ذمہ داران مدارس کی کلاس

خان اختر جاوید تعلیم و تربیت

اگر آپ معاشی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو “مدرسہ سیکٹر” پورے ملک میں پھیلا ہوا ایک بہت بڑا غیر منظم سروس سیکٹر ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں چولھے مدارس سے جلتے ہیں۔ زیادہ تر مدارس مسلمانوں کے صدقات وخیرات اور باہمی تعاون سے چلتے ہیں۔ اگر ہم مدارس کے سسٹم کو کچھ اور بہتر بنادیں تو اس کا معاشی فائدہ دوچند ہوجائے۔ مثال کے طور پر ملت کا ایک “نگینہ عالم” اپنی زندگی کا پرائم ٹائم دین اسلام کے نونہالوں کو پڑھانے میں گزار دیتا ہے۔ اسی دیس میں ایسے جید عالم بھی ہیں جنھوں نے اپنی تیس تیس اور چالیس چالیس بہاریں مدارس میں کھپادیں لیکن جب عمر کی آخری منزل میں وہاں سے رخصت ہوکر اپنے بچوں میں لوٹے تو ہاتھ اور جیب دنوں خالی تھے۔ معاش کے نام پر ان کے پڑھاپے کو سہارنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اب اسے آپ کیا کہیں گے ذمہ داران مدارس کی بے حسی یا پھر عصر حاضر کے تقاضوں سے بے خبری۔
علماء کرام کی تقرری بھی بغیر کسی ایگریمنٹ کے کی جاتی ہے۔ جب جس کو چاہا نکال دیا اور جس کو چاہا رکھ لیا خدا خیر کرے۔۔! ہمارے یہ دینی مدارس چاپلوسی کے اڈے ہوتے ہیں۔ یہاں صلاحیت سے زیادہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ “پوّا” کتنا بھاری ہے؟ چھوٹے مدرسوں کی بات تو جانے دیں بڑے مدرسوں میں یہ وبا اتنی عام ہوچکی ہے کہ “ہر بندہ چاپلوس ہے ٹرسٹی کے سامنے” لکھنؤ کے ایک مشہور ادارے میں “پوّا بھڑانا” باقاعدہ ایک محاورہ بن چکا ہے۔
خیر یہ سب اضافی باتیں ہیں اب میں اصل مدعے اور اصلی کرب پر آتا ہوں اور اس عالم دین کی زندگی پر گفتگو شروع کرتا ہوں جس نے عمرِ رفتہ کی بیشتر بہاریں دین کے نام پر قربان کردیں لیکن وہاں سے مصلے میں اسے سوائے آخرت کی بشارت کے کچھ نہ ملا۔وہی لگی بندھی قلیل تنخواہ اور تا عمر عسرت کی زندگی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
میں صاف صاف بلاکسی تردد اور تکلف کے واضح لفظوں میں کہہ دوں کہ ‘وہ ہے؛ مدارس کا کرپٹ سسٹم اور انتظامیہ کا پرلے درجے کا کرپٹ ہونا۔ اور یہ کرپٹ سسٹم صرف مذہبی جھنجھنے کے سہارے چلتا ہے۔ جب تک ہم تسلیم کی خو نہیں ڈالیں گے کہ مدارس کے سسٹم کرپٹ ہیں تب تک اصلاح کی ساری کوششیں بے سود ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ جواب یہ ہے کہ کسی لمیٹیڈ کمپنی کے تنخواہ سٹٹم کو فالو کیا جائے۔ اگر مدارس کے ذمہ داران کے پاس بجٹ کم ہے اور وہ ان کمپنیوں کے مساوی “سیلری سسٹم” کو افورڈ نہیں کرسکتے تو تنخواہ مائنس کردیں اور سسٹم کو اپنالیں۔ مثلاَ تقرری حسبِ تنخواہ ایگریمنٹ پر کریں اور نکالنے رکھنے کا وہی رول فالو کریں جو کمپنوں کا ہے۔ آپ جو بھی تنخواہ دیں اس کا کچھ حصہ پی ایف کے نام پر جمع رکھیں۔ رول کے حساب سے اس میں اضافہ بھی کرتے رہیں تاکہ جب وہ ریٹائرڈ ہوکر آپ کے یہاں سے رخصت ہوں تو ان کا ہاتھ خالی نہ رہے اور وہ اپنے بال بچوں کے لیے کچھ لے دے سکیں۔ جیسے ایک مولانا صاحب کی تنخواہ پندرہ ہزار روپئے ہے آپ انھیں چودہ ہزار ہی دیں اور ایک ہزار پی ایف فنڈ میں جمع کرادیں۔ اب ایک مولانا صاحب نے چھ سال تک کسی مدرسے میں مدرسی کے فرائض انجام دیے اور وہ وہاں سے رخصت ہوکر کہیں اور جانا چاہتے ہیں تو ان کے پاس چھ سالوں میں بہتر ہزار روپئے محفوظ ہیں جو معاشی اعتبار سے بہت بڑا وقتی سہارا ہیں۔ آپ چاہیں تو احسان کے طور پر اس میں کچھ اضافہ بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن دھیان رہے کہ یہ سارے کام لیگل طریقے سے انجام دیے جائیں تاکہ بے ایمانی کا وسوسہ باقی نہ رہے۔ جو بھی معاملہ ہو صاف ستھرا ہو۔
مدارس کے منتظمین میں بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو الا ماشاء اللہ کسی تاناشاہ سے کم نہیں سمجھتے۔ ایسا سمجھنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھنے میں تو مشرع، رحمۃ اللہ علیہ اور بظاہر دین کے خدائی خدمت گار نظر آتے ہیں لیکن ان کی جھولی میں ایک مغرور بساط کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ غرور خدا کی چادر ہے اور اس چادر پر جھپٹا مارنے والے لوگ کون ہوں گے۔
چلتے چلتے ایک پسماندہ اور فکری زوال کی نشان دہی بھی کردوں کہ ذمہ داران مدارس کے پاس تعمیراتی فنڈ کے لیے پیسے تو ہوتے ہیں بلکہ پرشکوہ اور گنبدی عمارت کی تعمیر کے لیے وہ رات دن ایک کردیتے ہیں لیکن اساتذہ کی لائف اسٹائل کو بہتر اور عوامی سطح سے ذرا بلند کرنے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ اور پلان نہیں ہوتا۔ یہی رویہ ان کا طلباء کے ساتھ بھی ہے۔ آخر کیوں؟
کیا مذہب کا نام روشن گنبد و مینار سے ہوگا یا پھر اس سے جڑے ہوئے لوگوں کی معاشی و اخلاقی پسماندگی دور کرنے سے۔ آخر انھیں کون سمجھائے؟
کنکر پتھر کی دیورایں مذہب کا مفہوم
ذہنوں کی تعمیر بھی کیجیے گنبد اور محراب کے ساتھ

خان اختر جاوید کی دیگر تحریریں

7
آپ کے تبصرے

3000
6 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
7 Comment authors
newest oldest most voted
فؤاد أسلم

کوئی پرسنل پرخاش تو نہیں ہے؟

اختر جاوید

کاہے باؤ ۔کسے پرکھاس رہی ۔۔۔؟ کوئی ہمارا کیا بگاڑا ہے ۔۔

محمد نعیم خان

جامعہ سلفیہ میں جہاں تک مجھے علم ہے پی ایف کا سسٹم ہے
ماشاءاللہ

Mirza Ahmed Wasim

اچھی تحریر ہے، کچھ جگہ غیر ضروری لفاظی سے پرہیز کیا جاتا تو تحریر زیادہ باوقار اور موثر ہوسکتی تھی۔
کچھ مدارس میں ایگریمنٹ اور پی ایف وغیرہ کا نظام موجود ہے، اسے مزید بہتر بنانے اور دیگر مدارس تک وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح آمد وخرچ کے سلسلے میں محض موٹے موٹے آنکڑوں پر اکتفا کرنے کے بجائے زیادہ شفافیت لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ذمہ داران پر بھروسہ ہو تب بھی یہ چیز خود اس اعتماد کو بڑھانے اور ان مدارس کے وقار کو بلند کرنے میں معاون ہوگی۔

عنایت اللہ صدیقی

ماشا ء اللہ اچھی تحریر

Sayyad Irfanul Haque Hashmi

اللہ ربّ العالمین آپ کو سلامت رکھے آپ کا مشورہ ماشاءاللہ تبارک اللہ قابل غور بھی ہے قابلِ عمل بھی۔ بشرطیکہ اگر آپ کے مشورے میں اخلاص شامل ہو۔ آپ کے مندرجہ بالا تحاریر میں مدارس کی تحقیر اور ارباب مدارس سے بغض ظاہر ہو رہی ہے۔ ہم آپ مدارس کا بھلا سوچیں مگر مدارس کے ذمہ داران کا احسان بھی مانیں کہ اس پر فتن دور میں بھی اسلام کی شمع روشن کر رہے ہیں۔ رہی بات رزق کے تنگی اور کشادگی کی تو خالق مالک رازق غنی ذات خدا وحدہُ لا شریک کی ہے۔ (والقدر خیرہ و شرہ… Read more »

عبدالمتين

صاحب مضمون کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے میں دو قدم آگے بڑھ کر مدارس كو مدارس کے بجائے دوكان کہنا پسند کروں گا. “للأكثر حكم الكل” کے قاعدہ کو سامنے رکھیں تو آپ کو اس میں بلکل بھی مبالغہ نظر نہیں آئے گا. ایک ایک گاؤں میں دو دو تین تین مدارس اور ہر ہر مدرسے میں مچندین جو ہر سیاہ و سفید کو جمع کرکے وافر مقدار خود لے کر باقی اخراجات سفر میں جوڑ کر حساب برابر کر دیتے ہیں. اگر خدمت دين ہی مقصد ہے تو کیوں نہ تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے معيارى… Read more »