امام لالکائی -رحمہ اللہ- سے متعلق ڈاکٹر حافظ زبیر کے بعض مغالطوں کا جواب

محمد ضیاء الحق تیمی تنقید و تحقیق

اس تحریر میں کراماتِ اولیاء کے شرعی ضوابط، کرامت اور شیطانی حرکت میں فرق، تصوف کی حقیقت، قدیم صوفیا اور متاخرین صوفیا میں فرق، تزکیۃ نفس کا شرعی طریقہ وغیرہ مباحث بھی موجود ہیں۔


چند دن پہلے ڈاکٹر حافظ زبیر نے امام لالکائی -رحمہ اللہ- (متوفی 418ھ) اور ان کی عظیم تالیف ”شرح أصول اعتقاد اہل السنۃ“ کو ہدفِ تنقید بنایا اور ان پر چند سنگین الزامات عائد کیے، ذیل کی تحریر میں ان کے ان ہی الزامات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعون اللہ الملک الوھاب:
ڈاکٹر حافظ زبیر فرماتے ہیں:
بریلوی حضرات نے پوری تحقیق کی کہ بندہ (امام لالکائی) ہمارا اپنا ہے کہ بدعتیوں، کہ جنھیں اعلی حضرت رحمہ اللہ بد مذہب بھی کہتے ہیں، اور وہ ان کے نزدیک وہابی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ وغیرہ ہیں، کا ٹکا کر رد بھی ہو جائے گا اور ساتھ میں صوفیت بھی باقی رہے گی۔۔۔۔آپ کتاب (شرح أصول اعتقاد اہل السنۃ) کا مقدمہ بھی دیکھ لیں کہ محقق کی رائے بھی سامنے آ جائے۔ اور خود بھی کتاب پڑھ لیں۔ کتاب میں علامہ لالکائی جنھیں اہل بدعت اور اہل ھوا یعنی خواہش پرست اور نفس پرست قرار دیتے ہیں، وہ شیعہ، معتزلہ، جہمیہ، مرجئہ اور قدریہ وغیرہ ہیں جبکہ اہل تصوف اور حضرات صوفیاء کے کبار اساطین کی تعریف میں وہ نہ صرف رطب اللسان ہیں بلکہ انھیں رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہوئے ان کی کرامتیں بھی نقل کرتے ہیں۔ اور یہ کرامتیں ویسی ہی ہیں جو آپ کو فضائل اعمال، فضائل صدقات اور فیضان سنت وغیرہ جیسی کتب میں مل جاتی ہیں کہ جنھیں اہل حدیث حضرات بابوں کی کہانیاں یا قصوں کہانیوں والا دین کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔۔۔ان میں معروف الکرخی، مالک بن دینار، ابراہیم بن ادہم البلخی، بشر الحافی، الحارث المحاسبی رابعہ العدویہ اور بیسیوں دیگر صوفیاء حضرات بھی شامل ہیں۔
اس سے دو اہم مغالطے پیدا ہوتے ہیں:
(1) پہلا مغالطہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل سنت وجماعت کرامتِ اولیاء کے بالکلیہ منکر ہیں:
یہ در اصل صاحبِ تحریر کی اہل سنت وجماعت کے عقائد سے ناواقفیت کی دلیل ہے، اہل سنت وجماعت کراماتِ اولیاء کے منکر نہیں ہیں، بلکہ وہ اس باب میں معتزلہ اور صوفیوں کی درمیانی راہ پر ہیں، نہ ہی وہ معتزلہ کی طرح کرامات کا بالکلیہ انکار کرتے ہیں اور نہ ہی صوفیوں کی طرح کرامات کے اثبات میں غلو کرتے ہیں، بلکہ ان کے یہاں شرعی ضوابط ہیں جن کو سامنے رکھ کر ہی کسی کرامت کا وہ اثبات یا نفی کرتے ہیں:
چنانچہ ان کے نزدیک ولیوں کو جو کرامات حاصل ہوتی ہیں وہ ان کے ایمان اور تقوی کے سبب ہوتی ہیں۔ اگر کوئی انسان ایمان وتقوی کے منافی امور انجام دیتا ہو، مشرک وبدعتی ہو، غیر اللہ سے دعائیں کرتا ہو، اس سے مدد مانگتا ہو، اس کے نام پر جانور ذبح کرتا ہو، فواحش ومنکرات کا عادی ہو، شرعی حدود کو پامال کرتا ہو، محرمات کا ارتکاب کرتا ہو، فرائض وواجبات کا التزام نہیں کرتا ہو، صفائی و ستھرائی کا خیال نہیں رکھتا ہو بلکہ غلاظتوں اور نجاستوں میں رہتا ہو، منشیات اور نشہ آور اشیاء کا رسیا ہو، جنگلوں، جھاڑیوں اور شیطان کے ٹھکانوں میں رات گزارتا ہو تو ایسا شخص ان کے نزدیک رب کی کرامات کا مستحق نہیں ہوتا ہے بلکہ اس پر رب کی لعنتیں برستی ہیں اور وہ اس کے غیظ وغضب کا شکار ہوتا ہے۔
پھر ان کے نزدیک کرامات کے ظہور کا اختیار بندوں کے پاس نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کا کامل تصرف رب العالمین کے پاس ہوتا ہے وہ جب اور جس بندے کو چاہے ان سے نوازے، یہ محض اللہ کا خصوصی فضل واحسان ہوتا ہے کہ کبھی وہ اپنے مومن اور نیک بندوں کی مصیبت وتکلیف کو فورا دور فرماتا ہے، کبھی انھیں غیر متوقع نعمتیں عطا کرتا ہے، کبھی طاقتور دشمنوں پر انھیں غلبہ عطا کرتا ہے، کبھی ان کی فریادوں کو بالفور شرف قبولیت بخشتا ہے۔
اسی طرح ان کے نزدیک ولایت کے لیے کرامات کا ظہور کوئی لازمی شئی نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی کی افضلیت کی دلیل ہے۔ بسا اوقات ناگزیر حالات اور بندے کے الحاح اور گریہ وزاری، یا باطل کی طاقت وقوت کے سامنے حق کے غلبہ کے لیے ان کا ظہور ہوتا ہے۔ بسا اوقات بندہ ایمان ویقین اور صبر وتوکل کے اس عظیم مقام پر فائز ہوتا ہے کہ وہ شدید ترین حالات میں بھی وہ کسی کرامت کا محتاج نہیں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام میں کرامات کا ظہور تابعین کے مقابلے کم ہے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا۔ «الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان» (ص166)
پھر ہر خرق عادت امر کا ظہور کرامت نہیں ہے، کیونکہ اس معاملہ میں اہل ایمان، فساق وفجار، شعبدہ باز، جادو گر سب برابر ہیں، بلکہ کلیساؤں، گرجا گھروں اور مندروں میں رہنے والے پادریوں اور پنڈتوں کے ہاتھوں بھی خرق عادت امور انجام پاتے ہیں، لہذا خرق عادت امر کا پایا جانا اس بات کی ہزگز دلیل نہیں بن سکتی ہے کہ یہ رب کی کرامت ہے، کیونکہ شیطان بھی اپنے دوستوں کی مدد طرح طرح سے کرتا ہے، کبھی وہ انواع و اقسام کے کھانے پہنچاتا ہے، کبھی وہ اپنے دوستوں کو لے کر ہواؤں میں اڑتا ہے، پانی میں چلتا ہے، گمشدہ چیزوں کی خبر دیتا ہے اور قبروں میں انسانوں کے بھیس میں آتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ
لہذا اس کی تعیین صرف بندہ کے اعمال سے ہوتی ہے کہ اس کے ہاتھ ظہور پانے والا خرقِ عادت امر کرامت ہے یا شیطانی کیفیت۔ بندہ اگر مومن ہے، متقی و پرہیز گار ہے، اللہ اور اس کے رسول کا مطیع و فرمانبردار ہے، توحید اور اس کے تقاضے کو پورا کرتا ہے، سنتِ رسول کا پابند ہے، بدعات وخرافات سے دور رہتا ہے، واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا ہے، سنن ونوافل اور مستحبات کا التزام کرتا ہے، محرمات ومعاصی سے اجتناب کرتا ہے، تلاوتِ قرآن، مسنون ذکر واذکار وغیرہ کا خصوصی اہتمام کرتا ہے اور پھر وہ خرق عادت امر کے حصول کو کِبر و نخوت، فسق و فجور، ظلم وطغیان، اور شرک وبدعات کے لیے استعمال نہیں کرتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ رب کی کرامت ہے، اور اگر اس کے برعکس بندہ شیطان کا مطیع ہے، دینی تعلیمات کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے اور خود اپنی نسبت مکاشفات اور خرق عادت امور کی طرف کرتا ہے تو ایسا انسان لازمی طور پر مکار اور جھوٹا ہوتا ہے اور شیطان بھی اس سے جھوٹ بول کر اسے گمراہ کرتا ہے، اور لازمی طور پر اس سے ایسے اعمال سرزد ہوتے ہیں جن میں گناہ اور فسق و فجور پائے جاتے ہیں جیسے شرک، ظلم، یا فواحش، یا غلو یا عبادت میں بدعت وغیرہ، در اصل ایسے انسان پر شیاطین نازل ہوتے ہیں، اس سے گھل مل جاتے ہیں اس طرح وہ شیطان کا دوست اور ساتھی بن جاتا ہے، اس لیے اس کے ہاتھوں ظہور پانے والے خرق عادت امور لازمی طور پر شیطانی احوال ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِنَّما حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَواحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطاناً وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ [الْأَعْرَافِ: 33]
کہو کہ میرے رب نے تمام ظاہر و پوشیدہ بے حیائیوں کو، اور گناہ اور ناحق سرکشی کو حرام کردیا ہے، اور یہ بھی حرام کردیا ہے کہ تم لوگ اللہ کا شریک ایسی چیزوں کو ٹھہراؤ جن کی عبادت کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں نازل کی ہے، اور یہ بھی کہ تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرو جن کا تمھیں علم نہیں ہے۔
پس اللہ پر بلا علم بات، شرک، ظلم، سرکشی اور بے حیائیوں اور بدکاریوں کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے چانچہ ان امور سے نہ ہی اللہ کی کرامت حاصل ہوسکتی ہے اور نہ ہی کرامتوں کے ذریعہ ان محرمات کے ارتکاب پر تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ان کا اعتقاد ہے کہ جس کے ہاتھ میں کرامت کا ظہور ہو وہ معصوم نہیں ہوتا ہے، اس لیے نہ ہی اس کی تقلید جائز ہے اور نہ ہی اس کی کوئی بات کتاب وسنت پر پیش کیے بغیر قبول کرنا درست ہے۔
پھر کوئی کرامت ایسی نہیں ہو سکتی ہے جس میں شریعت کی مخالفت ہو۔ کیونکہ شریعت کی مخالفت خود اہانت اور ذلت ورسوائی ہے، پھر اس اہانت وذلت سے رب کی کرامت بھلا کیسے حاصل ہوسکتی ہے۔
اہل سنت وجماعت کے یہاں اور صوفیوں کےیہاں کرامت کے باب میں وہی فرق ہے جو اوپر ذکر ہوا ہے، اہل سنت کرامت اور شیطانی چال میں فرق کرتے ہیں اور وہ کسی بھی کرامت کو قبول کرنے سے پہلے اسے شریعت کی کسوٹی پر تولتے ہیں، جبکہ صوفیوں کے یہاں کرامتِ اولیاء اور شیطانی چال میں فرق نہیں پائیں گے، اسی طرح صوفیوں کے اولیا کے تعلق سے انتہائی گمراہ کن عقائد ہیں چنانچہ بعض صوفیا ولی کو نبی پر فضیلت دیتے ہیں، بعض ولی کو اللہ کی صفات کا مساوی قرار دیتے ہیں، چنانچہ ولی ان کے نزدیک پیدا کرتا ہے، رزق دیتا ہے، زندگی اور موت دیتا ہے، کائنات میں تصرف کرتا ہے۔
اولیاء ان کے یہاں غوث، اقطاب، ابدال اور نجباء میں منقسم ہیں، اور وہ سب غار حراء میں ہر رات جمع ہوتے ہیں اور تقدیروں پر غور وفکر کرتے ہیں، بعض صوفیا یہ عقیدہ نہیں رکھتے ہیں لیکن وہ انھیں اپنے اور اللہ کے درمیان واسطے بناتے ہیں چاہے ان کی زندگی میں ہو یا موت کے بعد۔ اور یہ سب اسلام میں ولایت کا جو تصور ہے اس کے سراسر منافی ہے، اسلامی ولایت ایمان ،تقوی، عمل صالح اور اللہ عزوجل کے لیے کامل عبودیت اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور فقر و محتاجگی کے احساس پر قائم ہے، اور اس عقیدے پر قائم ہے کہ ولی اپنے نفس کا بھی کچھ بھی مالک نہیں ہوتا ہے چہ جائیکہ وہ دوسروں کا مالک بنے۔
بطور مثال آپ امام لالکائی کی کتاب ”شرح أصول اعتقاداہل السنہ“ میں کرامت کے باب کو پڑھیں اور صوفیوں کے یہاں محدث، فقیہ اور قطب ربانی سے مشہور شعرانی کی معروف کتاب ”طبقات کبری“ اور دیگر کتابوں کو اٹھا لیں تو آپ کو اوپر ذکر کیے گئے فرق واضح طور پر نظر آئیں گے، چنانچہ امام لالکائی نے اپنی کتاب میں جتنی بھی کرامتیں ذکر کی ہیں، اگر وہ سند کے اعتبار سے صحیح ہوں تو ان کو قبول کرنے میں کوئی شرعی مانع نہیں ہے، ان میں نہ ہی شرک وبدعات کا شائبہ ہے اور نہ ہی فسق و فجور اور کفر وزندقہ کی دعوت دی گئی ہے، اور نہ ہی شیطانی احوال کو کرامت کہا گیا ہے، بلکہ اس میں مذکور کرامتوں کی زیادہ تر نوعیت یہی ہے کہ کسی بندے نے اللہ عزوجل سے کوئی مباح چیز کی دعا کی اور اللہ نے اس کی دعا کو سن لیا، اور اس کی مراد پوری ہوگئی، گویا اس میں خالق کے سامنے مخلوق کا ضعف اور خالق کی قدرتِ کاملہ کا اظہار ہے جو کہ قرآن وسنت کے منہج اور عقیدے کے عین موافق ہے۔
اس کے برعکس بریلوی کتابوں کی کرامتوں کو پڑھیں گے تو ان میں ان کے خود ساختہ اولیاء کے لیے کہیں علم غیب کا دعویٰ کیا گیا ہے تو کہیں پر انھیں کائنات کی باگ ڈور دے دی گئی، کہیں ان کو شریعت سے آزاد قرار دیا گیا ہے، اور کہیں پر فسق و فجور، ظلم وزیادتی اور کفر وشرک، بدعات وخرافات کا نام کرامت اولیاء رکھ دیا گیا ہے۔
عبد الوہاب شعرانی (متوفی1321) نے اپنی کتاب ”طبقات کبری“ میں زندگی بھر غسل نہ کرنے والوں، پوری زندگی ننگے رہنے والوں، ننگے ہوکر خطبہ دینے والوں، گدھی کے ساتھ علانیہ جفتی کرنے والوں، مرید کو اپنا براز کھلانے والے تاکہ اس کو شہد کا مزہ ملے، فاحشہ عورتوں کی خدمت کرنے والے، ان کے ساتھ رات گزارنے والے اور ان سے لات گھونسا کھانے والے، اپنے عضوِ خاص کو بڑھا کر کھڑے کھڑے مرید کے چہرے پر مارنے والے، اور قسم قسم کے جھوٹے، ڈھونگی، پاگل اور ایسے لوگوں کو اولیاء اللہ میں شامل کیا ہے جن سے زیادہ خبیث، بد خلق، گندے اخلاق وکردار انسان کے بارے میں نہیں سنا گیا۔ دیکھیں: طبقات الشعرانی: (2/135-142)
یہاں ایک بات اور بھی قابل غور ہے کہ امام لالکائی نے جن اسلاف کرام کی کرامتوں کا تذکرہ کیا ہے ان کی کل تعداد سو کے قریب ہے، ان میں تیس صرف صحابہ کرام ہیں، باقی تابعین عظام اور نامور محدثین کرام اور چند مشہور عباد وزہاد، اور اس باب میں روایتوں کی کل تعداد تقریبا دو سو ہیں۔ گویا انھوں نے کسی ایک سلف کی زندگی میں اکثر و بیشتر کسی ایک ہی کرامت کا ذکر کیا ہے، پھر احتیاط کا عالم دیکھیں کہ انہوں نے ان کرامتوں کو سند کے ساتھ ذکر کیا ہے تاکہ لوگ ان ہی کرامتوں کے تعلق سے صحت کا گمان رکھیں جو سند کے اعتبار سے قابل قبول ہیں، باقی جو کرامتیں ضعیف اور منکر اسانید سے مروی ہیں ان کے ضعف سے بھی آگاہ رہیں۔
اس کے مقابلے صوفیا اپنی کتابوں میں کسی ایک انسان کے تعلق سے کرامات کے نام پر من گھڑت قصے، کہانیوں اور خود ساختہ واقعات کا انبار لگا دیتے ہیں، گویا کرامات کا اختیار اولیاء کے پاس ہوتا ہے، اور وہ اپنی مرضی سے جب چاہتے ہیں ان کا اظہار کرتے رہتے ہیں، جبکہ یہ محض اللہ عزوجل کا فضل وکرم ہوتا ہے جب اور جس بندے کو چاہتا ہے نوازتا ہے، بندے کا ان میں کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے، اور یہ کرامتیں بھی بے سرو پیر کے نقل کرتے جاتے ہیں۔
اسی طرح امام لالکائی نے جن بزرگوں کی کرامات کا ذکر کیا ہے ان کے مقام ومرتبہ کو دیکھیں، وہ جانثارانِ رسول کا مقدس گروہ ہے یا پھر ان کے اتباع اور محدثین وفقہاء کی بابرکت جماعت، انبیاء کرام کے بعد جن سے بڑے اولیاء، صلحا اور اتقیاء اس چشمِ فلک نے نہیں دیکھا، اس کے مقابلے صوفیوں کی اِن کتابوں میں بہت سارے فساق وفجار، شعبدہ باز، جادو گر، ملاحدہ وزنادقہ کو بھی اولیاء اللہ میں شمار کیا گیا ہے اور ان کی طرف فضائل ومکارم اور اعلی مقام ومرتبے کو منسوب کیا گیا ہے۔
لہذا ڈاکٹر حافظ زبیر کا یہ کہنا کہ امام لالکائی نے اپنی کتاب میں جو کرامتیں نقل کی ہیں یہ کرامتیں ویسی ہی ہیں جو آپ کو فضائل اعمال، فضائل صدقات اور فیضان سنت وغیرہ جیسی کتب میں مل جاتی ہیں کس قدر صریح بہتان، جھوٹ اور جہالت پر مبنی ہے۔
(2) دوسرا مغالطہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ بریلوی اور دیگر متاخرین صوفیا معروف الکرخی، مالک بن دینار، ابراہیم بن ادہم البلخی، بشر الحافی، الحارث المحاسبی رابعہ العدویہ جیسے متقدمین صوفیا کے سلسلے کی کڑیاں ہیں، اور یہ لوگ ان ہی کے منہج اور عقیدے پر ہیں۔
یہ بھی صوفیاء کی تاریخ، ان کے مختلف ادوار اور ان کے عقائد سے ناواقفیت کی دلیل ہے، متاخرین صوفیا کا ان متقدمین سے سوائے نام کے کوئی اور رشتہ نہیں ہے، یہ اپنے عقیدے اور منہج میں ان سے بالکلیہ کٹے ہوئے ہیں، ان بزرگوں میں سے جن کی نسبت تصوف کی طرف کی جاتی ہے وہ اصحاب علم وفضل اور کتاب وسنت کے متبع وپیروکار تھے، انھیں یہ لقب ان کی عبادت و زہد، تقشف، دنیا بیزاری اور نفس پر حد سے زیادہ مشقت اور شدت کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ بعد کے حلولی واتحادی صوفیا کی بدعات وخرافات اور شرکیات سے وہ کافی دور تھے۔
شیخ الإسلام ابن تیمیہ -رحمہ اللہ- نے ان دونوں گروہوں کا تذکرہ یوں کیا ہے:
(فإن ابن عربي وأمثاله وإن ادعوا أنهم من الصوفية فهم من صوفية الملاحدة الفلاسفة ليسوا من صوفية أهل العلم، فضلا عن أن يكونوا من مشايخ أهل الكتاب والسنة كالفضيل بن عياض وإبراهيم بن أدهم وأبي سليمان الداراني ومعروف الكرخي والجنيد بن محمد وسهل بن عبد الله التستري وأمثالهم رضوان الله عليهم أجمعين): ۔ الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان (ص: 103)۔
”ابن عربی اور ان جیسے لوگ جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ صوفیاء میں سے ہیں تو درحقیقت وہ ان صوفیوں میں سے ہیں جو ملاحدہ اور فلاسفہ ہیں، وہ اہل علم صوفیاء میں سے نہیں ہیں، چہ جائیکہ کہ وہ کتاب وسنت کے پیروکار مشائخ اور اہل علم میں سے ہوں، جیسے فضیل بن عیاض، ابراہیم بن أدہم، ابو سلیمان الدارانی، معروف کرخی، جنید بن محمد اور سہل بن عبد اللہ تستری رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہم ہیں“ ۔
ہاں ان بزرگوں کی طرف بعض منکر اقوال منسوب ہیں لیکن وہ اقوال یا تو اکثر بے سند ہیں جن کی صحت نا معلوم ہے اور بعض اقوال کا کذب ظاہر ہے۔
چنانچہ ان منکر اقوال میں سے بعض اقوال کے تعلق سے جو رابعہ عدویہ کی طرف منسوب ہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: “وأما ما ذكر عن رابعة من قولها عن البيت: أنه الصنم المعبود في الأرض – فهو كذب على رابعة ۔۔۔وكذلك ما نقل من قولها: والله ما ولجه الله ولا خلا منه. كلام باطل عليهاَ مجموعة الرسائل والمسائل – ط وهبة (1/ 128)۔
رابعہ (عدویہ) کے تعلق سے جو یہ قول بیان کیا جاتا ہے کہ” بیت اللہ روئے زمین میں صنم ہے جس کی پرستش کی جاتی ہے“ ، تو یہ ان پر جھوٹ ہے، اسی طرح ان سے جو یہ نقل کیا گیا کہ ”اللہ کی قسم اللہ نہ ہی بیت اللہ میں داخل ہوا اور نہ ہی اس کی ذات سے وہ خالی ہے“۔ یہ نسبت بھی باطل ہے۔
ہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ان بزرگوں کا دفاع یا ان کی تعریف ہم متاخرین صوفیا کے مقابلے میں کر رہے ہیں ورنہ ہمارے نزدیک تصوف کی اصطلاح ایک بدعتی اصطلاح ہے، نفس کے تزکیہ اور تطہیر کے لیے کسی بدعتی اصطلاح اور طریقہ کار کی قطعا ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ پوری شریعت ہی بندوں کے تزکیہ اور تطہیر کے لیے نازل ہوئی ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ( هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ (. [الجمع ة: 2]” وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ “۔
گویا نبی ﷺ کی بعثت اور نزولِ قرآن کا مقصد اولین ہی تزکیۂ نفس اور کتاب وحکمت کی تعلیم ہے، چنانچہ رب پر ایمان، اس کی محبت، اس کی معرفت، ذکر واذکار، اسی کا خوف، اسی سے امید ورجا، اسی پر اعتماد وبھروسہ، نماز، روزہ، حج، زکات اور شریعت کے ایک ایک حکم میں ہمارے نفوس کا تزکیہ اور ہمارے قلوب واذہان کی تطہیر ہے اور ہماری دنیاوی اور اخروی سعادت مضمر ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ مندرجہ ذیل تین امور حصول تزکیہ کے وسائل ہیں:
1- عقیدۂ توحید ۔
2- واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے اجتناب
3- نوافل کا اہتمام ۔
ان کے علاوہ تزکیۂ نفس کے جو نت نئے طریقے اور اسالیب ایجاد کیے گئے جن پر کتاب وسنت میں دلائل موجود ہیں اور نہ ہی اصحاب رسول نے ان کو اپنایا ہے وہ بدعت وضلالت کی راہ ہے جس سے نبی ﷺ نے ہمیں ڈرایا اور متنبہ کیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بریلوی اور متاخرین صوفیا ابن عربی، ابن سبعین، حلاج، ابن فارض اور عفیف تلمسانی جیسے اصحابِ حلول واتحاد، کفریات وشطحیات، زندقہ والحاد اور شعبدہ باز کے منہج پر ہیں، جن کے نزدیک تزکیہ کی غرض و غایت مکاشفات، علم لدنی کا حصول، شرعی تکلیف کا اسقاط، فنا ووحدت الوجود وغیرہ ہیں، اور اس کے لیے وہ ایسی خود ساختہ عبادتوں، وظائف اور اعمال کا سہارا لیتے ہیں جن کو اللہ نے نازل نہیں فرمایا ہے، وہ اپنے عمل وکردار کے ذریعے کتاب وسنت سے بے نیازی کا اعلان کرتے ہیں، اور ان کے نصوص کی بے جا تاویلیں کرتے ہیں ، ان کا تصوف دراصل مشرق ومغرب میں پھیلی ہوئی خرافات کا مجموعہ کا ہے، چنانچہ کوئی بھی کفر، زندقہ، الحاد نہیں ہے جو اس صوفی فکر میں داخل ہو کر صوفی عقیدے کا روپ دھارن نہ کر لیا ہو، چنانچہ وحدت الوجود کا عقیدہ، مخلوق میں اللہ کی ذات کے حلول کا عقیدہ، عصمت اولیاء کا عقیدہ، کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی اور ذات کے تصرف کا عقیدہ وغیرہ اسی کے مختلف مظاہر واشکال ہیں۔
الغرض ان صوفیوں کا ان عباد وزہاد کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے جن کی نسبت تصوف کی طرف کی جاتی ہے، جو اربابِ علم وفضل اور زہد وتقوی تھے اور جن کا تصوف، اسلامی تعبیر احسان سے قریب تر، اور تشقف وزہد وورع میں مبالغہ آرائی سے عبارت ہے۔
امام لالکائی نے اپنی کتاب میں اسی دوسرے گروہ کی کرامتوں کا ذکر کیا ہے جن میں کوئی شرعی محظور بھی موجود نہیں ہے، بلکہ وہ نبوی منہج اور قرآنی اعتقاد سے بالکل ہم آہنگ ہیں جن میں بندے کا ضعف اور عجز اور خالق کی صفات کاملہ کا اظہار ہوتا ہے۔ اور وہ بھی انھوں نے سند کے ساتھ بیان کیا ہے، تاکہ ان کی صحت وضعف کا بھی علم ہوسکے، لیکن ڈاکٹر حافظ زبیر کے جہلِ مرکب اور کبر وعناد کو دیکھیں کہ اس کی وجہ سے انھوں نے عقیدۂ سلف پر مشتمل اس عظیم الشان وجلیل القدر کتاب کو فضائل اعمال، فضائل صدقات اور فیضان سنت جیسی گمراہ کن اور ضلالات وخرافات سے پر کتابوں کے مشابہ قرار دیا، نیز امام لالکائی جیسے توحید وسنت کے عظیم علمبردار کو توحید وسنت کے دشمن، قبر پرست اور شرک وبدعات کے رسیا بریلویوں کا آدمی قرار دے دیا۔ اس طرح گویا انھوں نے طہارت کو نجاست کے ساتھ، توحید کو شرک کے ساتھ، ہدایت کو ضلالت کے ساتھ اور ایمان باللہ کو زندقہ اور الحاد کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے۔ نعوذ باللہ من الخذلان۔
اس مختصر وضاحت سے اس تحریر میں چھپے ہوئے دجل وفریب، تلبیس اور کذب وافتراء کی قلعی کھل جاتی ہے۔اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمارے لیے راہِ حق کو واضح کر دے اور اس پر قائم ودائم رکھے، اور ہر طرح کے گمراہ کن اور باطل افکار ونظریات سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

آپ کے تبصرے

3000