کیا مسئلۂِ صومِ حاملہ ومرضعہ کی کسی صورت میں علما کا اجماع نہیں ہے؟

محمد ضیاء الحق تیمی فقہیات

حاملہ اور مرضعہ اگر اپنے نفس پر خوف کی وجہ سے روزہ ترک کرتی ہیں تو ان پر قضا واجب ہے کیونکہ وہ مریض کے حکم میں ہیں۔ اس پر فقہاء مالکیہ میں زرقانی اور فقہاء حنابلہ میں ابن قدامہ اور عبد الرحمن المقدسی نے اہل علم کا اتفاق نقل کیا ہے۔ اور فقہاء حنفیہ میں بابرتی اور شافعیہ میں امام نووی نے بظاہر اپنے مذہب کا اتفاق نقل کیا ہے۔ اسی طرح ابن القطان فاسی کے قول کا مفہوم بھی اس اجماع پر دلالت کر رہا ہے۔
•جمال الدین رومی بابرتی اپنی کتاب (العناية شرح الهداية) (2/ 355) میں فرماتے ہیں: «إذا خافت الحامل أو المرضع على نفسها لا تجب الفدية بالاتفاق، وإذا خافت على ولدها فأفطرت وجب القضاء والفدية على أصح أقواله عندهم»
• عبدالباقی زرقانی موطا کی شرح “شرح الزرقاني على الموطأ” (2/ 284) میں قضا اور فدیہ کے سلسلے میں اختلاف نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: «ومحلها في خوفهما على ولديهما، أما إذا خافتا على أنفسهما فلا فدية باتفاق أهل المذهب وهو إجماع إلا عند من أوجب الفدية على المريض»
اس قول میں زرقانی نے اجماع نقل کیا ہے کہ نفس پر خطرہ کی صورت میں قضا ہے۔ اور اس ماجماع سے صرف ان کو مستثنی کیا ہے جن کی طرف ایک شاذ قول منسوب ہے۔
•امام نووی “المجموع شرح المهذب” (6/ 267) میں فرماتے ہیں: «قال أصحابنا: الحامل والمرضع إن خافتا من الصوم على أنفسهما أفطرتا وقضتا ولا فدية عليهما كالمريض وهذا كله لا خلاف فيه»
• ابن قدامہ “المغنی” (3/ 149) میں فرماتے ہیں: «إن الحامل والمرضع إذا خافتا على أنفسهما فلهما الفطر. وعليهما القضاء فحسب، لا نعلم فيه بين أهل العلم اختلافا لأنهما بمنزلة المريض الخائف على نفسه»
عبد الرحمن المقدسی “الشرح الكبير على المقنع” (7/ 381) میں فرماتے ہیں:
«أنَّ الحامِلَ والمُرْضِعَ إذا خافَتا على أنْفُسِهما إذا صامَتا، فلهما الفِطْرُ، وعليهما القَضاءُ لا غيرُ. لا نَعْلَمُ فيه خِلافًا؛ لأنَّهُما بمَنْزِلَةِ المَرِيضِ الخائِفِ على نَفْسِه»
ابن القطان فاسی فرماتے ہیں: واتفق الجميع أن الحامل إذا خافت على ما في بطنها، والمرضع إذا خافت على ولدها لهما الإفطار. الإقناع في مسائل الإجماع (1/ 230)
• اس قول سے وجہ استدلال یہ ہے کہ جب کسی کے نزدیک نفس کو ہلاکت میں ڈالنا جائز نہیں ہے اس کے باوجود اس اجماع میں خوف علی النفس کو ذکر نہ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ یہ صورت بالاتفاق مریض کے حکم میں ہے جیسا کہ متعدد اہل علم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
اس اجماع کے رد میں ابن کثیر، ابن عبد البر اور ابن حزم کا قول اور حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فتاوی پیش کیے جاتے ہیں۔ ذیل میں ان ہی دلائل کا جائزہ پیش خدمت ہے۔
پہلی دلیل: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “الْحَامِل وَالْمُرْضِع إِذَا خَافَتَا عَلَى أَنْفُسهمَا أَوْ وَلَدَيْهِمَا فَفِيهِمَا خِلَاف كَثِير بَيْن الْعُلَمَاء فَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ يُفْطِرَانِ وَيَفْدِيَانِ وَيَقْضِيَانِ وَقِيلَ يَفْدِيَانِ فَقَطْ وَلَا قَضَاء وَقِيلَ يَجِب الْقَضَاء بِلَا فِدْيَة وَقِيلَ يُفْطِرَانِ وَلَا فِدْيَة وَلَا قَضَاء”۔ (تفسير ابن كثير، طبعہ مؤسسہ قرطبہ، 2/ 179)
اس قول سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ ابن کثیر نے اس مسئلہ میں بہت زیادہ اختلاف کا دعوی کیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ جس مسئلہ میں مذاہب اربعہ میں اتفاق ہو اور تین بڑے مشہور فقہاء نے تمام اہل علم کا اتفاق نقل کیا ہو اس مسئلہ میں ابن کثیر نے کیا واقعی بہت زیادہ اختلاف کا دعوی کیا ہے؟ ہاں اگر وہ یہ دعوی کرتے کہ بعض اہل علم نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے تو یہ بات عام ہے کہ اجماع نقل کرنے میں عموما دو چند اہل علم کے اختلاف کا اعتبار نہیں کیا جاتا ہے۔ اور اگر مان لیا جائے کہ انھوں نے ایسا کوئی دعوی کیا ہے تو کیا ان کا دعوی دیگر اہل علم کے خلاف حجت ہوسکتا ہے؟ کیوں کہ اصولی طور پر اگر دو عالم دو مختلف دعوے کریں تو ان میں سے کسی کا قول دوسرے پر بغیر دلیل کے حجت نہیں ہوسکتا ہے؟
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابن کثیر کے قول کو جب پورے سیاق وسباق کے ساتھ دیکھتے ہیں تو در اصل ان کی ظاہری عبارت سے یہی پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے ایسا کوئی دعوی ہی نہیں کیا ہے۔ چنانچہ ابن کثیر {وعلى الذين يطيقونه فدية طعام مسكين}کی تفسیر میں شیخ فانی کا تذکرہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
“ومما يلتحق بهذا المعنى: الحامل والمرضع، إذا خافتا على أنفسهما أو ولديهما، ففيهما خلاف كثير بين العلماء، فمنهم من قال: يفطران ويفديان ويقضيان. وقيل: يفديان فقط، ولا قضاء. وقيل: يجب القضاء بلا فدية. وقيل: يفطران، ولا فدية ولا قضاء. وقد بسطنا هذه المسألة مستقصاة في كتاب الصيام الذي أفردناه . ولله الحمد والمنة”
“اسی معنی کے ضمن میں حاملہ اور مرضعہ کا بھی مسئلہ آتا ہے اگر انھیں اپنے نفس پر یا بچہ پر خوف ہو، چنانچہ حاملہ اور مرضعہ کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان کافی اختلاف ہے”
اس میں “ففیھما” کی ضمیر حاملہ اور مرضعہ کی طرف راجع ہے۔ اور ظاہر یہی ہے کہ حاملہ اور مرضعہ کے سلسلے میں دیگر اہل علم نے جس صورت میں اختلاف نقل کیا ہے ابن کثیر بھی اسی صورت میں اختلاف نقل کر رہے ہیں اور خوف علی النفس کا اس جملہ سے بس اس قدر تعلق ہے کہ اس مسئلہ کو بھی اس معنی کے ضمن میں بیان کیا جاتا ہے۔
لہذا ابن کثیر کے قول میں بھی اسی اختلاف کا تذکرہ ہے جو دیگر اہل علم نے نقل کیا ہے۔
• دوسری بات یہ ہے کہ اصولی طور پر اہل علم کی واضح اور محکم عبارتوں کے مقابلے اس طرح کی محتمل عبارتوں کو بطور معارِض پیش کرنا درست نہیں ہے۔
دوسری دلیل: علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “عن ابن عمر قال: الحامل إذا خشيت على نفسها في رمضان تفطر وتطعم ولا قضاء عليها، وهو قول سعيد بن جبير والقاسم بن محمد وطائفة”۔ (الاستذکار:3/365)
ابن عبد البر نے اس قول کو سعید بن جبیر ، قاسم بن محمد اور ایک جماعت کی طرف منسوب کیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قول بلا سند ہے، لہذا بحث و تحقیق کا تقاضا یہ ہے کہ اس قول کی تحقیق کی جائے۔
• سعید بن جبیر کی روایت:
عبد الرزاق اپنے “مصنف “میں (4/ 51، رقم: 7687) معمر، عن أيوب روایت کرتے ہیں: قال سعيد بن جبير: تفطر الحامل التي في شهرها، والمرضع التي تخاف على ولدها، تفطران، وتطعمان كل واحدة منهما كل يوم مسكينا، ولا قضاء عليهما۔
“حاملہ جو (آخری) مہینہ میں ہو اور مرضعہ جسے اپنے بچہ پر خطرہ ہو تو وہ روزہ ترک کریں گی اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دیں گی اور ان پر قضا نہیں ہے”۔
اس میں مرضعہ کے سلسلے میں صراحت ہے کہ خوف علی الرضیع ہو اور حاملہ کے سلسلے میں بھی یہ قید ہے کہ یہ حمل آخری مہینہ کا ہو اس میں خوف علی النفس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
• قاسم بن محمد کی روایت:
عن عبد الرزاق: قال معمر: وأخبرني من سمع القاسم بن محمد يقول: «إن لم تستطيعا الصيام فلتطعما»۔ مصنف عبد الرزاق الصنعاني۔ (4/ 216)
اس روایت میں ایک راوی مبہم ہے، لیکن اس روایت کو ابن عبد البر کے بلا سند قول پر ضرور ترجیح حاصل ہے، اس میں خوف علی النفس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
لہذا تحقیق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ابن عبد البر کا یہ قول محل نظر ہے اور اس قول کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔
تیسری دلیل: علامہ ابن حزم کے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ انھوں نے حاملہ ومرضعہ سے روزہ کو بالکل معاف کہا ہے۔ انھوں نے کسی بھی صورت میں کچھ بھی واجب ہونے کا انکار کیا ہے، وہ نہ قضا کو واجب مانتے ہیں، نہ فدیہ کو، بلکہ مطلقًا سب کا انکار کرتے ہیں، لہذا خوف علی النفس کی صورت میں قضا کے واجب ہونے پر اجماع کہاں ہوا؟
جب کہ یہ بات محل نظر ہے۔
ابن حزم فرماتے ہیں: “والحامل، والمرضع، والشيخ الكبير كلهم مخاطبون بالصوم فصوم رمضان فرض عليهم، فإن خافت المرضع على المرضع قلة اللبن وضيعته لذلك ولم يكن له غيرها، أو لم يقبل ثدي غيرها، أو خافت الحامل على الجنين، أو عجز الشيخ عن الصوم لكبره: أفطروا ولا قضاء عليهم ولا إطعام، فإن أفطروا لمرض بهم عارض فعليهم القضاء. أما قضاؤهم لمرض فلقول الله تعالى: {فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر} [البقرة: 184] . وأما وجوب الفطر عليهما في الخوف على الجنين، والرضيع فلقول الله تعالى: {قد خسر الذين قتلوا أولادهم سفها بغير علم} [الأنعام: 140] . وقال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «من لا يرحم لا يرحم» فإذ رحمة الجنين، والرضيع: فرض، ولا وصول إليها إلا بالفطر: فالفطر فرض؛ وإذ هو فرض فقد سقط عنهما الصوم، وإذا سقط الصوم فإيجاب القضاء عليهما شرع لم يأذن الله تعالى به ولم يوجب الله تعالى القضاء إلا على المريض، والمسافر، والحائض، والنفساء، ومتعمد القيء فقط، {ومن يتعد حدود الله فقد ظلم نفسه} [الطلاق: 1] . المحلى بالآثار (4/ 410)”۔
•ابن حزم کی اس عبارت میں چند باتیں منصوص ہیں:
1- اصل یہ ہے کہ روزہ حاملہ، مرضعہ اور شیخ کبیر پر فرض ہے اور یہ سب اس کے مخاطب ہیں۔
2- اگر حاملہ اور مرضعہ کسی عارضی بیماری کی وجہ سے روزہ ترک کرتی ہیں تو ان پر قضا ہے۔
3- حیض ونفاس والی عورت پر قضا واجب ہے۔
انھوں نے اس سے دو حالتوں کو مستثنی کیا ہے:
1- اگر مرضعہ کو بچہ پر قلت لبن کا خوف ہو اور اس کی وجہ سے بچہ کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہو اور کوئی دوسری دایہ بھی نہ ہو، یا پھر کسی دوسری دائمیہ کا وہ بچہ دودھ بھی نہیں پیتا ہو۔
2- یا حاملہ کو جنین پر خوف ہو۔ تو ان پر نہ ہی فدیہ ہے اور نہ ہی قضا ہے۔
• ابن حزم کے اس صریح اور منصوص کلام میں کسی جگہ خوف علی النفس کا تذکرہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس پر ان کے کلام کا مفہوم دلالت کر رہا ہے، بلکہ انھوں نے صرف خوف علی الرضیع کی صورت میں فدیہ اور قضا کا انکار کیا ہے، اور آگے دلیل بھی ان ہی دو صورتوں کی دی ہے۔ بلکہ اس کلام کا ظاہری سیاق اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ خوف علی النفس ان کے نزدیک مرض طاری ہے، مثلا حمل کی وجہ سے غشی طاری ہونا، یا قئے ہونا، یا ضعف محسوس کرنا وغیرہ کو وہ بیماری تصور کرتے ہیں۔ جس طرح دیگر اہل علم اس کو مریض کے حکم میں سمجھتے ہیں اسی لیے انھوں نے صرف مرض کے ذکر پر اکتفا کیا ہے اور خوف علی النفس کو الگ سے ذکر نہیں کیا ہے۔ اور ان کے نزدیک مرض طاری کی صورت میں قضا ہے۔
• اسی طرح انھوں نے اخیر میں کہا کہ اللہ عز وجل نے مریض، حائضہ، نفساء اور جان بوجھ کر قئے کرنے والوں پر قضا کو واجب کیا ہے۔ یہاں بھی انھوں نے تاکید کی ہے کہ مریض پر قضا واجب ہے۔
چوتھی دلیل: اس طرح یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ابن حزم نےصرف شخصی طور پر صورت مذکورہ کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ سرے سے حاملہ ومرضعہ کے مسئلہ میں کسی اجماع ہی کے ہونے کا انکار کیا ہے۔ م فرماتے ہیں: “فَلَمْ يَتَّفِقُوا عَلَى إيجَابِ الْقَضَاءِ وَلَا عَلَى إيجَابِ الْإِطْعَامِ فَلَا يَجِبُ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ؛ إذْ لَا نَصَّ فِي وُجُوبِهِ وَلَا إجْمَاعَ”۔ (المحلى بالآثار:4/ 411)
یہ اعتراض بھی سابقہ اعتراضات کی طرح محل نظر ہے۔ ابن حزم کے قول کا صحیح معنی سمجھنے کے لیے اس کو سیاق وسباق کے ساتھ ملا کر دیکھنا پڑے گا۔
ابن حزم کی جو عبارت اوپر گذری اس کو ذکر کرنے کے بعد انھوں نے تین قول نقل کیے۔
• پہلا قول: فدیہ کا، اس سلسلے میں انھوں نے ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سعید بن جبیر کی روایت کا ذکر کیا۔
• دوسرا قول: قضا کا، اس سلسلے میں انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دوسری روایت کو ذکر کیا ہے جس کی سند بظاہر صحیح ہے اور اس کو ضعیف کہنے کے لیے حد درجہ کمزور احتمال کا سہارا لیا جاتا ہے۔
•تیسرا قول: قضا اور فدیہ دونوں۔ اس پر انھوں نے عطا بن رباح کا قول ذکر کیا ہے۔
ان میں سے سعید بن جبیر اور عطا کی روایت میں خوف علی الولد کی صراحت ہے، بقیہ فتاوی میں کسی طرح کی کوئی صراحت نہیں ہے۔
انہوں نے اس اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد کہا: فَلَمْ يَتَّفِقُوا عَلَى إيجَابِ الْقَضَاءِ وَلَا عَلَى إيجَابِ الْإِطْعَامِ فَلَا يَجِبُ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ؛ إذْ لَا نَصَّ فِي وُجُوبِهِ وَلَا إجْمَاعَ
یعنی نہ ہی وہ قضا پر متفق ہوئے اور نہ ہی اطعام پر۔ لہذا ان میں سے کوئی بھی چیز واجب نہیں ہے، کیونکہ اس سلسلے میں نہ ہی کوئی نص ہے اور نہ ہی اس پر اجماع قائم ہے۔
لہذا اس عدم اتفاق کا تعلق خوف علی الرضیع سے ہے۔ انھوں نے شروع میں خوف علی الرضیع کی صورت میں ہی قضا اور فدیہ دونوں کی نفی کی ہے، اسی طرح انھوں نے جن اقوال کو ذکر کرنے کے بعد یہ بات کہی ہے ان میں خوف علی الرضیع کی قید ہے یا وہ مطلق ہیں، کسی میں خوف علی النفس کا ذکر نہیں ہے۔ لہذا اس عدم اتفاق کا خوف علی النفس کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
اور اس موقف کی تائید مزید ان کے اس قول سے ہوتی ہے جس کے ذریعہ انھوں نے اس مبحث کو ختم کیا ہے۔ وہ امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی پر اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
والعجب كله من أن أبا حنيفة، ومالكا، والشافعي يسقطون الكفارة عمن أفطر في نهار رمضان عمدا وقصد إبطال صومه عاصيا، لله تعالى بفعل قوم لوط، وبالأكل، وشرب الخمر عمدا وبتعمد القيء. نعم، وبعضهم يسقط القضاء والكفارة عنه فيمن أخرج من بين أسنانه شيئا من طعامه فتعمد أكله ذاكرا لصومه، ثم يوجبون الكفارة على من أفطر ممن أمره الله تعالى بالإفطار وأباحه له من مرضع خائفة على رضيعها التلف، وشيخ كبير لا يطيق الصوم ضعفا، وحامل تخاف على ما في بطنها؛ وحسبك بهذا تخليطا۔
“حیرت ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک ایسے لوگوں پر کفارہ کیسے واجب ہے جن کو اللہ نے روزہ توڑنے کا حکم دیا ہے اور فطر کو ان کے لیے مباح قرار دیا ہے۔ جیسے مرضعہ جسے اپنے رضیع کے تلف ہونے کا خدشہ ہو اور شیخ کبیر جو ضعف کی وجہ سے روزہ کی طاقت نہیں رکھتا ہو اور حاملہ جو اپنے جنین پر خائف ہو”۔
یہاں بھی خوف علی الرضیع کا تذکرہ ہے، گویا ان کی مخالفت دیگر ائمہ کے ساتھ اسی مسئلہ پر ہے۔
خلاصہ: ابن قدامہ، عبد الرحمن مقدسی، زرقانی اور بظاہر ابن القطان نے تمام اہل علم کا، امام نووی اور بابرتی نے بظاہر اہل مذہب کا جو اس مسئلہ میں اتفاق نقل کیا ہے، ابن کثیر، ابن حزم کے قول میں موجود اختلاف کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اور مجھے اب تک کسی معبتر یا غیر معتبر اہل علم کا کوئی قول نہیں ملا ہے جنھوں نے اہل علم کے اس اجماع پر کوئی اعتراض کیا ہو۔ واللہ اعلم
جہاں تک ابن عبد البر کا یہ قول “عن ابن عمر قال: الحامل إذا خشيت على نفسها في رمضان تفطر وتطعم ولا قضاء عليها، وهو قول سعيد بن جبير والقاسم بن محمد وطائفة”۔ (الاستذکار، 3/365)
ہے تو اگر ابن عبد البر کے اس قول کو کوئی حجت مانتا ہے تو پھر امام احمد نے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے قضا کا – جیسا کہ ابن تیمیہ نے ذکر کیا ہے – ابن حزم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے قضا کا، بغوی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے قضا اور فدیہ دونوں کا اور بغوی اور قاسم بن سلام نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے قضا اور فدیہ دونوں کا، اور جصاص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قضا کے جو اقوال نقل کیے ہیں اسے ان کو بھی حجت مان لینا چاہیے۔
(شرح العمدة لابن تيمية – كتاب الصيام:1/ 249، المحلى بالآثار:4/ 411، شرح السنة للبغوي:6/ 316، الناسخ والمنسوخ للقاسم بن سلام – مخرجا: ص: 62)
جہاں تک ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی بہت سارے طرق میں سے ایک یا دو طریق میں اس لفظ کے وارد ہونے کی بات ہے تو محدثین کے اصول کی رو سے یہ شاذ کے حکم میں ہیں جن کو میں آگے ان شاء اللہ واضح کروں گا۔
نفاس کے سلسلے میں اہل علم کے اجماع پر جملہ اعتراضات کی حقیقت:
امام نووی، ابن قدامہ اور ابن القطان فاسی نے حائضہ اور نفساء کے روزہ کی قضا کے تعلق سے اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں:
“لا يصح صوم الحائض والنفساء، ولا يجب عليهما، ويحرم عليهما ويجب قضاؤه، وهذا كله مجمع عليهَ”۔ (المجموع شرح المهذب:6/ 257)
ابن قدامہ فرماتے ہیں:
أجمع أهل العلم على أن الحائض والنفساء لا يحل لهما الصوم، وأنهما يفطران رمضان، ويقضيان، وأنهما إذا صامتا لم يجزئهما الصوم “المغني لابن قدامة”۔ (3/ 152)
ایک دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں:
“والنفساء كالحائض في هذا؛ لأنها تساويها في سائر أحكامها”. المغني لابن قدامة۔ (1/ 245)
ابن القطان فاسی فرماتے ہیں:
“وأجمعوا على أن عليها قضاء ما تركت من الصوم في أيام حيضتها”. الإقناع في مسائل الإجماع۔ (1/ 103)
اسی طرح آپ فرماتے ہیں:
والنفاس حيض صحيح؛ حكمه حكم الحيض في كل شيء، والغسل منه واجب بإجماع. الإقناع في مسائل الإجماع۔ (1/ 107)
ابن حزم فرماتے ہیں:
أن النفاس حيض صحيح، وحكمه حكم الحيض في كل شيء «لقول رسول الله – صلى الله عليه وسلم – لعائشة أنفست؟ قالت نعم» فسمى الحيض نفاسا”۔ (المحلى بالآثار: 1/ 400)
•اس اجماع کی مخالفت میں تین دلیلیں پیش کی جاتی ہیں:
پہلی دلیل:
سعید بن جبیر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت کرتے ہیں: “أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ تُرْضِعُ فَأُجْهِضَتْ، فَأَمَرَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَنْ تُفْطِرَ يَعْنِي: وَتُطْعِمَ وَلَا تَقْضِيَ”. هَذَا صَحِيحٌ۔ (سنن دارقطنی:3/197، ح2384)
اس روایت کے بارے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ روایت اس اجماع کے نقض کے لیے کافی ہے۔ گرچہ اس سند میں مذکور لفظ ”فدیہ دے گی اور قضا نہیں کرے گی“ کے بارے میں اس احتمال کا ذکر کیا جاتا ہے کہ یہ جملہ کن کا ہے اس بارے میں صراحت نہیں ہے۔ ابن عباس ہی کا، یا سند میں موجود کسی راوی کا، یا امام دارقطنی کا۔
• پہلے اس روایت کے دیگر طریق کو دیکھیں:
• عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ تُرْضِعُ فَجَهِدَتْ فَقَالَ لَهَا: أَفْطِرِي فَإِنَّكَ بِمَنْزِلَةِ الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ (شرح مشكل الآثار:6/ 185)
اس میں (فَجَهِدَتْ) کا لفظ ہے۔ اور یہ اس پر دلالت نہیں کررہا ہے کہ وہ عورت حالتِ نفاس میں تھی۔
•عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ وَلِيدَةً لَهُ حُبْلَى أَنْ تُفْطِرَ لَهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، وَقَالَ: أَنْتِ بِمَنْزِلَةِ الْكَبِيرِ لَا يُطِيقُ الصِّيَامَ، فَأَفْطِرِي، وَأَطْعِمِي عَنْ كُلِّ يَوْمٍ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ حِنْطَةٍ ” (مصنف عبد الرزاق الصنعاني: 4/ 219)
یہاں (حبلى) کا لفظ ہے، اس سے بھی نہیں پتہ چل رہا ہے کہ وہ عورت حالتِ نفاس میں تھی۔
•یہاں چند باتیں قابل غور ہیں:
1-اس روایت میں (فَأُجْهِضَتْ) کا لفظ ثابت ہے یا نہیں یہ خود محتمل ہے کیونکہ دیگر روایتوں میں یہ لفظ نہیں ہے۔
2-ان طرق سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس روایت میں عدم قضا کا لفظ یا تو دارقطنی کا ہے یا کسی اور راوی کا۔
3-کسی نص کے تعلق سے کسی کا فہم اس پر دلالت نہیں کرتا ہے کہ یہ اس کی ذاتی رائے بھی ہو۔
4-گویا اس روایت سے یہ بالکل بھی ثابت نہیں ہوتا ہے کہ یہ کسی ایک شخص کی بھی ذاتی رائے ہے۔
• اب غور کریں کہ حائضہ عورت کے سلسلے میں نص صریح ہے کہ وہ قضا کرے گی، اسی طرح حائضہ اور نفساء کے بارے میں متعدد اہل علم نے اجماع نقل کیا ہے کہ دونوں کا حکم یکساں ہے۔ اسی طرح متعدد اہل علم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ حائضہ اور نفساء روزہ کی قضا کریں گی۔ اس اجماع اور منصوص مسئلہ کو رد کرنے کے لیے کیا یہ محتمل دلیل کافی ہے؟ اور کیا کسی نے اس اثر سے استدلال کیا ہے کہ نفساء کے قضا کے سلسلے میں جو اہل علم نے اجماع نقل کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے؟ اور کیا اس طرح کی محتمل دلیل کے ذریعہ پوری امت کے اجماع کو چیلنج کیا جاسکتا ہے؟
دوسری دلیل:
ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں حاملہ و مرضعہ پر کچھ بھی واجب ہونے کا انکار کرتے ہیں۔
جبکہ آپ نے ابن حزم کا قول اوپر دیکھا کہ وہ بالکل صراحت کےساتھ کہہ رہے ہیں:
ولم يوجب الله تعالى القضاء إلا على المريض، والمسافر، والحائض، والنفساء، ومتعمد القيء فقط، {ومن يتعد حدود الله فقد ظلم نفسه} [الطلاق: 1]
اس نص صریح کی موجودگی میں ان کی طرف کسی اور بات کو منسوب کرنا مناسب نہیں ہے اور خصوصا جبکہ ابن حزم ظاہری ہیں اور نصوص کے ظاہری معنی پر عمل کرنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔
تیسری دلیل:
اس اجماع کے نقض میں ایک منطقی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر سلف صالحین نے حاملہ ومرضعہ کے متعلق مطلقا کہا ہے کہ وہ روزہ چھوڑیں گی اور بعد میں صرف فدیہ دیں گی اور قضا نہیں کریں گی۔ تو کیا انھوں نے حالت نفاس میں رہنے کی مدت میں مرضعہ کو روزوں کی قضا کا حکم دیا ہے؟ اگر ہاں تو اس کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر اجماع کیسے ہوا؟
اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ یہ اس طرح کی عقلی دلیل کے ذریعہ نص صریح اور اجماع امت کی مخالفت کرنا نامناسب ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ان اسلاف نے تو یہ کہا ہے کہ اگر روزہ کی وجہ سے بچہ پر خوف ہو تو وہ روزہ ترک کرے گی اور فدیہ ادا کرے گی۔ جبکہ حالتِ حائض یا نفاس میں روزہ اس پر حرام ہوتا ہے لہذا ایسی صورت میں نہ قلتِ لبن کا اندیشہ ہے اور نہ ہی خوف علی الولد کی شرط پائی جاتی ہے۔ لہذا ایسی صورت میں فدیہ کی بات ان کے قول سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ یہاں روزہ توڑنے کا سبب حیض یا نفاس ہے کیونکہ نفاس یا حائض رضاعت اور حمل کی نسبت زیادہ خاص عذر ہے، کیونکہ اصل یہ ہے کہ حاملہ اور مرضعہ پر بھی روزہ رکھنا واجب ہے،م اور حائضہ اور نفساء پر روزہ رکھنا حرام ہے۔ اور ایک فقہی قاعدہ ہے کہ “إذا اجتمع سببان قوي وضعيف، فإنً الضعيف لا يظهر في مقابلة القوي”۔ (موسوعة القواعد الفقهية:8/ 249)
“یعنی اگر دو سبب جمع ہوجائے، ان میں سے ایک قوی اور دوسرا ضعیف ہو، تو قوی کے مقابلے ضعیف کا اثر ظاہر نہیں ہوتا ہے”۔
لہذا حالت حائض ونفاس میں روزہ توڑنے کے لیے رضاعت کا سبب غیر مؤثر ہے۔
شیخ ابو المعز محمد علی فرکوس جزائزی، جو فدیہ کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں:
“المرضعة في زمن النفاس تقضي ولا تَفدي؛ لأنَّ النفاس مانعٌ مِنَ الصوم، وهو أخصُّ مِنْ عذر الرضاع والحمل في الإفطار والفدية، و«الخَاصُّ أَوْلَى بِالتَّقْدِيمِ»، بخلاف زمن الطهر فلا تحدث معه معارضةٌ مع المانع”۔
“یعنی: مرضعہ نفاس کے سبب سے جو روزہ ترک کرے گی اس کی وہ قضا کرے گی، فدیہ نہیں دے گی۔ کیونکہ یہاں مانعِ صوم نفاس ہے۔ اور وہ نفاس رضاعت اور حمل کی نسبت زیادہ خاص عذر ہے اور خاص مقدم ہوتا ہے، برخلاف حالت طہر کے۔ کیونکہ اس صورت میں کسی مانع کے ساتھ رضاع یا حمل کا معارضہ نہیں ہے”۔
خلاصہ:
خوف علی النفس کی صورت میں متعدد اہل علم نے جو اجماع نقل کیا ہے اس کے رد میں نہ کوئی واضح دلیل ہے اور نہ ہی نفاس کے تعلق سے جو اجماع نقل کیا گیا ہے اس کے خلاف کوئی دلیل ہے۔ لہذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ بحث وتحقیق کے نام پر عام اہل علم کی مخالفت سے اجتناب کیا جائے اور اپنے فہم پر ان کے فہم کو مقدم سمجھا جائے۔ هذا ما عندي والله الموفق

محمد ضیاء الحق تیمی کی دیگر تحریریں

آپ کے تبصرے

3000