں کہ ایسا تو کئی بار میرے ساتھ خود ہوچکا ہے۔

غصے کی حالت میں فائلیں اٹھا کر پھینک دینے کی وجہ سے بھی گوگوئی کافی مشہور تھے۔ سرما کہتے ہیں کہ ایک دفعہ گوگوئی کسی مقدمے کی سماعت کر رہے تھے کہ فریق ثانی نے دستاویزات کا ایک بڑا سا گٹھر پیش کر دیا۔ مجھے اور میرے کولیگ کو پتہ تھا کہ اب تو گوگوئی کا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچنے والا ہے، چنانچہ میں نے اور نیلے دتا نے آپس میں شرط لگائی کہ آیا گوگوئی اتنی بھاری بھر کم فائلز کو اٹھا کر پھینک بھی سکیں گے یا نہیں۔

حسب توقع ایسا ہی ہوا، جب گوگوئی کی نظر دستاویزات کے موٹے بنڈل پر پڑی تو آگ بگولہ ہوگئے”اسے ٹرائل کورٹ سمجھ رکھا ہے کیا“… وہ غصے سے دہاڑے…”جاؤ… اسے لیبر کورٹ میں پیش کرو! “ پھر سرما نے گوگوئی کی نقل کرکے دکھایا کہ کس طرح انھوں نے فائلز پھینکنے کی پوری کوشش تو کی پر جب کامیاب نہ ہوسکے تو میز سے نیچے ڈھکیل دیا۔ قصہ سنا کر دتا اور سرما ہنسنے لگے، اور جب شرط والی بات گوگوئی کو پتہ چلی تو وہ بھی اپنی ہنسی نہیں روک پائے۔

گوگوئی نے بطورِ جج ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ کام مکمل اور بہتر ہونا چاہیے اور گوہاٹی ہائی کورٹ میں اسی کی مثال قائم کرکے دوسرے ججوں کے اندر بھی خاطر خواہ تبدیلی لانے کا سبب بنے۔ سرما کہتے ہیں کہ اس وقت جج فائلوں کو اچھی طرح نہیں پڑھتے تھے، نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ہر سماعت کے موقع پر وکیل کو ہی پورا معاملہ انھیں سمجھانا پڑتا تھا۔ مگر گوگوئی کے ساتھ ایسا نہیں تھا، ”انھیں پورے معاملے کی جانکاری ہوتی تھی۔ وہ روزانہ 60 سے 80 معاملات رفع کرتے تھے، چنانچہ جب دیگر ججوں کو ان کی اس عادت کے بارے میں پتہ چلا تو وہ بھی کورٹ میں پوری تیاری کے ساتھ حاضر ہونے لگے“۔

میں نے گوگوئی کے بارے میں ایک اور واقعہ سنا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ گوگوئی کو اپنے کام سے کس حد تک لگاؤ تھا۔ یہ واقعہ اکتوبر 2008 کا ہے جب گوہاٹی میں کچھ سیریل بم بلاسٹ ہوئے تھے، ایک دھماکہ تو ہائی کورٹ سے متصل ضلعی عدالت میں بھی ہوا تھا۔ گوگوئی اس وقت اپنی عدالت میں تھے اور جب ایک وکیل نے آکر انھیں اس بارے میں بتایا تو کہا، ”کوئی بات نہیں… کام جاری رہنا چاہیے“۔ وکیل کہتا ہے کہ واقعتاً ایسا ہی ہوا۔ گوگوئی کی عدالت بدستور جاری رہی۔ پر کچھ دیر بعد، جب معاملہ سنگین صورت اختیار کر گیا اور دیگر ججز بھی اپنی عدالتوں سے اٹھ کر جانے لگے، تب جاکر انھوں نے بھی اپنا کام بند کردیا۔ وکیل نے کہا کہ ”وہ اپنے کام میں کس حد تک مست رہتے تھے… اس کی یہ واضح مثال ہے“۔

ستمبر 2010 تک گوگوئی گوہاٹی ہائی کورٹ میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے، پھر ان کا تبادلہ پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ میں ہوگیا جہاں فروری 2011 سے آئندہ ایک سال تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے۔

1980 کی دہائی سے ہی گوگوئی کو جاننے والے ایک وکیل کے مطابق، گوہاٹی ہائی کورٹ میں کچھ عرصے تک عدالتی تقرریوں میں بھی ان کا اثر و رسوخ تھا۔ ان کے ایک کولیگ ہِرشی کیش رائے کو اکتوبر 2006 میں بھٹاچاریہ جی چیمبر میں جج بنا دیا گیا۔

گوگوئی کے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس بننے کے بعد متعدد متنازع تقرریاں عمل میں آئیں۔ مثلاً، حال ہی میں گوگوئی کے ایک جونیئر جج سومِترا ہزارِکا کو گوہاٹی ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج بنا دیا گیا۔ سُوریہ کانت نامی جج کی بھی تقرری ہوئی جبکہ اس پر کارپوریشن اور ٹیکس چوری جیسے الزامات عائد تھے۔ سَنجیو کھنّا کا بھی تعین کیا گیا، اور کولیجیم کی اس تجویز کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا جس میں دہلی ہائی کورٹ میں ان کے سینئر پَردیپ نندراجوگ اور دِنیش مَہیشوری کی ترقی کی بات کی گئی تھی۔ اسی طرح دِنیش مَہیشوری پر بھی انتظامیہ کے زیرِ اثر کام کرنے کا الزام تھا، پھر بھی انھیں سپریم کورٹ میں جج بنا دیا گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گوگوئی اپنا کام بڑی لگن سے انجام دیتے تھے مگر ساتھ ہی عدالتی کارروائیوں میں شفافیت (transparency)، عوامی فلاح و بہبود کا جذبہ نیز رحمدلی و ہمدردی جیسے دیگر خصائل سے عاری تھے، جو کہ ایک اچھے جج کی صفات ہیں۔ سَنجے ہِیگڑے نے مجھ سے کہا، ”یہ بتا پانا بہت مشکل ہے کہ گوگوئی نے کبھی کسی انفرادی معاملے میں ریاست کے خلاف جاکر کسی فرد کی طرفداری کی ہو“۔

اگر آپ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ سپریم کورٹ میں جج سے لے کر چیف جسٹس بننے تک کی پوری مدت کارکردگی میں صرف جنوری 2018 کی پریس کانفرنس ہی ایسی تھی جہاں ایسا لگا کہ گوگوئی نے اپنے کیرئیر کو داؤ پر لگا کر کوئی موقف اختیار کیا تھا۔

یہ پریس کانفرنس ایک ہائی پروفائل کیس کے سبب منعقد کی گئی تھی جس میں مدعیان کی طرف سے مہاراشٹر اسپیشل سی بی آئی کورٹ کے ایک جج بی ایچ لویا (BH Loya) کی مشتبہ موت کی تحقیق کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 2014 میں جب ان کی موت ہوئی، اس وقت وہ گینگسٹر سہراب الدین شیخ کیس کی شنوائی کر رہے تھے، جس کے قتل کے اصل مجرم موجودہ وزیر داخلہ امت شاہ تھے۔

پریس کانفرنس منعقد کرنے والے چار ججوں میں سے ایک جَسٹی چیلمیشور (Jasti Chelameswar) بھی تھے، جنھوں نے کہا تھا کہ گزشتہ چند مہینوں سے دیکھا جارہا ہے کہ جو حساس معاملے ہوتے ہیں انھیں چند مخصوص ججوں کے ہی سپرد کیا جاتا ہے۔ پریس کانفرنس سے ایک دن قبل چاروں ججوں نے چیف جسٹس سے”ایک خاص درخواست“ کے تحت ملاقات کی۔ لویا عرضیوں پر سماعت کے لیے ارون مشرا – اس وقت ججوں میں دسویں نمبر کے سینیئر جج- کی زیر صدارت ایک دو رکنی بینچ تشکیل دی گئی تھی۔ پریس کانفرنس کے دوران جب ان ججوں سے پوچھا گیا کہ کیا اس خاص درخواست کا تعلق لویا عرضیوں سے تھا – جنھیں مابعد لنچ سماعت کے لیے لسٹ کیا گیا تھا-…؟ تو گوگوئی نے جواب دیا…”جی ہاں!“.

نومبر کے اخیر میں مَیں نے مَدَن لوکُر سے دہلی ان کی آفس میں ملاقات کی۔ لوکُر ان چاروں ججوں میں سے ایک تھے، اور 2018 میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے تھے۔ انھوں نے بھی یہی کہا، ”جب یہ خبر ملی کہ حساس معاملات کو ایک خاص بینچ کے ہی حوالے کیا جارہا ہے تو ہمیں لگا کہ چیف جسٹس دیپک مشرا اپنی ڈیوٹی صحیح طریقے سے نہیں نبھا پا رہے ہیں، چناچہ ہم نے انھیں آگاہ کرنے کے لیے ایک خط لکھا، مگر ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا، پھر صبح جب ہم ان سے ملنے گئے تب بھی ان کا رویہ بہت درشت تھا، چناچہ اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ اب پریس کانفرنس کیے بنا کوئی چارہ نہیں“۔

اس وقت لوکُر نے گوگوئی کے ساتھ رہ کر گرچہ تھوڑی بہت شہرت حاصل کرلی تھی مگر سابق چیف جسٹس (گوگوئی) کے بارے میں ان کا نظریہ بالکل بدل چکا تھا۔ چنانچہ جیسے ہی گوگوئی ریٹائر ہوئے، اس کے تیسرے ہی دن ہندوستان ٹائمز میں ان کا ایک مضمون شائع ہوا، جس میں انھوں نے گوگوئی کے جانشین کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ…” وہ اس عدالت کی گمشدہ ساخت اور وقار کو واپس لائے جسے غلطی سے دنیا کی سب سے طاقتور عدالت تصور کیا جاتا ہے“…لوکُر گرچہ گوگوئی کا نام نہیں ذکر کرتے تھے مگر طنز کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ انھوں نے لکھا، ”حالیہ چند عدالتی اور انتظامی فیصلوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے کچھ ججوں کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ان میں بھی دم ہے“۔

گفتگو کے دوران جب میں نے لوکُر سے اس بارے میں دریافت کیا تو ان کا جواب تھا کہ، ”گزشتہ دو تین برسوں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ حساس معاملات کو چند مخصوص بینچ کے ہی سپرد کیا جاتا رہا ہے…..جس کی ابتدا دیپک مشرا نے ضرور کی تھی مگر گوگوئی نے بھی اسی کی پیروی کی اور اس روایت کو آگے بڑھایا“۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ اب یہ”رواج“ کا روپ اختیار کرتا جارہا ہے… لوکُر نے تسلیم کیا کہ مشرا کے زمانے میں یہ کسی ایک ہی بینچ تک محدود تھا مگر گوگوئی کے ماتحت تو ایسے متعدد جج تھے جنھیں اس قسم کے معاملے سونپے جاتے تھے۔

سپریم کورٹ اور اس کے ججوں کی ناکامیوں کے بارے میں باتیں اس وقت واضح اور زیادہ واضح ہونے لگیں جب سپریم کورٹ کی ایک پرانی ملازمہ نے 19 اپریل 2019 کو ایک عرضی دائر کرکے گوگوئی پر چھیڑ خوانی اور جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا تھا۔ عرضی میں ان دو واقعات کا ذکر تھا جو اکتوبر 2018 میں، گوگوئی کے چیف جسٹس بننے کے چند دنوں بعد ہی رونما ہوئے تھے۔ ملازمہ کا الزام تھا کہ گوگوئی کی جنسی تجاویز کو رد کرنے کی پاداش میں اسے اور اس کے اہل خانہ کو ملازمت سے برخواست کردیا گیا، انھیں گرفتار کرکے پولیس حراست میں رکھا گیا، زد و کوب بھی گیا، الغرض انھیں”مسلسل اذیتوں“ سے دوچار ہونا پڑا۔ عرضی میں ملازمہ نے لکھا تھا، ”میں دعوے کے ساتھ کہتی ہوں کہ چیف جسٹس نے اپنے عہدے اور مرتبے کا غلط استعمال کیا ہے، انھوں نے اپنے اثر و رسوخ کا بیجا استعمال کرکے پولیس کو اپنے زیرِ اثر کرلیا… مجھے اور میرے تمام افراد خانہ کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، انھیں اذیتیں پہنچائی گئیں، صرف اس وجہ سے کہ… میں نے چیف جسٹس کی جنسی دعوت کو ٹھکرا دیا“۔

اگلے روز جب یہ خبر”دی کارواں“ سمیت تین دیگر پبلیکیشنز نے شائع کی، تواس کے چند ہی گھنٹوں بعد سپریم کورٹ نے سنیچر کو ایک خاص اجلاس طلب کرنے کا اعلان شائع کیا۔ اجلاس کو بہت ڈرامائی اور مبہم عنوان دیا گیا تھا؛ ”عدلیہ کی آزادی سے متعلق انتہائی عوامی اہمیت کا مسئلہ“ (In Re:Matter of Great Public Importance Touching upon the Independence of the Judiciary)۔ اس پر بحث و مباحثہ کے لیے گوگوئی نے ارون مشرا اور سَنجیو کھنّا کے ساتھ مل کر ایک بینچ تشکیل دی۔ انصاف کا ایک اصول ہے کہ کسی بھی جج کو اپنے بارے میں فیصلہ دینے کا اختیار نہیں، اور اس بینچ میں اسی اصول کی خوب دھجیاں اڑائی گئیں۔ عدالت سے جاری شدہ ایک نوٹس میں کہا گیا کہ سولیسیٹر جنرل تُشار مہتا کی خصوصی وضاحت پر اس معاملے کو زیرِ غور لیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد سابق چیف جسٹس (گوگوئی) نے خود کی برأت و بے قصوری کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف لگائے گئے سارے الزامات بے بنیاد اور عدالت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کا ایک حصہ ہیں….نیز الٹا مدعی پر ہی فرد جرم عائد کردیا۔ خود پر عائد الزام کے حوالے سے گوگوئی نے کہا، ”معاملہ کافی آگے بڑھ چکا ہے…اب صرف انکار ہی ممکن ہے“۔

اس پوری کارروائی کے دوران جس قدر بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا گیا اس سے دماغ چکرا جاتا ہے۔ اول تو گوگوئی نے خود اپنے معاملے کی شنوائی کی، مزید یہ کہ فریادی کو عدالت کے سامنے اپنی بات پیش کرنے کا موقعہ دیے بغیر ہی اس کے الزامات کی صحت پر سوالیہ نشان لگا دیا! حد تو اس وقت ہوگئی جب دیگر جج بھی خاموش رہ کر اپنی رضامندی کا اظہار کر بیٹھے ! پھر جب اتنا سب کچھ ہوگیا تو عدالت نے فیصلہ میڈیا پر چھوڑ دیا کہ اب وہ ”اپنی صوابدید سے طے کرے کہ کون سی خبر نشر کے لائق ہے۔ کیونکہ اس قسم کے سنسنی خیز الزامات سے نہ صرف عدالتی آزادی کو ٹھیس پہنچتی ہے بلکہ اس کی عزت واحترام پر بھی آنچ آتی ہے“۔

عدالت سے جاری شدہ اس حکم نامے میں سماعت کرنے والے ججوں کی فہرست سے چیف جسٹس کا نام ہی غائب کردیا گیا تھا۔ آخر اس حقیقت کی پردہ پوشی بھی تو ضروری تھی کہ چیف جسٹس اپنے ہی معاملے میں جج کا کردار ادا کررہے تھے۔ لوکُر نے مجھے بتایا، ”کسی بھی فیصلے سے جج کا نام خارج کردینا غلط ہے…اور ایسا کیا جاتا ہے تو اس کے لیے اس جج کی طرف سے کوئی خاص ہدایت دی گئی ہوتی ہے“۔

اس کارروائی کی خوب مذمت کی گئی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم ایڈوکیٹ-آن-ریکارڈ ایسوسی ایشن کی جانب سے اس کے خلاف قراردادیں بھی منظور کی گئیں، اور مطالبہ کیا گیا کہ عدالت اس معاملے کی ”غیرجانبدارانہ اور منصفانہ“ طریقے سے تحقیق کرے تاکہ ایک مثال قائم ہوسکے۔ مگر افسوس! اس مشورے پر عمل کرنے کے بجائے عدالت نے جو رخ اختیار کیا اس سے ایک بار پھر سپریم کورٹ کو شرمندگی اٹھانی پڑی۔

شنوائی کے تین دن بعد سپریم کورٹ نے ایس اے بوبڑے، این وی رامن اور اندرا بنرجی پر مشتمل ایک سہ رکنی بینچ تشکیل دی تاکہ ان الزامات کی تحقیق کی جاسکے۔ مدعیہ نے رامن کی موجودگی پر اعتراض کیا کہ وہ گوگوئی کے قریبی شمار کیے جاتے ہیں، چنانچہ ان کی جگہ اِندو ملہوترا کو شامل کرلیا گیا۔ کمیٹی نے شروع میں ہی مدعیہ کو آگاہ کردیا تھا کہ ان کارروائیوں کا تعلق نہ اس جنسی زیادتی کیس کی تحقیق سے ہے، نہ ہی یہ کوئی شعبہ جاتی کارروائی ہے اور خانگی تو بالکل بھی نہیں۔

مدعیہ کے بقول اسے میڈیا سے بات کرنے یا کوئی وکیل ہائیر (Hire) کرنے سے منع کردیا گیا تھا، اسے نہ حلفیہ بیان کی کوئی کاپی دی گئی اور نہ ہی کارروائی کو ریکارڈ کرنے کی اجازت۔30 اپریل کو اس کا ایک بیان آیا کہ ”ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مجھے اس کمیٹی سے انصاف نہیں ملنے والا… اس لیے میں اب خود کو اس جانچ سے علیحدہ کرتی ہوں“۔ مگر اس کے باوجود کمیٹی نے اپنی تحقیقات جاری رکھیں۔6 مئی کو سپریم کورٹ نے اپنی ویب سائٹ پر ایک اعلان شائع کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ کمیٹی کو ”الزامات میں کوئی صداقت نظر نہیں آئی“اور مدعیہ کو کمیٹی کی رپورٹ کی نقل دینے سے بھی انکار کردیا گیا۔

گوگوئی کے اکثر دوستوں اور کولیگز نے ان پر عائد الزامات کو مسترد کر دیا سوائے چند کے، جن کا ماننا تھا کہ گوگوئی نے معاملے کو رفع دفع کرنے کے لیے جس طریق کار کا انتخاب کیا اس سے الزامات کو مزید تقویت ملتی ہے۔ جس وکیل نے گوگوئی کو گوہاٹی بم دھماکے کی خبر دی تھی، اس کا کہنا ہے، ”ایک تو انھوں نے خود ہی اس پر بحث و مباحثہ کا موقعہ فراہم کیا اور پھر بیوقوفوں کی طرح رد عمل بھی دے بیٹھے… یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی“۔ میں نے جب اس وکیل سے دریافت کیا کہ آیا وہ ان الزامات کی صداقت پر یقین کرتا ہے، تو اس نے کہا، ”یہ تو مجھے نہیں پتہ، البتہ جس طرح معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے“۔ ایسا ہی ردعمل اس وکیل کا بھی تھا جو گوگوئی کو 1980 کی دہائی سے جانتا تھا کہ، ”جس طرح کا برتاؤ اس معاملے کے ساتھ کیا گیا وہ عدالت کے لیے سراسر نامناسب تھا… آپ خود کے معاملے میں کیسے جج بن سکتے ہیں !؟ … کون سا قانون آپ کو اس کی اجازت دیتا ہے !؟… وہ اس سے بہتر حفاظتی طریقہ کار کی حقدار تھی“۔

کمیٹی کو ملازمہ کی رپورٹ خارج کیے ابھی دو ہفتہ ہی گزرا تھا کہ لوکُر نے اس کارروائی پر نقد کرتے ہوئے”دی انڈین ایکسپریس“ میں ایک مضمون لکھا کہ، ”میرے خیال میں 20 اپریل کے واقعے کو جس بھی نظر سے دیکھیں، آپ کو قانونی طرفداری ضرور نظر آئے گی“۔ مضمون کے اخیر میں انھوں نے ایک درخواست کی تھی، ” کیا کمیٹی یا سپریم کورٹ میں ایسا کوئی فرد ہے جو مدد کرنے کے لیے سامنے آئے گا؟“

دوران گفتگو لوکُر نے کہا، ”مجھے ملازمہ کی مدد کیے جانے کی قوی امید تھی“۔ انھوں نے بھی گوگوئی کی اس حرکت پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ”ملزم کو تو اس سے علیحدہ ہی رہنا چاہیے تھا“۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ ایسے معاملات میں کیا کرنا چاہیے تو ان کا جواب تھا، ”اصولاً تو اس بارے میں ہدایات ہونی چاہیے، چونکہ ایسا کچھ ہے نہیں تو مناسب یہ ہے کہ دوسرے نمبر کے سب سے سینئر جج کو کمیٹی کے ججوں کو منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے، بلکہ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر کے سینئر جج ہی ایسے معاملات کی تحقیق کا فریضہ انجام دیں… نیز یہ سب کچھ ایسے طریقے سے انجام دیا جائے کہ مدعی کو آسانی سے اپنی بات پیش کرنے کا موقع مل سکے“۔

مگر افسوس ! سپریم کورٹ اور گوگوئی نے اس کا بالکل پاس و لحاظ نہیں کیا۔ انھوں نے کارروائی کو اس طریقے سے انجام ہی نہیں دیا جس سے سچ تک رسائی ممکن ہوسکے۔ بالآخر جون 2019 کو دہلی پولیس نے مدعیہ کے شوہر اور بہنوئی کی ملازمت پھر سے بحال کردی اور دسمبر میں مدعیہ کو بھی اس کی ملازمت مع تنخواہ گذشتہ واپس مل گئی۔”ہندوستان ٹائمز“ کی رپورٹ کے مطابق پہلے مدعیہ سے حلف نامہ لکھوایا گیا کہ وہ معاملے کو مزید آگے نہیں لے جائے گی، تب کہیں جا کر ”ایک اعلی آفیسر“ نے یقین دہانی کرائی کہ ”سب کچھ پہلے جیسا کردیا جائے گا“۔ مدعیہ کے وکیل وِرِندا گرووَر کا کہنا تھا، ”وہ ملازمہ سچی ثابت ہوئی، ثبوت یہ ہے کہ اس کی پرانی ملازمت وہ بھی پوری تنخواہ کی ادائیگی کے ساتھ پھر سے بحال کردی گئی۔ اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ وہ دعویٰ سچا تھا، نیز یہ بھی یقین ہوگیا کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی تھی اور اسے بڑی چالاکی سے اس جال میں پھنسایا گیا تھا“۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے کے کے بعد سے گوگوئی نے متعدد متضاد فیصلے سنائےجن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

5 اگست 2019 کو امت شاہ نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ حکومت دستور ہند کی دفعہ 370 کو ہٹا رہی ہے جس کی وجہ سے جموں و کشمیر کو اب تک خصوصی ریاست کا درجہ حاصل تھا۔ چونکہ اس کے بعد کشمیری عوام کی جانب سے اس پر سخت رد عمل تو آنا ہی تھا، اسی لیے فوری طور پر پوری ریاست کو غیر معینہ مدت تک کے لیے لاک ڈاؤن کردیا گیا، انٹرنیٹ بند کردیا گیا اور جگہ جگہ مسلح فوجیوں کو تعینات کردیا گیا، پھر اجتماعی طور پر گرفتاری و نظر بندی کا سلسلہ شروع ہوا اور وادی سے ظلم و ستم کی سنسنی خیز خبریں باہر آنے لگیں۔

اسی مہینے سپریم کورٹ میں دو Habeas-corpus کی عرضیاں دائر کی گئیں اور مطالبہ کیا گیا کہ گرفتار کیے گئے افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ گوگوئی کی بینچ ان دونوں عرضیوں پر سماعت کر رہی تھی اور ان کے رسپانس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ انصاف کے اصولوں سے پہلو تہی اختیار کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک اور کیس تھا جب گوگوئی نے 18 دن گزر جانے کے بعد بھی مقدمے کو سماعت کے لیے لسٹ نہیں کیا تھا۔ لوکُر نے مجھ سے کہا، ” Habeas-corpus کی عرضی کو دیگر عرضیوں پر فوقیت دی جانی چاہیے ورنہ یہ بہت غلط بات ہوگی“۔

دونوں عرضیوں کو درج کرنے کے بعد گوگوئی نے مرکزی حکومت کو نہ کوئی نوٹس بھیجا اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا ان قیدیوں کو سچ مچ غیر قانونی طور پر زیرِ حراست لیا گیا ہے؟… اس بارے میں بھی لوکُر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا، ”اگر کسی کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیے جانے کا الزام ہے تو عدالت کو نوٹس جاری کرنا چاہیے“۔ مگر یہاں تو گوگوئی نے ان مقدمات کو حل کرنے میں بےشمار قانونی اصولوں کی دھجیاں اڑائیں۔ انھوں نے مدعیان سے کہا کہ وہ کشمیر جاکر اپنے قیدیوں سے مل کر آئیں۔ جبکہ لوکُر کہتے ہیں، ”سپریم کورٹ کے قوانین 2013 کی رو سے قیدی کو خود عدالت میں حاضر کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ گوگوئی نے مدعیان سے یہ بھی کہا کہ کشمیر سے لوٹنے کے بعد انھیں اپنے سفر کے متعلق ایک حلف نامہ بھی عدالت میں پیش کرنا ہوگا۔ لوکُر کہتے ہیں کہ ”مجھے نہیں معلوم کہ آخر کس قانون کے تحت یہ سب کیا گیا“۔

گوگوئی کا یہ غیر واضح اور مشکوک انداز کشمیر کی صرف انہی دو Habeas-corpus petitions پر نہیں تھا بلکہ جب اوائل ستمبر میں جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے سپریم کورٹ سے یہ درخواست کی کہ انھیں اپنی والدہ سے – جنھیں لاک ڈاؤن شروع ہوتے ہی زیرِ حراست لے لیا گیا تھا- ملاقات کرنے نیز سری نگر جانے کی اجازت دے دی جائے، تو گوگوئی نے اس شرط پر اجازت دی کہ مقامی حکومت بھی اس پر راضی ہو۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دوران سماعت عدالت ہی میں وہ التجا سے پوچھ بیٹھے کہ ”تم سری نگر کیوں جانا چاہتی ہو؟ وہاں تو بہت سردی ہوگی“۔

10 اگست کو ”کشمیر ٹائمز“ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھاسِن نے عدالت میں ایک رٹ دائر کرکے ریاست میں مواصلات پر عائد پابندیوں کو چیلنج کیا۔ تقریباً ایک مہینے بعد 5 ستمبر کو جاکر اس پر سماعت عمل میں آئی۔ پھر یکم اکتوبر کو اگلی تاریخ مقرر کرکے گوگوئی نے اسے این وی رَمَن، سُبھاش ریڈّی اور بھوشن گَوَئی کی بینچ کے حوالے کردیا۔ پورے پانچ مہینے گزر جانے کے بعد امسال جنوری میں فیصلہ آیا کہ اس طرح غیر معینہ مدت تک کے لیے کشمیر میں انٹرنیٹ بند کرنا قابل مذمت عمل ہے مگر اسے ہٹانے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔

گوگوئی کے عجیب و غریب فیصلوں میں سے ایک فیصلہ وہ بھی تھا جب انھوں نے کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد کو سری نگر اس شرط پر جانے کی اجازت دی کہ وہ اپنے سفر کے دوران ” نہ کسی سیاسی ریلی میں شرکت کریں گے اور نہ ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے“۔ حکم نامے کے مطابق تو آزاد نے ”اپنی مرضی سے“یہ شرائط آفر کی تھیں۔ وہ الگ سوال ہے کہ ”سیاسی سرگرمی“سے ان کی منشا کیا تھی۔ نیز یہ ساری پابندیاں کیوں ضروری تھیں، اس کی بھی وضاحت نہیں کی گئی۔ ایک بات اور کہی گئی تھی کہ ”یہ سفر صرف یہ اندازہ لگانے کے لیے ہوگا کہ موجودہ حالت کا دہاڑی مزدوروں کی زندگیوں پر کتنا اثر پڑا ہے“۔

ایک معروف ماہر حقوقِ اطفال اِناکشی گنگولی نے ستمبر میں جموں و کشمیر میں نابالغ بچوں کی گرفتاری پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک عرضی دائر کی تھی۔ مگر پھر سے وہی ہوا کہ اس پر فوری طور پر کوئی کارروائی کرنے کے بجائے گوگوئی کی بینچ ٹال مٹول کرنے لگی۔ پہلے تو انھوں نے عرضی گزار سے کہا کہ اس کے لیے وہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے رجوع کرے۔ مگر جب وکیل نے بتایا کہ ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں وہاں کی ہائی کورٹ سے رابطہ ہو پانا بہت مشکل ہے، تب گوگوئی نے کہا، ”یہ تو بہت نازک مسئلہ ہے کہ وہاں کی ہائی کورٹ سے رابطہ کرنے میں دقت پیش آرہی ہے… میں خود سری نگر جاؤں گا“۔ اس کے بعد گوگوئی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے نام ایک حکم نامہ جاری کرکے سبب دریافت کیا کہ آخر وہاں کی عدالت تک رسائی حاصل کرنے میں اتنی دقت کیوں پیش آرہی ہے۔ ساتھ ہی عرضی گزار کو دھمکی بھی دی، ”اگر جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی رپورٹ اس کے برعکس نکلی تو انجام بھگتنے کے لیے تیار رہنا“۔

یہ بات تو بالکل عقل سے پرے ہے کہ گوگوئی نے عرضی پر پہلی فرصت میں سماعت کرنے کے بجائے عرضی گزار کو دھمکی کیوں دی…جبکہ لوکُر نے تو مجھے بتایا کہ ”دفعہ 32 کے تحت کوئی بھی شخص سپریم کورٹ میں حاضر ہوکر اپنی شکایت بیان کرسکتا ہے… یہ اس کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے….عدالت کو اس پر کارروائی کرنی چاہیے بجائے اس کہ وہ عرضی گزار کو پہلے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا مشورہ دے۔ الا یہ کہ کوئی معاملہ بہت ہی سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہو“۔

آخرکار یہ معاملہ بھی اسی بینچ کے حوالے کردیا گیا جس نے بھاسِن کی عرضی پر سماعت کی تھی۔ مگر دسمبر میں عدالت نے ایک چار رکنی بینچ کی رپورٹ کا حوالہ دے کر عرضی خارج کردی اور کہا کہ ریاست میں تو نابالغ بچوں کی گرفتاری کا کوئی کیس سامنے ہی نہیں آیا، البتہ میڈیا کے مطابق چند بچوں کو زیرِ حراست لیے جانے کی خبر ہے۔ لہذا ”اگر غیر قانونی طور پر کسی کو زیرِ حراست رکھے جانے کا معاملہ ہے تو آپ کو اپنی شکایت کے حل کے لیے مناسب قانونی فورم کے استعمال کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے“۔

حکومت نے کشمیر میں جو کچھ کیا اس کی آئینی حیثیت کو لے کر سماعت تو اب بھی جاری ہے مگر سپریم کورٹ کے رویے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یا تو اسے کوئی فکر ہی نہیں یا پھر وہ معاملے کی نزاکت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ بسا اوقات تو ایسا بھی لگتا ہے کہ سپریم کورٹ بھی کشمیر میں یہی صورت حال بنائے رکھنے میں حکومت کا ساتھ دے رہی ہے۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے تو کشمیر سے دفعہ 370 کا ہٹانا اس کے لیے ایک عظیم الشان سیاسی فتح اور ہندتوا ایجنڈے کے ایک جزو کی تکمیل تھی جس کا پورا کریڈٹ سپریم کورٹ کے سر جاتا ہے۔

بی جے پی اور سنگھ کا اگلا نشانہ تھا… بابری مسجد… جسے ہندتوا شرپسندوں نے تین دہائی قبل منہدم کرکے وہاں رام مندر بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ گوگوئی نے اگست سے روزانہ اس پر شنوائی کرنی شروع کی، اس دوران کشمیر سے متعلق عرضیوں کو یہ کہہ کر دوسری بینچ کے حوالے کردیا کہ وہ ابھی بابری مسجد مسئلہ میں مشغول ہیں، چناچہ نومبر کے شروع میں رام مندر کے حق میں فیصلہ آیا اور اس طرح بی جے پی کو ایک اور فتح نصیب ہوئی۔

کہا جاتا ہے کہ عدالت کو بخوبی معلوم تھا کہ متنازع مقام پر رام مورتی کی تنصیب اور بابری مسجد کا انہدام دونوں غیر قانونی طور پر انجام دیا گیا تھا، جس کا اعتراف بھی بعد میں کیا گیا، مگر اس کے باوجود عدالت نے جب فیصلہ رام مندر کے حق میں سنایا اور سنی وقف بورڈ کو بابری مسجد کے عوض ایودھیا میں کسی جگہ پانچ ایکڑ زمین بطور معاوضہ دینے کی بات کی تو لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اس کے چند دنوں بعد روزنامہ”دی ہندو“ میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں سُہرِتھ پَرتھا سارتھی اور گَوتم بھاٹیا نے سوال اٹھایا تھا کہ ”آخر اس کا علاج کیا ہے؟ مسلم فریق کو معاوضے میں کسی جگہ زمین دے دینا یا پھر دوسرے انداز میں یہ کہنا کہ تم برابر ہو پر ہم سے علیحدہ ہی رہو؟“

آپ کے تبصرے

3000