صدارتی نظام حکومت ہی ایک فعال جمہوریت کو یقینی بنا سکتا ہے

راشد خورشید سیاسیات

تحریر: ششی تھرور
ترجمہ: راشد خورشید


وطن عزیز نے حال ہی میں کرناٹک، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں شرمناک سیاسی کارستانیوں، نیز طاقت اور دولت کی ہوس میں اراکین اسمبلی کی سودے بازیوں کا جو مشاہدہ کیا ہے اور جس طرح بر سر اقتدار مالدار حکومت نے موقع پرستی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہے، وہ یقیناً نہایت افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔ مگر ہمیں ان سے آگے بڑھ کر اس بنیادی پرابلم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو ان سب کی جڑ ہے؛ یعنی یہ سسٹم، جس کی وجہ سے ایسے گھناؤنے کاموں کی انجام دہی ممکن ہوپاتی ہے۔ انگریزوں سے اخذ کردہ ہمارا یہ پارلیمانی نظام اب ہندوستان میں ناکام ہوچکا ہے اور وہ وقت آگیا ہے کہ اس کی تبدیلی کا مطالبہ کیا جائے۔
حقائق واضح ہیں: ہمارے پارلیمانی نظام نے وسیع پیمانے پر نا اہل قانون سازوں کی ایسی کھیپ تیار کی ہے، جو صرف اس وجہ سے الیکشن لڑتے ہیں تاکہ انتظامی اختیارات کا استعمال کرسکیں۔ اس نے قانون سازوں کی ایک غیر مستحکم اکثریت پر منحصر حکومتیں تشکیل دی ہیں، جس کے باعث انھیں پالیسی یا پرفارمنس سے زیادہ توجہ اپنی سیاست چمکانے پر مرکوز کرنی پڑتی ہے۔ اس نے رائے دہندگان کے ووٹ دینے کی ترجیحات کو مسخ کردیا ہے، جو انفرادی طور پر تو کسی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ وہ شخص جس پارٹی کا ہو وہ بھی انھیں پسند ہی ہو۔ اس نظام کے باعث ایسی پارٹیاں معرض وجود میں آئی ہیں جو اپنے منظم پلان اور منصوبوں کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے اتحاد کو تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ اس نے حکومتوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ حکومت کرنے سے زیادہ حکومت برقرار رکھنے پر توجہ دیں اور اپنی اتحادی پارٹیوں کے زیادہ سے زیادہ شوق پورے کریں۔ الغرض، پارلیمانی نظام ہمارے یہاں سرے سے ناکام ہوچکا ہے۔
تکثیری جمہوریت ہندوستان کی سب سے عظیم طاقت ہے، مگر اسی کا موجودہ طریقۂ کار ہماری بڑی کمزوریوں کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ تجویز کرنا ہندوستان میں سیاسی بے حرمتی کے مترادف ہے۔ میں نے اس مسئلے پر کئی سیاستدانوں سے گفتگو کی، مگر ان میں سے بمشکل چند ہی ایسے مل سکے جو تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ وہ موجودہ نظام کو چلانا جانتے ہیں اور انھیں اس کی عادت ہوگئی ہے تو اسے بدلنا نہیں چاہتے۔
نیز برطانیہ – ایک چھوٹا سا جزیرہ جس کا ہر حلقۂ انتخاب ایک لاکھ سے بھی کم ووٹرز پر مشتمل ہے- کا ایجاد کردہ یہ پارلیمانی نظام ایسی روایات پر مبنی ہے جن کا ہمارے یہاں سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ وہاں باقاعدہ سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں اور ہر ایک کے اپنے منصوبے اور پرفارمنس ہوتے ہیں جو انھیں دوسری پارٹیوں سے ممتاز کرتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں تو ایک پارٹی اکثر و بیشتر محض ایک سہولت کا نام ہوتی ہے جسے سیاستدان کسی بالی ووڈ فلم اسٹار کے کاسٹیوم تبدیل کرنے کی مانند جب دل کرتا ہے بدلتے رہتے ہیں۔ پارٹیاں بدلنا – جو دیگر پارلیمانی جمہوریتوں کے سیاسی نظام میں ہلچل مچا دے گا- تو ہندوستان میں ایک عام اور معمولی سی بات ہوگئی ہے۔
ایک حقیقی پارٹی سسٹم کی عدم موجودگی میں ووٹر پارٹیوں کے مابین نہیں بلکہ افراد کے درمیان، عموماً ان کی ذات، شہرت اور دیگر انفرادی خصوصیات کی بنیاد پر انتخاب کرتا ہے۔ مگر چونکہ اس فرد واحد کو اس وجہ سے منتخب کیا جاتا ہے تاکہ وہ حکومت قائم کرنے والی اکثریت کا حصہ بن سکے، اس لیے پارٹی سے انتساب ضروری ہوتا ہے۔ چنانچہ رائے دہندگان سے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ بطورِ وزیراعظم نریندر مودی کو یا بطورِ وزیر اعلی ممتا برجی یا جگن ریڈی کو دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے علاوہ انھیں کسی دوسرے شخص کو رکن پارلیمنٹ یا اسمبلی کی حیثیت سے ووٹ دینا ہوگا، تب کہیں جاکر بالواسطہ ان کی خواہش کی تکمیل ہوسکے گی۔ ایسی پرورسٹی صرف انگریزوں ہی کی ایجاد ہوسکتی تھی کہ – مقننہ کو ووٹ دینا، مگر قانون سازی کے لیے نہیں بلکہ انتظامیہ کی تشکیل کے لیے۔
یہ حقیقت کہ پارلیمنٹ میں داخلے کا بنیادی سبب سرکاری عہدے کا حصول ہوتا ہے، اس سے چار خاص پرابلم پیدا ہوتے ہیں: اول، اس کی وجہ سے انتظامی عہدے انہی افراد تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں جو صلاحیت اور قابلیت کے لحاظ سے نہیں بلکہ عمر کے اعتبار سے اہل ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنی مرضی سے کابینہ کے لیے وزراء کا تعین نہیں کرسکتا؛ بلکہ اسے مختلف پارٹیوں کے نیتاؤں کی خواہشات کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔ (البتہ وہ راجیہ سبھا کے ذریعہ چند اراکین کو ضرور منتخب کرسکتا ہے، مگر ہمارا یہ ایوان بالا بھی عموماً کل وقتی سیاستدانوں سے بھرا پڑا ہے، جس کے باعث وہاں باصلاحیت افراد کی تعداد غیر معمولی طور پر کم ہے۔)
دوم، اس سے ارتداد اور سودے بازی کی ترغیب ملتی ہے۔ چنانچہ اسی کو ختم کرنے کے لیے 1985 میں اینٹی ڈیفکشن ایکٹ منظور کیا گیا، مگر موجودہ حالات میں وہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے، کیونکہ حکومت کا تختہ پلٹنے کے لیے اب اس کے زیادہ سے زیادہ اراکین اسمبلی کو استعفیٰ دلایا جاتا ہے، اس بھروسے پر کہ مابعد بائی-الیکشن میں کامیابی حاصل ہونے پر انھیں دوبارہ عہدوں سے نوازا جائے گا۔
سوم، قانون سازی کی مشکلات۔ اکثر و بیشتر قوانین انتظامیہ – عملاً بیوروکریسی- ہی کے ذریعہ ڈرافٹ کیے جاتے ہیں اور ان کے بنانے اور منظور کرنے میں پارلیمنٹ کا عمل دخل آٹے میں نمک کے برابر ہوتا ہے، اکثر قوانین تو چند منٹ کے بحث و مباحثے کے بعد ہی پاس ہوجاتے ہیں۔ حکمراں پارٹی بل کی منظوری کو یقینی بنانے کی غرض سے اپنے اراکین کو ایک نوٹس (Whip) جاری کرتی ہے، اور چونکہ اس نوٹس کی مخالفت کا مطلب سیدھا ڈسکوالیفکیشن ہوتا ہے، اس لیے ان کے پاس بجز آنکھ بند کرکے پارٹی کی ہدایات پر عمل کرنے کے کوئی اور چارہ نہیں ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں ایک ایسی مقننہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا جو انتظامیہ سے علیحدہ ہو اور اپنے بل بوتے آزادانہ طور پر ملک کے لیے قوانین وضع کرسکتی ہو۔ عوام کے منتخب کردہ نمائندگان کے ذریعہ حکومت کی جوابدہی کمزور ہوگئی ہے۔
چہارم، وہ پارٹیاں جو اقتدار سے دور رہ جاتی ہیں اور جنھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر ووٹوں کا انجام پہلے سے ہی طے شدہ ہے، ان کے مطابق پارلیمنٹ یا اسمبلی باضابطہ طور پر غور و فکر کرنے والی کسی مجلس کا نام نہیں ہوتا بلکہ ان کی نظروں میں اس کی حیثیت ایک تھیٹر جیسی ہوتی ہے جہاں وہ اپنی خلل اندازی اور تخریبی طاقتوں کی نمائش کر سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ اراکین پارلیمنٹ اور چیئرمین کے مابین موجود خلا (well of the house) کو اسٹیج تصور کر وہیں جمع ہوتے ہیں، دھینگا مشتی کرتے ہیں، پلے کارڈ لہراتے اور نعرے بازی کرتے ہیں، اسپیکر بار بار انھیں روکنے اور چپ کرانے کی ناکام کوشش کرتا ہے، پھر بھی جب ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تو مایوس ہوکر مجلس ہی ملتوی کردیتا ہے۔ ہندوستان میں اکثر مخالفین اپنے احساسات کی قوت کے اظہار کرنے کا سب سے بہتر طریقہ بجائے اس قانون پر بحث و مباحثہ کرنے کے اس میں خلل ڈالنے اور اسے ناکارہ بنانے کو تصور کرتے ہیں۔
موجودہ نظام کے حامیان اس کے دفاع میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس نے ملک کو متحد کرنے کا کام کیا ہے، نیز اس کی سیاسی قسمت کے بنانے سنوارنے کا ہر شہری کو یکساں موقع فراہم کیا ہے۔ مگر یہ سب تو ہماری جمہوریت کی مرہونِ منت ہے نہ کہ پارلیمانی نظام کی۔ غالباً دیگر پارلیمانی نظاموں کی مانند ہمارا نظام جو کام اب تک نہیں کر پایا ہے، وہ ہے مؤثر کارگزاری کو یقینی بنانا۔ ہندوستان کے بیشتر مسائل ایسے سیاسی منصوبوں کا مطالبہ کرتے ہیں جو فیصلہ کن اقدامات کرسکیں، مگر یہاں تو روز بروز جمود اور عدم فیصلہ کو ہی فروغ دیا جا رہا ہے. ہمیں ایک ایسے جمہوری نظام کی ضرورت ہے جس کے لیڈران حکومت بچانے سے زیادہ حکومت کرنے پر اپنی توجہ دے سکیں۔
ہندوستان میں سیاسی عمل جس بدنامی سے دوچار ہوا ہے اور ہمارے سیاستدانوں کے مقاصد کے متعلق جس قدر بدظنی پیدا ہوگئی ہے، اس سے براہ راست پارلیمانی نظام کی کارکردگیوں کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ انتظامیہ کو متنوع قانون سازوں کے ایجنڈوں کا یرغمال بنائے رکھنا سرکاری نا پائیداری کے لیے ایک نسخے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اور ایسی معاشی بد حالی اور سماجی مشکلات کے دور میں تو ہندوستان ناپائیداری بالکل برداشت نہیں کرسکتا۔
میرے خیال میں صدارتی نظام حکومت کا معاملہ کبھی بھی واضح نہیں رہا ہے۔ نئی دہلی اور دیگر تمام ریاستوں میں براہ راست منتخب صدر بجائے اتحادی سیاست کی حمایت کے بدلتے رخوں کا شکار ہونے کے، اس کے پاس مقننہ سے آزاد ایک مستحکم اور پائیدار مدت کارکردگی ہوگی، وہ با صلاحیت افراد پر مشتمل کابینہ تشکیل دینے پر قادر ہوگا، اور سب سے بڑھ کر، اسے اپنی ساری توانائیاں حکومت بچانے کے بجائے حکومت کرنے میں صرف کرنے کا موقع فراہم ہوسکے گا۔ ہندوستانی ووٹرز براہ راست اس فرد واحد کو ووٹ دینے کے قابل ہوسکیں گے جسے وہ اپنا حکمران بنانا چاہتے ہوں، نیز صدر حقیقی معنوں میں اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت کے بجائے اکثر ہندوستانیوں کے حق میں بولنے کا دعویٰ کرسکے گا۔ پھر مدت معینہ کے اختتام پر عوام اس شخص کو اس پیمانے پر جج کرنے کے قابل ہوسکے گی کہ اس نے شہریوں کی زندگیوں میں سدھار لانے کے لیے کتنا کچھ کیا ہے نہ کہ اس نے اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے کس قدر سیاسی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا ہے۔
عین یہی منطق ہمارے علاقوں، شہروں اور گاؤں دیہاتوں کے لیے براہ راست منتخب سربراہان پر بھی منطبق ہوگی، جو آج کل معمولی اختیارات اور برائے نام وسائل و ذرائع کے حامل گلوریفائیڈ کمیٹی کے چئیرمین سے تھوڑے زیادہ ہیں۔ مقامی خود اختیاری حکومت کو با مقصد اور فعال بنانے کے لیے ہمیں براہ راست منتخب مقامی عہدیداران کی ضرورت ہے، جن میں سے ہر ایک کے پاس اپنے علاقے کو بہتر بنانے کے لیے حقیقی اتھارٹی اور مالی وسائل دستیاب ہوں۔
لبرل جمہوریت پرستوں کی جانب سے اب تک صرف ایک اعتراض سامنے آیا ہے، جس میں انھوں نے صدارتی نظام کے تئیں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ڈکٹیٹر شپ کا خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ انھوں نے اپنے ذہن و دماغ میں ایک ایسے صدر مملکت کا تصور بنا رکھا ہے جو مطلق العنان ہوگا، پارلیمنٹ میں اکثریت ثابت نہ کر پانے پر حکومت گر جانے کے خطرے سے محفوظ ہوگا، عوامی رائے سے بے فکر ہوگا اور ملک پر اپنا حکم چلائے گا۔ دبے لفظوں میں وہ کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ اس طرح ہندوستان میں مودی ڈکٹیٹر شپ کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔ مگر، میں کہتا ہوں کہ یہ صدر مملکت مودی اس وزیر اعظم مودی سے زیادہ مطلق العنان نہیں ہوگا جسے فی الحال ہم بر سرِ اقتدار دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ صدارتی نظام حکومت میں مقننہ بالکل آزاد ہوگی، مزید یہ کہ ریاستوں میں براہ راست منتخب چیف ایگزیکٹوز کے ذریعہ صدر مملکت مودی کے اختیارات کافی حد تک متوازن ہوں گے۔ ان چیف ایگزیکٹوز کو نہ تو پارٹی لیڈر سبکدوش کرسکے گا، اور نہ ہی بھگوڑے اراکین اسمبلی اس کی حکومت کا کچھ بگاڑ پائیں گے۔
جمہوریت اپنے آپ میں ہی ایک خاتمہ ہے اور اس پر فخر کرنے میں ہم حق بجانب ہیں۔ مگر چند ہندوستانی اس سیاست پر فخر محسوس کرتے ہیں جسے اس جمہوریت نے ہمارے سروں پر زبردستی تھوپ دیا ہے۔ ہمارے سربراہان کے سامنے ایک ارب تیس کروڑ ہندوستانیوں کے مسائل اور ضروریات کی تکمیل کرنے کا جو مسئلہ درپیش ہے اس کے لیے ہر حال میں ہم کو ایک ایسی جمہوریت کی ضرورت ہے جو ہمیں ترقی کے مواقع فراہم کرسکے۔ اور اس کا بہترین حل صدارتی نظام حکومت ہی کی شکل میں ہوسکتا ہے، کیونکہ وہی ایک فعال جمہوریت کو یقینی بنا سکتا ہے۔
(اصل انگریزی مضمون انڈین ایکسپریس اخبار میں شائع ہوا تھا)

آپ کے تبصرے

3000