جہاں پر ہار کر اہل خرد سر کو جھکاتے ہیں

شعیب سراج شعروسخن

جہاں پر ہار کر اہل خرد سر کو جھکاتے ہیں

وہاں بھی جھومتے گاتے سبھی دیوانے جاتے ہیں


ہمیشہ بے نیازی کا شرف حاصل ہوا ان کو

خدا کے سامنے راتوں میں جو آنسو بہاتے ہیں


مجھے شطرنج سے بھی اب تلک اتنی سمجھ آئی

سپاہی سر کٹا کرکے حکومت کو بچاتے ہیں


نہیں ان کا تعلق ہے ریاضی سے مگر پھر بھی

کبھی تقسیم کرتے ہیں کبھی مجھ کو گھٹاتے ہیں


ہیں جتنے قاعدے یاں لازم و ملزوم کے سارے

سبق دیتے ہیں دنیا کو کہ یوں رشتہ نبھاتے ہیں


ہمیں مایوس کرتی ہیں ہماری وہ امیدیں ہی

کہ جن کے واسطے اکثر خودی کو ہم مٹاتے ہیں


نہیں ہے شاعری سے اے سراج ان کو شغف پھر بھی

نہ جانے کیوں غزل تیری وہ اکثر گنگناتے ہیں

آپ کے تبصرے

3000