آسام بٹوارےکی تاریخ

راشد خورشید سیاسیات

این آر سی: رنجن گوگوئی کی جانب سے حکومت ہند کو ایک بیش بہا تحفہ (حصہ سوم)


تحریر: ارشو جون
ترجمہ: راشد خورشید


آسام کی تاریخ باہر سے آکر بسنے والوں سے بھری پڑی ہے۔ 19ویں صدی میں جب انگریزوں کو لگا کہ آسام کی زمین تو بہت زرخیز ہے، خصوصاً چائے کی کاشتکاری کرنے کے لیے، تو انھوں نے زمین کے ایک بڑے حصے کو چائے کے باغات میں تبدیل کر دیا۔ اترپردیش، مدھیہ پردیش، اڑیسہ، بہار اور تمل ناڈو جیسے ملک کے مختلف علاقوں سے مزدور بلائے گئے،جن میں سے اکثر نے تو یہیں پر دائمی سکونت اختیار کرلی۔باغات کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری کلکتہ کے بنگالی ہندوؤں کو سونپی گئی۔سبب یہ تھا کہ ایک تو یہ استعماری تعلیم یافتہ تھے اور دوسرا یہ کہ انھیں انگریزی بولنا آتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دیگر قبائل کے افراد بھی آسام آکر بسنے لگے۔ بنگالی زبان انتظامیہ کی رسمی زبان قرار پائی، جس کی وجہ سے آسامی بولنے والے قبائل کے اندر بنگالی مخالف احساس (Anti-Bengali Sentiment) نے جنم لینا شروع کردیا۔

بیسویں صدی کے اوائل میں آسام کو ریلوے لائن کے ذریعہ مشرقی بنگال سے جوڑ دیا گیا، جس کی وجہ سے بہت سارے بنگالی مسلمان بھی یہاں چلے آئے۔ مگر چونکہ یہ لوگ بے گھر تھے اور کاشتکاری کے لیے انھیں زمین کی تلاش تھی تو انھوں نے آسام کے دلدلی علاقوں اور چار (Chars) – دریائے برہم پوتر کا ریتیلا علاقہ- کا رخ کیا اور وہیں رہائش پذیر ہوگئے۔ یہاں انھوں نے اناج اگانا شروع کیا، جس میں انگریزوں نے ان کی کافی مدد کی تاکہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جا سکے۔ چند سالوں بعد جب بنگالی مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی تو مقامی باشندوں کی مخالفت کے پیشِ نظر انگریزی حکومت نے 1916ء میں لائن سسٹم کا آغاز کیا۔ اس کے ذریعہ مقامی و غیر مقامی باشندوں کے علاقوں کی حد بندی کردی جاتی تھی، جس کی بنا پر بیشتر افراد کو مجبوراً چار والے علاقوں میں رہنا پڑتا تھا، جہاں کی زمین دریا کی طوفانی لہروں کے باعث رفتہ رفتہ کھسکتی رہتی تھی اور ایک دن یہ لوگ اپنی زمینوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔

بعد کی دہائیوں میں بھی جب بنگالی مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو شعبۂ مردم شماری کے ایک انگریز سپرنٹنڈنٹ سی ایس مُلّان (CS Mullan) نے ایک گھٹیا اور جھوٹا دعوی کیا جسے اب تک تقریباً سارے مہاجر مخالف سیاستدان اور سماجی کارکنان سینکڑوں دفعہ دہرا چکے ہیں۔ مُلّان نے دعوی کیا تھا کہ ”زمین کے بھوکے ان بنگالیوں، خصوصاً مشرقی بنگال کے مختلف گوشوں سے مسلمانوں کی آمد وہ سب سے بڑا حادثہ ہے جو آسام کی گزشتہ 25 برس کی تاریخ میں رونما ہوا اور جس نے آسامی تہذیب و ثقافت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا“۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے ان مسلمانوں نے نہ صرف آسامی تہذیب و ثقافت کو اپنایا بلکہ آسامی زبان کو اپنی مادری زبان کی صورت میں قبول بھی کیا۔ مگر ان سب کے باوجود ”بنگالی مخالف احساس“ مسلسل پروان چڑھتا رہا، حتی کہ وہ دن بھی آیا جب بنگالیوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نسلی تشدد کے واقعات رونما ہونے لگے۔ اکثریتی طبقہ والے علاقوں میں تو ان کے ساتھ کچھ زیادہ ہی گھناؤنا اور ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔

تقسیم ہند کے سبب جب ہندو اور مسلمان کافی تعداد میں مشرقی پاکستان سے ہجرت کرکے آسام میں آکر بسنے لگے تو اس بنگالی مخالف احساس نے ”مہاجر مخالف احساس“ کی صورت اختیار کر لی۔ بنگالیوں کو مشرقی پاکستان سے آیا ہوا تصور کر مشکوک نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ بنگال مخالف تحریک زور پکڑتی گئی یہاں تک کہ کانگریسی لیڈر گوپی ناتھ بوردولوی کی آسام حکومت کو ”امیگرنٹس ایکٹ 1950“ پاس کرنا پڑا۔ اس قانون کے تحت حکومت ہند کو یہ اختیار حاصل ہوگیا کہ وہ ہر ایسے فرد یا گروہ کو بنا کسی عدالتی کارروائی کے شہر بدر کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے جس کی موجودگی ہندوستانی شہریوں کی سالمیت کے حق میں خطرے کا باعث ہو۔ چنانچہ اس قانون کی آڑ میں ہزاروں مسلمانوں کو واپس مشرقی پاکستان بھیج دیا گیا۔

بنگالی مسلمانوں پر ظلم و ستم کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1960 میں کانگریسی لیڈر بِمَل پرساد چالیہا کی حکومت آئی اور اس نے بھی غیر ملکی تصور کیے جانے والے لاکھوں افراد کو شہر بدر کردیا۔

1970 کی دہائی میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے مابین چھڑی جنگ کے سبب ایک بار پھر بڑے پیمانے پر آسام میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہی وہ واقعہ تھا جس نے چھ سالہ ”مہاجر مخالف تحریک“ کو اخیر دہائی میں پھر سے ہوا دینے کا کام کیا۔ 1979 میں آسام کے مَنگلدوئی (Mangaldai) حلقۂ انتخاب کے رکن پارلیمنٹ ہَری لال پٹواری کی بے وقت موت کے سبب وہاں بائی-الیکشن کا اعلان کیا گیا۔ الیکشن سے قبل یہ خبر پھیل گئی کہ مَنگلدوئی کی ووٹر لسٹ میں غیر ملکیوں کو بڑے پیمانے پر شامل کیا جارہا ہے۔

عبد المنان کی Infiltration: Genesis of Assam Movement نامی کتاب کے مطابق ڈی آئی جی ہِرنَے کمار بھٹاچاریہ اور ایس پی پریم کانتا مہنتا ”دونوں نے مل کر آسامیوں کے ذہن و دماغ میں یہ بات ڈالنی شروع کی کہ لاکھوں بنگلہ دیشیوں کی آمد کے سبب ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے“۔ عبد المنان کے بقول ”بھٹاچاریہ نے یہ جواز پیش کیا کہ چونکہ کافی وقت دیا جاچکا ہے، لہذا اب 1978 کی لسٹ سے بھی غیرملکیوں کے نام خارج کیے جاسکتے ہیں“۔ انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ بارڈر پولیس کو 47658 ووٹروں کے خلاف شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 36780 کو غیر ملکی قرار دے دیا گیا۔ مہنتا نے اپنی سرگذشت میں لکھا ہے، ”میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم آپس میں متحد نہ ہوئے ہوتے تو یہ چھ سالہ طویل آسامی تحریک وجود ہی میں نہ آتی“۔

جیسے ہی یہ تعداد منظر عام پر آئی، آسو(All Assam Students’ Union) نے 12 گھنٹے ریاست بندی کا اعلان کردیا، ان کا مطالبہ تھا -جسے تین ڈی (Detection, Detention, Deportation) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے- کہ اول تو غیر قانونی شہریوں کی شناخت کی جائے، دوم آسام کی ووٹر لسٹ سے ان کے نام خارج کیے جائیں۔ اور سوم، پھر ان کو ملک بدر کردیا جائے۔ اس کے بعد نومبر 1979 کو ایک احتجاجی مظاہرے میں گوہاٹی سے سات لاکھ اور پورے آسام سے تقریباً بیس لاکھ لوگوں نے شرکت کی اور متعدد گرفتار کیے گئے۔ اگلے مہینے مظاہرین نے معاشی ناکہ بندی کا اعلان کرتے ہوئے آسام کے مختلف علاقوں میں کی جانے والی خام تیل کی سپلائی بھی بند کردی۔ ریاست میں صدارتی حکم نافذ کردیا گیا۔ اس سال آسام کے 14 پارلیمانی انتخابات میں سے 12 رد کردیے گئے۔

جیسے ہی یہ تحریک مشہور ہونا شروع ہوئی، آسام کے اصلی بنگالی مسلمانوں اور ہندوؤں پر از سرِ نو مظالم ڈھائے جانے لگے، انھیں چائے کی کاشت کرنے سے روکا جانے لگا، حکم عدولی کی صورت میں مارا پیٹا جاتا۔ اقلیتوں پر ظلم و ستم کا یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا تھا کہ مارچ 1980 میں متعدد اقلیتی حقوق کی تنظیموں نے مل کر آمسو (All Assam Minority Students’ Union) کی تشکیل کی۔ آمسو نے مطالبہ کیا کہ 1971 سے قبل آسام آئے سبھی مہاجرین کو شہریت عطا کی جائے۔ اسی دوران نومبر 1980 میں خام تیل کی سپلائی پر سے پابندی ہٹانے کے لیے ریاست میں فوج بھی تعینات کردی گئی۔

اگلے مہینے، صدارتی حکم نافذ ہونے کے تقریباً ایک سال بعد، کانگریس نے اَنوَرا تیمور کو آسام کا وزیراعلیٰ مقرر کیا۔ ابھی تیمور کی حکومت پر چھ مہینے کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ دوبارہ صدارتی حکم نافذ کردیا گیا۔ اس کے بعد 1982 میں کیشب چندر گوگوئی وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے، مگر اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باعث دو مہینے بعد ہی ان کا بھی دور ختم ہوگیا اور صدارتی حکم پھر سے نافذ کردیا گیا۔

جب کانگریس کی مرکزی حکومت نے ریاست میں جاری احتجاجات کو روکنے کی کوشش کی تو وہ اور زیادہ بھڑک اٹھے۔ چنانچہ اس نے نیا طریقہ اپنایا اور ہر اس شخص کو جس پر احتجاج کے حامی ہونے کا ادنی سا بھی شک ہوتا، اسے پارٹی سے نکالا جانے لگا۔ آئندہ سال وزیر اعظم اندرا گاندھی نے آسامی احتجاجات کے محرک الیکٹورل رول میں ترمیم کیے بغیر ہی ریاستی انتخابات کرانے کا فیصلہ بھی کرلیا۔

اندرا گاندھی کا انتخابات کرانے کے فیصلے کا انجام اس قدر بھیانک ہوگا، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ چنانچہ فروری 1983 کو آسام کے ضلع نوگونگ (Nowgong) کے نیلی(Nellie) گاؤں اور اس کے گردونواح میں مسلح غنڈوں نے قتل و خونریزی کا وہ بازار گرم کیا جسے تاریخ نے ”نیلی قتل عام“(Nellie Massacre) کا نام دیا۔ تین ہزار سے زائد لوگ مارے گئے، اکثریت بنگالی مسلمانوں کی تھی۔ بہر حال انتخابات ہوئے جس میں کانگریس کو کامیابی حاصل ہوئی اور ریاست کی باگ ڈور آہوم خاندان کے ایک فرد ہِتیسوَر سائیکیا کو سونپ دی گئی۔

تقریباً ایک سال کی گفت و شنید کے بعد 15 اگست 1985 کو حکومت ہند اور آسام تحریک کے لیڈران کے مابین ایک معاہدہ ہوا، جسے آسام معاہدہ (Assam Accord) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ معاہدہ میں طے ہوا تھا کہ آسام میں رہنے والے غیر ملکی باشندوں کی شناخت کی جائے گی، ووٹر لسٹ سے ان کا نام خارج کیا جائے گا اور پھر انھیں ملک بدر کردیا جائے گا۔ اس کے تحت آسامی باشندوں کو تین گروپ میں تقسیم کر دیا گیا: اول، وہ لوگ جو 1966 سے قبل ہی آسام آگئے تھے۔ دوم، وہ جو یکم جنوری 1966 سے 24 مارچ 1971 کے درمیان آئے تھے۔ اور سوم، وہ جو 1971 کی مقرر کردہ آخری تاریخ کے بعد آسام میں داخل ہوئے تھے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ جتنے بھی لوگ پہلی قسم میں آئیں گے انھیں فوری طور پر بنا کسی عدالتی کارروائی کے آسام کا قانونی شہری تسلیم کرلیا جائے گا، دوسری قسم والوں کے ناموں کو دس سال کے لیے ووٹر لسٹ سے خارج کردیا جائے گا اور جو تیسری قسم کے تحت آئیں گے ان کی تحقیق کی جائے گی اور غیر قانونی ثابت ہونے کی صورت میں انھیں شہر بدر کردیا جائے گا۔

اسی سال مرکزی حکومت نے سٹیزن شپ ایکٹ 1995 میں بھی ترمیم کی تاکہ دفعہ 6A کو متعارف کرایا جاسکے اور آسام معاہدہ کا نفاذ عمل میں آسکے۔ چنانچہ اس ترمیم نے مذکورہ بالا تینوں قسموں کو قانون کی صورت دے کر آسام معاہدے کو آئینی حیثیت عطا کردی، ساتھ ہی آسامی باشندوں کی شناخت کرنے کے لیے ایک اسپیشل فریم ورک بھی تیار کیا گیا۔ مگر صرف شناخت کرنے سے کام بننے والا نہیں تھا، بلکہ اس کے بعد انھیں شہر بدر بھی کیا جانا ضروری تھا، اور اس کے لیے آسام 1951ء کی این آر سی کا اپڈیٹ کیا جانا بہت ضروری تھا، جس کے نفاذ میں اب تک سبھی مرکزی و ریاستی حکومتوں کو ناکامیابی ہی ہاتھ لگی تھی۔

جب آسام معاہدہ پر دستخط کردی گئی تو الیکشن کمیشن نے 1971 کے الیکٹورل رول کو سامنے رکھتے ہوئے آسام کے ووٹر رول میں بہت باریکی سے ترمیم کا کام انجام دیا۔ اور پھر اسی ترمیم شدہ ووٹر لسٹ کی بنیاد پر اس سال آسام میں انتخابات کرائے گئے، جس میں آسو کی ایک سیاسی برانچ Asom Gana Parishad کے صدر، سابق اسٹوڈنٹ لیڈر پرَفُل کمار مہنْت کو کامیابی حاصل ہوئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آسام تحریک کی قیادت کرنے والی تنظیم نے اس معاہدے کو نافذ ہی نہیں کیا بلکہ 1966 کے الیکٹورل رول کو سامنے رکھ کر 1987 میں دوبارہ مزید باریک بینی سے ترمیم کرنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ چنانچہ حسب مطالبہ ایک نیا الیکٹورل رول ترتیب دیا گیا۔

اے جی پی (Asom Gana Parishad) واحد تنظیم نہیں تھی جو آسام تحریک سے پیدا ہوئی۔ بلکہ اسی وقت ایک اور شدت پسند جنگجوؤں کا گروہ معرض وجود میں آیا جسے الفا (United Liberation of the Assam) کے نام سے جانا گیا۔ الفا نے آسام کو ایک خود مختار اور سماج وادی ریاست بنانے کی بھرپور کوشش کی۔1979 میں وجود پذیر ہونے والی یہ تنظیم گرچہ آسام تحریک کے ساتھ پروان چڑھی مگر اس نے ہمیشہ خود کو امیگریشن ایشو سے علیحدہ ہی رکھا، جیسا کہ سَنجیب باروَہ اپنی کتاب India Against Itself: Assam and the Politics of Nationality میں رقمطراز ہیں، ”الفا نے آسام میں بسنے والے سبھی لوگوں (Axombaxi) سے ایک اپیل کی… اس وقت آسام کے مین اسٹریم میں جاری علاقائیت پر بحث اور الفا کے قول میں کافی تضاد تھا“۔ مزید لکھتے ہیں، ”چونکہ اے جی پی امیگریشن ایشو کو حل کرنے کا وعدہ پورا نہیں کرسکی، نیز اس کے چند نوجوان عہدیداران کرپشن کے الزامات میں بھی ملوث پائے گئے تھے، جس بنا پر یہ تنظیم رفتہ رفتہ زوال پذیر ہونے لگی اور اس کے ساتھ ہی الفا کی ترقی کا ستارہ بلند ہونا شروع ہوگیا“۔

اے جی پی کھوکھلے دعوؤں کی حکومت ثابت ہوئی۔”انڈیا ٹوڈے“ کی مئی 1990 کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک وقت تھا جب مہنتا اور اس کے دیگر اے جی پی کولیگز ”آسام کے اصلی ہیرو تصور کیے جاتے تھے“ مگر آج وہی لوگوں کی نظروں میں ”ولین“ بن گئے ہیں۔ اور ”معمولی باتوں پر گولیاں چلانے والے، الفا کے انڈر گراؤنڈ دہشت پسندوں کو“ آسام کا حقیقی محافظ تسلیم کرلیا گیا ہے۔

نومبر 1990 کو ریاست میں صدارتی حکم نافذ کرکے مرکزی حکومت نے الفا کے خلاف ایک فوجی آپریشن بنام ”آپریشن بجرنگ“ انجام دیا، جو اگلے سال اپریل تک جاری رہا۔ یہ آپریشن الفا کے بیشتر ٹریننگ کیمپوں کو تباہ کرنے اور اس کے کئی ممبران کو گرفتار کرنے میں کامیاب تو ہوگیا مگر معاشرے میں حاصل اس کی سوشل لیجٹیمیسی کو نہیں ختم کرسکا۔ ان آپریشنز کو ختم کرنے کے لیے مرکز، ریاست اور الفا کے مابین گفت و شنید کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جس میں مزید بیس سال لگنے کی توقع ہے۔

جون 1991 میں ایک بار پھر آسام کی زمام حکومت کانگریسی لیڈر ہِتیشوَر سائیکیا کے ہاتھوں میں آگئی ،اس کے دو سال بعد الیکٹورل رول میں از سرِ نو ترمیم کا عمل انجام دیا گیا۔1996 میں جب مہنتا کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوا تو اسی سال الیکشن کمیشن نے پھر سے الیکٹورل رول میں دقت نظری سے ترمیم کرنے کا حکم جاری کیا۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ الیکٹورل رول میں کی جانے والی پے درپے ترمیم سے ایک بات تو واضح ہوجاتی ہے، جو متعدد وکلاء اور سماجی کارکنان سے مجھے پتہ چلی، کہ کوئی بھی پارٹی آسام معاہدے کو نافذ کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔

آسام بیوروکریسی میں 1980 کی دہائی سے اپنی خدمات انجام رہے سابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری ایم جی وی کے بھانو (MGVK Bhanu) کہتے ہیں کہ، ”سیاستدانوں کے یہاں امیگریشن ایشو انتخابات کو مؤثر کرنے کا ایک کارگر ہتھیار بن چکا ہے… 1985سے اب تک آسام کے سبھی انتخابات میں ایسا ہی ہوتا آرہا ہے“۔

بھانو کا ماننا ہے کہ انتظامی کوششوں کو اس جانب مبذول کرکے یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا تھا ”مگر حکومت نے ایسا نہیں کیا، نتیجتاً وہ اس مسئلے کے حل میں ناکام رہی، یا بالفاظ دیگر اس نے ہاتھ تک نہیں لگایا….سبھی نے صرف فائدہ اٹھایا“۔

خیر، سیاست میں تو یہ عام سی بات ہے۔ آسو کے مشیر خاص سموجّل بھٹاچاریہ نے مجھ سے کہا کہ، ”صرف اور صرف ووٹ بینک کی خاطر این آر سی کو کبھی اپڈیٹ نہیں کیا گیا“۔ یہی بات آمسو کے مشیر خاص عزیز الرحمن نے بھی کہی، ”سیاسی جماعتوں نے کبھی اس مسئلے کو حل کرنے کا سوچا ہی نہیں“… مزید کہا کہ…”کانگریس، اے جی پی اور بی جے پی میں کوئی فرق نہیں۔ یہ لوگ جب مسلم علاقوں میں جاتے ہیں تو انھیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم بنا کسی پر ظلم و جبر کیے اس مسئلے کو حل کر دیں گے، اور یہی لوگ جب غیر مسلم علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو ان سے یہ کہتے ہیں کہ، ‘آپ ہمیں ووٹ دیں، ہم ان گھس پیٹھیوں کو نکال باہر کریں گے’ “۔

آمسو کے قانونی مشیر مصطفی خادم حسین کہتے ہیں، ”آسام ملک کی سب سے تیز ترقی پذیر ریاست بن سکتی تھی“۔ مگر ایسا نہ ہوسکا، کیونکہ سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ امیگریشن ایشو کو ہی اپنی توجہ کا مرکز بنائے رکھا۔”اب دیکھیے، چاول پیدا کرنے میں آسام کا نمبر پنجاب کے بعد آتا ہے جبکہ آسام کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ وہ پنجاب کی پیداوار کا دو گنا پیدا کرنے کی استطاعت رکھتی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ چاول کی کھیتی کرتا کون ہے؟… یہ مشرقی بنگال سے آئے مسلمان… اگر انھیں بھی مشینری، واٹر سپلائی اور بجلی جیسے زراعتی وسائل و ذرائع فراہم کردیے جائیں جو پنجاب کے کسانوں کے پاس ہیں تو یہ بھی ان کا مقابلہ بآسانی کر سکتے ہیں“۔ حسین کا ماننا تھا کہ مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتیں آسام کی ترقی کو داؤ پر لگا کر امیگریشن ایشو کو باقی رکھنا چاہتی ہیں تاکہ اس کا سیاسی فائدہ انھیں برابر پہنچتا رہے۔

بہرحال 1997 میں الیکٹورل رول میں ہوئی ترمیم کے باعث ایک نیا پراسیس شروع ہوا جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ الیکشن کمیشن نے دوران ترمیم ان ناموں کے سامنے ”D“ یعنی مشکوک (Doubtful) لکھنا شروع کر دیا جن کی شہریت ابھی شک کے دائرے میں آتی تھی، اور پھر انھیں مقامی ایس پی کے حوالے کردیا جاتا تاکہ وہ ان کی تحقیق کرے اور ضرورت محسوس ہونے پر فارینر ٹریبونلز (Foreigner Tribunals) کو سونپ دے۔ پھر جب تک ٹریبونلز ان کی شہریت کی تصدیق نہیں کردیتا، تب تک ان سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا جاتا، نیز عوامی تقسیمی نظام سے حاصل ہونے والے فوائد سے بھی انھیں محروم رکھا جاتا۔

ریاست کی نسل پرستانہ ذہنیت کے پیش نظر ڈی-ووٹرز شناختی عمل میں چند ایسی من مانی تبدیلیاں کی گئیں جس سے مشکوک افراد کی تعداد میں اضافہ ہوسکے۔ اس پراسیس سے حکومت کے سطحی کارکنان کو یہ موقعہ ہاتھ آگیا کہ بنا کسی تحقیق اور شہریت ثابت کرنے کا موقعہ دیے وہ جسے چاہیں ڈی-ووٹر کی لسٹ میں ڈال دیں۔ چنانچہ ایسی بہت سی مثالیں سامنے آئیں جب فارینر ٹریبونلز نے ایسے کئی افراد کو جنھیں ڈی-ووٹر لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا، کلئیرینس دے دی۔ بہتوں کو تو اس کے لیے بیس سال تک انتظار بھی کرنا پڑا۔ چند ایسے بھی تھے جنھیں پتہ ہی نہیں چل سکا کہ کب ان کا نام ڈی-ووٹر لسٹ میں شامل کردیا گیا ہے جبکہ ابھی گذشتہ الیکشن میں تو انھوں نے ووٹ دیا تھا۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ گھر کے سبھی لوگوں کو قانونی شہری تسلیم کر صرف ایک کی شہریت کو مشکوک ٹھہرا دیا گیا۔

1997 میں جب الیکشن کمیشن نے ترمیم شدہ الیکٹورل رول کو شائع کیا تو 37 لاکھ سے بھی زائد افراد حرف”D“ سے نشان زدہ پائے گئے۔ وزارت داخلہ کے ذریعہ لوک سبھا میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2019 تک آسام میں ڈی-ووٹرز کی مجموعی تعداد 113738 تھی، جس میں 70723 عورتیں تھیں۔ وزارت داخلہ نے لوک سبھا میں یہ بھی بیان دیا کہ اکتوبر 2019 تک کل 468905 کیس فارینر ٹریبونلز کے حوالے کیے گئے، جن میں سے صرف 114225 افراد ملکی ثابت ہوسکے، باقی 129009 لوگوں کو غیرملکی قرار دے دیا گیا۔

2001 میں آسام میں دوبارہ کانگریس کی حکومت قائم ہوئی اور ترون گوگوئی وزیر اعلی بنائے گئے جو آئندہ 2016 تک مسلسل منتخب کیے جاتے رہے۔2005 میں کانگریس کی مرکزی و ریاستی حکومت نے آسام معاہدہ کے نفاذ کو لے کر آسو سے بات چیت کرنی شروع کی۔5 مئی کو تینوں فریق نے متفقہ طور پر 1951 کی این آر سی کو اپڈیٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور 2009 میں اس سے متعلق قوانین کا اعلان کیا گیا۔

اگلے سال، حکومت نے این آر سی کی باضابطہ کارروائی شروع کرنے سے قبل، آسام کے ضلع کامروپ (Kamrup) کی تحصیل چھائی گاؤں (Chhaygaon) اور بَرپیٹا (Barpeta) علاقے میں اس کا ایک تجربہ (Pilot Project) کرنے کا فیصلہ کیا۔ سب کچھ اتنی جلد بازی میں شروع کیا گیا کہ اس کو آپریٹ کرنے کا نہ تو کوئی معیاری طریقۂ کار اپنایا گیا، نہ ہی معلومات حاصل کرنے اور ان کی تصدیق کرنے کے لیے کوئی حل تلاش کیا گیا۔ آسام تحریک کی مسلم مخالف ذہنیت اور این آر سی کے ممکنہ نتائج کے پیش نظر آمسو نے بَرپیٹا ضلع میں اس تجربہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کیا۔ چنانچہ 21 جولائی 2010 کو ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین بَرپیٹا ڈی ایم آفس کے گرد و پیش جمع ہوگئے۔

عزیز الرحمان، جو اس وقت مظاہرے میں شریک تھے، کہتے ہیں کہ ”ہم نے کہا کہ آپ بس ڈی ایم کو بلا دیجیے، ہم انھیں یہ میمورنڈم سونپ کر واپس چلے جائیں گے… ڈی ایم تو باہر نہیں آیا پر ایس پی نجانے کدھر سے آدھمکا“۔ کچھ ہی دیر بعد احتجاج تشدد کی صورت اختیار کرگیا، جس کے مختلف اسباب لوگوں نے بتائے۔ عزیز الرحمن کے مطابق پولیس آمسو کے چار اراکین کو اندر لے گئی اور پھر بنا کسی پرووکیشن کے مظاہرین پر گولی باری کرنے لگی۔ چار لوگ مارے گئے اور سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے، جس کی وجہ سے عوام مشتعل ہوگئی اور احتجاج تشدد کی صورت اختیار کرگیا۔ جبکہ دوسری طرف آسو کے سَموجّل بھٹاچاریہ کا دعوی ہے، ”یہ تشدد بنگلادیشی لابی (Lobby)- آمسو- کی طرف سے شروع کیا گیا تھا“۔

میں ترون گوگوئی کے ساتھ ان کی آفس میں بیٹھا گفتگو کر رہا تھا تو انھوں نے مجھ سے کہا، ”بات دراصل یہ ہے حکومت اور ہم، دونوں ہی اس معاملے میں ناتجربہ کار تھے، کسی کو پراسیس- این آر سی- شروع کرنے کا طریقہ ہی نہیں معلوم تھا۔ یہ تو مرکزی حکومت اور رجسٹرار جنرل آف انڈیا کی ذمہ داری تھی، مگر ان کو بھی پتہ ہو تب نا…بہر کیف یہ تجرباتی عمل شروع تو ہوا، مگر ساتھ ہی آمسو کا اس کے خلاف پرزور احتجاج بھی سامنے آیا، جسے روکنے کے لیے پولیس نے گولیاں چلائیں، کئی لوگ مارے گئے۔ چاروناچار یہ تجربہ درمیان میں ہی روکنا پڑا“۔

یہ آئیڈیا تو حکومت کے ذہن میں گھر کر چکا تھا۔ چنانچہ 2011 میں ریاستی حکومت نے مشاورتی عمل شروع کیا، جس میں آسو اور آمسو سمیت تمام اسٹاک ہولڈرز کو مدعو کیا گیا، تاکہ این آر سی کو اپڈیٹ کرنے کا کوئی معیاری طریقہ اختیار کرکے اس کے لیے اصول و ضوابط وضع کیے جاسکیں۔ باہمی رضامندی سے طے شدہ قوانین کو رجسٹرار جنرل آف انڈیا کو سونپ دیا گیا۔ اور پھر 5 دسمبر 2013 کو آفس سے ایک نوٹس شائع ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ تین سال کے اندر پورے آسام میں این آر سی کو اپڈیٹ کردیا جائے۔

گوہاٹی کے آسامی باشندوں میں اب باہر سے آئے لوگوں، خصوصاً دہلی والوں کے تئیں صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے قریب تھا اور وہ این آر سی کو لے کر سنجیدہ نظر آنے لگے تھے۔ وسیع پیمانے پر دیکھیں تو لوگ دو گروہوں میں منقسم ہوگئے تھے اور دونوں ہی این آر سی کو اپڈیٹ کیے جانے کی حمایت کر رہے تھے، مگر مختلف وجوہات کی بناء پر۔ بعض تو اس وجہ سے سپورٹ کر رہے تھے کہ اس کے ذریعہ ریاست میں غیر قانونی شہریوں کی شناخت ممکن ہوسکے گی، اور بعض اس گمان میں پڑ کر کہ اسی بہانے انھیں آئے دن کے ظلم و ستم سے نجات تو مل جائے گی۔ شاید ہی کوئی ایسا تھا جو عمومی طور پر اس کا مخالف رہا ہو۔ اول الذکر تو اپنی قانونی شہریت کو لے کر خود اعتمادی کے زعم میں مبتلا تھے، اور چاہتے تھے کہ جلد از جلد غیر قانونی باشندوں کی شناخت کرکے انھیں شہر بدر کیا جائے، کیونکہ ان کے خیال میں یہ لوگ ریاست کے سر پر بوجھ کی مانند تھے۔ اور ثانی الذکر اس سنگین صورتحال کو اس امید پر قبول کرنے کو تیار تھے کہ کم از کم اس کے بعد ان کی شہریت پر کوئی سوال تو نہیں اٹھایا جائے گا۔

یہی وہ وقت تھا جب رنجن گوگوئی کے سامنے دو عرضیاں پیش کی گئیں۔ ایک میں این آر سی کو اپڈیٹ کرنے کی بات کی گئی تھی، اور دوسری میں سٹیزن شپ ایکٹ کے سیکشن 6A کو چیلنج کیا گیا تھا۔ گوگوئی نے رائے عامہ کو اپنا طرفدار سمجھ کر این آر سی کو اپڈیٹ کرنے کی مہم کا آغاز کردیا۔ ایسا کرنے میں انھوں نے نہ صرف انصاف کے اہم اصولوں کی خلاف ورزی کی بلکہ ایک ایسی نیشنل پالیسی کی بنیاد ڈالی جس سے ہندوستانی مسلمانوں کی شہریت پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے۔

این آر سی کا اپڈیٹ وہ بیش قیمت تحفہ ہے جو گوگوئی نے موجودہ بی جے پی حکومت کی خدمت میں پیش کیا، اور بلاشبہ بطور چیف جسٹس ان کا سب سے عظیم کارنامہ بھی۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گوگوئی نے یہ فیصلہ حکومت کے دباؤ میں آکر دیا ہے مگر جیسا کہ اکثر لوگوں نے مجھ سے کہا کہ یہ تقریباً ناممکن ہے کہ این آر سی پر شنوائی کے دوران گوگوئی پر حکومت کی طرف سے کسی قسم کا دباؤ رہا ہو۔ سینئر ایڈوکیٹ اور سماجی کارکن پرشانت بھوشن کا کہنا ہے، ”وہ آزادانہ طور پر بنا کسی دباؤ میں آئے اپنا کام انجام دے رہے تھے… ان کا تعلق آسام کے آہوم خاندان سے ہے جن کا موقف غیر ملکیوں کے تئیں کافی سخت ہے کیونکہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں نے آسام کے اصلی باشندوں کی اصلیت کو داغدار کیا ہے“۔

”آسام پبلک ورکس“ نامی ایک این جی او نے غیر ملکیوں کی شناخت کرنے اور انھیں شہر بدر کرنے کے تعلق سے ایک عرضی دائر کی تھی۔ اسے چھ بار درج (List) کیا گیا مگر کبھی کوئی تفصیلی شنوائی نہیں ہوسکی، یہاں تک کہ چار سال بعد گوگوئی نے اس بینچ کی ذمہ داری لی۔

2 اپریل 2013 کو جسٹس ایچ ایل گوکھلے (HL Gokhale) کی زیرصدارت دو رکنی بینچ نے این آر سی پر پہلی شنوائی کی۔ دوسری تاریخ اگلے دن کی مقرر کی گئی۔ بعد ازاں بینچ نے مرکزی و ریاستی حکومتوں کے ایڈوکیٹس کے نام ایک حکم نامہ جاری کرکے ایک ہفتہ بعد انھیں این آر سی کے اپڈیٹ کے لیے درکار وقت کی تفصیل پیش کرنے کو کہا۔

گوگوئی نے ایک سال تک بطور جونیئر جج اس کیس کی سماعت کی، یہاں تک کہ مارچ 2014 میں گوکھلے ریٹائر ہوگئے اور بینچ کی صدارت آر ایف نَریمن کو سونپ دی گئی۔ اس دوران میں پراجیکٹ کے لیے نت نئے طریقوں کی تلاش میں مسلسل سماعت ہوتی رہی۔ عدالت نے ہر موقعہ پر حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا، اسے ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ مرکزی و ریاستی حکومتیں کافی وقت لگا رہی ہیں۔ چنانچہ 20 اگست 2014 کو دوسری سماعت کے موقعہ پر گوگوئی نے آسام میں این آر سی کے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر پَرتیک ہَجیلا کو حکم دیا کہ وہ ایک حلف نامہ دائر کریں کہ آیا دسمبر 2016 تک آسام میں این آر سی کو اپڈیٹ کرنے کا عمل مکمل ہوسکے گا یا نہیں۔

اگلی سماعت سے قبل ہَجیلا نے اس کے لیے درکار وقت سے متعلق عدالت میں ایک حلف نامہ دائر کردیا۔23 ستمبر کو گوگوئی اور نَریمن نے حکم جاری کیا کہ ”سردست عدالت اس پر غور و خوض کرے گی کہ اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے اپنے حلف نامے میں جو درکار وقت کا تعین کیا ہے اس میں تخفیف کیسے ممکن ہوسکتی ہے… درحقیقت عدالت کے نقطۂ نظر سے، جیسا کہ بتایا گیا، اس عمل کے مختلف مراحل کو مناسب طریقے سے یکجا کرکے انھیں ایک ساتھ انجام دیا جاسکتا ہے“۔ بعد ازاں عدالت نے ہَجیلا کو حکم دیا کہ وہ دوبارہ وقت کا تعین کریں اور اگلے 18 مہینوں کے اندر ہی اس پروجیکٹ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ بینچ نے کہا، ”این آر سی کو اپڈیٹ کرنے میں جس قسم کی کارروائی درکار ہے اس کے پیش نظر ہم اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کو یہ حکم جاری کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں مستقبل میں کیے جانے والے سبھی اقدامات اور حکمت عملیوں سے متعلق ایک رپورٹ مہر بند لفافے میں پیش کریں“۔ مزید کہا، ”اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کے ذریعہ فراہم کی جانے والی مطلوبہ تفصیلات کسی اتھارٹی سے مشورہ نیز ریاستی یا مرکزی حکومت کو خبر کیے بنا ہی سیدھے عدالت میں پیش کی جائیں گی“۔

پوری شنوائی کے دوران عدالت نے حکومتی اہلکاروں پر زبردست دباؤ بنائے رکھا، اور ہر کام کی باریکی سے نگرانی ہوتی رہی۔ یہ ایک خفیہ عمل تھا جسے مرکزی و ریاستی حکومتوں تک سے پوشیدہ رکھا گیا۔ جیسا کہ بعد میں گوتم بھاٹیا نے روزنامہ”دی ہندو“میں لکھا، ”اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت محض نگرانی سے مطمئن نہیں تھی بلکہ وہ درپردہ، طور طریقوں اور نفاذ کے تعلق سے بھی ہدایت دینے کا کام سرانجام دے رہی تھی“۔

دسمبر 2014 کو عدالت نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے نام ایک حکم نامہ جاری کیا، جس میں امیگریشن ایشو کے مختلف پہلوؤں کے متعلق تفصیلی ہدایات دی گئی تھیں نیز این آر سی کو اپڈیٹ کرنے کے لیے 11 ماہ کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔

گوگوئی نے اس پروجیکٹ میں کچھ اس انداز سے دخل اندازی کی کہ ان کے نزدیک جمہوری ملک کے عناصر ثلاثہ (1- مقننہ؛ قوانین وضع کرنے والی، 2- انتظامیہ؛ قوانین کا نفاذ کرنے والی، اور 3- عدلیہ؛ دستور کی روشنی میں قوانین کا معائنہ کرنے والی) کے مابین اختیارات کی تقسیم کا ذرا بھی پاس و لحاظ نہیں رہا۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالتے ہی انھیں عدالتی روسٹر اور کیس کو درج کرنے پر کنٹرول حاصل ہوگیا تھا، جس نے انھیں عدالت میں این آر سی سے متعلق پیش ہونے والے سبھی معاملوں کا رخ متعین کرنے میں مزید بااختیار بنا دیا۔

2014 میں مرکز اور 2016 میں آسام میں بی جے پی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ جس سے اس کے آڈیالوجیکل فاؤنڈیشن اور غیر ملکیوں کے تئیں آسام کی متنازع تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندو قوم پرستوں کو این آر سی کی شکل میں اپنے مسلم مخالف منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا موقعہ میسر آگیا تھا۔ آسام کے نئے وزیر اعلیٰ سَربانند سونووال نے ایس پی، ضلع کلکٹر اور ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کرکے انھیں غیر ملکیوں کی شناخت کرنے اور این آر سی کو جلد از جلد تیار کرنے کا حکم دیا۔ اسی درمیان وزیر داخلہ کا بھی ایک بیان سامنے آیا جو انھوں نے کسی ریلی میں دوران تقریر کہا تھا، کہ وہ پورے ملک میں این آر سی نافذ کریں گے اور سبھی گھس پیٹھیوں (Infiltrators) اور دیمکوں – غیر ملکیوں- کو ملک سے نکال باہر کریں گے۔

بی جے پی حکومت نے اس پروجیکٹ کے لیے ضروری وسائل بھی فراہم کیے جن کی لاگت تقریباً 1600کروڑ روپئے تھی، اور جس میں پچاس ہزار سے زائد افراد کا عملہ بھی شامل تھا۔ سپریم کورٹ نے دسمبر 2014 کے فیصلے میں آسام حکومت کو یہ حکم بھی جاری کیا تھا کہ اگلے 60 دنوں کے اندر وہ دیگر فارینر ٹریبونلز کے سرگرم عمل ہوجانے کو یقینی بنائے۔ چنانچہ سپریم کورٹ کے ایک دوسرے حکم نامے پر عمل کرتے ہوئے آسام حکومت نے مئی 2019 میں، فائنل این آر سی کی اشاعت سے قبل دو سو فارینر ٹریبونلز کی تعمیر کا کام شروع کردیا، تاکہ 300 کی تعداد پوری ہوجائے، نیز 200 مزید بنائے جانے کی منظوری دے دی۔ غیر ملکی ثابت ہونے والوں کے لیے ملک کا سب سے پہلا ڈٹینشن سینٹر آسام کے ضلع گوالپارا (Goalpara) میں زیرِ تعمیر ہے، نیز ایسے مزید 10 ڈٹینشن سینٹرز قائم کرنے کی تجویز پیش کی جاچکی ہے۔

گوگوئی کے فیصلے کے باعث عدالت کی کارکردگیوں میں ایک قسم کی عدم شفافیت کی صورت پیدا ہوگئی۔ این آر سی پر شنوائی کے دوران ہی گوگوئی نے سیاسی اہمیت کے حامل متعدد معاملات پر سماعت کی جن میں مہر بند لفافوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ گوگوئی نے بارہا ہَجیلا اور دیگر اسٹاک ہولڈرز کو اپنی رپورٹس مہر بند لفافے میں پیش کرنے کو کہا تاکہ وہ صرف عدالت تک محدود رہیں، اور مقدمے کے دیگر فریق، حتی کہ اس پروجیکٹ کو نافذ کرنے والی حکومتوں کو بھی اس سے علیحدہ رکھا جا سکے۔ گوتم بھاٹیا نے اپنے مضمون میں گوگوئی کی وراثت کے ضمن میں لکھا ہے، ”عدالتی نظام کا ایک بنیادی اصول ‘اوپن جسٹس’ بھی ہے، اور مہر بند لفافے اس اصول کے بالکل برعکس ہیں… اب اگر انہی شواہد کو صیغۂ راز میں رکھا جائے گا جن کی بنیاد پر فیصلہ سنایا گیا ہے تو اس کی کسی بھی طرح کی تحقیق صدا بصحرا ثابت ہوگی“۔

گوگوئی کے مہر بند لفافوں کے استعمال کے ضمن میں لوکُر کہتے ہیں، ”یہ سراسر غلط ہے، میں تو اس کی حمایت نہیں کرسکتا“۔ انھوں نے کہا کہ ”انڈین اویڈینس ایکٹ“کے تحت یہ رخصت صرف ریاست کو حاصل ہے کہ وہ چند مخصوص دستاویزات کو مہر بند لفافوں میں پیش کرنے کی عدالت سے اجازت طلب کرے، مگر ”عدالت بذات خود اس کا استعمال ہرگز نہیں کرسکتی“۔

فروری 2017 کو گوگوئی نے پردے کی آڑ لے کر ایک اور غیر معمولی فیصلہ سنایا۔ ہوا یہ کہ ہَجیلا نے بند کمرے میں پاور پوائنٹ پریزینٹیشن کے ذریعہ گوگوئی کو ایک نئے پروسیس ”شجرۂ نسب کی تحقیق“(Family-tree Verification) سے متعارف کرایا۔”دی کارواں“ کی جولائی 2018 کی رپورٹ کے مطابق صرف چار لوگوں کو یہ پریزینٹیشن دیکھنے کی اجازت دی گئی، دیکھنے کے بعد گوگوئی نے بنا کسی عدالتی کارروائی کے اس پروسیس کو منظوری دے دی۔ ترمیم شدہ پروسیس میں عرضی گزاروں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے آباء و اجداد کا نسب نامہ مع دستاویزات کی توثیق پیش کریں تاکہ اُنھیں کمپیوٹرائزڈ پلیٹ فارم پر اپلوڈ کرکے ایک ڈیجیٹل شجرۂ نسب تیار کیا جاسکے، تاکہ جب خاندان کے دیگر افراد اپنی معلومات پیش کریں تو تحقیق کرنے میں آسانی ہو۔ سماجی کارکن عبد الباطن خاندیکر نے بتایا کہ اس پروسیس کا مقصد صرف جلاوطنی کو مزید تقویت فراہم کرنا تھا نہ کہ آباء و اجداد سے نسب نامہ ثابت کرنا۔

گوگوئی اور ہَجیلا کے مابین ہونے والی گفتگو سے متعدد عدالتی خامیوں اور غیر معقولیت کا پتہ چلتا ہے۔ آرڈرز سے اتنا تو واضح ہوگیا تھا کہ ہَجیلا متعینہ مدت میں ہی پروجیکٹ مکمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ عدالت نے دسمبر 2014 میں ہَجیلا کو حکم دیا کہ یکم اکتوبر 2015 تک اپڈیٹیڈ این آر سی کا ایک ڈرافٹ اور یکم جنوری 2016 تک اس کا فائنل ورژن شائع ہوجانا چاہیے۔ جولائی 2017 کو عدالت نے اپڈیٹیڈ این آر سی کا ڈرافٹ پیش کرنے کی متعینہ مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسی سال دسمبر کے اخیر تک پیش کرنے کو کہا۔ مگر 30 نومبر کو ہَجیلا نے عدالت میں یہ بیان دیا کہ سال کے اخیر تک صرف دو کروڑ درخواستوں کے پروسیس کیے جانے کی امید ہے، اس لیے ڈرافٹ کی اشاعت کے لیے مزید مہلت دی جائے، مگر عدالت نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اسی نامکمل ڈرافٹ کو 31 دسمبر تک پیش کرنے کا حکم دیا۔

بعد ازاں 20 فروری 2018 کو عدالت کی طرف سے حکم نامہ جاری کیا جاتا ہے، ”موجودہ تفصیلات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک ایڈیشنل اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کی تقرری عمل میں لائی جائے۔ چنانچہ عدالت رجسٹرار جنرل آف انڈیا کو متنبہ کرتی ہے کہ وہ اس قسم کی حرکتوں سے باز رہیں۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ این آر سی کا ڈرافٹ تیار کرنے میں مصروف موجودہ اسٹیٹ کوآرڈینیٹر پرتیک ہَجیلا اپنی کارروائی اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ جاتے“۔ گوگوئی نے ایڈیشنل اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کی تقرری کی درخواست کو رد کردینے کی کوئی وضاحت نہیں کی۔

آخر کار 30 جولائی کو ہَجیلا نے این آر سی کا ڈرافٹ پیش کیا، جس میں سے آسام میں رہائش پذیر چالیس لاکھ لوگوں کے نام خارج کردیے گئے۔ چند دنوں بعد اسٹیٹ کوآرڈینیٹر اور رجسٹرار جنرل آف انڈیا نے این آر سی پروسیس کے متعلق پریس کو بیان جاری کیے، نیز بقیہ دعوؤں اور اعتراضات پر شنوائی کیسے ممکن ہوسکتی ہے، اس کی بھی وضاحت کی۔ مگر یہ بات عدالت کو کچھ جچی نہیں۔ چنانچہ 7 اگست کو گوگوئی اور نَریمن نے کیس کو سماعت کے لیے درج کیا اور بر سرِ عدالت دونوں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا، ”تم دونوں کو تو توہین عدالت کے جرم میں گرفتار کرا دینا چاہیے…تمھیں یہ سب بکواس کرنے کی کیا ضرورت تھی؟“ اس کے بعد بینچ نے دونوں کو سب کے سامنے معافی مانگنے کو کہا۔ نیز این آر سی کے متعلق کوئی بھی بیان دینے سے قبل عدالت سے اجازت لینے کو ضروری قرار دیا۔

بیشتر وکلاء اور ایکٹوسٹس کا کہنا ہے کہ ہَجیلا ایک راست باز اور ایماندار بیوروکریٹ کی حیثیت سے معروف تھے۔ گوتم بھاٹیا نے تو یہاں تک کہہ دیا، ”عدالتی ہدایات پر ان کی عملداری کو دیکھ کر بسا اوقات ایسا لگتا تھا کہ ہَجیلا عدالت کے ایجنٹ ہو کر ہی رہ گئے ہیں…مگر…فی الحال ان کے رویے میں جو تبدیلی رونما ہوئی ہے وہ بہت عجیب و غریب ہے…اب تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ہوں، اپنے دماغ سے تو کچھ کر ہی نہیں رہے“۔

خاندیکر کے مطابق پروجیکٹ کے ابتدائی چند ایام میں تو ہَجیلا مسلسل ان سے ملاقات کرنے آتے اور یہ یقین دلاتے تھے کہ این آر سی اتنے عمدہ طریقے سے انجام دی جائے گی کہ کوئی بھی شہری خارج نہیں ہونے پائے گا۔ مگر اگست کی شنوائی میں تو اس کے بالکل برعکس ہوا…اور اس کے بعد سے ہَجیلا نے لوگوں سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا“۔

گوگوئی کے سر پر این آر سی کا بھوت اس قدر سوار ہوچکا تھا کہ انھوں نے اسٹیٹ مشینری کو ہی اپنے قبضے میں کر لیا، جس سے آسام کے تقریباً سبھی علاقے بری طرح متاثر ہوئے۔

یکم دسمبر کو گوگوئی نے حکم جاری کیا کہ این آر سی اپڈیٹ کرنے میں مشغول ریاست کا تمام عملہ اس وقت تک کسی اور پروجیکٹ کو ہاتھ نہیں لگا سکتا جب تک یہ کام پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ جاتا۔ مگر اگلے ہی مہینے سابقہ حکم نامے میں رد و بدل کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیگر کام کرسکتے ہیں بشرطیکہ اس پروجیکٹ کی ”اولیت و ارجحیت“ میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔ جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے ایک بیان جاری کیا کہ آنے والے عام انتخابات اور این آر سی دونوں کو یکساں اہمیت دی جانی چاہیے۔ چنانچہ ریاستی حکومت نے ایک بار پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، اور اگلے ہی مہینے گوگوئی نے 3457 افراد کو این آر سی کے لیے مخصوص کرکے بقیہ کو انتخابات کی تیاری کے لیے فارغ کردیا۔ نیز الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دی کہ الیکشن کی خاطر کسی بھی ڈی ایم یا اڈیشنل ڈی ایم کا تبادلہ نہ کیا جائے۔

بیوروکریسی پر گوگوئی کا کنٹرول ہوجانے سے حکومت کی ان تمام اسکیموں پر سیدھا منفی اثر پڑا جنھیں این آر سی کے اپڈیٹ تک معلق رکھا گیا تھا۔ وزیر اعلی کے میڈیا ایڈوائزر ہِرشی کیش گوسوامی نے مجھ سے کہا، ”گزشتہ ساڑھے تین برس سے 55 ہزار افراد این آر سی کو اپڈیٹ کرنے میں مسلسل مصروف ہیں…لہذا ظاہر سی بات ہے کہ ترقی پر اس کا اثر تو پڑے گا ہی“۔ آسام سیکریٹریٹ کے بیشتر افراد نے اپنی شناخت مجہول رکھنے کی شرط پر بتایا کہ این آر سی کے باعث کس طرح ترقیاتی پروگرام اور دیگر حکومتی منصوبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

آسام حکومت کے ایک سیکریٹری کا بیان ہے کہ ریاست میں تقریباً چار لاکھ حکومتی اہلکار ہیں۔ اس نے اندازہ کرکے بتایا کہ ہفت جہت افسران والے شعبوں میں سے چار افسران کو این آر سی پروجیکٹ پر مامور کردیا گیا ہے۔ بقول اس کے، ”افسران کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے – کم و بیش 70 فیصد زمینی سطح کے افسران اس پروجیکٹ میں مشغول ہیں…آپ اگر گاؤں اور دیہاتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں کئی اسکول ایسے بھی ہیں جن میں گذشتہ تین برس سے ریاضی اور سائنس کے لیے صرف ایک ایک ٹیچر ہیں، کیونکہ سبھی کو تو اس کام میں مشغول کردیا گیا ہے “۔

ایک اور سیکریٹری کا بیان ہے کہ این آر سی کے باعث ”انتظامی امور میں کافی سستی واقع ہوئی ہے“۔ مثلاً آسام کے بے گھر افراد کو زمین فراہم کرنے کے لیے ایک سروے کیا جاتا ہے، اس کے لیے”گاؤں در گاؤں جاکر سرکاری اراضی کا پتہ کرکے بے گھروں کی ایک فہرست تیار کرنی ہوتی ہے، پھر انھیں زمین فراہم کی جاتی ہے“۔ مگر، اس کے مطابق، اب تک جس قدر یہ سروے ہوجانا چاہیے تھا اس کا صرف آٹھواں حصہ ہی ہوپایا ہے۔ کیونکہ”یہ ایک لمبا پروسیس ہے جس کے لیے پانچ سے چھ مہینے کا وقت درکار ہوتا ہے۔ مگر لوگوں کے این آر سی میں مصروف ہونے کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو رہی ہے…امسال ہمارا منصوبہ ایک لاکھ بے گھروں کو زمین فراہم کرنے کا تھا۔ لیکن اکتوبر تک صرف 35 ہزار افراد کو ہی دے سکے۔ جبکہ چھ مہینوں میں کم از کم پچاس ہزار لوگوں کو زمینیں فراہم کردی جانی چاہیے تھیں“۔

داخلی و سیاسی شعبے کے ڈپٹی سیکرٹری سی پی فوکن (CP Phookan) این آر سی سے متاثر زدہ دیگر کاموں کے بارے میں کہتے ہیں، ”شمالی آسام میں نیشنل ہائی وے کے لیے زمینداروں کی زمینیں تو لی جا رہی ہیں مگر معاوضہ دینے میں قدرے تاخیر سے کام لیا جارہا ہے…وزیر اعلی مداخلت کرسکتے تھے مگر انھوں نے نہیں کیا“۔ ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔”گذشتہ تین برسوں تک تو ترقیاتی مشینری کو مکمل ہائی جیک کرلیا گیا تھا۔ اگر کبھی ہم پوچھتے بھی کہ ‘آفیسر کہاں ہیں؟’ تو جواب ملتا کہ ‘این آر سی میں مشغول ہیں“۔

گوگوئی نے ہرش مندر کی عرضی کے ساتھ جیسا برتاؤ کیا اس سے واضح ہوگیا تھا کہ این آر سی کا معاملہ ان کے لیے کس حد تک ذاتی اہمیت کا حامل ہے۔ جنوری 2018 میں، جب ہرش مندر ”نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن“میں اقلیتوں کے لیے بطور اسپیشل مانیٹر خدمات انجام دے رہے تھے، تو انھیں ان چھ ڈٹینشن سینٹرز کا معائنہ کرنے کے لیے روانہ کیا گیا جنھیں آسام میں جیلوں کا ایک حصہ خاص کرکے غیر ملکی قرار شدہ لوگوں کو نظر بند کرنے کی غرض سے بنایا گیا تھا۔ مندر نے گوالپارا اور کوکراجھر میں واقع صرف دو ڈٹینشن سینٹرز کا جائزہ لیا۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ غیر متعینہ مدت تک کے لیے نظر بند ان قیدیوں کو بہت بری حالت میں رکھا گیا تھا، تمام اہل خانہ کو، حتی کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی ایک دوسرے سے علیحدہ ٹھہرایا گیا تھا، سینٹر میں کسی قسم کا کوئی قانون قاعدہ نہیں تھا۔ اس کے بعد انھیں دیگر سینٹرز میں جانے سے منع کردیا گیا، نیز این ایچ آر سی نے بھی مزید اس کام کو جاری رکھنے یا ان کی رپورٹ کو آگے بھیجنے سے انکار کردیا۔ بالآخر ماہ جون میں مندر نے اسپیشل مانیٹر عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور جو کچھ وہاں انھوں نے دیکھا تھا وہ سب مفصل طور پر بلا کم و کاست لکھ کر ذاتی طور پر شائع کیا۔ اس کے چند دنوں بعد اگست میں انھوں نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی برائے مفاد عامہ (public-interest litigation) بھی دائر کرکے مطالبہ کیا کہ ان قیدیوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جائے، انھیں مفت قانونی امداد فراہم کی جائیں نیز انھیں اسی صورت میں ڈٹینشن سینٹرز میں ڈالا جائے جب اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ ہو۔

مارچ 2019 کو مندر نے اپنی عرضی کے ضمن میں ایک حلف نامہ بھی دائر کیا جس میں نشاندہی کی کہ کس طرح ڈی-ووٹرز اور غیر قانونی شہریوں کی شناخت میں بے ضابطگی اور بے ڈھنگے پن کا اظہار کیا گیا، اور ناقص فیصلے کیے گئے۔ انھوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن اور آسام پولیس بارڈر آرگنائزیشن نے بارہا ”بغیر کسی تحقیق“کے حقیقی اور قانونی شہریوں کے معاملات کو بھی فارینر ٹریبونلز کے سپرد کیا ہے۔ مندر کے مطابق، ان ٹریبونلز کو چند کیسز تو ایسے تصدیق ناموں (Verification Forms) کے ساتھ بھی بھیجے گئے جنھیں پُر ہی نہیں کیا گیا تھا۔ حلف نامے میں ٹریبونلز کی عملی کوتاہیوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ مثلاً وہ نیم عدالتی ادارے جو قانونی شہریوں کو محض کاغذات میں اسپیلنگ مسٹیک، عمر اور پتے جیسے معمولی فرق پائے جانے کی بنا پر بھی غیر ملکی قرار دے رہے ہیں۔

13 مارچ کو سپریم کورٹ نے حکومت آسام کے چیف سیکریٹری آلوک کمار کو حکم جاری کیا کہ وہ ایک حلف نامہ دائر کرکے بتائیں کہ اب تک کتنے افراد غیر ملکی قرار دیے جا چکے ہیں، کتنے ڈٹینشن سینٹرز میں قید ہیں اور کتنوں کو ان کے اصلی وطن روانہ کیا جاچکا ہے؟ چنانچہ مارچ کی اگلی 25 تاریخ کو حکومت آسام کی جانب سے ان تمام تفصیلات پر مشتمل ایک حلف نامہ دائر کردیا گیا۔ حلف نامے میں مذکور تعداد کو دیکھ کر میں تو حواس باختہ ہوگیا تھا۔ حلف نامے کے مطابق 1985 سے 2018 تک غیر ملکی قرار دیے گئے افراد کی مجموعی تعداد 112395تھی۔ جن میں 46899 افراد یعنی 41 فیصد تو وہ لوگ تھے جنھیں 2015 سے 2018 کے درمیان غیر ملکی قرار دیا گیا تھا۔ اس حلف نامے کا مصدر اور سورس آسام پولیس کے بارڈر ونگ (Border Wing) کو بتایا گیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ 2015 میں 4072، 2016 می‌ 5096، 2017 میں 15541 اور 2018 میں 22189 افراد کو غیر ملکی قرار دیا گیا۔ ریاست میں بی جے پی حکومت کے قیام سے پہلے اور بعد کے اعداد و شمار کا مطالعہ کرنے پر صاف پتہ چلتا ہے کہ اسٹیٹ مشینری اس معاملے میں کس جوش و جذبے کے تئیں کام سرانجام دے رہی تھی۔

آلوک کمار کے حلف نامے میں یہ بھی ذکر تھا کہ غیرملکی قرار شدہ 2703 افراد کو ڈٹینشن سینٹرز کے قیام کے بعد سے مختلف مواقع پر قید کیا گیا۔ 17 مارچ 2019 تک آسام کے چھ ڈٹینشن سینٹرز میں ان قیدیوں کی مجموعی تعداد صرف 915 تھی۔ (لوک سبھا میں بذریعہ وزارت داخلہ پیش کردہ رپورٹ کے مطابق 25 جون تک یہ تعداد بڑھ کر 1133 ہوگئی) ان 915 قیدیوں میں 799 تو وہ تھے جنھیں غیر ملکی قرار دے دیا گیا تھا، بقیہ 116 کی تعداد ان لوگوں کی تھی جنھیں ”فارینرز ایکٹ 1946“ اور ”پاسپورٹ ایکٹ 1920“جیسے مختلف قوانین کے تحت نظر بند کیا گیا تھا۔

حلف نامے کے مطابق آسام پولیس 1985 سے 2018 تک کل 467094 کیسز فارینر ٹریبونلز کے سپرد کرچکی تھی، 202024 ابھی پینڈنگ میں تھے، 262070 کو نبٹا دیا گیا تھا، جس میں سے 105102 کیسز کو 2015 کے بعد نبٹانے کا عمل انجام دیا گیا۔ اس حلف نامے میں یہ بھی مذکور تھا کہ مارچ 2013 سے کل 166 افراد کو ملک بدر کیا گیا، جن میں سے چار توغیر ملکی تھے جبکہ بقیہ افراد کو غیر ملکی قرار دیا گیا تھا۔

مابعد کی ایک شنوائی کے دوران، 9 اپریل کو گوگوئی نے چیف سیکریٹری کے مذکورہ بالا اعداد و شمار کو چیلنج کیا۔ انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ 2015 کے بعد سے غیرملکی قرار دیے جارہے لوگوں کے اضافے ٹریبونلز کی کس قسم کی کارکردگی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، بلکہ لائیو لا (Live Law) ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق گوگوئی نے چیف سیکریٹری آلوک کمار سے دریافت کیا :

”کیا آپ اس لمبی چھلانگ پر فخر محسوس کرتے ہیں؟ کیسز کو بحسن و خوبی نبٹا کر کیا آپ اپنے منہ میاں مٹھو بننا چاہتے ہیں؟… 2015 سے آپ نے کل چھیالیس ہزار غیر ملکیوں کی شناخت کی ہے مگر ڈٹینشن سینٹرز میں تو صرف دو ہزار ہی قیدی ہیں۔ بقیہ چوّالیس ہزار کہاں گئے؟“

رپورٹ کے مطابق گوگوئی نے جلاوطنی کے مسئلے میں بھی چیف سکریٹری پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا، ”حسب دستور یہ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان لوگوں کو جلاوطن کردیں جنھیں عدالت یا نیم عدالتی اداروں کی جانب سے غیرملکی قرار دیا جا چکا ہے…کیا آپ کی حکومت دستور ہند پر عمل کر بھی رہی ہے؟“

ان سارے سوالات کے بعد جب چیف سیکریٹری نے یہ تسلیم کیا کہ واقعی ان کی حکومت باقی ماندہ غیرملکیوں کی شناخت کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ تو گوگوئی نے کہا، ”ہم بوقت ضرورت جو کرنا ہوگا کریں گے، آپ بس یہ باتیں حلف نامے میں ذکر کردیں“۔

ابھی چیف سیکریٹری جواب دینے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ ہرش مندر کیس کی پیروی کر رہے پرشانت بھوشن بول پڑے کہ غیرملکی قرار دیے جانے والوں میں سے بیشتر افراد نے خود کی شہریت ثابت کردی ہے، اور اسی وجہ سے جلاوطنی کے عمل میں دقت پیش آرہی ہے۔ فارینرز ایکٹ میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ ملک ہندوستان میں غیر ملکیوں کا داخلہ، ان کی موجودگی اور ان کو جلاوطن کرنے کی ساری ذمہ داری صرف مرکزی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک غیر ملکی ثابت شدہ لوگوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بنگلہ دیش نے تو ہمیشہ اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس کے یہاں سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کرکے ہندوستان گئے ہیں۔ نتیجتاً غیر ملکی قرار دیے گئے لوگ ایک طرح سے بنا وطن کے ہوکر رہ گئے ہیں۔

گوگوئی نے سینیئر ایڈوکیٹ گورَب بنرجی کو اس معاملے میں Amicus Curiae بنا دیا تاکہ ”وہ غیرملکیوں کی شناخت کرنے اور انھیں ملک بدر کرنے میں عدالت کی مدد کریں“۔

گوگوئی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آلوک کمار نے ایک حلف نامہ دائر کردیا، جس میں گزارش کی کہ وہ قیدی جنھوں نے ڈٹینشن سینٹرز میں پانچ سال کی مدت پوری کرلی ہے انھیں چند شرائط کے ساتھ رہا کردیا جائے۔ جیسے:

● وہ ایک ایک لاکھ کی دو زر ضمانت کی ادائیگی کریں۔

● رہائی کے بعد کسی ویری فائیڈ مقام پر ہی سکونت اختیار کریں۔

● اپنی مکمل بائیو میٹرک انفارمیشن جمع کریں۔

● ہر ہفتے لوکل پولیس اسٹیشن میں حاضری دیں۔

● اگر کبھی جائے رہائش تبدیل کرنے کی نوبت آجائے تو اس سے بھی پولیس کو مطلع کریں۔

یہ سب سن کر گوگوئی بھڑک اٹھے۔ اور 25 اپریل کو اگلی شنوائی میں جب آلوک کمار کی جگہ سولیسیٹر جنرل تشار مہتا نے حلف نامے کو پڑھ کر سنایا تو گوگوئی پلٹ کر بولے، ”اچھا!!! تو تم چاہتے ہو کہ کسی ایسے شخص کو جو غیر ملکی قرار دیا جاچکا ہے، اسے زر ضمانت کی ادائیگی کے بعد اس ملک میں رہنے دیا جائے؟ اور ایک غیر قانونی حکم کے ساتھ سپریم کورٹ بھی اٹھ کھڑا ہو؟“

عدالت میں گوگوئی کے بیانات کا جائزہ لیتے ہوئے گَوتم بھاٹیا نے کہا کہ غیر متعینہ مدت تک کسی کو نظربند کرنا دستور ہند کی دفعہ 21 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس دفعہ میں کہا گیا ہے، ”کسی بھی شخص کی جان یا شخصی آزادی سے قانون کے ذریعہ قائم کردہ ضابطے کے سوا کسی اور طریقے سے محروم نہ کیا جائے گا“۔ دیگر بنیادی حقوق کے برعکس دفعہ 21 فقط شہریوں کے لیے نہیں بلکہ ملک میں بسنے والے تمام افراد کے لیے یکساں ہے۔ گَوتم بھاٹیا نے کہا، ”قیدیوں کی رہائی سے انکار کرکے عدالت مسلسل دفعہ 21 کی سنگین خلاف ورزیوں کو منظوری دے رہی ہے… کوئی شخص بمشکل ہی اس کے پیچھے چھپی ستم ظریفی کو نظر انداز کرسکتا ہے: ایک طرف حکومت ہے جو ڈٹینشن سینٹرز کے قیدیوں کو رہا کرنا چاہتی ہے تو دوسری جانب عدالت، جو اس رہائی پر پابندی عائد کرنے میں کوشاں ہے۔ کون سیاسی کارگزار ہے اور کون چوکس محافظ؟ کسے حقوق کا پاسبان تسلیم کیا جائے اور کسے اس کی دھجیاں اڑانے والا؟…. یہ فرق کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے“۔

گوگوئی نے قیدیوں کی رہائی سے متعلق حکم جاری کرنے کو غیر قانونی قرار دینے کی وضاحت تو نہیں کی، البتہ کمار کو ڈیپارٹمنٹ انکوائری کی دھمکی ضرور دے دی۔ گوگوئی نے کہا، ”تمھیں اس عہدے پر برقرار رہنے کا کوئی حق نہیں۔ چیف سیکریٹری ! تم بڑی مصیبت میں پھنس گئے ہو۔ ہم تمھارے خلاف نوٹس جاری کر رہے ہیں کہ تم نے قانون کے حق میں ایک گستاخانہ بیان دیا ہے“۔ انھوں نے ریاستی حکومت کے رخ کو لے کر کمار کو سرزنش کرتے ہوئے کہا، ”غیرملکی قیدیوں کے متعلق مرکزی و آسام کی ریاستی حکومت کا یہ موقف ہونا چاہیے کہ انھیں جلد از جلد ملک بدر کر دیا جائے، مگر، چیف سیکریٹری! ہمیں ایسا کہیں نظر نہیں آتا“۔ حتی کہ بنرجی نے بینچ کو بارہا یہ بتایا کہ جس ملک کی طرف انھیں جلاوطن کیا جانا ہے پہلے اس ملک کا متفق ہونا ضروری ہے، اس کے باوجود گوگوئی اس بات پر مصر رہے کہ حکومت اپنے فرض میں ناکام ہوچکی ہے۔ انھوں نے تشار مہتا سے کہا، ”آپ تو آسام کے نمائندہ ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ اس عہدے پر مزید برقرار رہنے کے اہل ہیں؟“

کمار نے بینچ سے معافی مانگی اور چند دیگر تجاویز کے ساتھ دوبارہ حاضر ہونے کی یقین دہانی کرائی، تب کہیں جاکر سماعت اختتام پذیر ہوئی۔ اس کے بعد ہی، آسام کے ڈٹینشن سینٹرز میں قیدیوں کی حالت سے متعلق ایک معاملے میں گوگوئی نے ریاست کے چیف سیکریٹری کو پھٹکار لگائی کہ انھوں نے ان قیدیوں کی رہائی کی تجویز پیش کی تھی۔ نیز حکومت کو بھی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قید کرنے اور انھیں ملک بدر نہ کرنے پر کافی برا بھلا کہا۔ تحریری شکل میں صرف عدالت کے اس آبزرویشن کو درج کیا گیا کہ آسام کی طرف سے ”ایک حلف نامہ مزید دائر کرنے کی اجازت ہے“۔

یکم مئی کو آلوک کمار نے ایک نیا حلف نامہ دائر کیا جس میں قیدیوں کی رہائی سے متعلق ان کا نظریہ تو بالکل تبدیل ہوگیا تھا۔ رہائی والے سوال پر حلف نامے میں کہا گیا تھا، ”اس بارے میں ریاستی حکومت کا جو موقف پہلے تھا، اب بھی وہی ہے۔ یعنی اگر کسی قیدی کو رہا کیا جاتا ہے تو اس کے روپوش ہوجانے کا قوی امکان ہے، جس سے اس کو غیرملکی قرار دیے جانے کے پورے عمل پر پانی پھر جائے گا“۔ اس حلف نامے نے ملک بدر کرنے کی ذمہ داری سے ریاستی حکومت کو یہ کہہ کر نجات دلادی کہ اس نے تمام قسم کی ضروری معلومات مرکزی حکومت کو بہم پہنچا دی ہیں۔ آلوک نے بتایا کہ مرکزی حکومت کو سونپے گئے 253 مسودوں میں سے چار کو ملک بدر کیے جانے کا کام پورا ہوچکا ہے۔

جب ہرش مندر کو احساس ہوا کہ ان کے مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے، تو انھوں نے سپریم کورٹ رجسٹری سے درخواست کی کہ گوگوئی کو اس کیس کی شنوائی سے علیحدہ کردیا جائے۔ مگر رجسٹری نے ان کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ وہ بذات خود یہ درخواست چیف جسٹس کو پیش کریں۔ چنانچہ 2 مئی کو لنچ بعد ہرش مندر کی عرضی پر سماعت کے لیے ایک سہ رکنی بینچ گوگوئی کی عدالت میں لگائی گئی اور مندر نے بذات خود اس مقدمے کی پیروی کی۔

گوگوئی نے اعلی ظرفی و بلند ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، ”عموماً ہم عدالت میں کوئی درخواست قبول نہیں کرتے۔ مگر، چونکہ آپ ایک عام شخص ہیں اس لیے قبول کرلیتے ہیں…اب آپ کو جو بھی کہنا ہے بلا جھجھک بول سکتے ہیں“۔ چنانچہ ہرش نے ایک تحریری بیان پڑھنا شروع ہی کیا تھا، ”میں عدلیہ میں مکمل یقین رکھتا ہوں…“ کہ گوگوئی نے درمیان میں ہی ٹوک دیا اور بولے، ”ہرش مندر صاحب ! آپ یہ تحریری بیان نہ پڑھیں، آپ جیسی عظیم المرتبت شخصیت سے اس کی توقع نہیں کی جاتی۔ اپنے دل سے بولیں“۔

ہرش نے دوبارہ بولنا شروع کیا، ”عالی جناب! میں بہت عزت کرتا ہوں…“ مگر گوگوئی پھر سے درمیان میں ٹپک پڑے اور بولے، ”عزت و احترام کا پتہ اعمال سے چلتا ہے نہ کہ آپ کے الفاظ سے “۔ اسی طرح جب تک ہرش مندر بولتے رہے، گوگوئی مسلسل ٹوکتے رہے۔

جب مندر اپنی بات کہہ چکے تو گوگوئی اپنے دونوں بازوؤں کو عدالت میں پھیلا کر پرجوش لہجے میں گویا ہوئے، ”عدالت میں جب کوئی بحث و مباحثہ ہوتا ہے تو ماحول کا جائزہ لینے کے لیے جج بہت کچھ بول جاتا ہے۔ کسی ہیلتھی ڈبیٹ (Healthy Debate) میں کہی گئی ساری باتوں کو آپ نے اظہارِ خیال سمجھ لیا، جبکہ اظہار خیال تو حکم کا درجہ رکھتا ہے“۔ اس کے بعد گوگوئی نے مندر سے 25 اپریل کی شنوائی کا وہ حکم پڑھنے کو کہا جس میں چیف سیکریٹری کو مزید ایک حلف نامہ دائر کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ مندر نے کہا کہ ان کی تشویش کا باعث زبانی بیانات ہیں اور وہ اپنی زبانی بیانات کے ساتھ ہیں۔

اس کے بعد گوگوئی نے یوں ظاہر کیا گویا انھیں بھی تشویش ہے۔ مگر ان کی اس تشویش میں ایک اعتبار سے مندر کے ارادوں پر الزام بھی تھا۔ آخر کار وہ پوچھ ہی بیٹھے، ”اگر ہم یہ کہیں کہ یہ سب کرنے کے لیے آسام حکومت نے آپ کو آمادہ کیا ہے، نیز باضابطہ کارروائی سے بچنے کی خاطر اس چیف سیکریٹری نے آپ کا استعمال کیا ہے، تو آپ کیا جواب دیں گے؟“ مندر نے جواب دیا، ”میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ سچ نہیں ہے“۔ تو گوگوئی بولے، ”دیکھیے آپ نے اس ادارے کو کتنا نقصان پہنچایا ہے“۔ مزید کہا، ”کسی معاملے کو ہاتھ میں لینے کی صلاحیت و عدم صلاحیت معلوم کرنے کی ذمہ داری جج کی ہوتی ہے نہ کہ فریق مقدمہ کی۔ اس لیے آپ حد سے تجاوز نہ کریں“۔ ایک موقع پر گوگوئی نے ہرش سے پوچھا، ”آپ یہ رائے کیسے قائم کرسکتے ہیں کہ چیف جسٹس نے قبل از سماعت ہی فیصلہ کرلیا ہے؟ کیا آپ کی یہ بات ملک کے حق میں درست ہے؟“ گوگوئی نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ چیف جسٹس کے جانبدار اور متعصب ہونے کی تشویش ملک کے حق میں کیوں غیر درست ہے۔

تھوڑی دیر گزری تھی کہ سولیسیٹر جنرل تشار مہتا بھی اس میں شامل ہوگئے۔ انھوں نے اس عرضی پر حیرانی ظاہر کی جس میں چیف جسٹس کو اس معاملے سے علیحدہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ تشار نے کہا، ”یہ بہت بیہودہ اور حقارت آمیز بات ہے“۔ اور درخواست کو تھوڑا پڑھنے کے بعد کہتے ہیں، ”یہ کون ہوتے ہیں بتانے والے کہ ایک جج کو کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟ آپ عوام کے خیر خواہ بن کر کیا کسی کے بھی خلاف زہرافشانی کرنے لگیں گے؟“

تشار نے جیسے ہی یہ بکواس شروع کی، گوگوئی کرسی پر ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھ گئے۔ اور جب تشار نے کہا کہ وہ اس درخواست کی مخالفت کرتے ہیں تو گوگوئی بول پڑے، ”آپ کس بات کی مخالفت کر رہے ہیں؟ آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ ہم (عرضی پر شنوائی) سے برطرف ہوجائیں گے؟ غلطی سے بھی ایسا نہ سوچیے گا۔ اس سے علیحدہ ہونا ادارے کو تباہی کے دلدل میں ڈھکیلنے کے مترادف ہوگا“۔ تشار مہتا نے زور سے سر ہلا کر اس کی تائید کی، ”جی بالکل !“

گوگوئی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ”ہم صرف اس پر غور کر رہے ہیں کہ اس کے علاوہ ہم اور کیا کریں گے، ہم کسی کو بھی اس ادارے پر اپنی دھاک جمانے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے“۔ تشار نے کہا، ”عالی جناب ! اس پر مزید کچھ کیا جانا چاہیے“۔

دیگر ججوں کے ساتھ مختصر گفتگو کے بعد، گوگوئی نے یہ بات دہراتے ہوئے کہ کسی بھی معاملے کی شنوائی میں مشکل، عدم قابلیت اور ناسمجھی کو معلوم کرنے کی ذمہ داری جج کی ہوتی ہے نہ کہ فریق مقدمہ کی، علیحدگی والی درخواست نامنظور کردی۔ اس کے بعد گوگوئی نے ہرش مندر کو برطرف کرکے ”سپریم کورٹ لیگل سروسز کمیٹی“ کو فریق مقدمہ کی حیثیت سے مقرر کردیا۔ نیز پرشانت بھوشن کو اس مقدمہ میں Amicus Curiae منتخب کرلیا۔ جب بھوشن نے بتایا کہ بنرجی پہلے سے ہی بحیثیت Amicus Curiae اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں تو گوگوئی نے جواب دیا، ”وہ ڈپورٹیشن یعنی جلاوطنی جیسے اہم کام پر مامور ہیں اور آپ کو ڈٹینشن سینٹرز کے ایک محدود حصے پر مقرر کیا گیا ہے“۔

شنوائی کے بعد میں نے ہرش مندر سے گوگوئی کورٹ روم کے باہر ملاقات کی۔ وہ بالکل مطمئن اور بے خوف نظر آرہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں اس قسم کے فیصلے کی پہلے سے توقع تھی؟ تو انھوں نے جواب دیا، ”مجھے نہیں پتہ تھا کہ عدالت اس پر کس قسم کے ردعمل کا اظہار کرے گی، یہ تو اور بھی منفی ہوسکتا تھا۔ میرے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ تو اس کا ایک جزو ہے جو ان لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے جن کی میں نمائندگی کر رہا ہوں“۔

ہرش مندر کے بعد مقدمے کو ”سپریم کورٹ لیگل سروسز کمیٹی“ بنام”یونین آف انڈیا“ کردیا گیا۔ یہ بھی کیا طنز ہے کہ گوگوئی نے 10 مئی کو ایک حکم نامہ جاری کرکے قیدیوں کی رہائی سے متعلق چیف سیکریٹری کے ذریعہ پیش کردہ بیشتر تجاویز کو منظور کرلیا۔ اس وقت اس پر جس قسم کا بظاہر غیر مصالحانہ اور متشددانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ آلوک کمار سپریم کورٹ سے ایک ”غیر قانونی حکم نامہ“جاری کرنے کی درخواست کر رہے ہیں، لگتا ہے اب باعث تشویش نہیں رہ گیا تھا۔ جب میں نے کمار سے این آر سی مسئلے پر گفتگو کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے صاف منع کردیا۔

اس 10 مئی کے حکم نامے میں ریاستی حکومت کو گوہاٹی ہائی کورٹ سے مشورہ کرنے کو بھی کہا گیا تھا تاکہ ”اراکین و اسٹاف کی تقرری سمیت فارینر ٹریبونلز کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مفصّل اسکیم تیار کی جا سکے“۔ لہذا گوگوئی نے ان قیدیوں کی رہائی کے متعلق سخت شرائط مقرر کرنے کے علاوہ اسی حکم نامے میں مستقبل میں قیدیوں کے لیے ایک انسٹیٹیوشنل فریم ورک تیار کرنے کی بھی کوشش کی۔

تشار مہتا نے مزید 200 فارینر ٹریبونلز کی خاطر ممبران منتخب کرنے کی تجویز سپریم کورٹ میں پیش کی۔ چنانچہ 30 مئی کو گوگوئی کی زیر صدارت وکیشن بینچ (Vacation Bench) نے یہ حکم جاری کیا کہ یکم ستمبر تک مزید 200 ٹریبونلز کی تشکیل عمل میں لاکر ان کے کام کو یقینی بنایا جائے۔

اسی دن امت شاہ کی وزارت داخلہ نے فارینرز (ٹریبونلز) آرڈر 1964 میں ترمیم کرکے جو اب تک صرف آسام تک محدود تھا، اسے دیگر ریاستوں، یونین ٹریٹوریز اور ضلع مجسٹریٹ کو اپنے یہاں تشکیل دینے کی اجازت دے کر عام کردیا۔ اس سے ہرش مندر کو ایک اور موقعہ مل گیا اور ”انڈین ایکسپریس“ کے ایک اداریہ میں انھوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ فارینر ٹریبونلز کے اختیارات میں توسیع سے ایسا ”انقلاب آئے گا جو تقسیم کی یاد تازہ کردے گا“۔

این آر سی پر شنوائی سے گوگوئی کو آسام کے مختلف قبائل میں کافی شہرت حاصل ہوگئی، سوائے ان متشدد آسامی وطن پرستوں (Chauvinists) کے جن کا ماننا تھا کہ شناختی عمل کے بعد بھی آسام میں لاکھوں غیر ملکی موجود ہیں، اور ہندو نیشنلسٹس کے، جو امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس سے مسلمان بڑی تعداد میں جلاوطنی کا شکار ہوں گے۔ آمسو تنظیم کے قانونی مشیر مصطفی خادم حسین کے مطابق گوگوئی نے کافی جوش و خروش کے ساتھ اس عمل کو انجام دیا، کیونکہ وہ آسام کی ترقی کے خواہاں تھے اور انھیں معلوم تھا کہ این آر سی کو صرف سپریم کورٹ کی زیر نگرانی ہی اپڈیٹ کیا جاسکتا ہے۔ حسین نے مزید کہا، ”لوگوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، انھیں متعدد سماعتوں میں جانا پڑا۔ ہم یہ سب اس وجہ سے برداشت کر رہے تھے کیونکہ ہمیں انجام کار دیکھنا تھا“۔

اکثر افراد نے اسی قسم کا اظہار خیال کیا۔ Infiltration نامی کتاب کے مصنف عبدالمنان صاحب نے مجھ سے کہا، ”میرے خیال میں این آر سی ایک بہت عمدہ عمل تھا۔ کیونکہ یہاں اقلیتی طبقہ کو امیگریشن کے نام پر جسمانی، ذہنی اور معاشی طور پر کافی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب حکومت کے پاس کم از کم ایک دستاویز تو موجود ہے۔ چنانچہ اب اگر کوئی شخص دعویٰ کرتا ہے کہ ووٹر لسٹ میں اس کا نام غلط طریقے سے درج کیا گیا ہے تو اسے ثابت کرنا پڑے گا“۔ انھوں نے مزید کہا، ”گرچہ یہ ایک بہت بڑا عمل تھا اور اس میں کافی خامیاں بھی تھیں، مگر اسے بہت منصفانہ طریقے سے انجام دیا گیا، جوکہ صرف سپریم کورٹ کی ہدایات پر عملدرآمد ہونے کی صورت میں ہی ممکن ہوسکا“۔ عبد المنان کا ماننا تھا کہ گوگوئی نے اس پر جو دباؤ ڈالا وہ بالکل ضروری تھا۔ انھوں نے کہا، ”اگر سپریم کورٹ اس پر دباؤ نہیں ڈالتی تو یہ کبھی پایۂ تکمیل تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔ اس پر اتنا زیادہ سیاسی دباؤ رہا ہوگا کہ بنا عدالت کے این آر سی کو آزادانہ طور پر انجام دینا ناممکن ہی ہوجاتا“۔ عبد المنان نے دلیل دی کہ گوگوئی کے لیے این آر سی کو اپڈیٹ کرنا بہت ضروری تھا، اور ”خوش قسمتی سے وہ عدالت میں موجود تھے، اور ان کا سوچنا بجا تھا کہ اگر ایک بار این آر سی کو تیار کرلیا گیا تو یہ سوال ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا“۔

عبد الباطن خاندیکر ان چند افراد میں سے ایک تھے جو اس پر تنقید کر رہے تھے۔ خاندیکر کا کہنا تھا کہ گوگوئی آسام کی متشدد وطن پرستی، جس کی جھلک اکثر آسامی ہندوؤں میں دکھتی ہے، سے متاثر تھے اور ان کے فیصلے بھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثلاً، سپریم کورٹ نے دسمبر 2017 کو ایک قانون بنایا کہ گاؤں پنچایت سے شائع شدہ سرٹیفکیٹس کا استعمال کسی فرد کا اس کے آباء و اجداد جو 1971 کی مقررہ تاریخ سے قبل آسام میں موجود تھے، سے تعلق ثابت کرنے میں بطور معاون دستاویز شمار ہوگا۔ ان سرٹیفکیٹس کا مقصد ان شادی شدہ عورتوں کی رہائشی حیثیت کو قائم کرنے میں مدد کرنا بھی تھا جو عموماً شادی کے بعد دوسرے گھروں میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ مگر ایک مختلف مطالبہ کرنے کے باعث گوگوئی کے حکم میں تھوڑی سی گڑبڑی یہ ہورہی ہے کہ سرٹیفکیٹس جاری کرنے والے افسران کو بھی حاضر ہوکر ان کی تصدیق کرنی ہوگی۔

خاندیکر کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں تقریباً تین لاکھ سے زائد شادی شدہ عورتوں کو سرٹیفکیٹس جاری کرنے والوں کے ساتھ فارینر ٹریبونلز جانا پڑا تاکہ آباء و اجداد سے اپنا تعلق ثابت کرنے میں متبادل شواہد پیش کرسکیں۔ خاندیکر کا سوال تھا، ”اگر اس شخص کو گواہی دینے کے لیے بذات خود آنا پڑ رہا ہے تو پھر ان سرٹیفکیٹس کا مطلب کیا رہ گیا؟ اگر لوگوں کے پاس دیگر کاغذات ہیں تو وہ صرف پنچایت کے تصدیق ناموں پر کیوں تکیہ کر رہے ہیں؟“

2003 کے قوانین میں طے شدہ این آر سی ایپلیکیشن پروسیس کے مطابق، ”اصلاً آسامی باشندوں اور ان کے بیٹوں اور پوتوں“ کو اپنا نام شامل کرانے کے لیے اس پوری کارروائی سے گزرنے کی کوئی ضرورت نہیں،”بشرطیکہ ان کی شہریت رجسٹری اتھارٹی کے یہاں شکوک و شبہات سے پاک اور اطمینان بخش ہو“۔ لہذا اصلی باشندوں کو 1971 سے قبل اپنے نسب نامے کا تعلق ثابت کرنے کے لیے کسی دستاویز کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے نام صرف علاقائی افسران کی صوابدید پر بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔ ان قوانین میں نہ ہی اصلی باشندوں کی کوئی تعریف کی گئی ہے، نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ ایک این آر سی آفیشیل کیسے ان کی شناخت کو ممکن بنا سکے گا۔

اوریجنل شہریوں کی شناخت کے متعلق چند ہدایات کا مطالبہ کرتی متعدد عرضیوں پر گفتگو کرنے کے بعد گوگوئی نے جو فیصلہ صادر کیا وہ بھی پروویژن جتنا غیر واضح اور مبہم تھا۔ پروویژن نقل کرنے کے بعد سب سے پہلے تو انھوں نے کہا، ”جہاں تک اوریجنل آسامی باشندوں کو این آر سی میں شامل کرنے اور ان کے دعوؤں کو حل کرنے کی بات ہے، تو دستور کی شق 3 (3) اس مسئلے میں ذرا کم سخت اور قوی پروسیس میں یقین رکھتی ہے“۔ مزید کہا، ”جو اصلاً آسام کے باشندے نہیں ہیں ان کے برعکس اوریجنل آسامیوں کی شناخت کرکے انھیں این آر سی میں شامل کرنے کے لیے کسی انٹائٹلمنٹ (Entitlement) کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ انھیں فقط اپنی شہریت کا ثبوت پیش کرنا ہوگا“۔ یہی بات مکمل این آر سی پروسیس کے بارے میں بھی کہی جا سکتی تھی کہ اس میں شمولیت کے لیے صرف شہریت کی ضرورت ہے، مگر گوگوئی نے بڑی آسانی سے اس پر گفتگو کرنے سے کنارہ کشی اختیار کرلی کہ اوریجنل باشندوں کی شناخت کے لیے ایسا کون سا طریقہ اپنایا جائے جو ”کم سخت اور قوی پروسیس کا حامل ہو“۔

گوگوئی نے اپنے حکم نامے میں لکھا، ”وہ شہری جو اصلاً آسام کے باشندے یا رہائشی ہیں اور جو نہیں ہیں، وہ دونوں این این آر سی میں شامل ہونے میں یکساں نہیں“۔ مزید لکھتے ہیں، ”مذکورہ بالا رائے کے مطابق، ہمیں’اصلی و نسلی آسامی باشندوں’ اصطلاح کی وضاحت کرنے یا اس کے متعلق ہدایات جاری کرنے کا کوئی خاص سبب نظر نہیں آٖتا“۔خاندیکر کے مطابق ایک کروڑ تیس لاکھ لوگوں کو این آر سی پروسیس کے ذریعہ بحیثیت اصلی و نسلی باشندوں کے اس میں شامل کیا گیا۔ انھوں نے کہا، ”آسام میں آہوم خاندان کی تاریخ 1228ء سے شروع ہوتی ہے جبکہ مسلمانوں کی 1206ء سے۔ اس کے باوجود کسی بھی مسلمان کو اوریجنل باشندہ تسلیم نہیں کیا گیا“۔

خاندیکر نے مجھے بتایا کہ ایک اور آرڈر میں گوگوئی سٹیزن شپ ایکٹ کے پروویژنز کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، جس میں ہر اس فرد کو ہندوستانی شہری تسلیم کیا گیا ہے جو یکم جولائی 1987 سے قبل اس سرزمین پر پیدا ہوا ہو۔ مگر سپریم کورٹ کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ آیا اس شخص کو بھی ہندوستانی شہری تسلیم کیا جائے گا جو 1987 سے قبل پیدا تو ہوا ہو مگر اس کے آباء و اجداد غیرملکی قرار دیے گئے ہوں؟ چنانچہ عدالت سے منظور شدہ کارروائی میں ذکر تھا کہ ہر وہ شخص جس نے این آر سی میں بغرض شمولیت اپلائی کیا ہے مگر اس کے آباء و اجداد کا تعلق مشکوک ووٹر یا غیر ملکی قرار دیے گئے ہوں یا پھر ان کا شمار ایسے لوگوں میں ہو جن کا معاملہ اب تک ٹریبونلز میں معلق ہو تو ایسے شخص کو غیر قانونی مہاجر تسلیم کیا جائے گا۔

23 جولائی کو عدالت نے ایسے مختلف اعتراضات کو نوٹس میں لیا جن کا تعلق اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (Standard Operating Procedure) اور سٹیزن شپ ایکٹ کے سیکشن 3 کے مابین تنازعے سے تھا۔ گوگوئی کی ماتحت بینچ نے پرتیک ہَجیلا کو حکم دیا کہ وہ ”ایک پبلک نوٹس جاری کرکے“ تمام اسٹاک ہولڈرز کو عدالت میں حاضر ہوکر انھیں اپنی بات رکھنے کو کہیں۔ مگر جب 8 اگست کو اگلی شنوائی کے موقع پر جب Citizens for Justice and Peace نامی ایک این جی او کی نمائندگی کر رہے سینیئر ایڈوکیٹ چندر اُدے سنگھ عدالت میں اپنی بات رکھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو گوگوئی نے جلدی سے انھیں ڈسمس کردیا اور بولے، ”آپ نے (مقدمے کا) ایک فریق بننے کی غرض سے عرضی دائر کی ہے۔ آپ کو ہدایات سے کوئی مطلب نہیں، آپ کا مقصد محض ایک فریق بننا ہے۔اس لیے ہم آپ کی بات کیوں سنیں؟“ تو ادے سنگھ نے جواب دیا، ”مگر گذشتہ آرڈر کے ذریعہ عالی جناب نے ہی تو اسٹاک ہولڈرز کو مدعو کیا تھا“۔

مگر گوگوئی اس سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کا رویہ بالکل ویسا تھا جیسا کہ ہرش مندر کو چیلنج کرتے وقت تھا جب انھوں نے ڈٹینشن سینٹرز والے معاملے سے گوگوئی کو علاحدہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ چنانچہ گوگوئی نے پوچھا، ”آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کو بلائیں اور ایک ایسے حکم کا فائدہ آپ کو پہنچائیں جس کے لیے آپ نے درخواست ہی نہیں کی؟ آپ کی ایک درخواست پر آپ کے تمام بشری مسائل حل ہوجائیں گے۔ خود کو بری رکھیں تو ہم کیسے مداخلت کرسکتے ہیں؟“

ادے سنگھ کے مطابق 8 اگست کی شنوائی کے دوران عدالت نے اس بات کو تسلیم کرلیا تھا کہ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کے ذریعہ سیکشن 3 میں دخل اندازی نہیں کی جاسکتی۔ انھوں نے کہا، ”جسٹس نریمن نے قطعیت کے ساتھ ہَجیلا سے بول دیا تھا کہ آپ 1987 سے قبل کی کوئی آخری تاریخ مقرر نہیں کرسکتے، کیونکہ آئین کے سیکشن میں یہ سب طے کردی گئی ہیں۔ اس پر گوگوئی نے بھی ہامی بھری، مگر پھر وہ مکر گئے اور حکم نامے سے اس کو بالکل غائب ہی کردیا“۔ حکم نامے میں سٹیزن شپ ایکٹ کے پروویژنز سے انحراف کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی،جو یہ تھا: ”این آر سی کے پورے عمل کو مذکورہ بالا اصول و ضوابط کی بنیاد پر انجام دیا گیا، اور اب چند نئے پیمانوں کی بنیاد پر نئے اصول وضع کرکے اس عمل کو دوبارہ شروع کرنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا“۔

غالباً جولائی کے اخیر میں، جیسے ہی آسام کے اکثریتی قبائل کو چند غیر آفیشیل چینلز کے ذریعہ خبر موصول ہوئی کہ این آر سی سے باہر ہونے والوں میں مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں کی بنسبت کم ہے تو این آر سی کی خاطر ان کی حمایت ماند پڑ نے لگی۔ یکم اگست کو آسام کی بی جے پی حکومت نے اسٹیٹ اسمبلی میں این آر سی کی لسٹ سے باہر ہونے والوں کے ضمن میں ضلعی پیمانے پر معتبر اعداد و شمار جاری کیا، جسے دیکھ کر معلوم ہوا کہ مسلم اکثریتی علاقوں کی بنسبت جن علاقوں میں ہندوؤں کی آبادی زیادہ ہے، وہاں پر این آر سی سے باہر ہونے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اسی بنا پر حکومت نے ریاستی اہلکاروں پر کمپرومائز کا الزام عائد کرتے ہوئے فائنل این آر سی کو دوبارہ ویری فائی کرنے کا حکم دیا۔ اچانک وہی ہجیلا جن کی ایک سال قبل اس وجہ سے حوصلہ افزائی کی گئی تھی کہ وہ اس وقت کسی دباؤ میں آکر جھکے نہیں تھے جب این آر سی ڈرافٹ سے چالیس لاکھ لوگوں کو خارج کردیا گیا تھا۔ مگر آج ان پر مینیو پلیٹنگ (Manipulating) کا الزام تھا۔31 اگست کو فائنل این آر سی جاری کی گئی، اور ایک کروڑ نوے لاکھ لوگوں کو خارج کردیا گیا تھا، جس میں مسلمانوں کی تعداد صرف چار لاکھ کے آس پاس تھی۔

اس کے بعد بی جے پی اور آسو تنظیم نے واویلا مچانا شروع کیا کہ این آر سی میں گڑبڑی ہوئی ہے۔ بی جے پی نے تو نئے اپڈیٹ کا ہی مطالبہ کردیا۔ اس دوران میں نے آمسو تنظیم کے جتنے بھی لیڈران سے بات کی، انھوں نے مسلمانوں کی شرح خروج میں کمی کے مختلف اسباب بتائے۔ مثلاً، ریاست میں غیرملکی مسلمانوں کی تعداد بتانے میں مبالغہ آمیزی کی جاتی ہے، گذشتہ زمانے میں مسلمان اس راہ میں اتنا کچھ جھیل چکے تھے جس کی بنا پر ان کے یہاں تمام کاغذات مکمل تھے، نیز زمینی سطی پر سول سوسائٹی گروپ کے ذریعہ دستاویزات میں درستگی و اصلاح بھی ایک اہم سبب تھا۔

آمسو تنظیم کے چیف ایڈوائزر عبد الرحمن اور قانونی مشیر حسین صاحب نے کہا کہ آمسو اور دیگر تنظیموں نے مل کر 2010 سے ہی، جب این آر سی کے لیے تجرباتی پروجیکٹ کیے جارہے تھے، اس کے لیے ضروری دستاویزات کے بارے میں لوگوں کو باخبر کرنا شروع کردیا تھا۔ اسی طرح عبد المنان نے بھی بتایا کہ آسام میں اپنی گذشتہ تاریخ کے پیش نظر سبھی لوگ بالکل تیار تھے۔ انھوں نے کہا، ”لوگوں کا یہ دعوی کہ مسلمانوں نے غلط طریقے سے دستاویزات تیار کیے ہیں، یہ سراسر باطل اور بے بنیاد ہے۔ آسام میں مسلمانوں کو آزادی کے بعد سے ہی نشانہ بنایا گیا ہے“۔ اس کے بعد عبد المنان نے آسام میں مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے بھید بھاؤ اور ان کو جلاوطن کیے جانے پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان سب کے بعد مسلمانوں نے تو آسام کی طرف ہجرت کرنا ہی بند کردیا تھا۔”جہاں اتنے سخت قانون نافذ ہوں وہاں کوئی بسنے کی کیسے جرأت کرسکتا ہے؟ اور این آر سی نے یہ ثابت بھی کردیا“۔

این آر سی جاری ہونے کے بعد پروجیکٹ میں کافی سستی آگئی۔ لیگل رجیم (Legal Regime) کے مطابق اگر کسی شخص کو لگتا ہے کہ کسی کو غلط طریقے سے شامل یا خارج کیا گیا ہے تو وہ 120 دنوں کے اندر فارینر ٹریبونلز میں اپیل کرسکتا ہے۔ رجسٹر جنرل آف انڈیا کے یہاں سے این آر سی کے رسمی طور پر جاری ہوتے ہی یہ 120 دن کی مدت شروع ہوجائے گی۔ مگر فائنل لسٹ جاری ہونے کے بعد بھی اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کے یہاں سے اب تک وہ نوٹس جاری نہیں کی گئی جس کی بنیاد پر خارج شدگان اپیل دائر کرسکیں۔ اسی دوران میں، فائنل لسٹ جاری ہونے کے بعد گوگوئی کے ماتحت این آر سی مانیٹرنگ کیس پر پہلی شنوائی میں ہی گوگوئی نے حکم دیا کہ ہجیلا کا تبادلہ دوبارہ بحیثیت کیڈر (Cadre) مدھیہ پردیش بی کردیا جائے۔

8 نومبر کو آسام سول سروسز 1986 بیچ کے آفیسر ہِتیش دیو سرما کو اسٹیٹ کوآرڈینیٹر بنا دیا گیا۔ مگر اب تک اس کی کوئی مصدقہ خبر نہیں کہ وہ نوٹس (Rejection Notice) کب جاری کی جائے گی تاکہ این آر سی سے باہر کیے گئے افراد اپیل دائر کرسکیں۔ آسو نے دیو سرما کی تقرری کو یہ کہہ کر چیلنج کیا کہ سوشل میڈیا پر ان کے ذریعہ کی گئی پوسٹوں سے آسام کے اقلیتی طبقہ کے خلاف ان کے متعصب رجحان کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ عبد الرحمن نے مجھے بتایا کہ امید ہے کہ عدالت آسو کی عرضی کو فروری کے پہلے ہفتے میں شنوائی کے لیے درج کرے گی۔ سپریم کورٹ کو این آر سی مانیٹر کرتے ہوئے چھ سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر ابھی تک یہ پروسیس کسی کونے میں اٹکا دکھائی دیتا ہے۔

گرچہ اب گوگوئی ان کارروائیوں میں شامل نہیں ہیں مگر اس پروجیکٹ پر اپنی آخری اور حتمی رائے دینے کا موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ 3 نومبر کو دہلی میں ایک کتاب کی رسم اجرا کے موقع پر گوگوئی نے این آر سی کا دفاع کیا اور تقریباً وہی سب باتیں دہرائیں جنھیں میں بارہا آسام میں سن چکا تھا کہ ”آسامی باشندوں نے این آر سی کی تیاری کے لیے مختلف کٹ آف ڈیٹ کو قبول کرکے کشادہ دلی اور حوصلہ مندی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ لیکن ابھی بھی وہ اس وقت سے کافی دور ہیں جب پہلی بار انھیں یا ان کے آباء و اجداد کو ہجرت کی تکلیفوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا تھا“۔

اس کے علاوہ گوگوئی نے ان کی خوب سرزنش کی جو ان کی تنقید کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے کہا، ”ہمیں یہ بات بخوبی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہماری قومی گفتگو سے چند ایسے آرام پسند تنقید نگاروں کا پتہ چلتا ہے جو نہ صرف زمینی حقائق سے کافی دور ہیں بلکہ وہ ایک مسخ شدہ تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جمہوری عناصر اور اداروں کے خلاف متعصب اور بے سر و پا کی بیان بازی کرکے انھیں تکلیف پہنچا کر ان کو ضروری کارروائیوں سے روکنا چاہتے ہیں۔ ان تنقید نگاروں کو اپنی تنقید کے ذریعہ لوگوں کو حقائق سے دور رکھ کر اور افواہوں کا بازار گرم کرکے ہی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اس کے بعد سابق چیف جسٹس اف انڈیا آزاد صحافیوں کی کلاس لے رہے تھے۔

آپ کے تبصرے

3000