غم کا ہر جام مقدر پہ نہ پھوڑا جائے
کچھ تو کوتاہی تدبیر سے جوڑا جائے
جب بچھڑنا ہی مقدر ہے تو الجھن کیسی
ایک دوجے کو چلو پیار سے چھوڑا جائے
کوئی تو صورت دیدار نکالو جاناں
کب تلک خون نگاہوں سے نچوڑا جائے
اب یہ دستور بناؤ کہ نہ سوئے کوئی
مرنے والے کو بھی اک بار جھنجھوڑا جائے
بانجھ کر دیتے ہیں فریاد کو اہل مسند
آسمانوں کی طرف آہ کو موڑا جائے
دل کسی کا جو نہ ٹوٹے تو بہت اچھا ہے
ہاں ضروری ہو تو آرام سے توڑا جائے
کتنے دل باندھ کے بیٹھے ہیں وہ مٹھی میں سراجؔ
اس کلائی کو نہ شدت سے مروڑا جائے
ہر بار کی طرح شاندار اور جاندار بہت شکریہ سلامت رہیں آمین
بہت خوب رنگ تغزل، شاندار، زندہ باد زخمی صاحب.