ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری -اخلاق وکردار کے آئینےمیں

یاسر اسعد

اخلاق وکردار کسی بھی انسانی شخصیت کا سب سے خاص پہلو ہوتا ہے، جس کی بدولت وہ شخصیت لوگوں کے درمیان ایسی مقبولیت پاتی ہے جو محض علم وعمل کے ذریعے ممکن نہیں۔ البتہ اگر اس اعلی اخلاق وکردار کے ساتھ ساتھ علم وعمل بھی موجود ہو تو پھر یہ انسانیت کی معراج ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
جامعہ سلفیہ بنارس کے سابق شیخ الجامعہ جناب ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ (۱۹۵۲-۲۰۰۳ء) ان معدودے چند ہستیوں میں سے ہیں جن کی علم وفضل میں برتری کے ساتھ ساتھ ان کے تواضع ، خوش اخلاقی ، خوش گفتاری اور پاکیزہ سیرت کی ایک دنیا قائل ہے۔ خاندانی شرافت ، اعلی علمی ڈگری، صاحب منصب شخصیت اور دعوتی میدان میں ممتاز کارکردگی، ان تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود انسان کا متواضع رہنا اور اپنے آپ کو سنبھالے رہنا ایک دشوار امر ہے، مگر آپ نے جس طرح یہ مراحل طے کیے اور وقار وتواضع کو باقی رکھا وہ دوسروں کے لیے سبق آموز اور لائق تقلید ہے۔  ’’من تواضع للہ رفعہ اللہ‘‘ کے مصداق اللہ نے آپ کو وہ عظیم مرتبہ عطا کیا جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔
سطور ذیل میں ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمۃ کی حیات طیبہ کے اس اہم گوشے کو کچھ واقعات کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے:
(۱)ڈاکٹر عین الحق قاسمی :  ڈاکٹر صاحب کی وفات پر شائع ہونے والے محدث کے خصوصی شمارے میں رقم طراز ہیں:
’’راقم الحروف نے مولانا مرحوم کو ہمیشہ اس طرح دیکھا تھا جس طرح ایک طالب علم اپنے استاد ذی وقار کودیکھتا ہے، یا جیسے ایک بچہ بلند وبالا پہاڑ کو دیکھتا ہے اور سربلندی کا حوصلہ پاتا ہے ، مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ جب بھی ملتے تو کسی شجر ثمردار کی طرح جھکے ہوئے ملتے، انھوں نے مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ اپنے آپ کو کوئی بڑا عالم سمجھتے ہیں، نہ انھوں نے کبھی میرے اوپر اپنے علم وتقوی کا رعب جمانے کی کوشش کی جیسا کہ آج کے احبار ورہبان کی مجلسوں میں یہ چیز بآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔
٭  ایک مرتبہ عالیہ اسپتال مئو کی مسجد میں ظہر کے وقت اچانک مولانا مرحوم سے ملاقات ہوگئی، ان کے ہمراہ کچھ اور لوگ بھی تھے، سلامتی ورحمت کی دعاؤں کے تبادلے اور خیریت واحوال پرسی کے بعد باتیں ہونے لگیں تو میں نے کتاب ’’الدیوبندیۃ‘‘ کے حوالے سے کچھ گفتگو کی، اتنے میں ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا تو مولانا نے مجھ سے امامت کے لیے کہا، اس پر میں نے اپنی نااہلی اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ہوتے ہوئے میں کیسے پڑھا سکتا ہوں، پھر یہ کہ ہم لوگوں (حنفیوں) کے پیچھے تو آپ لوگوں کی نماز ہوتی نہیں، اس لیے آپ ہی پڑھایئے ، اس پر مولانا نے کہا کہ اب تو آپ ہی کو پڑھانا ہے اور زبردستی مجھے آگے کرکے اقامت شروع کردی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’اب تو یقین ہوگیا ناکہ ہماری بھی نماز ہوجاتی ہے ‘‘۔ میں اپنے اس طنز پر آج بھی شرمندہ ہوں اور مولانا کے اس مروت حسن اور علمی ظرف کو یاد کرتا ہوں تو سلف صالحین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جن کے درمیان مسائل میں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا انتہائی ادب واحترام ملحوظ تھا اور وہ رحماء بینہم کی بہترین مثال تھے۔ کاش یہ فضا پھر بحال ہوجائے۔ (ماہنامہ محدث بنارس، جون تا دسمبر ۲۰۰۳ء؁ ، ص : ۱۸۳)
(۲) ڈاکٹر سید محمد انس ندوی لکھتے ہیں:
’’شیخ تواضع کا پیکر تھے، جمعیت کی میٹنگوں میں ’’سید القوم خادمھم‘‘ کا عملی نمونہ دیکھنے کو ملتا تھا، کمیٹی کے ممبران کے قیام وطعام اور راحت کے لیے فکرمند رہتے تھے۔ آپ اپنا کام خود تو کرتے تھے، اپنے ساتھیوں کے کام میں ہاتھ بٹاتے بلکہ چھوٹی بڑی ہر قسم کی خدمت گزاری کے لیے تیار رہتے، اس میں وہ قطعاً عار نہیں محسوس کرتے تھے، بلکہ دوسروں سے شاید کام لینے میں وہ لطف نہ آتا ہو جو انھیں دوسروں کا کام کردینے میں آتا تھا۔ ان کے ساتھ سفر کا بھی اتفاق ہوا، ہوٹلوں میں ایک ساتھ کھانا بھی کھایا، ریل یا ٹیکسی کا کرایہ ہو یا ہوٹل کا بل، فوراً ادا کردیتے اور ہمارا ہاتھ اپنی جیبیں ٹٹولتا رہ جاتا۔ سفر وحضر میں ساتھ ہو اور خدمت گذاری میں ان سے پیش پاجائیں، مشکل نہ سہی دشوار ترین ضرور تھا۔ میں ان سے سن میں کم اور علم وعمل میں کورا وتہی دست، لیکن معاملہ ایسا فرماتے کہ احساس ندامت کے ساتھ دل میں ان کی بلند قامتی اور احترام کا جذبہ مزید پختہ ہوجاتا‘‘۔ (ماہنامہ محدث بنارس، جون تا دسمبر ۲۰۰۳ء؁ ، ص : ۱۴۷- ۱۴۸)
(۳) محدث کے خصوصی شمارے ہی میں استاذ محترم مولانا محمد یحییٰ فیضی رقمطراز ہیں:
’’آپ شیخ الجامعہ ہونے کے باوجود اتنے متواضع وخاکسار تھے کہ طلبہ کے کمروں میں جب جاتے تو باہر پڑے ہوئے روٹی کے ٹکڑوں کو چن چن کر برتن میں رکھتے اور کہتے کہ ’یہ اللہ کی نعمت ہے، آپ لوگوں کو کھانے پینے کی اتنی فراوانی ہے، جبکہ فلسطین وافغانستان اور گجرات میں لوگ نان شبینہ کے محتاج ہیں‘‘ اور اگر کبھی کوئی طالب علم پانی کی ٹونٹی کھلی چھوڑ دیتا تو اسے اپنے ہاتھ سے بند کرتے اور اللہ کی ایک ایک نعمت یاد دلاتے، سمجھاتے، تنبیہ کرتے اور کفران نعمت پر اللہ تعالی کی وعید کی یاد دلاتے ہوئے یہ آیت کریمہ تلاوت فرماتے:  {لئن شکرتم لأزیدنکم ولئن کفرتم إن عذابي لشدید}۔ (ماہنامہ محدث بنارس، جون تا دسمبر ۲۰۰۳ء؁ ، ص :۱۳۸- ۱۳۹)
(۴) ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمۃ کے جو مضامین مجلہ اشاعت السنۃ دہلی میں شائع ہوئے ہیں ان کو دار الکتب الاسلامیہ دہلی نے ’’مضامین مبارکپوری‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا ہے جو تقریبا ۴۶۴ صفحات پر محیط ہے، اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب کی علمی شخصیت اور ان مضامین کی جامعیت وافادیت سے متعلق مختلف اہل علم نے اپنے تاثرات قلمبند کیے ہیں۔ ان میں سے ایک مضمون ’’ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادریس مبارکپوری رحمہ اللہ: ایک تعارف‘‘ کے عنوان سے والد گرامی مولانا اسعد اعظمی کا ہے۔ آپ نے ڈاکٹر صاحب کی سیرت وکردار کے حوالے سے دو واقعات ذکر کیے ہیں جنھیں نیچے نقل کیا جارہا ہے:
۱۔    ’’جب میں جامعہ سلفیہ میں تدریس کے لیے آیا تو میری آمد ہفتہ عشرہ کے بعد ہی آپ دہلی کے ایک سفر پر گئے، دہلی میں تشریف فرما مولانا عبد اللہ صاحب مدنی جھنڈانگری نے میرے نام ایک دعوت نامہ آپ کے بدست ارسال فرمایا، جس دن آپ جامعہ واپس آئے، اسی دن عصر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے میری آپ سے ملاقات ہوئی۔ دار الضیافہ کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے آپ نے سفر کی کچھ تفصیلات بتائیں، پھر آپ پہلی منزل پر اپنے فلیٹ میں چلے گئے اور میں دوسری منزل پر واقع اپنی رہائش گاہ میں آگیا، تھوڑا سا وقت گزرا ہوگا کہ مجھے دروازے پر دستک سنائی دی، دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب ہاتھ میں ایک لفافہ لیے ہوئے مسکرارہے تھے، پھر آپ اندر تشریف لائے اور دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتے رہے، آپ کی اس شفقت اور ذرہ نوازی پر میں متعجب اور شرمندہ ہوا‘‘۔ (مضامین مبارکپوری، ص: ۱۹)
۲۔’’جامعہ میں اپنے فلیٹ میں مجھے ایک کرسی کی ضرورت تھی ، ایک روز آپ اپنے آفس میں تشریف فرما تھے۔ میں نے قدرے بے تکلفی کے انداز میں اپنی ضرورت کا اظہار کرتے ہوئے آپ سے پوچھا کہ مجھے ایک کرسی کی ضرورت ہے، کہاں ملے گی ؟ آپ نے بھی کچھ اسی بے تکلفی سے فوراً جواب دیا: بازار میں، پھر بات ختم ہوگئی۔ اسی دن عصر کی نماز کے بعد دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھولتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ملازم ایک کرسی لیے کھڑا ہے، میرے سوال کرنے پر اس نے بتایا کہ شیخ الجامعہ صاحب نے بھیجا ہے، مجھے بے حد شرمندگی ہوئی اور آپ سے اپنی ضرورت کے اظہار پر دل ہی دل میں اپنے آپ کو ملامت کرتا رہا۔ پھر جب آپ سے ملاقات ہوئی تو میں نے شرمندگی اور معذرت کا اظہار کیا۔ آپ نے فوراً فرمایا کہ کوئی بات نہیں میرے پاس دو کرسیاں تھیں، ان میں سے ایک آپ کے پاس بھجوا دیا۔ شفقت وایثار اور ہمدردی کی ایسی مثالیں کہاں مل سکیں گی‘‘۔ (ایضا، ص : ۱۹- ۲۰)
مولانا اعظمی ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
’’علم میں کمال، عوام وخواص میں مقبولیت اور متعدد اعلی مناصب سے سرفرازی کے باوجود آپ نے ہمیشہ گمنامی کو ترجیح دی اور شہرت طلبی اور تعلی کا ادنی سا شائبہ بھی آپ کے یہاں نہیں پایا گیا۔ غریب اور نادار طلبہ کا پتہ لگا کر خاموشی سے ان کی مدد کرتے، بیماری کی صورت میں دوائیں منگا کر دیتے۔ جامعہ کے مندوب کی حیثیت سے خلیجی ممالک کا سفر کرتے تو اپنے لیے کوئی ہدیہ قبول نہ کرتے، اصرار کی صورت میں اسے لے کر جامعہ کے حوالے کردیتے، جامعہ کے اساتذہ اور دوسرے رفقاء کے ساتھ اگر کبھی بے تکلفی یا شفقت میں کوئی ایسی بات منہ سے نکل جاتی جس میں دل آزاری یا تکلیف کا شبہ ہوتا تو متعلقہ شخص سے باصرار معافی مانگتے اور بسا اوقات روپڑتے‘‘۔  (۱۸-۱۹)
یہ تھی علم وعمل کے  اعلی مقام پر فائز شخصیت کی انکساری ، تواضع ، خاکساری ، جس کی مثال ملنی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
مگر آہ! اس جہاں سے اچھے لوگ بہت جلدی گزر جاتے ہیں، ان کی اچھائیوں سے لوگ زیادہ دن مستفید نہیں ہوپاتے۔ ممبئی کی تاریخی ’’دین رحمت کانفرنس‘‘ اس لیے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کہ اس کے اندر قضا وقدر کے موضوع پر خطاب کرنے والا کچھ ہی دیر میں اپنے آپ کو قضا وقدر کے حوالے کر چکا تھا۔
یہ کس مقام پہ بچھڑا ہے کارواں تجھ سے
’’قدر کا راز ہے‘‘ حیراں ہے اس پہ دانائی
اللہ تعالی آپ کی حسنات کو قبول فرمائے، سیئات سے درگزر کرے اور امت کو آپ کے علمی ورثہ سے حتی الامکان مستفید ہونے کی توفیق بخشے ،آمین۔
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
بس یہی ایک خرابی ہے کہ مر جاتے ہیں

آپ کے تبصرے

3000